عجیب دو غلا پن ہے
آپ کو بھی اس حقیقت سے اتفاق کرنا پڑے گا کہ زندگی جامد نہیں ہے بلکہ یہ متحرک ہے
آپ کو بھی اس حقیقت سے اتفاق کرنا پڑے گا کہ زندگی جامد نہیں ہے بلکہ یہ متحرک ہے ۔ یہ ایک جگہ رکی ہوئی نہیں ہے بلکہ ہمیشہ سے آگے کی سمت بڑھ رہی ہے، فطرت کا ایک ناقابل معافی گناہ جامدپن ہے، یعنی ایک جگہ ٹہرجانا ۔ Gigantosaurus سو فٹ سے زیادہ لمبا اورگھر جتنا بڑا تھا Tyrannosaurus میںدخانی انجن جتنی طاقت موجود تھی اور اسے بے حد دہشت ناک سمجھا جاتا تھا، پردار سموسار Pterodactly اڑنے والا اژدھا تھا یہ سب قبل از تاریخ دور کی عجیب الخلقت اور نہایت ظالم مخلوق تھی جو آپ نے جراسک پارک فلم میں دیکھی ہوگی۔
لیکن اب ان کا دنیا میں کہیں بھی وجود نہیں ہے، انھیں منجمد کردیا گیا انھیں نہیں معلوم کہ ان میں یہ تبدیلی کس طرح آئی وہ ساکن وجامد کھڑے تھے جب کہ زندگی ان کے اردگرد سے خاموشی سے گذر گئی ۔ مصر، ایران، یونان اور روم زمانہ قدیم کی یہ سب عظیم سلطنتیں اس وقت تباہ و برباد ہوگئیں جب انھوں نے ترقی کرنا چھوڑ دی ۔
فطرت کا اصول ہے کہ جس چیزمیں بھی ترقی وافزائش رک جاتی ہے و ہ تباہ وبرباد ہوجاتی ہے ہماری تباہی اور بربادی کے پیچھے بھی یہ ہی اصول کارفرما ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو وقت کے ساتھ تبدیل نہیں کیا اور آج بھی وہ ہی صدیوں پرانی سو چ سے چمٹے ہوئے ہیں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ دنیا بھرکو بھی نصیحت کرتے پھرتے ہیں کہ پرانی سوچ سے چمٹے رہو، یاد رہے کہ انسان وہی کچھ ہے جو وہ سوچتا ہے اور اس کے علاوہ اورکچھ ہو بھی نہیں سکتا ۔
ظاہر ہے اگرآپ کی سو چ اٹھارویں صدی کی ہوگی تو پھرآپ کسی بھی طرح21 ویں صدی کے ساتھ نہیں چل سکیں گے کیونکہ آپ حال اور مستقبل کو حال اور مستقبل کی نگاہ سے نہیں بلکہ ماضی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہونگے ، صرف اسی وجہ سے آج ہماری زندگی کے تمام شعبوں میں اتنی جہالت اور دقیانوسیت خاک کی طرح اڑتی پھرتی ہے، آج بھی صدیوں پہلے کی طرح ہم پانی کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔
پوری دنیا بجلی کے مزے لے رہی ہے اورہم سارا سارا دن اور رات لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیلتے رہتے ہیں، ہمار ے اسپتالوں میں خطرناک بیماریوں کے جراثیم ہمیشہ ہمارے منتظر رہتے ہیں ہم بسوں اور ویگنوں میں جانوروں کی طرح سفرکرنے پر مجبور ہیں۔ آج دنیا بھر سے پولیو، ملیریا ناپید ہوچکا ہے جب کہ ان کا ہمارے ملک پر آج بھی قبضہ برقرار ہے ،ملک کی 70 فیصد آبادی زہریلا اورآلودہ پانی پینے کی وجہ سے ہیپا ٹائٹس کا شکار ہوچکی ہے، دنیا بھر میں کھانے پینے کی چیزوں سے ملاوٹ کا خاتمہ ہوچکا ہے لیکن آج بھی ہم وہ ملاوٹ شدہ چیزیں کھانے پرمجبور ہیں ۔
جن کا سن کر ترقی یافتہ اورخوشحال ممالک کے لوگوں کا ہارٹ فیل ہوجائے ۔انسان خوش ہونے کے لیے پیدا کیا گیا ہے جب کہ ہم آج بھی حسد،جلن، بغض میں اپنی جانیں ضایع کرتے پھررہے ہیں۔ دنیاجہیز کی لعنت سے تقریباً پاک ہوچکی ہے، ہم آج بھی ساری ساری زندگی اپنے اور اپنے پیاروں کی خواہشوں کو مار مار کر اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے جہیزجمع کرتے پھرتے ہیں، آج بھی ہمارے گھروں میں کمانا والا وہ ہی ایک ہی ہوتا ہے اورکھانے والے نو ہوتے ہیں جب کہ کمانے والا کما کما کر خون تھوکنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور ہمیں اس پر ذرا برابر ترس بھی نہیں آتا ہے۔
بیرون ملک جاکر ہرکام کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں جب کہ اپنے ملک میں وہ ہی کام کرتے ہوئے ہمیں شرم اور بے عزتی محسوس ہوتی ہے باہر جا کر غیر مسلموں کے ساتھ اکٹھے رہتے بھی ہیں۔ ساتھ کھاتے پیتے بھی ہیں ان سے رشتہ بھی قائم کرتے ہیں لیکن اپنے ملک میں بیٹھ کر ہر وقت انھیں برا بھلا کہتے رہتے ہیں، واہ عجیب دوغلا پن ہے اپنا مفاد ہوتا ہے تو ہر چیز حلال ہوجاتی ہے اور اگر مفاد نہیں ہے تو حلال چیز بھی حرام ہوجاتی ہے۔ ہر وقت ان میں سو سوکیڑے نکالنے بیٹھ جاتے ہیں ان پر ہر ہر الزام لگانے میں دیر نہیں کرتے ہیں اور جب ان کے ہی ممالک میں جا کر بستے ہیں تو پھر ان سے زیادہ کوئی اور آنکھوں کو جچتا ہی نہیں ہے۔
جب ہم ان کے ممالک میں جاکر بستے ہیں یا ان کی بنائی ہوئی یا دریافت کی ہوئی چیزوں کے مزے لیتے ہیں تو اس وقت اسلام خطرے میں کبھی نہیں آتا ورنہ بات بات پر اسلام کو خطرے میں لے آنا ہمارا قومی مشغلہ بن کے رہ گیا ہے ۔سارا وقت اسی خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ عیسائی اور یہودی ہمیں مٹانے پر تلے بیٹھے ہیں جن لوگوں کا سارا وقت انھیں کافر کہتے کہتے منہ خشک ہوجاتا ہے ان حضرات کا دل اگر ذرا سا بھی بیٹھ جائے تو علاج کے لیے ان ہی کی طرف بھاگے بھاگے پھرتے ہیں، ان سب حضرات کے بچے ان ہی کے ممالک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔
اگر وہ درس گاہیں اور ان ممالک کے رسم و رواج کافرانہ ہیں تو ان کے بچے کافرانہ نظام میں کیا کر رہے ہیں۔ظاہر ہے وہاں کوئی اسلامی درس گاہ یا اسلامی ماحول تو ہے نہیں اور نہ ہی ان کے رسم و رواج اسلامی ہیں تو پھر وہ ان درس گاہوں یا ان ممالک میں اعلیٰ تعلیم کیوں حاصل کر رہے ہیں۔ کافر ممالک کے سفیروں سے ملاقات خوشی خوشی کرتے ہیں ان سے ویزوں کی درخواستیں کرتے پھرتے ہیں ،اکیلے میں ان سے پینگیں بڑھاتے پھرتے ہیں عہدوپیمان کرتے پھرتے ہیں اور ہمارے سامنے آکر انھیں برا بھلا کہنے بیٹھ جاتے ہیں واہ کیا بات ہے بھئی ۔
یاد رہے دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کے معاشروں میں ہم سے زیادہ دقیانوسیت ، جہالت، توہم پرستی، مفاد پرستی موجود تھی وہ ہم سے زیادہ رجعت پسند اور بنیاد پرست تھے ہم سے زیادہ بد حال تھے لیکن جیسے ہی انھوں نے اپنی سوچ بدلی تو یکایک ان کی زندگی بدل گئی ۔معاشرے کے طور طریقے بدل گئے اور خوشحالی اتنے چپکے سے آئی کہ انھیں پتا ہی نہیں چلا ۔ کیونکہ انھوں نے حال کو حال کی نگاہ سے دیکھنا شروع کردیا تھا ماضی کی نگا ہ سے نہیں۔ ہمارے تمام مسائل کا حل بھی حال کو حال کی نگاہ سے دیکھنے میں پوشیدہ ہے، آئیں ہم حال کو حال کی نگاہوں سے دیکھیں نہ کہ ماضی کی نگاہوں سے اور تعصب ، نفرت کی عینک اتار پھینکیں۔