سیہون سندھ کا اجمیر
آج سینکڑوں سال گزرنے کے بعد بھی آپ کے فیض کا چشمہ جاری ہے
ہند اور پاکستان میں اجمیر اس لیے مشہور ہے کہ وہاں چشتیہ سلسلے کے مشہور بزرگ خواجہ معین الدینؒ کا مزار ہے۔ حضرت خواجہ معین الدینؒ نے اجمیر میں رہ کر ہزاروں بھٹکے ہوئے انسانوں کو سیدھا راستہ دکھایا اور اسلام کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔ آج کئی سو برس گزرنے پر بھی ہند و پاکستان کے بچے بچے کی زبان پر ان کا نام ہے۔ انہیں کی وجہ سے اجمیر کو وہ شہرت حاصل ہوئی کہ لوگ اجمیر کو اجمیر شریف کہتے ہیں۔
جس طرح ہندوپاکستان میں اجمیر شریف مشہور ہے، اسی طرح سندھ کا اجمیر مکرستان (سیہون) ہے۔ سندھ کا بچہ بچہ سیوستان (سیہون) کو محض اس لیے جانتا ہے کہ وہاں حضرت لعل شہباز قلندرؒ کا مزارہے۔
حضرت لعل شہباز قلندرؒ کا اصل نام عثمان، آپ کے والد کا نام سید حسین کبیرالدین ہے۔ آپ کا عرف لعل قلندر شہبازؒ ہے۔ آپ حضرت جعفر صادقؒ کی اولاد میں سے ہیں۔
حضرت لعل شہباز قلندرؒ کا اصل وطن مرند ہے،جو تبریز سے 30 مسل شمال میں آذربائیجان کے قریب واقع ہے۔
حضرت قلندر لعل شہبازؒ 538ھ) 143-44ء( میں مرند میں پیدا ہوئے اور وہیں تعلیم و تربیت حاصل کی۔ پھر برصغیر پاک و ہند کے بڑے بڑے شہروں میں گھومتے رہے۔ جہاں آپ کو معلوم ہوتا کہ کوئی بڑا عالم یا بزرگ موجود ہے وہیں آپ اس سے فیض حاصل کرنے کے لیے پہنچ جاتے۔ ویسے آپ شیخ جمال مجرد کے مرید ہیں جو سید ابراہیم مجرد کے مرید تھے۔
برصغیر پاک و ہند مختلف شہروں میں گھومنے کے بعد سلطان محمد خاں شہید کی حکومت کے زمانے میں 683ھ 1285-86)ء( میں ملتان تشریف لائے۔ خان شہید نے آپ کی بے حد تعظیم و تکریم کی اور بہت کوشش کی کہ ملتان میں رہ جائیں۔ اس نے آپ کے لیے خانقاہ بنوانے اور خانقاہ کے خرچ کے لیے گاؤں دینے کا بھی ارادہ کیا تھا لیکن حضرت قلندر لعل شہبازؒ نے ملتان میں رہنا منظور نہ کیا۔
بعض نے آپ کے ملتان تشریف لانے کا سن 662ھ) 1263-64ء( لکھا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملتان سے آپ شاہ شمس کے ساتھ ہندوستان تشریف لے گئے اور شیخ بوعلی قلندرؒ پانی پتی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے آپ سے فرمایا کہ ہندوستان میں پہلے ہی سے تین قلندر موجود ہیں، تمہیں واپس پھر سندھ جانا چاہیے۔ چنانچہ ان کے فرمانے کے بعد حضرت قلندر لعل شہبازؒ سیہون تشریف لائے اور سندھ کے اسی شہر میں آخر وقت تک رہے۔ آپ نے سیہون میں رہ کر لوگوں کو سیدھے راستے پر لگایا۔ ان کے اخلاق کو سنوارا۔ انسانوں کے دلوں میں نیکی اور سچائی کی لگن پیدا کی اور ایک دوسرے کے ساتھ پیار اور محبت سے رہنا سکھایا۔
تقریباً چھ سال تک آپ سیہون میں رہ کر اسلام کا نور برصغیر پاک و ہند میں پھیلاتے رہے۔ ہزاروں انسانوں نے آپ سے ہدایت پائی۔ بہت سے بھٹکے ہوئے انسانوں کا رشتہ اللہ سے جوڑا۔ آپ کی وجہ سے بہت سے ناقص لوگ کمال کو پہنچے۔
673ھ) 1274-75ء( میں حضرت قلندر لعل شہبازؒ جنت کو سدھارے اور اپنے بعد اسلام کی خدمت کا ایک ایسا اعلیٰ نمونہ چھوڑگئے۔ جس کو ہم سامنے رکھ کر اپنی زندگی کو بنا اور سنوار سکتے ہیں۔
آج سینکڑوں سال گزرنے کے بعد بھی آپ کے فیض کا چشمہ جاری ہے۔
میر غلام علی آزاد بلگرامی نے اپنی مشہور کتاب ماثر الکرام میں لکھا ہے کہ میں 10 ربیع لاول 1143ھ) 1730ء( کو بخشگیری اور روزنامچہ نویسی کے عہدے پر مقرر ہوکر سیہون آیا لیکن کچھ زمانہ ہی گزرا تھا کہ میں اس عہدے سے معزول کردیا گیا، جس کا مجھے رنج اور صدمہ تھا۔ میں نے اسی پریشانی کے زمانے میں ایک رات خواب میں دیکھا کہ میں شہر کے ایک کوچے سے گزر رہا ہوں۔ اچانک ایک شخص میرے سامنے آیا۔ میں نے اسے پوچھا کہ یہ راستہ آگے جاتا ہے یا نہیں؟ اس نے عربی میں جواب دیا کہ عنقریب تمہیں کچھ آدمی ملیں گے۔
میں ابھی چند قدم ہی چلنے پایا تھا کہ مجھے تین شخص ملے جو درویشوں کی وضع اور لباس میں تھے۔ یہ تینوں کے تینوں ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے اور ان میں ایک ان سب کے پیشوا نظر آتے تھے۔ میں ان کے پاس گیا اور سلام کیا میں اپنے عہدے پر بحال ہوجاؤں گا؟ یہ سن کر ان بزرگ نے اپنا سر مراقبے میں جھکا لیا۔ تقریباً ایک گھنٹے وہ مراقبے میں رہے، پھر سر اٹھاکر فرمایا ہاں تم بحال ہوجاؤ گے۔ میں نے عرض کیا کہ کیا واقعی ایسا ہوگا؟ فرمایا، ہاں ہم جو تم سے کہتے ہیں۔
آخر ایک سال کے بعد میں اپنے عہدے پر بحال ہوا اور ان بزرگ کی یہ بات پوری ہوئی۔ معلوم ہوا کہ یہ خوشخبری دینے والے بزرگ حضرت قلندر لعل شہبازؒ تھے اور ایک گھنٹے کے مراقبے سے اس طرف اشارہ تھا کہ ایک سال کے بعد تم بحال ہو گے۔ خدا کی ہزاروں رحمتیں ہوں حضرت قلندر لعل شہبازؒ پر۔
مشہور سیاح ابن بطوطہ دنیا کا سفر کرتے ہوئے 734ھ) 1333-34ء( میں جب سیہون پہنچا تو اس نے آپ کے مزار مبارک کی زیارت کی تھی اور آپ کی خانقاہ میں ٹھہرا۔ کہا نہیں جاسکتا اس زمانے میں یہ خانقاہ کیسی بنی ہوئی تھی اور مزار مبارک کی عمارت اور گنبد تھا یا نہیں۔
لیکن خانقاہ کے ایک کتبے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا روضہ مبارک اور گنبد سلطان فیروز شاہ کے حکم سے 7 رجب 757ھ 1356)ء( کو ملک رکن الدین عرف اختیار الدین نے جو اس زمانے میں سیہون کا حاکم تھا، بنوایا تھا، جس میں سات طاق اور چھ گنبد تھے۔
پھر ٹھٹھہ کے بادشاہ مرزا جانی بیگ نے 993ھ) 1585-86ء( میں اس عمارت کی توسیع و ترمیم کرائی۔
پھر 1009ھ (1600-1601) میں میرزا جانی بیگ ترخان کے بیٹے میرزا غازی بیگ ترخان نے اپنی صوبہ داری کے زمانے میں اس عمارت میں ترمیم کرائی۔
تالپوروں کی حکومت کے زمانے میں میر کرم علی خاں والی سندھ نے حضرت قلندر لعل شہبازؒ کے روضہ مبارک میں 1231ھ (1815-16ء) میں چاندی کا دروازہ نصب کرایا۔ یہ دروازہ اب بھی موجود ہے۔
ہر سال شعبان میں سیہون میں حضرت قلندر لعل شہبازؒ کا عرس بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ دور دور سے لوگ آکر مزار مبارک کی زیارت کرتے اور فاتحہ پڑھتے ہیں۔n
(سندھ کی تاریخی کہانیاں از مولانا اعجاز الحق قدوسی)
جس طرح ہندوپاکستان میں اجمیر شریف مشہور ہے، اسی طرح سندھ کا اجمیر مکرستان (سیہون) ہے۔ سندھ کا بچہ بچہ سیوستان (سیہون) کو محض اس لیے جانتا ہے کہ وہاں حضرت لعل شہباز قلندرؒ کا مزارہے۔
حضرت لعل شہباز قلندرؒ کا اصل نام عثمان، آپ کے والد کا نام سید حسین کبیرالدین ہے۔ آپ کا عرف لعل قلندر شہبازؒ ہے۔ آپ حضرت جعفر صادقؒ کی اولاد میں سے ہیں۔
حضرت لعل شہباز قلندرؒ کا اصل وطن مرند ہے،جو تبریز سے 30 مسل شمال میں آذربائیجان کے قریب واقع ہے۔
حضرت قلندر لعل شہبازؒ 538ھ) 143-44ء( میں مرند میں پیدا ہوئے اور وہیں تعلیم و تربیت حاصل کی۔ پھر برصغیر پاک و ہند کے بڑے بڑے شہروں میں گھومتے رہے۔ جہاں آپ کو معلوم ہوتا کہ کوئی بڑا عالم یا بزرگ موجود ہے وہیں آپ اس سے فیض حاصل کرنے کے لیے پہنچ جاتے۔ ویسے آپ شیخ جمال مجرد کے مرید ہیں جو سید ابراہیم مجرد کے مرید تھے۔
برصغیر پاک و ہند مختلف شہروں میں گھومنے کے بعد سلطان محمد خاں شہید کی حکومت کے زمانے میں 683ھ 1285-86)ء( میں ملتان تشریف لائے۔ خان شہید نے آپ کی بے حد تعظیم و تکریم کی اور بہت کوشش کی کہ ملتان میں رہ جائیں۔ اس نے آپ کے لیے خانقاہ بنوانے اور خانقاہ کے خرچ کے لیے گاؤں دینے کا بھی ارادہ کیا تھا لیکن حضرت قلندر لعل شہبازؒ نے ملتان میں رہنا منظور نہ کیا۔
بعض نے آپ کے ملتان تشریف لانے کا سن 662ھ) 1263-64ء( لکھا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملتان سے آپ شاہ شمس کے ساتھ ہندوستان تشریف لے گئے اور شیخ بوعلی قلندرؒ پانی پتی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے آپ سے فرمایا کہ ہندوستان میں پہلے ہی سے تین قلندر موجود ہیں، تمہیں واپس پھر سندھ جانا چاہیے۔ چنانچہ ان کے فرمانے کے بعد حضرت قلندر لعل شہبازؒ سیہون تشریف لائے اور سندھ کے اسی شہر میں آخر وقت تک رہے۔ آپ نے سیہون میں رہ کر لوگوں کو سیدھے راستے پر لگایا۔ ان کے اخلاق کو سنوارا۔ انسانوں کے دلوں میں نیکی اور سچائی کی لگن پیدا کی اور ایک دوسرے کے ساتھ پیار اور محبت سے رہنا سکھایا۔
تقریباً چھ سال تک آپ سیہون میں رہ کر اسلام کا نور برصغیر پاک و ہند میں پھیلاتے رہے۔ ہزاروں انسانوں نے آپ سے ہدایت پائی۔ بہت سے بھٹکے ہوئے انسانوں کا رشتہ اللہ سے جوڑا۔ آپ کی وجہ سے بہت سے ناقص لوگ کمال کو پہنچے۔
673ھ) 1274-75ء( میں حضرت قلندر لعل شہبازؒ جنت کو سدھارے اور اپنے بعد اسلام کی خدمت کا ایک ایسا اعلیٰ نمونہ چھوڑگئے۔ جس کو ہم سامنے رکھ کر اپنی زندگی کو بنا اور سنوار سکتے ہیں۔
آج سینکڑوں سال گزرنے کے بعد بھی آپ کے فیض کا چشمہ جاری ہے۔
میر غلام علی آزاد بلگرامی نے اپنی مشہور کتاب ماثر الکرام میں لکھا ہے کہ میں 10 ربیع لاول 1143ھ) 1730ء( کو بخشگیری اور روزنامچہ نویسی کے عہدے پر مقرر ہوکر سیہون آیا لیکن کچھ زمانہ ہی گزرا تھا کہ میں اس عہدے سے معزول کردیا گیا، جس کا مجھے رنج اور صدمہ تھا۔ میں نے اسی پریشانی کے زمانے میں ایک رات خواب میں دیکھا کہ میں شہر کے ایک کوچے سے گزر رہا ہوں۔ اچانک ایک شخص میرے سامنے آیا۔ میں نے اسے پوچھا کہ یہ راستہ آگے جاتا ہے یا نہیں؟ اس نے عربی میں جواب دیا کہ عنقریب تمہیں کچھ آدمی ملیں گے۔
میں ابھی چند قدم ہی چلنے پایا تھا کہ مجھے تین شخص ملے جو درویشوں کی وضع اور لباس میں تھے۔ یہ تینوں کے تینوں ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے اور ان میں ایک ان سب کے پیشوا نظر آتے تھے۔ میں ان کے پاس گیا اور سلام کیا میں اپنے عہدے پر بحال ہوجاؤں گا؟ یہ سن کر ان بزرگ نے اپنا سر مراقبے میں جھکا لیا۔ تقریباً ایک گھنٹے وہ مراقبے میں رہے، پھر سر اٹھاکر فرمایا ہاں تم بحال ہوجاؤ گے۔ میں نے عرض کیا کہ کیا واقعی ایسا ہوگا؟ فرمایا، ہاں ہم جو تم سے کہتے ہیں۔
آخر ایک سال کے بعد میں اپنے عہدے پر بحال ہوا اور ان بزرگ کی یہ بات پوری ہوئی۔ معلوم ہوا کہ یہ خوشخبری دینے والے بزرگ حضرت قلندر لعل شہبازؒ تھے اور ایک گھنٹے کے مراقبے سے اس طرف اشارہ تھا کہ ایک سال کے بعد تم بحال ہو گے۔ خدا کی ہزاروں رحمتیں ہوں حضرت قلندر لعل شہبازؒ پر۔
مشہور سیاح ابن بطوطہ دنیا کا سفر کرتے ہوئے 734ھ) 1333-34ء( میں جب سیہون پہنچا تو اس نے آپ کے مزار مبارک کی زیارت کی تھی اور آپ کی خانقاہ میں ٹھہرا۔ کہا نہیں جاسکتا اس زمانے میں یہ خانقاہ کیسی بنی ہوئی تھی اور مزار مبارک کی عمارت اور گنبد تھا یا نہیں۔
لیکن خانقاہ کے ایک کتبے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا روضہ مبارک اور گنبد سلطان فیروز شاہ کے حکم سے 7 رجب 757ھ 1356)ء( کو ملک رکن الدین عرف اختیار الدین نے جو اس زمانے میں سیہون کا حاکم تھا، بنوایا تھا، جس میں سات طاق اور چھ گنبد تھے۔
پھر ٹھٹھہ کے بادشاہ مرزا جانی بیگ نے 993ھ) 1585-86ء( میں اس عمارت کی توسیع و ترمیم کرائی۔
پھر 1009ھ (1600-1601) میں میرزا جانی بیگ ترخان کے بیٹے میرزا غازی بیگ ترخان نے اپنی صوبہ داری کے زمانے میں اس عمارت میں ترمیم کرائی۔
تالپوروں کی حکومت کے زمانے میں میر کرم علی خاں والی سندھ نے حضرت قلندر لعل شہبازؒ کے روضہ مبارک میں 1231ھ (1815-16ء) میں چاندی کا دروازہ نصب کرایا۔ یہ دروازہ اب بھی موجود ہے۔
ہر سال شعبان میں سیہون میں حضرت قلندر لعل شہبازؒ کا عرس بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ دور دور سے لوگ آکر مزار مبارک کی زیارت کرتے اور فاتحہ پڑھتے ہیں۔n
(سندھ کی تاریخی کہانیاں از مولانا اعجاز الحق قدوسی)