پاک فوج کا نیا میزائل
میزائل کی مدد سے ڈرون ‘ ہیلی کاپٹر‘ ہوائی جہاز اورہرقسم کے میزائلوں کو نشانہ بنانا ممکن ہے
پچھلے ماہ قوم نے یہ خوش خبری فخر اور مسّرت سے سنی کہ پاک فوج کو اپنا فضائی دفاع مضبوط کرنے کے لیے ''ایف ایم 90'' (FM-90) میزائیل مل گئے ہیں۔ ان میزائلوں کے ذریعے پاک فوج اب اپنی عسکری تنصیبات ' توپ خانے اور ٹینکوں کو دشمن کے میزائلیوں' جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں سے محفوظ رکھ سکے گی۔
دور جدید میں فضا سے آنے والے حملوں کو روکنا کسی بھی فوج کے لیے بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ یہ حقیقت 1990میں پہلی خلیجی جنگ کے دوران بھی سامنے آئی۔ تب امریکا نے ہزارہا میزائلوں اور بموں کی بارش کرکے عراقی افواج کی عسکری تنصیبات ' ٹینک اور توپیں تباہ کر ڈالی تھیں۔ یوں عراق کے دفاع کا تیا پانچہ ہو گیا اور صدام حسین کو مجبوراً شکست تسلیم کرنا پڑی۔
اس کے بعد خصوصاً امریکی افواج کا یہ رواج بن گیا کہ وہ جب بھی کسی ملک پر حملہ آور ہوتیں' تو پہلے امریکا کے بمبار و جنگی امریکی طیارے بم و میزائل مار کر اس کی عسکری تنصیبات واسلحہ برباد کر ڈالتے ہیں۔
امریکیوں کی اس جدید جنگی تدبیر نے دنیا کے سبھی ملکوں پر ''فضائی دفاع''(Air defence) کی اہمیت واضح کر دی۔ گو بالغ نظر اور جہاں دیدہ پاکستانی جرنیل فضائی دفاع کی معنویت و اہمیت بہت پہلے سمجھ چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت نے 1989ء ہی میں سیاسی حکومت سے مشاورت کے بعد '' آرمی ائر ڈیفنس کمانڈ'' (Army Air Defence Command) کی بنیاد رکھ دی۔
آج پاک فوج کا یہ دستہ ایک اہم کور بن چکا جس میں پانچ ڈویژن شامل ہیں۔ 50 ہزار سے زیادہ جوان اس کور کا حصہ ہیں۔ آرمی ائر ڈیفنس کمانڈ کا صدر دفتر چکلالہ ' راولپنڈی میں ہے۔ اس کور میں شامل تھرڈ ائر ڈیفنس بریگیڈ پاک فوج کا بلحاظ نفری سب سے بڑا بریگیڈ ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل محمد زاہد لطیف مرزا موجودہ کور کمانڈر ہیں۔ کور کا نعر ہ ہے: ''علم' عمل ' عزت''۔
٭٭
جب بیسویں صدی میں ہوائی جہاز اور میزائل ایجاد ہوئے،تو فضائی دفاع کا نظریہ سامنے آیا۔ماضی میں طیارہ شکن توپیں فضائی دفاع کا اہم ترین ہتھیار تھیں،مگر اب میزائیل اس ضمن میں سب سے اہم ہتھیار بن چکے۔ ان کا کام یہ ہے کہ فضا میں اڑتے دشمن کے طیارے یا میزائیل کو نشانہ بنایا جائے۔ یہ کام میزائل شکن میزائلوں' ریڈار' ڈیٹا کمیونکیشن لنک اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کی مدد سے انجام پاتا ہے۔
جب دشمن کا طیارہ یا میزائل ایک ملک میں داخل ہو' تو سب سے پہلے وہاں مختلف مقامات پر نصب ریڈار اس کی شناخت کرتے ہیں۔ پھر یہ خبر ائرڈیفنس کمانڈ تک پہنچتی ہے ۔ وہاں سے حکم جاری ہوتا ہے کہ دشمن کا میزائل یا طیارہ تباہ کرنے کی خاطر اپنا میزائل چھوڑا جائے۔
اس میزائل یا طیارہ شکن میزائل کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم عموماً ایک فوجی ٹرک میں ہوتا ہے۔ وہاں سے میزائل کو چھوڑ کر اس کی نگرانی بھی کی جاتی ہے۔ حملہ آور میزائلوں یا طیاروں کو نشانہ بنانے والے میزائل زمین کے علاوہ بذریعہ ہوائی جہاز فضا اور بذریعہ بحری جہاز سمندر سے بھی چھوڑے جا سکتے ہیں۔
ان میزائل و طیارہ شکن میزائلوں کی کئی اقسام ہیں۔ ان کو عموماً کم' درمیانے اورزیادہ فاصلے تک مار رکھنے کے حساب سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ زیادہ فاصلے تک مار رکھنے والے میزائل نہ صرف طاقتورہوتے ہیں' بلکہ انہیں چلانے اور نگرانی کی خاطر جدید ترین (فضائی' ارضی اور سمندری) ریڈار اور دیگر آلات درکار ہیں۔ اس لیے ایسے طاقتور میزائل صرف سپرطاقتیں مثلاً امریکہ اور روس ہی رکھتی ہیں۔
پاکستان کا فضائی دفاع مضبوط تر بنانے والا جدید میزائل، ایف ایم 90 کم فاصلے تک مار کرنے والا ہتھیار ہے۔ یہ چین کے ہنر مندوں کی تخلیق ہے۔ مگر اس میزائل میں پاکستان کی ضروریات مد نظر رکھ کر کئی اہم تبدیلیاں لائی گئیں۔ان تبدیلیوں کا انجام دینے میں پاکستانی ہنرمندوں نے بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ کیا۔ چین میں یہ میزائیل ''ایچ کیو۔7بی'' (HQ-7b) کہلاتا ہے۔
اس میزائل کا کمانڈاینڈ کنٹرول سسٹم اور ریڈار' دونوں ایک فوجی ٹرک میں نصب ہیں۔ اس گاڑی میں چار میزائل لگانے کی گنجائش ہے۔ اس میں نصب جدید ریڈار 25کلو میٹر کے قطر میں ''48نشانے'' بیک وقت شناخت کر سکتا ہے۔ جبکہ اس کی مدد سے بیک وقت دشمن کے '' 24''میزائلوں یا طیاروں کو نشانہ بنانا ممکن ہے۔
زمین سے چھوڑا جانے والا ایف ایم 90- تقریباً دس فٹ لمبا اور پچاس کلو وزنی ہے۔ یہ 0.7 تا 15 کلو میٹر دور اڑتے نشانے کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس کے کامیاب نشانے کی شرح'' 85 فیصد ''تک ہے جو عسکری لحاظ سے ''بہت عمدہ'' شمار ہوتی ہے۔
یہ میزائل 900 میٹر فی سکینڈ کی رفتار سے اڑتا ہے۔ اس کی مدد سے ڈرون ' ہیلی کاپٹر' ہوائی جہاز اور ہر قسم کے میزائلوں کو نشانہ بنانا ممکن ہے۔ یہ ساڑھے انیس ہزار فٹ کی بلندی تک جا سکتا ہے۔
پاکستان اب چین ہی سے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والا میزائل ''ایچ کیو ۔16 ''(حد مار 30 کلو میٹر) اور طویل فاصلے تک جانے والا ''ایچ کیو۔9''(حد مار 200کلو میٹر) بھی خریدنا چاہتا ہے۔ حسب معمول پاکستانی ہنر مند ان میں بھی ضروری تبدیلیاں لائیں گے تاکہ انہیں مقامی حالات و ماحول سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔ ان دونوں میزائیلوں کی شمولیت کے بعد انشاء اللہ قومی فضائی دفاع اتنا زیادہ مضبوط ہو جائے گا کہ دشمن فضائی حملہ کرنے سے قبل ہزار بار سوچے گا۔
دور جدید میں فضا سے آنے والے حملوں کو روکنا کسی بھی فوج کے لیے بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ یہ حقیقت 1990میں پہلی خلیجی جنگ کے دوران بھی سامنے آئی۔ تب امریکا نے ہزارہا میزائلوں اور بموں کی بارش کرکے عراقی افواج کی عسکری تنصیبات ' ٹینک اور توپیں تباہ کر ڈالی تھیں۔ یوں عراق کے دفاع کا تیا پانچہ ہو گیا اور صدام حسین کو مجبوراً شکست تسلیم کرنا پڑی۔
اس کے بعد خصوصاً امریکی افواج کا یہ رواج بن گیا کہ وہ جب بھی کسی ملک پر حملہ آور ہوتیں' تو پہلے امریکا کے بمبار و جنگی امریکی طیارے بم و میزائل مار کر اس کی عسکری تنصیبات واسلحہ برباد کر ڈالتے ہیں۔
امریکیوں کی اس جدید جنگی تدبیر نے دنیا کے سبھی ملکوں پر ''فضائی دفاع''(Air defence) کی اہمیت واضح کر دی۔ گو بالغ نظر اور جہاں دیدہ پاکستانی جرنیل فضائی دفاع کی معنویت و اہمیت بہت پہلے سمجھ چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت نے 1989ء ہی میں سیاسی حکومت سے مشاورت کے بعد '' آرمی ائر ڈیفنس کمانڈ'' (Army Air Defence Command) کی بنیاد رکھ دی۔
آج پاک فوج کا یہ دستہ ایک اہم کور بن چکا جس میں پانچ ڈویژن شامل ہیں۔ 50 ہزار سے زیادہ جوان اس کور کا حصہ ہیں۔ آرمی ائر ڈیفنس کمانڈ کا صدر دفتر چکلالہ ' راولپنڈی میں ہے۔ اس کور میں شامل تھرڈ ائر ڈیفنس بریگیڈ پاک فوج کا بلحاظ نفری سب سے بڑا بریگیڈ ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل محمد زاہد لطیف مرزا موجودہ کور کمانڈر ہیں۔ کور کا نعر ہ ہے: ''علم' عمل ' عزت''۔
٭٭
جب بیسویں صدی میں ہوائی جہاز اور میزائل ایجاد ہوئے،تو فضائی دفاع کا نظریہ سامنے آیا۔ماضی میں طیارہ شکن توپیں فضائی دفاع کا اہم ترین ہتھیار تھیں،مگر اب میزائیل اس ضمن میں سب سے اہم ہتھیار بن چکے۔ ان کا کام یہ ہے کہ فضا میں اڑتے دشمن کے طیارے یا میزائیل کو نشانہ بنایا جائے۔ یہ کام میزائل شکن میزائلوں' ریڈار' ڈیٹا کمیونکیشن لنک اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کی مدد سے انجام پاتا ہے۔
جب دشمن کا طیارہ یا میزائل ایک ملک میں داخل ہو' تو سب سے پہلے وہاں مختلف مقامات پر نصب ریڈار اس کی شناخت کرتے ہیں۔ پھر یہ خبر ائرڈیفنس کمانڈ تک پہنچتی ہے ۔ وہاں سے حکم جاری ہوتا ہے کہ دشمن کا میزائل یا طیارہ تباہ کرنے کی خاطر اپنا میزائل چھوڑا جائے۔
اس میزائل یا طیارہ شکن میزائل کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم عموماً ایک فوجی ٹرک میں ہوتا ہے۔ وہاں سے میزائل کو چھوڑ کر اس کی نگرانی بھی کی جاتی ہے۔ حملہ آور میزائلوں یا طیاروں کو نشانہ بنانے والے میزائل زمین کے علاوہ بذریعہ ہوائی جہاز فضا اور بذریعہ بحری جہاز سمندر سے بھی چھوڑے جا سکتے ہیں۔
ان میزائل و طیارہ شکن میزائلوں کی کئی اقسام ہیں۔ ان کو عموماً کم' درمیانے اورزیادہ فاصلے تک مار رکھنے کے حساب سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ زیادہ فاصلے تک مار رکھنے والے میزائل نہ صرف طاقتورہوتے ہیں' بلکہ انہیں چلانے اور نگرانی کی خاطر جدید ترین (فضائی' ارضی اور سمندری) ریڈار اور دیگر آلات درکار ہیں۔ اس لیے ایسے طاقتور میزائل صرف سپرطاقتیں مثلاً امریکہ اور روس ہی رکھتی ہیں۔
پاکستان کا فضائی دفاع مضبوط تر بنانے والا جدید میزائل، ایف ایم 90 کم فاصلے تک مار کرنے والا ہتھیار ہے۔ یہ چین کے ہنر مندوں کی تخلیق ہے۔ مگر اس میزائل میں پاکستان کی ضروریات مد نظر رکھ کر کئی اہم تبدیلیاں لائی گئیں۔ان تبدیلیوں کا انجام دینے میں پاکستانی ہنرمندوں نے بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ کیا۔ چین میں یہ میزائیل ''ایچ کیو۔7بی'' (HQ-7b) کہلاتا ہے۔
اس میزائل کا کمانڈاینڈ کنٹرول سسٹم اور ریڈار' دونوں ایک فوجی ٹرک میں نصب ہیں۔ اس گاڑی میں چار میزائل لگانے کی گنجائش ہے۔ اس میں نصب جدید ریڈار 25کلو میٹر کے قطر میں ''48نشانے'' بیک وقت شناخت کر سکتا ہے۔ جبکہ اس کی مدد سے بیک وقت دشمن کے '' 24''میزائلوں یا طیاروں کو نشانہ بنانا ممکن ہے۔
زمین سے چھوڑا جانے والا ایف ایم 90- تقریباً دس فٹ لمبا اور پچاس کلو وزنی ہے۔ یہ 0.7 تا 15 کلو میٹر دور اڑتے نشانے کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس کے کامیاب نشانے کی شرح'' 85 فیصد ''تک ہے جو عسکری لحاظ سے ''بہت عمدہ'' شمار ہوتی ہے۔
یہ میزائل 900 میٹر فی سکینڈ کی رفتار سے اڑتا ہے۔ اس کی مدد سے ڈرون ' ہیلی کاپٹر' ہوائی جہاز اور ہر قسم کے میزائلوں کو نشانہ بنانا ممکن ہے۔ یہ ساڑھے انیس ہزار فٹ کی بلندی تک جا سکتا ہے۔
پاکستان اب چین ہی سے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والا میزائل ''ایچ کیو ۔16 ''(حد مار 30 کلو میٹر) اور طویل فاصلے تک جانے والا ''ایچ کیو۔9''(حد مار 200کلو میٹر) بھی خریدنا چاہتا ہے۔ حسب معمول پاکستانی ہنر مند ان میں بھی ضروری تبدیلیاں لائیں گے تاکہ انہیں مقامی حالات و ماحول سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔ ان دونوں میزائیلوں کی شمولیت کے بعد انشاء اللہ قومی فضائی دفاع اتنا زیادہ مضبوط ہو جائے گا کہ دشمن فضائی حملہ کرنے سے قبل ہزار بار سوچے گا۔