متفرقات
ہمارا یہ بجٹ چونکہ ایک سیاسی حکومت دے رہی ہے اس لیے اس موقع پر سیاست کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
ہمارے جمہوری وزیر اعظم اور ان کے ساتھی جمہوری لیڈروں نے یہ تاریخی اعلان کیا ہے کہ مارشل لاء جب بھی لگا یہ کسی جمہوری حکومت نے نہیں فوجی حکومت نے لگایا لیکن یہاں میں چلتے چلتے سرسری طور پر بجٹ کا ذکر کرنے کی اجازت چاہوں گا کہ وہ سر پر کھڑا ہے اور اس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ ہمارے ایک طنز نگار نے بجٹ کا ذکر کرتے ہوئے یہ تاریخی جملہ ایجاد کیا تھا کہ ایک جھوٹ ہوتا ہے ایک سفید جھوٹ ہوتا ہے اور ایک اعداد و شمار۔ ان ہی اعداد و شمار کا نام بجٹ ہے جو پاکستانی قوم پر گرا دیا گیا ہے اور جسے وہ پورا ایک سال بھگتے گی اور اس کے اعداد و شمار سے لطف اندوز ہوتی رہے گی۔
ہمارا یہ بجٹ چونکہ ایک سیاسی حکومت دے رہی ہے اس لیے اس موقع پر سیاست کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ بجٹ پر تبصرہ کرنے کی مجال نہیں۔ ہمارے سرکردہ ماہرین معاشیات بجٹ کے اسرار و رموز پر تبصرہ کر رہے ہیں مگر افسوس کہ وہ کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچتے کیونکہ بیچ میں سرکاری سیاست آ جاتی ہے جو بجٹ کو اپنا ایک کارنامہ سمجھتی ہے حالانکہ میں ہر ماہ ایک تنخواہ دار کی طرح سے اس کارنامے سے گزرتا ہوں مگر پھر بھی تبصرہ کرنے سے باز نہیں آتا۔ اس سال بجٹ کے دنوں میں ہمارے حکمرانوں نے ایک بس بھی چلا دی ہے۔ میرے کچھ نوجوان عزیز بھی ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرتے رہے ہیں اور اب بھی اس سے باز نہیں آئے۔
یہ سرگودھا سے راولپنڈی تک کے طویل تُڑے مُڑے راستے پر بس چلاتے رہے ہیں۔ کئی تحصیلیں، ضلعے اور برادریاں ان کے راستے میں آتی ہیں لیکن وہ اس طویل پیچیدہ راستے کے مسافروں کو منزل پر پہنچاتے رہے ہیں۔ حکومت نے دو آباد شہروں میں صرف 23 کلومیٹر کے راستہ پر بس چلائی ہے اور ارب ہا روپے خرچ کر دیے ہیں اگر وہ اس کا سواں حصہ بھی ہمیں دے دیتے تو ہم جاتی عمرہ سے اسلام آباد تک اس سے بہتر میٹرو چلا سکتے تھے۔
ہمارے حکمرانوں کا پیشہ ٹرانسپورٹ چلانا نہیں دوسری قسم کا کاروبار کرنا ہے جو وہ بہت سوں سے بہتر کر سکتے ہیں مگر ٹرانسپورٹ کا ہنر جو ایک آرٹ بھی ہے وہ ہمارے حکمرانوں کو نہیں آتا یہ ان کا کام نہیں ہے اب بھی عرض ہے کہ وہ اس سجی سجائی مشہور و معروف بس سروس ہمیں ٹھیکے پر دے دیں۔ معقول ٹھیکہ دیں گے اور جب الیکشن آئے گا تو بہت سارے ووٹوں کا بندوبست بھی کر دیں گے۔ ہماری اعون بس سروس بہت مشہور رہی ہے۔ میٹرو بس سروس بھی اتنی ہی مشہور ہو سکتی ہے۔
بات شروع ہوئی تھی کہ مارشل لاء جب بھی لگا کسی جمہوری حکمران نے نہیں فوجی حکمران نے لگایا۔ بیچ میں بجٹ کا ذکر بھی آ گیا اور پھر مسماۃ میٹرو نامی بس سروس کا جو کسی سڑک پر چلتی پھرتی دلہن لگتی ہے۔ میٹرو کا ذکر ہوتا رہے گا میں اس میں راولپنڈی اور پھر وہاں سے میٹرو کے کرائے کا بندوبست کر رہا ہوں جب بھی رقم پوری ہوتی ہے تو میں اعوان بس والوں سے کہوں گا کہ عزیزان من مجھے راولپنڈی لے جا کر بس پر سوار کرا دیں اور اپنے بزرگ کا یہ شوق بھی پورا کر دیں۔
میٹرو سے محروم رہنا بھی کیا زندگی ہے۔ بات پھر موضوع سے بھٹک رہی ہے کہ مارشل لاء ہمیشہ فوج نے لگایا۔ یہ تو ایک واقعہ ہے جس سے انکار نہیں لیکن یہ بھی غور کریں کہ فوج کا یہ عمل کس قدر مفید ثابت ہوتا ہے اور ہمیں فوج نے جو لیڈر دیے ہیں ہم ان کا ذکر کرتے تھکتے نہیں۔ ایوب خان نے جو ایک مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے ہمیں بھٹو صاحب جیسا لیڈر دیا اور ضیاء الحق نے ہمیں میاں نواز شریف جیسا لیڈر۔ بیچ میں مارشل لاء کی نرسری میں پرورش پانے والے کئی دوسرے درجے کے لیڈر بھی منظر عام پر آئے لیکن یہ سب دوسرے تیسرے درجے کے تھے۔ درجہ اول کے دو ہی لیڈر تھے۔ ایک گزر گئے اور اپنے تاریخی سیاسی نقش و نگار چھوڑ گئے۔
دوسرے لیڈر ماشاء اللہ ابھی اقتدار کی ایک اور منزل میں ہیں۔ تیسری بار کا اقتدار اور انھوں نے خود بتایا ہے کہ اس تیسرے اقتدار کو دو برس ہو گئے ہیں، گزشتہ رات یہ دو برس پورے ہوئے۔ کیا خوش نصیبی ہے کہ اقتدار ان کے ہاں پھیرے ڈالتا رہتا ہے۔ مجھے ایک صاحب کشف نے از خود بتایا کہ میاں صاحب اپنا تیسرا دور پورا کریں گے۔ خدا کرے یہ پیش گوئی درست ثابت ہو کیونکہ ہمارے کتنے ہی مہربان کشمیری چائے کے پکے عادی بن چکے ہیں۔ یہ بات مجھے مرحوم لالیکا نے بتائی تھی کہ وہ اور ان کے کئی دوست اب کھانا ہضم کرنے کے لیے کشمیری چائے پیا کرتے ہیں جو بڑی ہی ہاضم ہوتی ہے۔ لکڑ ہضم پتھر ہضم کی خصوصیات رکھتی ہے۔
میاں صاحب اس بار بہت سمٹ گئے ہیں اور صرف اپنے خاندان تک محدود ہو گئے ہیں ورنہ ان کا دسترخوان بہت کھلا ہوتا تھا اور ان کے متوسلین میں مولویوں کو گالیاں دینے والوں کے علاوہ شرفاء لوگ بھی بار پاتے تھے۔ میں تو خود ان کا بہت ممنون رہا ہوں اور ان کی شرافت کا اب بھی قائل ہوں لیکن سیاست انسان کو کسی ٹھکانے پر زیادہ دیر رہنے نہیں دیتی اور میاں صاحب بھی جلد باز لوگوں کے نرغے میں آ گئے ورنہ میاں صاحبان ایک شریف تاجر اور مجلسی آدمی تھے اور ایک خوبصورت زندگی بسر کرنا چاہتے تھے۔ خدا نے ان کو اپنے گھر اور اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر کی خدمت کا نادر موقع دیا اور انھوں نے اس سعادت کو حاصل کر کے اپنی دنیا اور آخرت سنوار دی۔
ان کی دنیاداری پہلے سے ہی سنوری ہوئی تھی انھوں نے اس کا احترام کیا اور آپے سے باہر نہ ہوئے مگر ان کی بدقسمتی کہ وہ سیاستدان ہیں اور سیاست کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا چنانچہ انھیں بھی ہمارے جیسے لوگوں کو قابو رکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی جب کہ ہم بہرحال اس قابل نہیں تھے کہ ہم پر وقت اور شفقت خرچ کی جاتی۔ بہرکیف میاں صاحب تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں جو ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔
بس ان سے صرف ایک عرض ہے کہ وہ پاکستان جیسے ایک نظریاتی ملک کے لیڈر ہیں۔ بھارت قد و قامت میں بڑا سہی مگر پاکستان سے بڑا ہرگز نہیں۔ محترم میاں صاحب بھارت کو اس کی اوقات میں رکھیں جیسے ان دنوں ہمارے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے بھارت کو اس کی اوقات میں رکھا ہوا ہے۔ اس موضوع پر عنقریب بہت کچھ عرض کیا جائے گا۔