چوری اور سینہ زوری
ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کا مطالعہ اتنا محدود ہو گیا ہے کہ وہ چوری پکڑ نہ سکیں۔
ادبی سرقہ نویسی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دنیا ایسے بدنیت لوگوں سے بھری پڑی ہے جو کسی کی بھی تخلیق بڑی دیدہ دلیری اور بغیر کسی شرمندگی کے اپنے نام سے شایع کروا کے داد بھی سمیٹ لیتے ہیں لیکن جونہی پردہ فاش ہوتا ہے تو یہ کسی ندامت یا معذرت کے بغیر کچھ عرصے کے لیے منظر سے غائب ہو جاتے ہیں اور جونہی معاملہ ذرا ٹھنڈا ہوتا ہے پھر نئی چوری کے ساتھ جلوہ گر ہو جاتے ہیں۔
بہت سے ایسے سارق جو ہندی جانتے ہیں انھوں نے بڑی ڈھٹائی سے ہندی افسانوں پہ ہاتھ صاف کیا اور چوری شدہ افسانہ اردو میں منتقل کر کے اپنے نام سے پہلے کسی ادبی پرچے میں شایع کروایا، پھر اسے اپنے افسانوی مجموعے میں بھی شامل کر لیا۔ بعد میں جب ان کی چوری پکڑی گئی اور اصل افسانہ اصل تخلیق کار کے نام سے سامنے آ بھی گیا تو انھوں نے چپ سادھ لی۔ بعض سینئر لکھنے والوں نے انگریزی اور فرانسیسی پہ ہاتھ صاف کیا۔ ایک معروف جاسوسی کہانیاں لکھنے والے بھی اس لت سے محفوظ نہ رہے۔ انھوں نے صرف اپنے کرداروں کو مشرف بہ اسلام کیا، باقی پوری واردات بعینہ نقل یا سرقہ کہلائے گی لیکن ان کی بھی چوری جب چھپ نہ سکی تو انھوں نے یہ اعتراف کرنے میں بہتری سمجھی کہ ''ہاں۔۔۔وہ ان کے کرداروں سے متاثر ہیں۔''
اسی طرح ایک سینئر صحافی ہے۔ انھوں نے رائیڈر ہیگرڈ کے شہرہ آفاق ناول "SHE" اور "Return of She" کی تلخیص کر کے اپنے نام سے ایک ہفت روزے میں شایع کروا دی۔ ''توجہ دلاؤ نوٹس'' کے جواب میں نہ تو ایڈیٹر نے کوئی توجہ دی نہ ہی متعلقہ صحافی نے معذرت کرنا ضروری سمجھا کہ یہاں تو ہر چیز بکتی ہے۔ بس قیمت من مانی ملنی چاہیے۔
ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کا مطالعہ اتنا محدود ہو گیا ہے کہ وہ چوری پکڑ نہ سکیں۔ "She" رائیڈر ہیگرڈ کی وہ مایہ ناز تصنیف ہے جو اپنی طلسماتی فضا، پراسرار واقعات اور ایک منفرد پلاٹ کی بنا پر دنیا بھر میں بہت مقبول ہوئی۔ اس کا دنیا کی بیشتر زبانوں میں ترجمہ ہوا، عربی میں جب ترجمہ ہوا تو مرکزی کردار کا نام ''عذرا'' تھا۔ دوسرے حصے کا نام ''عذرا کی واپسی'' تھا۔ یہ بھی سنا گیا کہ اصل ناول عربی میں لکھا گیا تھا۔ جسے بعد میں رائیڈر ہیگرڈ نے ایڈٹ کیا۔ واللہ عالم۔۔۔۔ اردو میں بھی کئی لوگوں نے ترجمے کیے۔
لیکن سب سے اچھا ترجمہ ثریا اقبال کا مانا جاتا ہے۔ میرے والد نے مجھے یہی ترجمہ اسکول کے زمانے میں لا کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ترجمہ اصل سے بہت قریب ہے۔ میں آج تک اس کی ہیروئن عائشہ اور ہیرو لیو ونسے (Leo Vincey) کی کہانی اور پراسراریت کو نہیں بھلا پائی۔ عائشہ چاند کی مخصوص تاریخ میں شعلوں کا غسل کرتی ہے اور پہلے سے زیادہ جو ان ہو جاتی ہے۔ جب کہ اصل میں وہ ایک ساحرہ ہوتی ہے اور بہت عمر رسیدہ ہوتی ہے۔
لیکن ایک بار وہ مقررہ وقت سے زیادہ شعلوں کا غسل کر لیتی ہے تا کہ زیادہ خوبرو اور کمسن نظر آئے۔ لیکن یہی مقررہ وقت سے زیادہ کا غسل اسے اس کی اصل عمر اور چہرے کے ساتھ لیو ونسے کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے اور پھر وہ اپنی پرانی محبوبہ کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ سرقہ نویس نے آخری قسط تک رائیڈر ہیگرڈ کے نام کا حوالہ نہ دیا۔
اسی طرح ایک معروف ادیب نے ایک ناول اور ٹی وی سیریل "The Ghost of Mrs Muir" کا ترجمہ ''پراسرار محبت'' کے نام سے اسی ہفت روزے میں اپنے نام سے لکھ کر پیسے بٹور لیے۔ جب کہ یہ ناول جس پر فلمیں اور ٹی وی سیریل بھی بنے R.A. Dick نامی خاتون نے 1947ء میں لکھا تھا۔ یہ 8 جون 1898ء میں پیدا ہوئیں اور 1979ء میں وفات پا گئیں۔ یہ جوزفین ایمی کے نام سے جانی جاتی تھیں۔
آج بھی یہ کام عروج پر ہے۔ بڑے بڑے بزعم خود لکھاری دنیا بھر کے اخبارات و رسائل سے مضامین چھانٹ کر اپنے نام سے انٹرنیٹ پہ ڈال دیتے ہیں۔ جو باظرف ہوتے ہیں وہ اخذ کردہ مضمون یا غزل کے اصل خالق کا نام بھی ساتھ لگا دیتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ facebook پر ادبی چوروں کا ایک گروہ جس دیدہ دلیری اور ڈھٹائی کے ساتھ دوسروں کی تخلیقات اپنے نام اور تصویر کے ساتھ ڈال رہا ہے وہ حیران کن ہے؟ وہ بھی ان ادیبوں کی تخلیقات جو بقید حیات ہیں۔ اور ایک بھرپور فعال زندگی گزار رہے ہیں۔
اب سنیے اصل واردات کا قصہ جس کے لیے ایک طولانی تمہید درمیان میں آ گئی۔لاہور سے شایع ہونے والے ایک ماہنامے کے مارچ 2014ء کے شمارے میں ''گردش ایام'' کے عنوان سے معروف سینئر صحافی، شاعر اور ترجمہ نگار قاضی محمد اختر کا یہ مضمون چھپا، جو ان کی یادداشتوں پہ مشتمل تھا۔ یہ طویل مضمون جس میں کراچی کے سابق میئر اور نہایت شریف النفس سادہ دل انسان جناب عبدالستار افغانی کے علاوہ پہلی بار سیٹھ عابد حسین کے حوالے سے نہایت چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے تھے۔
ان کے علاوہ کچھ اور بھی دلچسپ حقائق و واقعات تھے۔ یہ مضمون بیرون ملک بھی بہت پسند کیا گیا تھا۔ چند دن قبل یہ مضمون مختلف ٹکڑوں کی صورت میں ''فیس بک'' پہ ڈالا گیا۔ اور نہایت دیدہ دلیری سے سارق نے قاضی اختر کے بجائے مضمون پر اپنا نام اور بڑی سی تصویر چسپاں کر دی۔ اس طرح کہ یہ معلوم ہو کہ لکھنے والے یہی سارق ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اس جانب توجہ دلائی۔
لیکن موصوف نے چپ سادھ لی۔ کم از کم ''فیس بک'' پر ہی معذرت کر لیتے۔ لیکن نہیں۔ اسی طرح اسی مضمون ''گردش ایام'' کو لاہور کے ایک صاحب نے بھی اپنے پیج پہ ڈالا لیکن انھوں نے اتنی شرافت برتی کہ مصنف کے نام کی جگہ خالی چھوڑ دی۔ صرف یہی نہیں بلکہ لاہور سے فون کر کے معذرت بھی کی اور اس کوتاہی کو اپنی غلطی تسلیم کیا۔
سوال یہ ہے کہ انٹرنیٹ پہ بے شمار چیزیں بکھری پڑی ہیں۔ بہت اچھی بات ہے کہ ان میں سے کام کی چیزیں نکال کر قارئین کے لیے طمانیت کا سامان مہیا کیا جائے۔ لیکن کیا یہ طریقہ درست ہے کہ کسی کی تخلیق پر سے اس کا نام اڑا کر کسی اور کا نام ڈال دیا جائے؟ افسوس اس بات کا بھی ہوتا ہے کہ facebook جو مجھے ایک جناتی ڈبہ لگتا ہے۔ اس پہ سنجیدہ افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
99 فیصد Like جنریشن ہے جو کسی بھی چیز کو پڑھے بغیر Like کو کلک کر دیتی ہے۔ اور جہاں سنجیدہ، علمی و ادبی موضوعات پہ رائے دینے یا نوٹس لینے کی بات ہے تو برائے نام ہی لوگ اس فہرست میں دستیاب ہیں۔ فیس بک صرف چہرہ نمائی تک محدود ہو گئی ہے۔ کیسے بال بنانے ہیں، کون سا نیا ڈریس پہننا ہے، کون سا نیا پوز دکھانا ہے اور ۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔۔!!
لے دے کے عقیل عباس جعفری اور راشد اشرف رہ گئے ہیں جو نہ صرف ادبی چوروں کے کرتوت سامنے لا رہے ہیں بلکہ نئی پرانی تاریخی کتابوں اور نادر تصاویر سے ہمیں روشناس کرا رہے ہیں۔ ورنہ تو جو نظر آتا ہے وہ ناقابل برداشت ہے۔ ثقہ اور سنجیدہ لوگوں کے اعصاب پر فیس بک پہ لکھے گئے کمنٹ کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑتے۔
قارئین سے گزارش ہے کہ کہیں بھی کسی بھی جگہ اگر کوئی چوری کی تحریر نظر آئے اور آپ کے علم میں اس کے اصل خالق کا نام ہو تو پرنٹ میڈیا یا سوشل میڈیا کے ذریعے اس چوری کو ضرور بے نقاب کیجیے۔ یہاں ایسے ایسے شاطر موجود ہیں جنھوں نے کسی کی بیاض اڑا کر پورا کلام اپنے نام سے شایع کروا لیا ، اور اصل شاعر بے چارہ منہ دیکھتا رہ گیا۔