گجب کہانی

پھر اس نے ’’ضمیر‘‘ کی آواز پر ’’بولنے‘‘ سے پہلے ہی خاموش رہنے کا فیصلہ کرلیا وہ پہلا کپتان تھا جو اس جہاز سے اترا۔


کے ایم خالد June 07, 2015
آفر بہت بڑی تھی کام وہی ’’گجب کہانی‘‘ صرف دفتر اور کیمرے اور ماحول ہی بدلنا تھا ۔فوٹو:فائل

سپاٹ چہرہ اورعینک بچپن سے ہی اس کی پہچان تھی۔ استاد سے سردیوں کے پہلے پیریڈ میں بھی چھڑی سے مار کھاتے ہوئے وہ دوسرے طالب علموں کی طرح نہ تو ہاتھ کو بغل کی طرف لے جاتے ہوئے اوئی، آئے کرتا تھا نہ ہی اس کے سپاٹ چہرے کے تاثرات بدلتے تھے۔ اسے ایک عجیب سا مسئلہ تھا کہ قریب کی عینک سے اسے دور کی چیزیں صاف دکھائی دیتی تھیں۔

لیکن جب وہ ان چیزوں کے پاس جاتا تو اسے احساس ہوتا کہ یہ وہ تو نہیں ہے جو اس نے دور سے دیکھا تھا۔ سب طالب علم اسے کھوجی کے نام سے پکارتے تھے کیونکہ اسکول جاتے اور واپس آتے ہوئے وہ پھونک، پھونک کر قدم رکھتا تھا۔ سارا دن کلاس میں وہ اپنی تحقیقاتی کہانیاں سناتا رہتا جو کہ ذیادہ تر اس نے اپنے ذہن کے مطابق تیار کی ہوتی تھیں۔ لیکن سب بچے اس کی کھوجی کہانیوں میں بڑی دل چسپی ظاہر کرتے تھے۔

ایک دن تفریح کے وقت اس نے ایک کہانی کا اینڈ کرتے ہوئے اپنی عینک درست کرکے دور فوکس کی اور کہا ''اوئے، چاچے جمالے کی مرغیوں کو ایک موٹا تازہ بلا بھنبھوڑ رہا ہے''، سارے بچے اس کے ساتھ ہی چاچے جمالے کے گھر میں داخل ہوگئے وہ بھی پھونک، پھونک کر قدم رکھ رہا تھا، مرغیوں کا باڑہ دوسری منزل پر تھا سارے بچے وہاں پہنچے وہ سب سے آگے تھا کسی مرغی کی کڑ کڑ کی آواز آ رہی تھی اس نے جھٹ دروازہ کھول دیا اندر ایک مرغی انڈوں پر اپنے پر ٹھیک کرتے ہوئے کڑ کڑ کر رہی تھی مرغی نے اس کی طرف یوں دیکھا جیسے کہہ رہی ہوں کیا ہوا۔۔۔؟

تجسس، کھوج اور کہانی اس کے ساتھ ہی جوان ہوئی۔ وہ صحافت میں آیا تو چھاتا ہی چلا گیا۔ اُس کی تحقیقاتی کہانیاں اس کے ادارے اور اس کا نام بناتی چلی گئیں۔ وہ قریب کی عینک سے دور دیکھتا اور تحقیقاتی کہانی اپنے انجام کو پہنچ جاتی۔ اس کی ان تحقیقاتی کہانیوں کی بدولت پیسہ اور ادارہ اس پر بڑا عاشق تھا، بہت سی پرنٹ میڈیا کو قریب ہی دیکھنے والی شخصیات اس سے''حسد'' کرتی تھیں، اسے بہت سے اخباروں نے بڑی بڑی آفرز کیں لیکن وہ قریب کی نظر سے دور دیکھ کر ان آفرز کو ٹھکراتا رہا۔

وہ اپنی تحقیقاتی رپورٹس کی بدولت ایسی سنسنی اور تجسس پیدا کر دیتا تھا کہ بڑے بڑے تحقیقاتی صحافی اس کے آگے پانی بھرتے تھے۔پاکستان پرنٹ سے الیکٹرنک میڈیا میں داخل ہوا اس نے بھی کیمرے کا سامنا کرنے کا فیصلہ کرلیا، اس نے کیمرہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے سپاٹ چہرے کی ساتھ دور دیکھتے ہوئے ''گجب کہانیوں'' کی لائنیں لگادیں اور اس کا ادارہ اُس کی بلائیں لیتا نہیں تھکتا تھا۔

اس نے قریب کے عینک سے اپنے ادارے میں رہتے ہوئے بہت کچھ محسوس کر لیا تھا اور کوئی بہت دنوں سے اسے ''بولنے'' کے لئے اکسا رہا تھا لیکن وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ خاموش رہا۔ معاملہ لاکھوں سے کروڑوں تک جا پہنچا تھا۔ ایک رات اس نے اپنی قریب کی عینک فٹ کی اور اپنی نظریں اس جگہ فوکس کر دیں جہاں سے اسے ''بولنے'' کے لئے اکسایا جا رہا تھا۔ آفر بہت بڑی تھی کام وہی ''گجب کہانی'' صرف دفتر اور کیمرے اور ماحول ہی بدلنا تھا۔ اس کا موجودہ ادارہ بھی ڈانواں ڈول تھا، روزانہ صبح شام ادارہ کے لئے ایک ''ڈاکٹر'' معافی کا خواستگار ہو رہا تھا۔ اس کی عینک اسے مبارک باد دے رہی تھی اس نے سپاٹ چہرے کے ساتھ آفر قبول کرلی۔

اسے حیرت اس بات پر تھی کہ وہ جو اس عینک سے دور سے دیکھتا تھا قریب جانے پر منظر کوئی اور ہی ہوتا تھا لیکن یہ اتنے ''ایگزیکٹ'' لوگ اپنے پاکستان میں حیرت کی بات ہے، وہ ان کی کوئی ''گجب کہانی'' تلاش نہ کرسکا وہ روزانہ ڈمی کیمرہ کے سامنے اپنی ''گجب کہانی'' کرتا اور اسٹاف کی تالیوں کی گونج میں اپنے دفتر کی راہ لیتا۔ وہ اپنی آرام دہ کرسی پر انگلیوں پر حساب کرتا کہ ایسے ادارہ پہلے مل جاتا تو پنتیس سال میں کتنے کروڑ اکھٹے ہوجاتے اور ایک ارب تک نہ صرف ہکلا جاتا بلکہ اس کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہوجاتی۔ اچانک ایک دن اس نے دیکھا کچھ چینل اور اخبار اور ہی بول رہے تھے۔ معاملہ سنگینی کی طرف جا رہا تھا، پھر اس نے اپنے ''ضمیر'' کی آواز پر ''بولنے'' سے پہلے ہی خاموش رہنے کا فیصلہ کر لیا وہ پہلا کپتان تھا جو اس جہاز سے اترا.

اسے حیرت اپنی عینک پر تھی، اُس نے عینک اتار کر دیکھا تو اسے محسوس ہوا کہ اس کی آنکھوں پر اب بھی کوئی پٹی نما چیز ہے، اس نے اس پٹی کو اتارا تو وہ لالچ کی پٹی تھی۔ لالچ کی پٹی اتار کر اس نے دوباری عینک پہنی اور نیلے رنگ کے جگمگاتے ہوئے چینل کی طرف دیکھنے لگ گیا جو اسے ''دعوت گناہ '' دے رہا تھا اور اب ایک بار پھر گجب کہانی کا سلسلہ بحال ہوگیا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں