ضرب ِ قیامت
لوگ اونچے اونچے مکانات تعمیر کررہے ہیں اور عیش و عشرت کی تلاش میں صبح و شام ایک کررہے ہیں۔
ISLAMABAD:
ماہ و سال کی گردش نے قربِ قیامت کو قریب سے قریب ترکردیا ہے، قرآن حکیم میں کی گئی پیشنگوئیاں بھی حرف بہ حرف پوری ہوتی جارہی ہیں۔ صاحبِ ایمان کم اور صاحب ثروت حضرات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
لوگ اونچے اونچے مکانات تعمیر کررہے ہیں اور عیش و عشرت کی تلاش میں صبح و شام ایک کررہے ہیں۔ اﷲ رب العزت نے حکمت کو پسند فرماتا ہے اورکائنات کے اسرارو رموز پر غوروفکر کرنے کی ہدایت کرتا ہے اور سچ ہے کہ عالم دانشور ہی حالات زمانہ کے نشیب وفرازکو اچھی طرح سمجھ رہے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ دنیا اپنے انجام کی طرف لوٹ رہی ہے۔
یہ سب سمجھتے ہوئے بھی نادان سفر آخرت کے لیے توشہ تیار نہیں کررہا ہے؟ ایک افراتفری اور بھاگ دوڑکا عالم ہے کہ بس حرص وہوس کی سواری پر سوار ہیں اور دنیاوی نفع کے لیے منافقت اور جعلسازی سے کام کرتے نہیں تھکتے، انجام جانتے ہوئے بھی اعمال صالح کرنے سے باز رہتے ہیں۔ قرب قیامت کی بے شمار نشانیاں ہیں، جو پوری ہوچکی ہیں اور مزید ہونے والی ہیں، برصغیر کی ایک مشہور بزرگ شخصیت مولانا نعمت اﷲ شاہ المعروف ولی نعمت اپنی پیشن گوئیوں میں فرماتے ہیں کہ ''ایسے مسلم رہبر بھی ہوں گے جو در پردہ مسلمانوں کے دشمنوں کے دوست ہوں گے اور اپنے فاجرانہ عہد و پیمان کے مطابق ان کی امداد کریں گے ان دنوں ایسا ہی ہورہا ہے۔
اسرائیل کی مدد کرنے والے ہمارے بہت سے مسلمان بھائی ہی ہیں جو ان کی سازش میں برابر کے شریک ہیں، رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے پیشگی خبریں دی ہیں، ان کی رو سے اگر دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پوری دنیا کے حالات سیاسی اور جغرافیائی طور پر بدل رہے ہیں۔ تبدیلیاں بڑی تیزی کے ساتھ ظہور پذیر ہورہی ہیں اور یہ نشانیاں حضرت مہدی ؑ کے زمانے کی طرف لے جارہی ہیں اور میدان ابھی اسی لیے تیار کیا جارہاہے۔ یہ حقیقت اس روایت سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ظہور مہدی کے وقت مسلمانوں میں اختلاف عروج پر پہنچے گا۔
آپس کی نفرتوں کا خاتمہ حضرت مہدی ہی کریں گے اور دوبارہ اسلامی حکومت قائم ہوگی اور حضرت مہدی ہی سربراہ حکومت ہوں گے۔ حضرت امام مہدی اور دجال سے ان کی جنگ کے لیے بھی تیاری در پردہ ہورہی ہے، اسی جنگ کے دوران حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اور ان کے ہی ہاتھوں دجال کا قتل اور ساتھ ہی یہودیوں کے قتل عام کا جو واقعہ ہونے والا ہے اس کے لیے یہودی خود ہی جانے انجانے میں ایک مقام خاص پر جمع ہورہے ہیں۔
حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت سے کافی پہلے جب بخت نصر نامی بادشاہ نے یہودیوں پر کاری ضرب لگائی تو یہ تتر بتر ہوکر دنیا کے کونوں کونوں میں رسوا ہوکر پہنچ گئے تھے اب حالات نے کچھ اس طرح رخ موڑا ہے کہ جگہ جگہ سے سفر کرکے فلسطین میں پہنچ گئے ہیں جوکہ ان کا مقتل ہے۔ اس طرح انھوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کا کام آسان ترکردیا، بقول مفتی محمد شفیع صاحبؒ کہ حضرت عیسیٰ ؑ پوری دنیا میں انھیں کہاں کہاں تلاش کرتے ، یہودی دجال کو اپنا پیشوا مانتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اسی مقام پر منتظر ہیں جہاں اس کا قتل ہونا رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق لازم ہوچکا ہے۔
حسن یوسف صاحب جن کا تعلق اصل میں فلسطین سے ہے لیکن تقریباً 25،30 سال سے وہ عمان میں رہائش پذیر ہیں، جناب حسن یوسف کے مطابق کہ ان کا تبلیغ کے لیے فلسطین جانا ہوا تو وہاں کے شہر ''لد'' بھی تشریف لے گئے ''لد'' بیت المقدس کے قریب ہے، وہاں انھوں نے ایک بڑا گیٹ دیکھا جو ''باب الد'' یعنی لد کا دروازہ کہلاتاہے۔
اس پر اسرائیلی انتظامیہ نے یہ تحریر لکھی ہے ''ھنا یخرج ملک السلام'' سلامتی کا بادشاہ دجال یہاں ظاہر ہوگا۔ دجال کو لانے کے لیے تیاریاں زور شور سے ہو رہی ہیں، دجال کے چاہنے والے اور اسے اپنا نجات دہندہ ماننے والے یہودی ہی ہیں۔ امریکا اسرائیل کا مدد گار ہے اور بھی دوسری قوتیں ہیں جو اسرائیل کی پشت پناہی کررہی ہیں اور دجال کے استقبال کے تیاری میں مصروف ہیں۔
ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ''دجال'' کو ایک فتنہ کہا ہے اور اس کے شر سے بچنے کے لیے دعائیں بتائی ہیں، جس قدر ایمان پختہ ہوگا، وہ دجال کے ظاہری اور وقتی کرشمات سے ذرا برابر متاثر نہ ہوگا اور جو لوگ نام کے مسلمان ہیں وہ دجال کے ساتھ ہولیں گے اور اپنی عاقبت خراب کرلیں گے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بحر الکاہل کے شیطانی سمندر اور بحر اوقیانوس کی شیطانی تکون میں کئی خصوصیات کے اعتبار سے مماثلت پائی جاتی ہیں اور انسانی ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ دونوں میں کوئی تعلق ایسا ضرور ہے جو دنیا کی نظر سے چھپا ہوا ہے اور یہ تعلق شیطانی ہے، رحمانی یا انسانی نہیں مثلاً ان دونوں خاص مقامات پر قطب نما کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، دونوں جگہوں میں متعدد بار ہوائی جہاز و بحری جہاز لاپتہ ہوگئے ہیں۔
بات یہ بھی ہے کہ غائب ہونے والے جہازوں کو ان ہی جگہوں یعنی شیطانی تکون یعنی برمودا اور شیطانی سمندر میں سفر کرتے دیکھا گیا ہے، رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق ابلیس اپنا تخت سمندر میں لگاتا ہے، لوگوں کو فتنے میں ڈالنے کے لیے اپنا لشکر روانہ کرتا ہے جو اس کے لشکر میں سب سے زیادہ فتنہ پرور ہوتا ہے وہ ابلیس کا قریبی دوست ہوتا ہے ''ابلیس کا سب سے اہم ہتھیار دجال ہے۔''
جو لوگ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں انھیں سچا مسلمان بننے کے لیے اپنے آپ کو بدلنا اور دجالی فتنے سے بچنے کے لیے تمام ان برائیوں کو ترک کرنا ضروری ہے جن کے کرنے سے شیطان اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔
دولت کی ہوس نے انسان کو انسانیت سے دور کردیا ہے، اس کی عقل پر پردہ پڑگیا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ وقتی فائدہ حاصل کرنے والے دائمی خسارہ اٹھاتے ہیں ہمارے اپنے ملک میں بھی صاحب اقتدار حضرات اپنی جھوٹی شان و شوکت دکھانے کے لیے بے دریغ پیسہ خرچ کرتے ہیں اور غریب انسان کو ضروریات زندگی میسر نہیں، ان ہی مصائب میں مبتلا ہوکر وہ موت سے بغلگیر ہوجاتے ہیں۔ دولت سے محبت کرنے والے لوگ اپنے رب کو بھلا بیٹھتے ہیں، انجام سے بے خبر ہوجاتے ہیں اور ایسے ہی گمراہ لوگ دجالی قوتوں پر یقین لے آئیں گے۔
احادیث کے حوالے سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اس کا قبضہ تمام زندگی بخش وسائل پر ہوگا، آگ، پانی، غذا وغیرہ اس کے پاس بے تحاشا دولت اور زمین کے خزانے ہوں گے وہ زندگی اور موت پر ظاہری طور پر قدرت رکھے گا۔ بارش، فصلیں، قحط اور خشک سالی پر بھی اس کی دسترس ہوگی، لیکن یہ سب کچھ وقتی ہوگا۔ چوں کہ تھوڑے ہی عرصے بعد اس کی موت واقع ہوجائے گی۔
اس کو مارنے والے حضرت عیسیٰ ؑ ہوں گے یہ مسلمانوں کی آزمائش ہے، بے شک جس مالک دو جہاں نے اس کائنات کو محض چھ دنوں میں تخلیق کیا پھر انسان کے لیے بے شمار نعمتیں پیدا کیں جس کا ذکر سورۂ رحمان میں موجود ہے، بے پناہ محبت کرنے والے رشتوں کی زنجیر میں پرودیا، عقل و شعور کی دولت سے مالا مال کیا، تسخیر کائنات کا حکم دیا اور جس کے نتیجے میں ہم پرآسائش زندگی بسر کررہے ہیں پھر ایسے معبود کی کیوں نہ عبادت کی جائے اور اس کا حکم مانا جائے۔ شیطانی اور دجالی فتنے سے بچنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔
ماہ و سال کی گردش نے قربِ قیامت کو قریب سے قریب ترکردیا ہے، قرآن حکیم میں کی گئی پیشنگوئیاں بھی حرف بہ حرف پوری ہوتی جارہی ہیں۔ صاحبِ ایمان کم اور صاحب ثروت حضرات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
لوگ اونچے اونچے مکانات تعمیر کررہے ہیں اور عیش و عشرت کی تلاش میں صبح و شام ایک کررہے ہیں۔ اﷲ رب العزت نے حکمت کو پسند فرماتا ہے اورکائنات کے اسرارو رموز پر غوروفکر کرنے کی ہدایت کرتا ہے اور سچ ہے کہ عالم دانشور ہی حالات زمانہ کے نشیب وفرازکو اچھی طرح سمجھ رہے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ دنیا اپنے انجام کی طرف لوٹ رہی ہے۔
یہ سب سمجھتے ہوئے بھی نادان سفر آخرت کے لیے توشہ تیار نہیں کررہا ہے؟ ایک افراتفری اور بھاگ دوڑکا عالم ہے کہ بس حرص وہوس کی سواری پر سوار ہیں اور دنیاوی نفع کے لیے منافقت اور جعلسازی سے کام کرتے نہیں تھکتے، انجام جانتے ہوئے بھی اعمال صالح کرنے سے باز رہتے ہیں۔ قرب قیامت کی بے شمار نشانیاں ہیں، جو پوری ہوچکی ہیں اور مزید ہونے والی ہیں، برصغیر کی ایک مشہور بزرگ شخصیت مولانا نعمت اﷲ شاہ المعروف ولی نعمت اپنی پیشن گوئیوں میں فرماتے ہیں کہ ''ایسے مسلم رہبر بھی ہوں گے جو در پردہ مسلمانوں کے دشمنوں کے دوست ہوں گے اور اپنے فاجرانہ عہد و پیمان کے مطابق ان کی امداد کریں گے ان دنوں ایسا ہی ہورہا ہے۔
اسرائیل کی مدد کرنے والے ہمارے بہت سے مسلمان بھائی ہی ہیں جو ان کی سازش میں برابر کے شریک ہیں، رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے پیشگی خبریں دی ہیں، ان کی رو سے اگر دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پوری دنیا کے حالات سیاسی اور جغرافیائی طور پر بدل رہے ہیں۔ تبدیلیاں بڑی تیزی کے ساتھ ظہور پذیر ہورہی ہیں اور یہ نشانیاں حضرت مہدی ؑ کے زمانے کی طرف لے جارہی ہیں اور میدان ابھی اسی لیے تیار کیا جارہاہے۔ یہ حقیقت اس روایت سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ظہور مہدی کے وقت مسلمانوں میں اختلاف عروج پر پہنچے گا۔
آپس کی نفرتوں کا خاتمہ حضرت مہدی ہی کریں گے اور دوبارہ اسلامی حکومت قائم ہوگی اور حضرت مہدی ہی سربراہ حکومت ہوں گے۔ حضرت امام مہدی اور دجال سے ان کی جنگ کے لیے بھی تیاری در پردہ ہورہی ہے، اسی جنگ کے دوران حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اور ان کے ہی ہاتھوں دجال کا قتل اور ساتھ ہی یہودیوں کے قتل عام کا جو واقعہ ہونے والا ہے اس کے لیے یہودی خود ہی جانے انجانے میں ایک مقام خاص پر جمع ہورہے ہیں۔
حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت سے کافی پہلے جب بخت نصر نامی بادشاہ نے یہودیوں پر کاری ضرب لگائی تو یہ تتر بتر ہوکر دنیا کے کونوں کونوں میں رسوا ہوکر پہنچ گئے تھے اب حالات نے کچھ اس طرح رخ موڑا ہے کہ جگہ جگہ سے سفر کرکے فلسطین میں پہنچ گئے ہیں جوکہ ان کا مقتل ہے۔ اس طرح انھوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کا کام آسان ترکردیا، بقول مفتی محمد شفیع صاحبؒ کہ حضرت عیسیٰ ؑ پوری دنیا میں انھیں کہاں کہاں تلاش کرتے ، یہودی دجال کو اپنا پیشوا مانتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اسی مقام پر منتظر ہیں جہاں اس کا قتل ہونا رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق لازم ہوچکا ہے۔
حسن یوسف صاحب جن کا تعلق اصل میں فلسطین سے ہے لیکن تقریباً 25،30 سال سے وہ عمان میں رہائش پذیر ہیں، جناب حسن یوسف کے مطابق کہ ان کا تبلیغ کے لیے فلسطین جانا ہوا تو وہاں کے شہر ''لد'' بھی تشریف لے گئے ''لد'' بیت المقدس کے قریب ہے، وہاں انھوں نے ایک بڑا گیٹ دیکھا جو ''باب الد'' یعنی لد کا دروازہ کہلاتاہے۔
اس پر اسرائیلی انتظامیہ نے یہ تحریر لکھی ہے ''ھنا یخرج ملک السلام'' سلامتی کا بادشاہ دجال یہاں ظاہر ہوگا۔ دجال کو لانے کے لیے تیاریاں زور شور سے ہو رہی ہیں، دجال کے چاہنے والے اور اسے اپنا نجات دہندہ ماننے والے یہودی ہی ہیں۔ امریکا اسرائیل کا مدد گار ہے اور بھی دوسری قوتیں ہیں جو اسرائیل کی پشت پناہی کررہی ہیں اور دجال کے استقبال کے تیاری میں مصروف ہیں۔
ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ''دجال'' کو ایک فتنہ کہا ہے اور اس کے شر سے بچنے کے لیے دعائیں بتائی ہیں، جس قدر ایمان پختہ ہوگا، وہ دجال کے ظاہری اور وقتی کرشمات سے ذرا برابر متاثر نہ ہوگا اور جو لوگ نام کے مسلمان ہیں وہ دجال کے ساتھ ہولیں گے اور اپنی عاقبت خراب کرلیں گے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بحر الکاہل کے شیطانی سمندر اور بحر اوقیانوس کی شیطانی تکون میں کئی خصوصیات کے اعتبار سے مماثلت پائی جاتی ہیں اور انسانی ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ دونوں میں کوئی تعلق ایسا ضرور ہے جو دنیا کی نظر سے چھپا ہوا ہے اور یہ تعلق شیطانی ہے، رحمانی یا انسانی نہیں مثلاً ان دونوں خاص مقامات پر قطب نما کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، دونوں جگہوں میں متعدد بار ہوائی جہاز و بحری جہاز لاپتہ ہوگئے ہیں۔
بات یہ بھی ہے کہ غائب ہونے والے جہازوں کو ان ہی جگہوں یعنی شیطانی تکون یعنی برمودا اور شیطانی سمندر میں سفر کرتے دیکھا گیا ہے، رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق ابلیس اپنا تخت سمندر میں لگاتا ہے، لوگوں کو فتنے میں ڈالنے کے لیے اپنا لشکر روانہ کرتا ہے جو اس کے لشکر میں سب سے زیادہ فتنہ پرور ہوتا ہے وہ ابلیس کا قریبی دوست ہوتا ہے ''ابلیس کا سب سے اہم ہتھیار دجال ہے۔''
جو لوگ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں انھیں سچا مسلمان بننے کے لیے اپنے آپ کو بدلنا اور دجالی فتنے سے بچنے کے لیے تمام ان برائیوں کو ترک کرنا ضروری ہے جن کے کرنے سے شیطان اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔
دولت کی ہوس نے انسان کو انسانیت سے دور کردیا ہے، اس کی عقل پر پردہ پڑگیا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ وقتی فائدہ حاصل کرنے والے دائمی خسارہ اٹھاتے ہیں ہمارے اپنے ملک میں بھی صاحب اقتدار حضرات اپنی جھوٹی شان و شوکت دکھانے کے لیے بے دریغ پیسہ خرچ کرتے ہیں اور غریب انسان کو ضروریات زندگی میسر نہیں، ان ہی مصائب میں مبتلا ہوکر وہ موت سے بغلگیر ہوجاتے ہیں۔ دولت سے محبت کرنے والے لوگ اپنے رب کو بھلا بیٹھتے ہیں، انجام سے بے خبر ہوجاتے ہیں اور ایسے ہی گمراہ لوگ دجالی قوتوں پر یقین لے آئیں گے۔
احادیث کے حوالے سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اس کا قبضہ تمام زندگی بخش وسائل پر ہوگا، آگ، پانی، غذا وغیرہ اس کے پاس بے تحاشا دولت اور زمین کے خزانے ہوں گے وہ زندگی اور موت پر ظاہری طور پر قدرت رکھے گا۔ بارش، فصلیں، قحط اور خشک سالی پر بھی اس کی دسترس ہوگی، لیکن یہ سب کچھ وقتی ہوگا۔ چوں کہ تھوڑے ہی عرصے بعد اس کی موت واقع ہوجائے گی۔
اس کو مارنے والے حضرت عیسیٰ ؑ ہوں گے یہ مسلمانوں کی آزمائش ہے، بے شک جس مالک دو جہاں نے اس کائنات کو محض چھ دنوں میں تخلیق کیا پھر انسان کے لیے بے شمار نعمتیں پیدا کیں جس کا ذکر سورۂ رحمان میں موجود ہے، بے پناہ محبت کرنے والے رشتوں کی زنجیر میں پرودیا، عقل و شعور کی دولت سے مالا مال کیا، تسخیر کائنات کا حکم دیا اور جس کے نتیجے میں ہم پرآسائش زندگی بسر کررہے ہیں پھر ایسے معبود کی کیوں نہ عبادت کی جائے اور اس کا حکم مانا جائے۔ شیطانی اور دجالی فتنے سے بچنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔