کنڈھ مکھڑے توں لا اویار

چار لاکھ تیس ہزار سال پہلے اسپین کیا تھا، اس کا نام کیا تھا، یہاں کون لوگ آباد تھے،

ایکسپریس اخبار میں ''دلچسپ و عجیب'' کے زیر عنوان خبر شایع ہوئی ہے۔ ''اسپین کے شمالی علاقے میں ایک غار سے ملنے والی انسانی باقیات سے چار لاکھ 30 ہزار سال قبل ہونے والے ایک قاتلانہ حملے کے ثبوت ملے ہیں، محققین نے یہ ثبوت ایک انسانی کھوپڑی کے معائنے کے دوران تلاش کیے جسے ''ہڈیوں کا گڑھا'' کہلانے والی جگہ سے نکالا گیا ہے۔

اس غار میں کم از کم 28 افراد کی باقیات موجود ہیں،کھوپڑی کے جائزے کے بعد سائنس دان اس نتیجے پر پہنچے کہ اس پر موجود دو فریکچر متعدد چوٹوں کا نتیجہ تھے، جن کا ممکنہ مقصد اس فرد کو ہلاک کرنا تھا، سائنس دانوں کا کہناہے کہ ان نتائج سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تشدد ابتدائی انسانی دور کا بھی اہم حصہ تھا، اسپین میں جس مقام سے باقیات ملی ہیں وہاں سائنس دان تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ ہوا تحقیق میں مصروف ہیں۔''

چار لاکھ تیس ہزار سال پہلے اسپین کیا تھا، اس کا نام کیا تھا، یہاں کون لوگ آباد تھے، اس شخص پر تشدد کیوں کیا گیا، سر پر ایسے کاری وار کیے گئے کہ بندہ مرگیا، لاکھوں سال پہلے مرنے والے شخص کی کھوپڑی ہی ملی ہے، باقی جسم کی باقیات دستیاب نہیں ہوئیں، واﷲ عالم ان باقیات پر کیا گزری ہو۔ اس طرح کی تحقیقاتی خبریں ہم پڑھتے رہتے ہیں جن میں لاکھوں سال پرانی انسانی و حیوانی باقیات کے ملنے کا ذکر ہوتا ہے، میں سوچتا ہوں ہمارے ملک کی تاریخ انسانی باقیات کے حوالے سے کیا ہوگی۔

اسپین کا وہ غار جہاں سے انسانی کھوپڑی ملی ہے۔ ''ہڈیوں کا گڑھا'' کہلاتی ہے، آنے والے زمانوں میں ہمارے ہاں ایسے کتنے گڑھے دریافت کیے جائیں گے۔ سائنس دان کن کن زاویوں سے تحقیق کریں گے، ظلم و بربریت کی ''خاموش کہانیاں'' کن کن رنگ میں سامنے آئیں گی۔ کوئٹہ کی ہزارہ برادری کی باقیات کیا بتائیں گی، پشاورکے اسکول کے بچے اور اساتذہ کے جلی اورگولیوں سے چھلنی باقیات کیا کہیں گی۔

وہ پانچ لڑکیاں جنھیں زندہ درگور کردیا گیا۔ تحقیقات کے بعد جب حقیقت سامنے آئے گی تو سائنس دانوں پر کیا گزرے گی۔ وہ کیا سوچیں گے کہ انھیں زندہ دفن کیوں کیا گیا؟ ہمارے خطے سے کچھ انسانی باقیات ایسی بھی ملیں گی جن پر سائنس دان تحقیق کرکے اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ انھیں سر تا پا ڈرل سے سوراخ کرکے انتہائی اذیت سے مارا گیا۔ یہ ان لوگوں کی باقیات ہیں جنھیں ان کے جھونپڑوں میں جلاکر راکھ بنادیا گیا۔ میں ایسی ہی باتیں لکھتا رہتا ہوں، بھائی غلام محمد قاصر مرحوم کا شعر یاد آگیا، آپ بھی سن لیجیے۔

کروں گا کیا جو محبت میں ہوگیا نا کام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

سو یونہی ''جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے'' واقعہ یہ بھی ہے کہ سڑک پر چلتے ہوئے جب اچانک کوئی ''مکمل سیاہ'' بڑی سی گاڑی قریب سے گزرتی ہے تو میں سہم کر ایک طرف ہوجاتا ہوں۔ اپنے ہی شہر میں رونما ہونے والے ''قتل'' یاد آجاتے ہیں۔

یارو! کچھ تو بتاؤ، کچھ تو کہو! یہ سلسلے کب تک اور کہاں تک چلیں گے اس سوال پر ہمارے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ''سب خاموش ہیں'' صفورا گوٹھ کا معاملہ پیچھے چلا گیا ہے ''ایگزیکٹ'' چھایا ہوا ہے کیا ہمارے محسن اسماعیلی مقتولین کا واقعہ ٹھنڈا پڑ جائے گا؟ بی بی بے نظیر کا قتل آج بھی فیصلے کا منتظر ہے، عوام تو ''ایسے'' بھی مشکل میں ہیں اور ''ویسے'' بھی مشکل میں ہیں اور مشکلات کا یہ عالم ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا مگر ہم بھی دیکھتے ہیں۔ یہ سلسلہ کہاں تک چلتا ہے جالب بھی کہہ کر گیا ہے:

یہ عہد ستم، سلسلۂ دار کہاں تک
رستے میں اندھیرے کی یہ دیوار کہاں تک
اے صبح میرے دیس میں تو آکے رہے گی
روکیں گے تجھے شب کے طرف دار کہاں تک


گوادر سے خنجراب راستہ بنے گا، کل پرسوں کی بات ہے صوبہ خیبر پختونخوا اور صوبہ بلوچستان اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کررہے تھے۔ شکر ہے، 28 مئی 2015 کی میٹنگ میں وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں مذکورہ بالا دونوں صوبوں کے نمائندگان تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور بلوچستان نیشنل پارٹی سمیت تمام صوبے اس رستے پر متفق ہوگئے ہیں۔ باقی عوام کو اس رستے سے کیا ملتا ہے؟ فی الحال یہ ایک سہانا خواب ہے، تعبیر دیکھیں کیا ہوتی ہے عوام تو خواب دیکھتے دیکھتے تنگ آچکے ہیں۔ بقول عبیداﷲ علیم:

خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں
کاش تجھ کو بھی اک جھلک دیکھوں

عوام جھلک ہی سہی، مگر خوشحالی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی آس میں لاکھوں منوں مٹی تلے چلے گئے۔ باقی پتھرائی آنکھیں لیے زندہ ہیں اور''ہمارے شہر کی کیا پوچھتے ہو'' امن وامان نہیں اور اب پانی نہیں، کلورین نہیں (جس کے نتیجے میں اب تک آٹھ افراد نگلیریا کا شکار ہوکر مرچکے ہیں) بجلی نہیں (غریب علاقوں میں) اور یہی حالات پورے ملک کے ہیں ایک اور خبر بھی آج کے ایکسپریس میں ہے ''پچاس ہزار روپے نہ دینے پر ملیر جیل میں پولیس نے ملزم مظہر پر وہ تشدد کیا کہ وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگیا۔

ابھی دو تین روز پہلے کی بات ہے پولیس ٹریننگ اسکول کے سربراہ ٹی وی پر کہہ رہے تھے ''اب پولیس قیدیوں پر تشدد نہیں کرتی'' اور کتنا خود کو سلگائیں، چلو چھوڑو اور ایک اچھے انسان کا ذکر چھیڑتے ہیں اپنے عوامی اداکار علاؤ الدین مرحوم بڑے سخن فہم بھی تھے۔ شاعروں سے ان کی بڑی دوستیاں تھیں، شاعر عارف جلالی بمبئی سے ہی ان کے گہرے یار بن گئے تھے پاکستان آئے تو پنجابی زبان کے نامور عوامی شاعر استاد دامن نے انھیں اپنا بیٹا بنالیا تھا، علاؤ الدین نے بھی انھیں ہمیشہ باپ کا درجہ دیے رکھا حبیب جالب اور ریاض شاہد سے ان کی بڑی یاری تھی، علاؤ الدین کبھی کبھی شاعری بھی کرتے تھے ان ہی کا لکھا ہوا ایک پنجابی فلم کا گیت نذر قارئین کررہاہوں، اس گیت کو مہدی حسن صاحب نے گایا تھا۔ موسیقار تھے وزیر افضل اور فلم تھی جما جنج نال، یہ گیت مجھے اپنے اس کالم کے پس منظر میں یاد آیا۔ گیت دیکھیے:

کنڈھ مکھڑے توں لا او یار
سامنے آکے سن لے دکھڑے
نہ لک کے تڑپا او یار
جہڑے اندروں باہروں کھوٹے
کون اینہاں نوں ربا روکے
تیتھوں ودھ کے ناز اپنہاں
بن بن بینڑ خدا او یار

ترجمہ کچھ یوں ہے کہ ''اے خدا تو پردہ غیب سے باہر آجا، اور دکھیاروں کے دکھڑے سن لے، اب ہمیں چھپ کر مت تڑپا، جو ظالم اور اندر اور باہر سے من کے کھوٹے ہیں، اے خدا! انھیں کون روکے، کیوں کہ تجھ سے بڑھ کر ان کے ناز ہیں اور اے خدا! یہ جگہ جگہ خدا بن کر بیٹھے ہیں۔ عبید اﷲ علیم کا شعر علاؤ الدین صاحب کے جذبات کا مکمل عکاس ہے۔

ہر تیرگی میں تو نے اتاری ہے روشنی
اب خود اتر کے آکہ سیاہ تر ہے کائنات
Load Next Story