لسی چاہئیے حضور ۔۔ لسی
اگر دہی اور لسی کے ’’کیس اسٹڈی‘‘ سے بات نہ بنے تو شاید یہ بات بھی کپتان کو کرکٹ کی زبان میں ہی سمجھنا، سمجھانا پڑے گی۔
ISLAMABAD:
گرمیوں میں لسی سے اچھا مشروب شاید ہی کوئی ہو۔ پیاس بجھاتی ہے اور سینے میں ''ٹھنڈ'' لاتی ہے، پنجاب اور سندھ کے علاقوں میں نہ صرف دن کے وقت بلکہ ناشتے میں بھی پسند کی جاتی ہے۔ اگر آپ شدید گرمی کے موسم میں دیہات کے کسی بھی ڈیرے پر جائیں تو جھٹ سے لسی پیش کردی جاتی ہے۔ لسی کی کئی اقسام ہیں جن کے بارے میں ''قلم آرائی'' کسی اور وقت کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں۔
یوں تو باقاعدہ اہتمام کے ساتھ لسی بنانے کے لئے پہلے سے ہی دودھ الگ کرکے دہی جمایا جاتا ہے مگر وہ علاقے جہاں دودھ کی فراوانی نہ ہو بالخصوص آزاد کشمیر اور''کے پی کے'' کے پہاڑی علاقوں میں دہی جمانے کی باری عام طور پر تب ہی آتی ہے جب کبھی دودھ ''کھٹا'' ہوجائے۔ اب یہ ''دودھ کھٹا'' ہونے کو ''انگور کھٹے'' ہونے کے وزن اور مفہوم پر نہ لیا جائے، یہ بات بہت سارے قارئین کے لئے شاید نئی ہو اس لئے اس کی وضاحت کئے دیتے ہیں۔
دراصل دودھ کھٹا ہونے سے مراد یہ کہ اگر کبھی گھر کی مالکن گھر نہ ہوں اور ان کی غیر موجودگی میں دودھ والا دودھ دے جائے مگر بچوں کی عدم دلچسپی یا پھر ملازمہ کی بُھول چُوک کے سبب دودھ کو وقت پر اُبالا نہ جاسکے اور فریج میں رکھنا بھی بھول جائیں تو یہ دودھ ایک آدھ دن میں کھٹا ہوجاتا ہے اور اگر اس کو جما دیا جائے تو ''جاگ'' کے بغیر ہی دہی بن جاتا ہے۔
خیر بات لسی سے دہی پر چلی گئی اور کیوں نہ جائے ۔۔۔ آخر کار دہی ''بلو'' کر یا آسان لفظوں میں دہی کا ''پھینٹا'' لگا کر ہی تو لسی بنتی ہے ۔۔۔ لسی کھٹی بھی ہوتی ہے اور میٹھی بھی، اور ''چاٹی'' کی لسی کی تو کیا ہی بات ہے، مگر کبھی کبھی لسی کڑوی بھی ہوجاتی ہے۔ دراصل دہی زیادہ پرانا ہوجائے یا دہی میں کوئی گندی، کڑوی چیز گِرجائے یا پھر جس برتن میں دہی لگایا جائے اگر صاف نہ ہو تو دھی کڑوا ہوجاتا ہے اور صاف ظاہر ہے کہ کڑوے دہی کی لسی بھی تو ۔۔۔۔
کچھ لوگ دہی اور لسی کو ''زہریلا'' دہی یا پھر زہریلی لسی بھی کہتے ہیں کیوںکہ اس سے پیٹ خراب ہوجاتا ہے، جسے آج کل کی آسان زبان میں فُوڈ پوائزننگ بھی کہتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال شاید اپنے پاکستان کی سیاست کا بھی ہے، یہاں کی سیاست میں تبدیلی لانے والے بھی زہریلے دہی یا پھر چلئیے یوں کہہ لیتے ہیں کہ کڑوے دہی کو ''بلو'' کر اس سے میٹھی لسی بنانا چاہتے ہیں۔ کچھ ''من کے کالے'' کچھ ''کرتُوتوں کے کالے'' اورکچھ ''تن من دھن'' سب کچھ کے کالے اگر سبز و سُرخ رنگ میں ''رنگ'' کر یا یوں کہہ لیجئیے ''اشنان'' کرکے اور ''استری'' ہو کر ایک ''تبدیل انسان'' بن بھی جائیں تو یہ ''تبدیلی'' بھلا کتنی دیر پا ہوگی کیونکہ کالے رنگ پر سرخ سا سبز بھلا کتنا عرصہ ٹھہرسکتا ہے۔
صاحبو!!!۔۔۔ اگر دودھ بھی ملاوٹ والا ہو، برتن بھی صاف نہ ہو اور دہی صحیح طور پر جما بھی نہ ہو، بلونے والا برتن اور ہاتھ بھی دھلے نہ ہوں تو لسی کیسے خوب بنے؟ کچھ یہی حال ''کپتان'' کے پاکستان کا بھی ِدکھتا ہے۔
حال ہی میں کےپی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات بھی یہی بتاتے ہیں کہ ہم''تبدیلی'' کے لئے کتنی بھی خواہش کرلیں اور کاسمیٹک سرجری کرلیں لیکن جب تک ''اندر'' تبدیلی رونما نہ ہو گی تب تک بیرونی تبدیلی جسے انگریزی میں کاسمیٹک چینج بھی کہا جاتا ہےکچھ نہیں کر سکتی۔ اگر دہی اور لسی کے ''کیس اسٹڈی'' سے بات نہ بنے تو شاید کبھی یہ بات بھی کپتان کو کرکٹ کی زبان میں ہی سمجھنا، سمجھانا پڑے گی۔ تب تک تو بس۔۔۔۔
ایک گلاس لسی چاہئیے حضور!!!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
گرمیوں میں لسی سے اچھا مشروب شاید ہی کوئی ہو۔ پیاس بجھاتی ہے اور سینے میں ''ٹھنڈ'' لاتی ہے، پنجاب اور سندھ کے علاقوں میں نہ صرف دن کے وقت بلکہ ناشتے میں بھی پسند کی جاتی ہے۔ اگر آپ شدید گرمی کے موسم میں دیہات کے کسی بھی ڈیرے پر جائیں تو جھٹ سے لسی پیش کردی جاتی ہے۔ لسی کی کئی اقسام ہیں جن کے بارے میں ''قلم آرائی'' کسی اور وقت کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں۔
یوں تو باقاعدہ اہتمام کے ساتھ لسی بنانے کے لئے پہلے سے ہی دودھ الگ کرکے دہی جمایا جاتا ہے مگر وہ علاقے جہاں دودھ کی فراوانی نہ ہو بالخصوص آزاد کشمیر اور''کے پی کے'' کے پہاڑی علاقوں میں دہی جمانے کی باری عام طور پر تب ہی آتی ہے جب کبھی دودھ ''کھٹا'' ہوجائے۔ اب یہ ''دودھ کھٹا'' ہونے کو ''انگور کھٹے'' ہونے کے وزن اور مفہوم پر نہ لیا جائے، یہ بات بہت سارے قارئین کے لئے شاید نئی ہو اس لئے اس کی وضاحت کئے دیتے ہیں۔
دراصل دودھ کھٹا ہونے سے مراد یہ کہ اگر کبھی گھر کی مالکن گھر نہ ہوں اور ان کی غیر موجودگی میں دودھ والا دودھ دے جائے مگر بچوں کی عدم دلچسپی یا پھر ملازمہ کی بُھول چُوک کے سبب دودھ کو وقت پر اُبالا نہ جاسکے اور فریج میں رکھنا بھی بھول جائیں تو یہ دودھ ایک آدھ دن میں کھٹا ہوجاتا ہے اور اگر اس کو جما دیا جائے تو ''جاگ'' کے بغیر ہی دہی بن جاتا ہے۔
خیر بات لسی سے دہی پر چلی گئی اور کیوں نہ جائے ۔۔۔ آخر کار دہی ''بلو'' کر یا آسان لفظوں میں دہی کا ''پھینٹا'' لگا کر ہی تو لسی بنتی ہے ۔۔۔ لسی کھٹی بھی ہوتی ہے اور میٹھی بھی، اور ''چاٹی'' کی لسی کی تو کیا ہی بات ہے، مگر کبھی کبھی لسی کڑوی بھی ہوجاتی ہے۔ دراصل دہی زیادہ پرانا ہوجائے یا دہی میں کوئی گندی، کڑوی چیز گِرجائے یا پھر جس برتن میں دہی لگایا جائے اگر صاف نہ ہو تو دھی کڑوا ہوجاتا ہے اور صاف ظاہر ہے کہ کڑوے دہی کی لسی بھی تو ۔۔۔۔
کچھ لوگ دہی اور لسی کو ''زہریلا'' دہی یا پھر زہریلی لسی بھی کہتے ہیں کیوںکہ اس سے پیٹ خراب ہوجاتا ہے، جسے آج کل کی آسان زبان میں فُوڈ پوائزننگ بھی کہتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال شاید اپنے پاکستان کی سیاست کا بھی ہے، یہاں کی سیاست میں تبدیلی لانے والے بھی زہریلے دہی یا پھر چلئیے یوں کہہ لیتے ہیں کہ کڑوے دہی کو ''بلو'' کر اس سے میٹھی لسی بنانا چاہتے ہیں۔ کچھ ''من کے کالے'' کچھ ''کرتُوتوں کے کالے'' اورکچھ ''تن من دھن'' سب کچھ کے کالے اگر سبز و سُرخ رنگ میں ''رنگ'' کر یا یوں کہہ لیجئیے ''اشنان'' کرکے اور ''استری'' ہو کر ایک ''تبدیل انسان'' بن بھی جائیں تو یہ ''تبدیلی'' بھلا کتنی دیر پا ہوگی کیونکہ کالے رنگ پر سرخ سا سبز بھلا کتنا عرصہ ٹھہرسکتا ہے۔
صاحبو!!!۔۔۔ اگر دودھ بھی ملاوٹ والا ہو، برتن بھی صاف نہ ہو اور دہی صحیح طور پر جما بھی نہ ہو، بلونے والا برتن اور ہاتھ بھی دھلے نہ ہوں تو لسی کیسے خوب بنے؟ کچھ یہی حال ''کپتان'' کے پاکستان کا بھی ِدکھتا ہے۔
حال ہی میں کےپی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات بھی یہی بتاتے ہیں کہ ہم''تبدیلی'' کے لئے کتنی بھی خواہش کرلیں اور کاسمیٹک سرجری کرلیں لیکن جب تک ''اندر'' تبدیلی رونما نہ ہو گی تب تک بیرونی تبدیلی جسے انگریزی میں کاسمیٹک چینج بھی کہا جاتا ہےکچھ نہیں کر سکتی۔ اگر دہی اور لسی کے ''کیس اسٹڈی'' سے بات نہ بنے تو شاید کبھی یہ بات بھی کپتان کو کرکٹ کی زبان میں ہی سمجھنا، سمجھانا پڑے گی۔ تب تک تو بس۔۔۔۔
ایک گلاس لسی چاہئیے حضور!!!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس