نئے انکشافات

سمجھ سے بالاتر ہے، عقل و فہم کے دائرۂ ادراک میں نہیں، یہ سب کون طے کرتا ہے؟

saifuzzaman1966@gmail.com

KARACHI:
اگر ISSUES پر آرٹیکل لکھے جائیں تو یومیہ بے شمار لکھنے ہوں گے کیوں کہ اپنے یہاں تو ''ہر دن نیا دن ہر بات نئی بات'' ہے روزانہ ایسے ایسے انکشافات ہوتے ہیں کہ عقل حیران، ناقابل یقین حد تک پریشان کن ''Axact'' کا ادارہ ہو یا چیئرمین نادرا کا بیان، سانحہ صفورا گوٹھ ہو یا سندھ پولیس کے ہاتھوں مجرمان کی گرفتاری۔ پاک چین اقتصادی راہداری ہو یا اس پر شدید اختلافات کے بعد اتفاق رائے۔

سمجھ سے بالاتر ہے، عقل و فہم کے دائرۂ ادراک میں نہیں، یہ سب کون طے کرتا ہے؟ یہ کن ہاتھوں کی Puppets ہیں؟ کوئی ایسا ہے جو معاملات کو ملک میں رہ کر چلارہا ہے یا بیرون ملک تشریف رکھتے ہوئے مجرمین کی پشت پناہی کی جا رہی ہے ۔ ہر جرم کی قیمت اب اربوں روپے نہیں اربوں ڈالر میں ہے۔ لگتا ہے مہنگائی ادھر بھی اضافے پر ہے اب ہزاروں لے کر کوئی جان پر نہیں کھیلتا نہ لاکھوں کی آمدن پر کوئی جرم کرواتا ہے۔ اب بات کروڑوں کی بھی نہیں اربوں، کھربوں کی ہے، واہ ری قسمت ہم پڑھ پڑھ کر تھک گئے، ڈاکٹر، انجینئر نہ بن سکے اور کوئی خوش قسمت بغیر ایک دن پڑھے سرجن بنا بیٹھا ہے۔ رات دن آپریشن پے آپریشن کر رہا ہے ہزاروں لاکھوں کی فیس ان میں سے کئی اب وائس چانسلر بھی ہوں گے۔

دیگر تعلیم کی بدولت بڑے اداروں میں اعلی عہدوں پر فائز، عیش ہوگئے، کیا کہنے۔ زندہ باد ''Axact'' پورا کلچر ہے بدل دیا اور زندہ باد ہماری حکومتیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے، خفیہ ایجنسیاں جنھیں جرم کی خبر امریکی میڈیا سے ملی۔ ہاں زندہ باد میڈیا۔ جسے اﷲ اﷲ کرکے کچھ دن کا موضوع ہاتھ آگیا۔ خبر۔ بہت بڑی خبر۔ اب دیکھو چینلز اس ''Axact'' کے مالک شعیب کا کرتے کیا ہیں؟ کچھ دن تو TVدیکھ کر ایسا لگے گا کہ کانا دجال ہے ہی یہ ''شعیب'' ، خیر سے چلتا رہے کاروبار زندگی۔ یا کہہ لیں کاروبار سلطنت۔

جمہوریت کو موقع ملتا رہا تو سب پھلے پھولے گا۔ آزادی اظہار، آزادیٔ جرم، جرائم کی گرفت، اس پر تبصرے، تجزیے، خبر، اخبار، سب چلے گا دوڑے گا۔ اور ہم جیسے نو آموز، نا تجربے کار لوگ بھی کہیں دوچار سطر لکھ ہی لیں گے۔ کوئی چھاپے نہ چھاپے اپنی تسلی تو ہو ہی جائے گی۔ لیکن عزیزان گرامی الفاظ کی جگت بازی نہ ہو تو اب دل چاہتا ہے کہ موسم کو بدلنا چاہیے۔

فطرت خطہ انسانی کے کسی کونے کھدرے سے ہمیں پکار رہی ہے کہ بدلو۔ بہت وقت ہوا۔ ایک ہی ڈگری پر چلتے چلتے۔ورنہ طوفان آئے انسانوں کا طوفان تیز آندھی آئے گی۔ انسانوں کی آندھی یہ سکوت ٹوٹ جائے۔ مفاہمت سے بھری خاموشی ختم ہوجائے گی۔ مجبوری و بے بسی کی زندگی ترک کردی جائے گی اور پھر بہت شور ہوگا۔ کان پڑے آواز سنائی نہ دے گی۔ پھر نہ قانون ہوگا یا نہ آسکے رکھوالے۔ نہ امن ہوگا نہ داعیان امن۔

جاگو قبل اس کے کہ لوگوں کو اپنے بنیادی حقوق یاد آجائیں۔ نیند سے بیدار ہوکر زمانے کے انقلابات کو یاد کرو۔ یاد کرو کہ وہاں پر بھی کشت و خون سے پہلے ایسی ہی خاموشی تھی۔ ایسی ہی یکسانیت تھی۔ وہ سمندر بھی اپنی حد میں بہہ رہے تھے، وہاں پر بھی بادشاہ بڑے پر اعتماد تھے نسل در نسل حکومت، رعونت، تکبر۔ وہ بھی نت نئے نظام دیکر اپنی عوام کو مطمئن رکھنے کی کوششیں کررہے تھے لیکن طوفان آگیا۔ ایسا طوفان جو سب کچھ بہاکر لے گیا۔ کروڑوں لوگ مارے گئے۔ اس قدرکہ خون ندی نالوں میں پانی کی جگہ بہہ رہاتھا۔


جہاں تعلیم فروخت ہورہی ہو۔ انصاف بک رہا ہو۔ قانون شکن معزز ہوں اور قانون پرست معتوب وہاں اب فطرت پیغام دے رہی ہے اپنا آخری تنبیہی پیغام۔

لیکن سامع کون ہے؟ لگتا ہے حکومت کے بعد رہے سہے لوگ بھی اقتصادی راہداریوں میں گھوم پھر رہے ہیں!! برا نہیں ہے اگر ملکی راہداریاں بھی اس قابل بنادی جائیں۔ برا نہیں ہے اگر آپ کے حالات اس قدر بہتر بھی ہوں کہ آپ کے چھوٹے بڑے آپ کے یہ ملکی اسکینڈلز نہ دیکھ رہے ہوں۔ تب ہی ترقی ممکن ہے ورنہ آپ پر اعتبار کرے گا کون؟ کون سرمایہ کاری کرے گا، کیوں کہ دیکھیے بڑی سیدھی اور سچی بات ہے، چین سمیت ہمارا ہر دوست ملک ہمارے اندرونی حالات کو ضرور مد نظر رکھے گا۔ کسی بھی سرمایہ کاریInvestment سے پہلے۔ ورنہ اپنا نقصان کون کرتا ہے۔ کب تک رواداری میں کوئی کب تک ساتھ چلے گا؟ لہٰذا عزیزان گرامی، اہل اقتدار اور ہر وہ قوت جو کسی بھی طور نظام حکومت سے وابستہ ہو میں ان سب سے ملتمس ہوں کہ خدارا اب مجرم اور جرم سے نرمی کا وقت نہیں۔

وہ کسی بھی قبیلے سے ہو، صوبے یا علاقے سے ہو، اس کی قوم، ذات، برادری سے قطع نظر صرف یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اگر مجرم ہے اور ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے، دہشتگرد ہے یا علم کی فروخت جیسے قبیح فعل میں ملوث ہے یا منصف ہوتے ہوئے انصاف نہیں کر رہا، راشی ہے، خائن ہے اور دنیا بھر میں ہماری بحیثیت قوم و ملک بد نامی کا باعث بن رہا ہے اسے موت چھوڑیے۔ ترنت انصاف کیجیے اﷲ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے چور کے ہاتھ کاٹ دیں، زانی کو سنگسارکریں، راشی و مرتشی کو جیل میں ڈال دیں۔

اب کوئی رعایت، مفاہمت یا سمجھوتہ ملک سے کھلم کھلا غداری ہوگا۔ اس عہدے سے بھی انصاف نہ ہوگا جسے آپ نے سنبھالنے سے پہلے حلف اٹھایا ہے۔ آپ کے ایسا کرنے کے بعد ہی یہ راہداریاں خوبصورت لگیںگی۔ یہ معاہدے جو یقینا ملکی ترقی کا باعث ہیں۔ حقیقی معنوں میں سود مند ثابت ہونگے۔ امید ہے کہ آپ کی سماعت تک میری یہ دعائیہ گزارش ضرور پہنچے گی۔

قارئین کرام ! چیئرمین نادرا نے آج بہت واضح طور پر اپنا نقطہ نظر بیان کردیا ہے ان کے بقول ایسے ووٹ جو ناقابل شناخت ہیں وہ دھاندلی کا حصہ نہیں بلکہ بوجوہ ان کی تصدیق نہیں ہوپارہی لہٰذا الیکشن میں مقناطیسی سیاہی بھی استعمال کی جاتی تب بھی نادرا کے پاس انگوٹھوں کے نشانات کو چیک کرنے کے لیے مطلوبہ آلات نہیں۔ مجھے اس بیان سے 100 فی صد اتفاق ہے اور اس بیان کا سیاق و سباق صاف نشاندہی کررہاہے کہ جوڈیشل کمیشن کا ممکنہ فیصلہ کیا ہوسکتا ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ عمران خان کی دوبارہ الیکشن کروانے کی خواہش خواہش ہی رہ جائے گی لیکن بہر حال الیکشن میں دھاندلی رکوانے سے متعلق ان کی کوششیں سر آنکھوں پر۔ انتہائی قابل تحسین۔ ہم انھیں بہترین الفاظ میں سراہتے ہیں اور مسلم لیگی رہنما جو ابھی خاصے نا تجربے کار ہیں طلال چوہدری کے بیان کی مذمت کرتے ہیں جس میں انھوں نے گفتگو کے لیے نہایت نا مناسب اور کم قیمت الفاظ کا استعمال کیا۔ میری رائے میں خان صاحب (عمران خان) کو اب بلدیاتی الیکشن اور اس کے بعد جنرل الیکشن کی بھرپور تیاریاں کرتے ہوئے حکومت کی حقیقی اپوزیشن کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے جس سے ملک اور قوم کو فائدہ ہوا ہے۔
Load Next Story