قارون کا خزانہ
اچھا کیا؟صحیح کیا؟ جنت کیا؟ اور جہنم کیا؟ کیا صرف یہی سوال رہ گئے ہیں اب ہمارے درمیان۔
تعلیم وتربیت کے بغیر انسان اورجانور میں کوئی فرق نہیں۔ پیدائش کے بعد سے انسان جوکچھ سیکھتا ہے وہی کچھ وہ دوسروں کو بھی سکھانے کی کوشش کرتا ہے اورکچھ لوگ عقل وشعور کے دروازے کھلنے کے بعد اپنے آپ کی تعلیم و تربیت کرتے ہیں، بلکہ ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی فیضیاب کرتے ہیں۔
اچھا کیا؟صحیح کیا؟ جنت کیا؟ اور جہنم کیا؟ کیا صرف یہی سوال رہ گئے ہیں اب ہمارے درمیان۔ نفسانفسی کی شدید دوڑ میں گدھے اور گھوڑے دونوں برابر کے شریک ہیں بلکہ کہیں کہیں گدھے آگے آگے نظر آتے ہیں اور اس دوڑ کو Lead بھی کر رہے ہوتے ہیں اور اچھی نسلوں کے گھوڑے کونوں کونوں میں رہ جاتے ہیں۔
کہیں کہیں جب مغرب ہوتی ہے تو گھر کے بڑے دروازے، کھڑکیاں بند کروا دیتے ہیں کہ مغرب کے وقت شیطان کی آمد ہوتی ہے اور بڑے بڑے شہروں میں کھڑکی دروازے مغرب کے بعد ہی کھولے جاتے ہیں کہ زندگی رواں دواں ہو اور بلب کی روشنیوں تلے شامیں جگمگاتی رہیں۔ اپنے اپنے کاموں سے تھکے ہارے جب مغرب کے وقت اپنے اپنے گھروں کی طرف رواں ہوتے ہیں تو ایک تسلی سی ضرور ہوتی ہے کہ گھر کا وجود ابھی تک قائم و دائم ہے۔ ورنہ تبدیلیاں جتنی تیزی سے آرہی ہیں کوئی عجب نہیں کہ جہاں رک گئے وہیں رک گئے۔ خوشی ہوتی ہے کہ ابھی تک چار دیواری کا تصور کام کر رہا ہے ۔
عمران خان نے جب سے دھرنا شروع کیا ہے آج تک وہ کوئی نہ کوئی آواز لگا ہی دیتے ہیں دھرنوں نے عمران خان کو میڈیا میں In رہنے کا گُر بھی سکھا دیا ہے۔ ادھر اب عمران خان کچھ بولتے ہیں دوسری طرف فوراً پرویز رشید پریس کانفرنس کرتے ہیں کڑوی اور میٹھی گولیاں دونوں ہی عوام کو بیک وقت مل رہی ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف تمام تر پریشر کے ساتھ چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت کے 5 سال ، آصف زرداری کی طرح مکمل ہوجائیں اور اب تو تمام پارٹیزکی کانفرنس کا انعقاد بھی ہونے لگا ہے۔ عمران کہتے ہیں کہ ''نواز اور زرداری ''پہلے ہم پھر تم'' کی پالیسی پر عمل پیرا ہے مگر عمران خان ایسا نہیں ہونے دیں گے کیونکہ عوام کی طاقت ان کے ساتھ ہے اگر عوام کی طاقت عمران کے ساتھ ہے تو کیوں ظلم و ستم کی چکی چل رہی ہے، عوام کیوں نہیں اس ظلم و ستم کے باب کو بند کرنے کے لیے آگے بڑھتے، 126 دن کے دھرنوں میں اسلام آباد تقریروں اور نغموں سے گونجتا رہا اور عوام مصائب کی چکی میں پستے رہے اور ابھی تک اگر عوام نہیں سمجھیں گے تو کون ان کو سمجھائے گا۔
PPPآصف علی زرداری کی کمانڈری میں ہے مگر بلاول بھٹو اپنی والدہ اور نانا کی پالیسیز آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ PPPکے جیالوں کو بلاول بھٹو کی شکل میں ایک بہتر لیڈر مل سکتا ہے مگر ان کو بھٹکایا نہ جائے تو، بلاول بھٹو جوان خون ہے، ترقی کرتی دنیا کو دیکھ رہے ہیں اور اب شاید ان تمام حقوق اور حقائق سے بھی بخوبی باخبر ہوگئے ہیں جو ان کے اردگرد موجود ہیں کس طرح PPP کو عوام سے دور کیا جا رہا ہے اور PPP کا اصل ایجنڈا ڈالرز اور پونڈز کی شکل میں بوریوں میں بھرا جا رہا ہے۔ بہرحال بہتر سے بہتر جانے کی بجائے اگر ہم روز بہ روز پست اور پست ہوتے جائیں گے تو پھر اللہ مالک۔ پرویز مشرف نے جب اپنا عہدہ چھوڑا تو مجھے یاد ہے کہ انھوں نے کہا کہ پاکستان کا اللہ ہی مالک ہے۔ مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور ہر مسئلے کی ڈورکرپشن سے جاکر ہی ملتی ہے۔ چاہے وہ امن و عامہ ہو یا بنیادی ضرورتوں کی نایابی۔ اوپر سے لے کر نیچے تک کنکشن ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں۔
سمجھ سے بالاتر ہے کہ کس سرے کو سلجھایا جائے اور کس سرے کو پکڑا جائے، بے تحاشا جانی نقصان، معصوم لوگوں کا قتل عام، بے روزگاری اور شدید مہنگائی، عوام بے چارے پریشان و اداس کہ کون ہے جو ان کے مسائل حل کرے اور اس فلاحی ریاست کو واقعی فلاحی ریاست بنائے۔
بے پناہ ہنرمند لوگ ہمارے اردگرد موجود، مگر اب کچھ اس طرح کا ماحول بنتا جا رہا ہے کہ یہ ہنرمند طبقہ بے آس و مددگار ہے، ایسے تمام گاؤں اور قصبوں کو پہلی فرصت میں آگے بڑھنے کے موقعے ملیں جہاں کے لوگ تعلیم اور ہنرمندی کے کاموں میں دلچسپی لیتے ہوں، جہاں کی یوتھ لڑکے لڑکیاں دونوں اپنے آپ کو آگے لانا چاہتے ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان ایک زرخیز ملک ہے ہر طرح کا ٹیلنٹ ہمارے پاس موجود ہے۔ بے پناہ معدنیات اور بے پناہ صلاحیتوں سے بھرپور اس ملک کو، خودغرضی، عیاشیاں، لالچ، چور بازاری، ڈاکہ زنی اور بہت سی ایسی ہی خرابیاں ایسی جان کو لگی ہوتی ہیں کہ ملک کا ستیا ناس ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ آپ کسی بھی وزیر سے گفتگو کریں وہ آپ کو ملک کی ترقی کے ایسے قصے سنائے گا کہ لگتا ہے کہ بس اب ہم اڑنے ہی والے ہیں اور میرے خیال سے وہ صحیح بھی کہہ رہا ہوتا ہے کہ کیونکہ وزارت کے بعد اس میں صرف پر لگنے کی کمی ہی رہ گئی ہوتی ہے باقی اللہ کا سہارا فضل و کرم تو وہ حاصل کر ہی لیتا ہے۔
بے حسی کا یہ عالم ہے کہ تمام آسائشوں کے حاصل ہونے کے بعد ان کو مرتے ہوئے بھوکے ننگے لوگ نظر نہیں آتے، پتہ نہیں یہ زندگی کا کون سا اسٹیج ہے اور آخر یہ تمام لوگ کس جانب رواں دواں ہیں، ان کو یورپ اچھا لگتا ہے، ان کو ترکی سوٹ کرتا ہے کوئی امریکا کے گانے گاتا ہے، توکیوں نہیں یہ لوگ اپنے ملک کو بنانے کے لیے سوچتے، بے تحاشا دولت پاکستان سے باہر جا رہی ہے۔
برما کے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے تمام کے تمام اس پر خاموش ہیں۔ کوئی چینل بھی اس پر ڈسکس نہیں کرنا چاہتا۔ قتل و غارت کی ایسی داستانیں رقم ہو رہی ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ کیوں نہیں ایک مسلمان ملک ہونے کے ناتے سے بڑی ذمے داریاں ہم پر عائد ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ہم ایک مصمم ملک ہیں بلکہ دنیا کے تمام مسلمانوں کے لیے بھی ہم ایک روشن مثال ہیں۔ نہ صرف اپنے آپ کو ہم گندا کر رہے ہیں بلکہ اپنی نسل اور آنے والی نسلوں کے لیے کچھ بھی اچھا نہیں کر رہے ہیں، کہاں سے محمد بن قاسم آئے، کہاں سے ٹیپو سلطان بنیں، کس طرح علامہ اقبال کے خواب کو حقیقی تعبیر ملے؟
بہت سے ایسے لوگوں سے ملنا ہوتا ہے جو اپنی اپنی فیلڈ میں اپنا اپنا مقام رکھتے ہیں مگر اپنے اپنے اداروں میں گندی سیاست کی نذر ہوجاتے ہیں اور دل برداشتہ ہوکر اپنے اپنے ادارے چھوڑ جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔
کچھ لوگ کبھی بھی کامیابی وکامرانی کی لذتوں کو محسوس نہیں کرسکتے وہ اس لیے کہ وہ جانتے ہی نہیں کہ کامیابی وکامرانی ہوتی کیا ہے۔ اندھوں میں کانا راجہ۔ بھلا کتنے دنوں تک راجا رہے گا۔ لولے لنگڑے کب تک کھڑے رہ سکیں گے ایک نہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب حقیقتیں آئینہ بن کر سامنے آجائیں گی اور یہ اپنے ساتھ اپنی نسلوں کو بھی لے ڈوبیں گے، نواز شریف جب اپنے اہل خانہ کے ساتھ سعودی عرب جلاوطن ہوئے تو ان سے بہتر ان کے دل کا حال کون جان سکتا ہے۔ ان کے والد کا انتقال ہوا اور لاہور میں دفنانے کے لیے اس وقت کی حکومت سے اجازت لینی پڑی۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے جوان بھائی، اپنے والد کی تکلیف دہ جدائی برداشت کی۔ کیوں انسان بھول جاتا ہے کہ صرف اللہ عالی شان ہی ہے جو بھرپور طاقت رکھتا ہے ۔
ملعونیت اور فرعونیت واقعی کسی کی میراث نہیں آج کی اکیسویں صدی میں بھی وہی کچھ ہوتا نظر آرہا ہے جو شاید چودہ سو سال پہلے ہوتا ہوگا جن کی کہانیاں ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کیسا کیسا اندھیرا زمانہ گزر گیا جو جہالت سے بھرپور تھا، رونگھٹے کھڑے کرنے والے واقعات، ظلم و ستم کی داستانیں۔
اب اسی قسم کے واقعات بلکہ اس سے بھی ڈراؤنے اور شدید بے حسی کے واقعات ہمارے اپنے زمانے کا حصہ بنتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اور دکھ اس کا ہے کہ ہم خود ان تمام حالات کا حصہ ہیں، کس طرح ہم اور آپ اپنے آپ کو مطمئن کریں گے کہ جس زمانے میں ہم رہ رہے ہیں اس کے بگاڑ کا ہم حصہ نہیں تھے، اگر دولت اور مزید دولت ہی معیار اول ہے تو قارون کے خزانے دنیا میں کیوں رہ گئے؟