فٹبال ورلڈکپ کھیلنے کا خواب ادھورا
جیساکہ باخبر ذرایع نے بتایا ہے کہ ایسے خوش نصیب ملکوں کا انتخاب قرعہ اندازی کے ذریعے ہوگا۔
KARACHI:
فیڈریشن آف انٹرنیشنل فٹبال ایسوسی ایشن (فیفا) دنیا کے چار ایسے ملکوں کو جن کے ورلڈ کپ کھیلنے کے دور دور تک کوئی آثار نہیں ہیں اس عالمی مقابلے میں ''وائلڈ انٹری'' دینے پر غورکر رہی ہے۔
جیساکہ باخبر ذرایع نے بتایا ہے کہ ایسے خوش نصیب ملکوں کا انتخاب قرعہ اندازی کے ذریعے ہوگا۔ ہر مرتبہ ایسے ملکوں کی تعداد بڑھتی جائے گی۔ ایک اطلاع کے مطابق اس تجویزکو فیفا کے صدر کی حمایت حاصل ہے جو اس سے پہلے اسی قسم کے دوسرے انقلابی اقدامات کرچکے ہیں اس طرح کی تجویز کو عملی جامہ پہنانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ دنیا کا کوئی ملک ورلڈ کپ کھیلنے سے محروم نہ رہے۔
تاہم ابھی یہ تجویز اپنی ابتدائی شکل میں ہی تھی کہ یہ افسوسناک خبر سننے میں آئی ہے کہ فیفا کے صدر سیپ بلیٹر بظاہر اپنے خلاف چلائی جانے والی مہم سے متاثر ہوکر مستعفی ہوگئے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ ان کو اپنے عہدے سے زیادہ فٹبال کا مفاد عزیز ہے۔ اس طرح صورتحال تبدیل ہونے سے ایسے کئی ملکوں کو بڑا صدمہ پہنچے گا جو اس کھیل میں نسبتاً کمزور ہونے کے باوجود ورلڈ کپ کھیلنے کی خواہش کر رہے تھے، ظاہر ہے ایسے ملکوں کا خواب مسٹر سیپ بلیٹر کے دور اقتدار میں ہی پورا ہوسکتا تھا۔
سیپ بلیٹر اگرچہ سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھتے تھے مگر ان کے دل میں فٹبال کھیلنے والے غریب ملکوں کا بڑا درد تھا چنانچہ یہ عجیب و غریب واقعہ ان کے ہی دور میں پیش آیا کہ فیفا نے سن 2002 سے اب تک کیریبین کے ایک چھوٹے سے ملک کے مین آئی لینڈز میں فٹبال ایسوسی ایشن کے ہیڈ کوارٹر کے قیام اور بین الاقوامی معیار کے دو فٹبال اسٹیڈیم کی تعمیر پر 22 لاکھ ڈالر خرچ کر ڈالے ۔ جیساکہ فٹبال کے ایک تبصرہ نگار نے لکھا ہے کہ فیفا کی یہ فراخدلی خاصی غیر مناسب محسوس ہوتی ہے۔
اس حقیقت کے پیش نظر کے مین آئی لینڈز جسے کیریبین کا ''ٹیکس اینڈ ٹورسٹ ہیون'' قرار دیا جاتا ہے، فیفا کی دنیا میں فٹبال کھیلنے والے 209 ملکوں کی فہرست میں ایک سو اکیانوے نمبر پر ہے جس کی ٹیم نے کبھی ورلڈ کپ نہیں کھیلا اور جس کی 58 ہزار کی آبادی اگر پوری کی پوری بھی میچ دیکھنے آجائے تو وہاں تعمیر ہونے والے دنیا کے سب سے بڑے فٹبال اسٹیڈیم کو ''ہاؤس فل'' کے درجے تک نہیں لے جاسکتی اور ایسے اسٹیڈیم وہاں ایک نہیں دو تعمیر کیے جا رہے ہیں۔
اس طرح وہاں تعمیر ہونے والے فٹبال کمپلیکس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ سیپ بلیٹر نے پچھلے 17 سال سے کس شاہانہ انداز سے فٹبال کے اقتدار پر اپنی آہنی گرفت برقرار رکھی تھی۔ تمام ترکہانیوں کے باوجود سیپ بلیٹر نے اپنی برتری کو بچائے رکھا اور وہ کچھ دن پہلے ہی پانچویں بار فیفا کے صدر منتخب ہوئے تھے تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ رہتی ہے کہ فیفا کے بعض عہدیداروں کو مالی طور پر انتہائی پرکشش منصوبوں کے لیے ہاں یا نہیں کہنے کی زبردست اتھارٹی حاصل رہی ہے جس کا وہ غلط یا صحیح استعمال کرتے رہے ہیں۔
مثلاً کے مین آئی لینڈز کے ایک سوکر آفیشل پر ہی یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نے لاکھوں ڈالر رشوت لی تھی جس کا کچھ حصہ جارجیا میں ان کی ذاتی رہائش گاہ میں ایک سوئمنگ پول کی تعمیر میں استعمال ہوا تھا۔
اب یہ فیفا کا نظام ہی ہے جس میں چھوٹے سے چھوٹے ملک کا ووٹنگ کا حق بڑے سے بڑے ملک کے برابر ہوتا ہے اور فیفا کی طرف سے فٹبال فیلڈز اور دوسرے ایسے ہی منصوبوں کے لیے کی جانے والی ادائیگیاں جو بالکل قانونی اور Documented ہوتی ہیں مسٹر بلیٹر جیسے لوگوں کے ساتھ وفاداری برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہیں چاہے وہ اندھا دھند کرپشن کے کیسے ہی الزامات کا سامنا کر رہے ہوں۔کے بین آئی لینڈز کا ملک بھی ایک ایسے ہی بڑے ریکٹ اور رشوت کے اسکینڈل کا مرکز بن گیا جس نے ایک ہفتہ پہلے پوری فٹبال کی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا کے مین فٹبال ایسوسی ایشن کے صدر اور نارتھ امریکا، سنٹرل امریکا اور کیریبین کی ریجنل گورننگ باڈی ''کونکاکیف'' کے سربراہ ان 14 آفیشلز میں شامل تھے جن پر امریکی حکام نے فٹبال کے ایک بڑے اسکینڈل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔ ان ملزموں میں مسٹر سیپ بھی شامل تھے جن کو ایک زمانے میں ایک بڑا ریفارمر سمجھا جاتا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے ورلڈ کپ رائٹس دینے کے لیے دنیا کی نامی گرامی اسپورٹس مارکیٹنگ فرموں سے لاکھوں ڈالر رشوت لی تھی۔
اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ فیفا کے صدر سیپ بلیٹر یہ ثبوت فراہم کرنے کے بعد کہ انھیں اب بھی مقبولیت حاصل ہے اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں ،اب چاہے اس سے ان کا یہ مقصد ہو یا نہ ہو۔ مگر اب ان کے خلاف تحقیقات زیادہ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انداز میں ہوسکیں گی اور قدرتی طور پر وہ گروپ مضبوط ہوجائے گا جو فیفا میں اصلاحات لانا چاہتا ہے خاص طور پر مسٹر بلیٹر کا نافذ کردہ ایک ملک ایک ووٹ کا فارمولا اس کے ہدف پر ہوگا۔ موجودہ نظام میں دنیا کا چھوٹے سے چھوٹا ملک مثلاً کے مین آئی لینڈز یا بھوٹان کا ووٹ بھی جرمنی اور اٹلی کے برابر ہے جہاں اس کھیل میں ہزاروں گنا زیادہ دلچسپی لی جاتی ہے۔
بہرحال ان کے مقاصد خواہ کچھ بھی رہے ہوں سیپ بلیٹر فٹبال کی اپرکلاس اور لوئر و مڈل کلاس کی باہمی خلیج کو پاٹنا چاہتے تھے نسبتاً کم معیارکی فٹبال کھیلنے کی محرومیاں دور کرنا چاہتے تھے مگر اب ان کے رخصت ہونے کے بعد فیفا پر یورپی ملکوں کی گرفت پھر سے مضبوط ہوجائے گی اور دنیا کی سلیکٹڈ محروم ٹیموں کو ورلڈ کپ کھلانے کا مسٹر بلیٹر کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔
استعفے کا اعلان سیپ بلیٹر نے جو کھیلوں کی دنیا کی طاقتور ترین شخصیتوں میں سے ایک تھے خاصے مغموم لہجے میں کہا کہ وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے رہے ہیں کیونکہ وہ فٹبال کو اپنی ذات سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ انھوں نے یہ اعلان زیورچ میں اس وقت کیا جب امریکا میں اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے حکام نے اس بات کی تصدیق کی کہ مسٹر بلیٹر فیڈرل کرپشن انوسٹی گیشن کا محور ہیں مسٹر بلیٹر کی فرانسیسی زبان میں تقریر فیفا ہیڈ کوارٹر کے تقریباً خالی کمرے میں کی گئی جو اب تک فیفا کی قیادت کے خلاف کیے جانے والے اقدامات میں سب سے ڈرامائی موڑ تھا۔
اس کارروائی کی ابتدا ایک ہفتہ قبل ایک فائیو اسٹار ہوٹل پر چھاپے سے ہوئی تھی جب سات سوکر حکام کرپشن کے الزامات میں امریکا بدری کے لیے گرفتار ہوئے تھے خود مسٹر بلیٹر نے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ فیفا کو جس کے وہ خود پانچویں بار چار سالہ میعاد کے لیے صدر منتخب ہوئے تھے زبردست ری اسٹرکچرنگ کی ضرورت ہے۔ اس موقعے پر وہ خاصے اداس اور شکست خوردہ نظر آرہے تھے۔