بھارت میں علیحدگی کی تحریکیں

ریاستی دہشت گردی اور عالمی طاقتوں کی خود غرضانہ سرپرستی کب تک ان تحریکوں کو دباسکے گی؟

1970 میں بھارتی پنجاب میں سکھوں نے اکالی دل کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کا مقصد سکھوں کے حقوق کی پاس داری تھا ۔ فوٹو : فائل

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ریاست بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی صرف مقبوضہ کشمیر تک محدود نہیں، پورا بھارت ہی مذہبی، لسانی اور معاشرتی تعصبات اور ریاستی دہشت گردی کا شکار ہے۔

عام طور سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ بس بھارت سے آزادی کی تحریک صرف کشمیر میں چل رہی ہے مگر یہ خیال درست نہیں۔ کشمیر کے علاوہ مشرقی پنجاب ( خالصتان ) تامل ناؤ، آسام، ناگالینڈ، تری پورہ، منی پور، شمالی مشرقی بھارت سمیت کئی ریاستوں میں بھی علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں، ہاں اتنا ضرور ہے کہ بھارت اپنے مضبوط جمہوری نظام، عالمی طاقتوں کی پشت بانی، کالے قوانین اور قوت کے بے محابا استعمال کی وجہ سے علیحدگی کی ان تحریکوں کو دبائے رکھنے میں کامیاب نظر آتا ہے مگر وہ کب تک ایسا کرسکے گا؟ اس کا جواب وقت ہی دے گا۔



بھارت میں 1958 میں ''AFSPA'' کے نام سے ایک قانون متعارف کرایا گیا جس کا مقصد فوج کو خصوصی اختیارات دے کر ملک بھر میں جاری علیحدگی پسند تحریکوں کو کچلنا تھا۔ اس قانون کے تحت ایک عام سپاہی کو بھی یہ اختیار حاصل ہوگیا کہ وہ کسی بھی شخص کو غداری کے زمرے میں لاکر جیل بھجواسکتا تھا اور سر عام قتل بھی کرسکتا تھا۔ اس اختیار کا استعمال کرتے ہوئے بھارتی فوج نے علیحدگی پسندوں کے خون سے خوب ہولی کھیلی، اس قانون کا اطلاق سب سے پہلے کشمیر اور منی پورہ میں کیا گیا جو بھارتی نقطہ نظر سے بہت کامیاب رہا۔

بعد ازاں اسے پورے بھارت میں نافذ کردیاگیا، چنانچہ بھارت سے علیحدگی یا آزادی کی کوئی بھی تحریک سر اٹھاتی ہے تو بھارتی فوج تمام جائز و ناجائز ذرائع اور ظلم و جبر کے تمام حربے استعمال کرتے ہوئے اسے کچل دیتی ہے۔ لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے، ان کی جائیداد و املاک نذر آتش کردی جاتی ہے، خواتین کی عصمتیں پامال کرنے میں کوئی شرم اور جھجھک محسوس نہیں کی جاتی، نوجوانوں کو گرفتار کرکے بغیر مقدمہ چلائے جیلوں اور عقوبت خانوں میں ڈال دیاجاتا ہے جہاں سے اکثر کبھی واپس نہیں آتے۔ اس سب کا مظاہرہ اکثر مقبوضہ کشمیر میں سامنے آتا ہے۔

1970 میں بھارتی پنجاب میں سکھوں نے اکالی دل کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کا مقصد سکھوں کے حقوق کی پاس داری تھا۔ تنظیم کے تحت وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ملک میں سکھوں کے ساتھ روا رکھے گئے ناروا سلوک کو ختم کرے اور انھیں تمام شعبوں میں ہندو اکثریت کے مساوی حقوق دیے جائیں تاہم بھارت کی اس عرصے میں بننے والی کسی بھی حکومت نے سکھوں کے ان جائز مطالبات پر کان نہیں دھرا اور نسلی و مذہبی تعصب کی بنا پر امتیازی سلوک اور زیادتیاں جاری رکھیں۔ سکھوں نے ہندو حکمرانوں کے رویے سے مایوس مگر حکومت کی جانب سے اس مطالبے کے جواب میں قیادت اور کارکنوں کی گرفتاریاں شروع کردی گئیں۔

ان پر اور ان کے حامیوں اور ہم دردوں پر عرصہ حیات تنگ کردیاگیا تو سکھوں نے 1980 میں باقاعدہ مسلح جدوجہد کا آغاز کردیا، بھارتی حکومت نے سکھوں کی اس تحریک کو کچلنے کے لیے ریاستی طاقت کا بھرپور استعمال کیا۔ سکھوں کی آبادیوں پر باقاعدہ فوج کشی کروائی گئی۔ خالصتان تحریک کے رہنماؤں کے گھروں اور دفتروں پر چھاپے مارے گئے، انھیں پابند سلاسل کیا گیا، ان کا ماورائے عدالت قتل کیا گیا لیکن وہ تحریک کا زور نہیں توڑسکی، آخر کار 1984 میں بھارتی فوج نے امرتسر کے گولڈن ٹمپل پر باقاعدہ حملہ کردیا، سکھوں کے اس مقدس مقام کی حرمت جوتوں تلے روند ڈالی گئی۔

قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا۔ مذہبی قیادت کو گرفتار کرلیا گیا۔اسی دوران اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو ان کے دو سکھ محافظوں نے قتل کردیا جس سے صورت حال مزید خراب ہوگئی۔ حکومت کو بہانہ بھی ہاتھ آگیا اور اس کے حکم پر بھارتی فوج نے بڑا آپریشن کیا اور اکالی دل و خالصتان تحریک کی قیادت کے خلاف بھرپور طاقت کا استعمال کرتے ہوئے تحریک کو دبادیا۔ 1990 تک یہ تحریک اپنی فعالیت کھوچکی تھی۔ تاہم خالصتان کا نظریہ آج بھی زندہ اور توانا ہے۔



٭تامل ناؤ: 1937 میں کانگریس کی صوبائی حکومت نے مدراس کے اسکولوں میں (موجودہ چنائے) میں جہاں تامل زبان بولنے والوں کی اکثریت تھی ہندی زبان کی تعلیم کو لازمی قرار دے دیا، اگرچہ وہ انگریز کا دور تھا مگر صوبوں میں کانگریس کے گورنر تھے جنھیں مکمل اختیارات حاصل تھے۔ تامل ہندو مذہب ہی کے ماننے والے ہیں، مگر انھوں نے ہندی زبان کا تسلط قبول نہیں کیا اور اپنے بچوں کو ہندی پڑھانے سے انکار کردیا۔ ریاست کی جانب سے اصرار کیا گیا تو انھوں نے اس کے خلاف احتجاج شروع کردیا۔ وہ جانتے تھے کہ ہندی بولنے والے حکمرانوں کے اس اقدام کا مقصد تامل بولنے والوں کو اپنا تابع بنانا ہے اور بڑی حد تک یہ بات درست بھی تھی۔

1945 اور پھر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد 1950 کی دہائی میں تاملوں کا یہ احتجاج زور پکڑ گیا، ہڑتالیں کی گئیں، ریلیاں نکالی گئیں، اسکولوں اور حکومتی اداروں کے باہر احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ کانگریس وزیروں کی مدراس آمد پر سیاہ پرچم لہرائے جاتے، لیکن بھارت کے متعصب حکمران اپنی ازلی ہٹ دھرمی چھوڑنے پر تیار نہ تھے۔ پولیس اور فوج نے تاملوں کو ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایا، سیکڑوں لوگ جیلوں میں ڈالے گئے، تشدد کے واقعات میں بہت سے لوگ مارے گئے، بے شمار زخمی ہوئے، 1965 میں طلبہ نے اس تحریک کو عروج پر پہنچادیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس وقت تک تمام تامل بشمول طلبہ غیر مسلح تھے اور ان کی تحریک صرف ہندی بولنے والوں کے تسلط کے خلاف تھی۔


جنھوں نے پہلے ہندی زبان ان پر مسلط کرنے کی کوشش کی اور بعد میں لسانی منافرت پھیلائی اور لسانیت کی بنیاد پر تاملوں کے حقوق غصب کرنا شروع کیے۔ پر امن احتجاج کرنے والے تاملوں پر بھارتی حکمرانوں نے بہیمانہ تشدد کرایا۔ ایک ہفتے کے اندر سیکڑوں تامل پولیس کے ہاتھوں قتل اور زخمی ہوئے۔ مرنے والوں کی تعداد کم ظاہر کرنے کے لیے خفیہ طور پر ان کی لاشیں جلادی گئیں۔

یہ ایسی خوفناک صورت حال تھی جس پر اقوام متحدہ تک خاموش نہ رہ سکی اور اس نے ان واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا حالانکہ اقوام متحدہ کی پالیسی کے مطابق یہ عالمی ادارہ کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ مگر بھارت کے انتہا پسند حکمرانوں نے تاملوں کے ساتھ اس قدر وحشیانہ سلوک کیا کہ اقوام متحدہ بھی چپ نہ رہ سکی۔بھارتی حکمران تاملوں کو خاموش نہ کراسکے تو انھوں نے وعدہ کیا کہ ہندی زبان زبردستی تاملوں پر مسلط نہیں کی جائے گی لیکن وہ بھارتی حکمران ہی کیا جو وعدہ وفا کر جائیں۔ یہ وعدہ بھی ان کی ایک روایتی چال تھی۔

1968 میں تاملوں کو بخوبی اندازہ ہوگیا کہ ہندی بولنے والے حکمران کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ لہٰذا ان کی تحریک نے ایک نیا موڑ لیا اور بجائے ''ہندی زبان سے آزادی'' حاصل کرنے کے انھوں نے بھارت سے ہی آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کردی۔ اس کا عملی مظاہرہ انھوں نے اس وقت دیکھا جب حکومتی اور نجی اداروں میں تاملوں پر روز گار کے دروازے بند کیے گئے یعنی اگر کسی تامل کو ہندی نہیں آتی تو وہ کسی اچھے ادارے میں نوکری نہیں حاصل کرسکتا تھا۔

اس لیے تاملوں نے بھارت ہی سے علیحدگی کی ٹھان لی۔ لیکن یہ تحریک اب تک اس لیے زبان موثر نہیں ہوسکی کہ مرکز یا صوبے میں کبھی کوئی تامل برسر اقتدار نہیں آیا۔ لوگوں کے پاس وسائل اور اختیارات کی کمی ہے بلکہ یہ کہنا باکل بجا ہوگا کہ متعصب بھارتی حکمرانوں نے تامل ناؤ کو وسائل سے محروم کر رکھا ہے، اس کے باوجود تامل ناؤ میں آزادی کی تحریک کمزور سہی مگر جاری ہے۔

٭آسام: بھارتی ریاست آسام میں آزادی کی تحریک 90 کی دہائی میں شروع ہوئی جب ایک مسلح گروہ یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام نے آسام کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ بھارتی حکومت نے اس تنظیم کو فی الفور نہ صرف کالعدم قرار دے دیا بلکہ اس کے خلاف آرمی آپریشن بھی شروع کردیا گیا جو تاحال جاری ہے، بھارتی فوج نے خود کو حاصل چنگیز خانی اختیارات کے تحت آسام کے لوگوں پر ظلم و جبر کی انتہا کردی۔ 10 ہزار سے زائد آسامیوں کو قتل کردیاگیا ہے، ہزاروں زخمی ہوئے جن میں سے بہت سے زندگی بھر کے لیے معذور ہوگئے ہیں۔ سیکڑوں لاپتا ہیں ۔

آسام میں مسلم یونائیٹڈ لبریشن ٹائیگرز آف آسام کے نام سے ایک مسلم تنظیم بھی کام کررہی ہے جو آسام کے مسلمانوں کو بھارت سے آزادی دلانا چاہتی ہے تاہم اس تنظیم کا کردار بہت زیادہ موثر نہیں ہے۔آسام میں جاری علیحدگی کی تحریکوں کو عوام کی کھلی اور بھرپور حمایت حاصل نہ ہونے کا سبب بھارتی فوج کے وہ انسانیت سوز مظالم ہیں جو وہ محض معمولی سا شک ہوجانے پر لوگوں پر ڈھاتی ہے اور اکثر اس کی زد میں بے گناہ معصوم لوگ بھی آتے ہیں۔ بھارتی فوج کے ہاتھوں کسی کے جان و مال محفوظ ہیں اور نہ عزت و آبرو۔ بھارتی حکومت ان مظالم کے لیے فوج کو بے تحاشا فنڈ فراہم کرتی ہے اور انھیں ہر طرح کی چھوٹ دے رکھی ہے، لیکن یہ ظلم وجور آسامیوں کے دلوں میں آزادی کی تڑپ میں کم کی بجائے اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ وقت کے ساتھ آزادی کی یہ چنگاریاں شعلہ حوالہ میں ڈھل رہی ہیں جو ایک دن بھڑکے گا اور اپنی راہ کی ہر رکاوٹ کو جلاکر خاک کردے گا۔

علیحدگی کی ایسی ہی تحریکیں ناگالینڈ، منی پور اور تری پورہ میں بھی جاری ہیں اور ان ریاستوں کے باسی بھی بھارت کی حکومتوں کے جانب دارانہ رویوں اور بھارتی فوج کے آپریشن کے نام پر دہشت گردی اور قتل و غارت گری سے سخت نالاں ہیں اور بھارت کے ساتھ مزید رہنے کو تیار نہیں۔ ان کی مشکل و سائل کی کم یابی اور مناسب قیادت کا فقدان ہے جس دن وسائل اور اچھی قیادت ملی علیحدگی کی تحریکیں پوری توانائی سے شروع ہوجائیں گی اور بھارت کا ان ریاستوں کو اپنے ساتھ رکھنا ممکن نہ رہے گا۔



بھارت ایک کثیرالقومی اور کثیر اللسانی ملک ہے اور یہاں مذکورہ علاقوں کے علاوہ بھی بہت سی ریاستوں میں علیحدگی کے رجحانات پائے جاتے ہیں کیوں کہ وہاں کے باسی اپنے حکمرانوں کے رویوں کے سخت شاکی ہیں جو اپنے رویوں اور کرتوتوں میں کوئی تبدیلی لانے پر بھی آمادہ نہیں مگر بھارت کی خوش نصیبی ہے کہ اس کے اطراف کوئی ایسا ملک موجود نہیں ہے جو خود بھارت ہی کی طرح دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور علیحدگی پسندانہ رجحانات کو فروغ دینے اور ان کی مدد و حمایت کا شوق رکھتا ہو۔

مناسب وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بھارت میں موجود آزادی کی تحریکوں کو موثر بین الاقوامی رسائی حاصل نہیں ہے اور اس کا سہرا بھارتی ذرائع ابلاغ کے سر بھی جاتا ہے۔ سچ دکھانے کا علم بردار بھارتی میڈیا ان تحریکوں سے متعلق بات کرنا تو دور ان کے بارے میں خبر دینے میں بھی بہت احتیاط بلکہ بخل سے کام لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا علیحدگی کی ان تحریکوں اور ان کو دبانے کے لیے بھارتی حکمرانوں اور فوج کے مظالم سے بے خبر رہتی ہے۔

عالمی طاقتوں کی خالصتان اپنے مفاد میں کی جانے والی بھارت کی سرپرستی بھی اس کے خوفناک چہرے کو دنیا کے سامنے بے نقاب نہیں ہونے دیتی۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو بھارتی فوج کے مظالم یا بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی کوئی سن گن ملتی ہے اور وہ اس پر شور مچاتی ہیں تو بھارت کی سرپرست عالمی طاقتیں انھیں خاموش کرادیتی ہیں۔
Load Next Story