دہشت گردی کا جواب دہشت گردی
آیندہ ہم دہشت گردوں کے خلاف فوج استعمال نہیں کریں گے بلکہ دہشت گردوں کو آگے لائیں گے۔
پچھلے دنوں بھارتی وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کی طرف سے جو بیانات آئے ہیں وہ اس لیے حیرت انگیز ہیں کہ ان بیانات سے بھارت خود بدنام ہو رہا ہے، ان بیانات میں کہا گیا ہے کہ بھارت اب دہشت گردی کا جواب دہشت گردی سے دے گا۔
آیندہ ہم دہشت گردوں کے خلاف فوج استعمال نہیں کریں گے بلکہ دہشت گردوں کو آگے لائیں گے۔ اس حوالے سے اور بھی لن ترانیاں کی گئی ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ بھارتی وزیر دفاع اور وزیر داخلہ نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ اس کے پاس بھی دہشت گرد موجود ہیں، جنھیں وہ مقبوضہ کشمیر میں استعمال کر سکتا ہے یہ بیانات چونکہ انتہا پسند جماعت بی جے پی کے اکابرین کی طرف سے آئے ہیں جو اس وقت اقتدار میں ہے تو اس سے حکومت اور بی جے پی کی خارجہ پالیسی کے خدوخال دیکھے جا سکتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارتی زعما اس قسم کے بیانات دینے پرکیوں مجبور ہو رہے ہیں؟ پچھلے کچھ عرصے سے جمعے کی نماز کے بعد سری نگر سمیت مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں پاکستانی جھنڈوں اور پاکستان زندہ باد کے نعروں کے ساتھ جو جلسے جلوس ہو رہے ہیں اور کشمیری عوام اپنے گھروں پر پاکستان کے جھنڈے جس طرح لہرا رہے ہیں اور مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں ''مجاہدین'' کی کارروائیوں میں جس طرح اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے بی جے پی کی حکومت بوکھلا گئی ہے اور احتجاجی مارچ کرنے والے کشمیریوں کو سخت وارننگ دی جا رہی ہے کہ جلسے جلوسوں میں نہ پاکستانی پرچموں کو برداشت کیا جائے گا نہ پاکستان کے حق میں نعروں کو برداشت کیا جائے گا۔
کشمیر کی 68 سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کشمیری عوام اس بے باکی اور دھڑلے سے پاکستان کے ساتھ اپنی نظریاتی وابستگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے، اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کشمیری عوام اس 68 سالہ دور میں کبھی بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کو تسلیم نہیں کر سکے اور جنگ آزادی کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی اور 70،80 ہزار کشمیری اس جنگ میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ روز اول سے آج تک بھارتی قیادت یہ سمجھنے سے قاصر رہی ہے کہ نظریاتی لڑائی کس قدر گہری جڑیں رکھتی ہے۔ اس خیال سے قطع نظر کہ تقسیم ہند سے مسلمانوں اور برصغیر کے عوام کو کیا فائدہ کیا نقصان ہوا، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال اس تقسیم کی مرہون منت ہے اور اس صورت حال کو فوجی طاقت کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے نہ اقتصادی مراعات کے ذریعے۔
مقبوضہ کشمیر کو بھارتی آئین میں ایک خصوصی حیثیت دی گئی ہے جس کا مقصد بھارت کی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں کشمیر کی امتیازی حیثیت کو تسلیم کرنا ہے اور اس امتیازی حیثیت کا مطلب یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے، بھارت کی موجودہ مذہبی انتہا پسند حکومت کے اکابرین بار بار یہ اعلان کر رہے ہیں کہ وہ جلد ہی کشمیر کی خصوصی اور امتیازی حیثیت کہ جس کی وجہ کشمیری عوام ہیں یہ امید باقی رہی ہے کہ یہ ایک متنازع علاقہ ہے اور جلد یا بدیر اس کا کوئی نہ کوئی حل نکالا جائے گا۔ لیکن جب بی جے پی کی حکومت نے یہ کہنا شروع کیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر کے مقبوضہ کشمیر کو بھی دوسری بھارتی ریاستوں کے برابر لائے گی، تو مقبوضہ کشمیر کے عوام میں مایوسی پیدا ہو رہی ہے جو شدید رد عمل کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہے۔
کشمیر کی متنازعہ حیثیت کا مسئلہ صرف کشمیریوں اور پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ اقوام متحدہ بھی اس مسئلے میں ایک فریق کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اقوام متحدہ نے کشمیر کو نہ صرف ایک متنازعہ مسئلہ تسلیم کیا ہوا ہے بلکہ اس مسئلے کے حل کا طریقہ رائے شماری تجویز کیا۔ بھارتی حکمرانوں کا موقف یہ ہے کہ چونکہ اقوام متحدہ کی قرارداد اب پرانی بات ہو گئی ہے اس لیے اس پر عمل در آمد ممکن نہیں۔ اس لاجک سے یہ مطلب نکالا جا سکتا ہے کہ چونکہ اقوام متحدہ بھی اب پرانی ہو چکی ہے لہٰذا اسے اور اس کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کیا جانا چاہیے یہ ایک ایسا فلسفہ ہے جسے ہم نظریاتی دھاندلی کا نام دے سکتے ہیں، جمہوری، اصولی اور اخلاقی قرار نہیں دے سکتے۔
بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ 1947ء سے آج تک کسی بھارتی حکومت نے اس مسئلے کے مضمرات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس مسئلے کو ہمیشہ بھارتی مفادات بلکہ بھارتی حکومت کے مفادات کی روشنی ہی میں دیکھتے رہے جب کہ اس مسئلے کی وجہ نہ صرف برصغیر کے عوام کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے عوام کی معاشی بدحالی کا بھی یہ مسئلہ بڑا سبب بن گیا ہے۔ بظاہر اس مسئلے کی ذمے داری بھارت کی تمام حکومتوں کی نظر آتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے کی اصل ذمے دار نہرو حکومت ہے اگر پنڈت نہرو اس مسئلے کی گمبھیرتا اور پیچیدگی کو سمجھ لیتے تو شاید یہ مسئلہ ان کے دور ہی میں حل ہو جاتا۔
اس مسئلے کی سب سے زیادہ سنگینی یہ ہے کہ آج ساری دنیا میں جو مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا جو کلچر مستحکم ہوتا دکھائی دے رہا ہے اس کے اسباب میں مسئلہ کشمیر ایک بڑا سبب ہے، فلسطین اور کشمیر کے مسائل ہی کی وجہ سے اس پورے خطے میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہوا اور ان ہی مسائل نے خودکش حملوں اور دہشت گردی کو جنم دیا، اگر بھارتی حکومت بردبار اور دور اندیش ہوتی تو اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے راستے پر چلتی لیکن المیہ یہ ہے کہ موجودہ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کی باتیں کر کے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو مشتعل بھی کر رہی ہے اور اس مسئلے کو شدید سنگین بنانے کی احمقانہ کوششیں بھی کر رہی ہے۔
بھارتی حکمرانوں کا پاکستان پر جو سب سے بڑا الزام ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہا ہے، اس کا مطلب یہی ہو گا کہ دہشت گردی ایک بہت بڑی لعنت اور انسانیت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے لیکن جب بھارت کے وزیر داخلہ اور وزیر دفاع یہ فرماتے ہیں کہ ''اب بھارت دہشت گردی کا جواب دہشت گردی سے دے گا'' تو بھارتی حکمران یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ ان کے پاس بھی دہشت گرد موجود ہیں اور وہ ان کی سرپرستی بھی کر رہے ہیں۔ یہ زعما جب یہ فرماتے ہیں کہ اب ہم دہشت گردوں کے خلاف اپنی فوج کو استعمال نہیں کریں گے تو بالواسطہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ فوج کشمیری عوام کو اپنا بنانے اور انھیں قابو میں رکھنے میں ناکام ہو گئی ہے، مختلف انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے بھی بھارتی حکومت اور بھارتی فوج پر یہ الزام لگتے رہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔
مسئلہ کشمیر کی وجہ سے جو سب سے بڑا نقصان ہو رہا ہے وہ سیکولرازم کو ہو رہا ہے بھارت کی حکومتیں اپنی جمہوریت اور سیکولرازم پر فخر کرتی رہی ہیں لیکن بد قسمتی سے مسئلہ کشمیر نے بھارتی سیکولرازم اور بھارتی جمہوریت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور اس پورے خطے میں عوام کے درمیان محبت اور بھائی چارہ پیدا ہونے کی جو امید تھی اس امید پر بھارتی سیاست نے پانی پھیر دیا ہے اس مفاداتی سیاست کی وجہ جنوبی ایشیا کے عوام کا مستقبل مخدوش ہو کر رہ گیا ہے۔ اب بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی اگر بھارتی حکمران کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے کی رٹ لگانے کے بجائے اس مسئلے کو کشمیری عوام، ہندوستان پاکستان کے مشترکہ مفادات کی روشنی میں مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر آمادہ ہوں تو پورا خطہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔