فیفا کوتحقیقاتی اداروں نے فٹبال بنالیا
مبصرین کے مطابق روس کی ورلڈکپ 2018 کے لیے بولی شاید محفوظ رہے لیکن اگلے میگا ایونٹ کے لیے قطر کی میزبانی خطرے میں ہے
انٹرنیشنل فیڈریشن آف ایسوسی ایشن فٹبال کا قیام 1904ء میں عمل میں لایا گیا تھا، ابتدائی طور پر اس میں بیلجیئم، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، ہالینڈ، سپین، سویڈن اور سوئٹزر لینڈ ارکان شامل تھے، زیورخ میں ہیڈ کوارٹربنائے جانے کے بعد یہ ادارہ عالمی مقابلوں کے انعقاد کیساتھ کھیل کے فروغ کے لیے اقدامات کی ذمہ داری بھی بخوبی نبھاتا رہا، اب مجموعی طور پر 209ملک اس کی رکنیت کے حامل ہیں۔
یہ تمام ممالک افریقہ، ایشیا، یورپ، جنوبی و وسطی امریکہ اور کیریبیئن، اوشیانا اور شمالی امریکہ کی صورت میں موجود 6کنفیڈریشنز میں سے کسی ایک کے بھی رکن ہوتے ہیں۔گرچہ فیفا فٹبال کے قوانین کو کنٹرول نہیں کرتی تاہم کھیل کے تمام بین الاقوامی سطح کے ٹورنامنٹ اورفروغ کے لیے سرگرمیاں اسی کے بینر تلے ہوتی ہیں، ان کے بدولت عالمی باڈی کو سپانسرشپ کے مد میں بھاری آمدن ہوتی ہے،صرف 2013میں فیفا کا ریونیو 1.3بلین، جس میں 72ملین خالص منافع کے تھے،اس وقت بھی فٹبال کی اس عالمی باڈی کے پاس 1.4بلین سرمائے محفوظ تھا۔
ایک خود مختار اور طاقتور ادارے کا اثر رسوخ دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے،کئی ملک کسی ایک ایونٹ کی میزبانی کے لیے اس کے عہدیداروں آؤ بھگت اور خوشامد میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، فیفا کے صدر کا کسی سربراہ مملکت کی طرح ہی استقبال کیا جاتا ہے، ورلڈ کپ کی میزبانی حاصل کرنے کے لیے سرد جنگ تو کئی ملکوں کے باہمی تعلقات کشیدہ کرنے کا سبب بنتی رہی ہے۔
ماضی میں سامنے آنے والے چند سکینڈلز کے باوجود فیفا کے دامن پر کوئی ایسا بڑا داغ نہیں تھاکہ ایسوسی ایشنز اور کروڑوں شائقین کا اعتبار اٹھ جاتا لیکن مئی میں برپا ہونے والا طوفان اس کی ساکھ کو مسلسل پامال کرتا چلا جارہا ہے، کرپشن کا پینڈورا باکس ایسا کھلا ہے کہ بند ہونے کا نام نہیں لے رہا،روزانہ ماضی اور حال کے عہدیداروں کی رشوت ستانی، کمیشن خوری اور منی لانڈرنگ کے حوالے چشم کشا انکشافات کی ایک نئی پٹاری کھل جاتی ہے، ماضی اور حال کے کئی نامی گرامی عہدیداروں کی پگڑیاں اچھلتی نظر آتی ہیں۔
امریکی اٹارنی جنرل لوریٹا لینچ نے گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے پریس کانفرنس میں الزامات کی بارش سے دنیائے فٹبال کو حیرت میں مبتلا کردیا کہ فیفا کے عہدیداروں نے جنوبی افریقہ میں ورلڈ کپ 2010 کرانے کے لیے رشوت لی تھی، انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ 2011 میں فیفا کے صدر سیپ بلاٹر کے انتخاب کے لیے بھی ووٹ خریدے گئے۔
کوپا لبرٹاڈورس ٹورنامنٹ میں پہلے بھی رشوت دی گئی تھی،عہدیداران نے رشوت لینے کے لیے اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھایا، انہوں نے ایسا ایک مرتبہ نہیں بار بار کیا، ایک کے بعد دوسرے سال، ایک ایونٹ کے بعد دوسرے میںبھی بدعنوانی کا بازار گرم رکھا گیا۔ دوسری جانب سوئٹزرلینڈ میں فیفا کے 7سرکردہ عہدیداروں کو بطور رشوت 15 کروڑ ڈالر لینے کے جرم میں حراست میں لیا گیا، ان میں فیفا کے نائب صدر جیفری ویب بھی شامل تھے۔
ورلڈکپ 2018 کی میزبانی روس اور 2022 کا میگا ایونٹ میں قطر کو دیئے جانے کے بارے میں بھی الگ مجرمانہ تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا، زیورخ میں پولیس کی جانب سے گرفتاریوں کے باوجود فیفا کے صدارتی الیکشن طے شدہ شیڈول کے مطابق ہوئے، سیپ بلاٹر کا مقابلہ پرنس علی ابن الحسین سے تھا، وہ کامیاب ہو کر پانچویں بار فیفا کے صدر منتخب بھی ہوگئے، انہوں نے کرپشن کے خلاف قدامات کا خیرمقدم اور بدعنوانی کو جڑ سے ختم کرنے کا اعلان بھی کیا لیکن دنیا بھر میں بد اعتمادی کی فضا اس قدر تیزی سے پھیل رہی تھی کہ ان کو حکمرانی کا 17سال پرانا تاج بوجھ لگنے گا، سیپ بلاٹر کے مستعفی ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی امریکی میڈیا میں خبریں گردش کرنے لگیں تھیں کہ ایف بی آئی نے بدعنوانی کی انکوائری کرتے ہوئے فیفا کے سابق صدر بھی شاملِ تفتیش کر لیا ہے۔
انہوں نے عہدہ چھوڑنے کے اعلان کیساتھ یہ تجویز بھی پیش کی کہ وہ اپنے جانشین کو اختیار سونپنے سے قبل فٹبال کے کھیل میں اصلاحات لانے چاہتے ہیں، مبصرین کے خیال میں یہ اپنی رخصتی کو باوقار بنانے کا منصوبہ ہے،وہ خود کو ایک ایسے شخص کے روپ میں پیش کرنا چاہتے ہیں جس نے فیفا کو بچایا حالانکہ ان کا اپنا دامن بھی صاف نہیں، اگر ہے بھی تو یہ جرم بھی کم نہیں کہ ان کی چھتری کے تلے یہ سب کچھ ہوتا رہا اور وہ سکون کیساتھ اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔
ان حالات میں دنیا کے مقبول ترین کھیل کے انتظامی امور چلانے والی تنظیم کو ساکھ کی بحالی کا سخت ترین چیلنج درپیش ہے، فیفا کی آڈٹ اور کمپلائنس کے سربراہ ڈومینکو سکالا نے مستقبل کے لیے بڑی سطح پر اصلاحات لانے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سب کچھ میز پر ہو گا،انہوںنے ایک تجویز یہ بھی پیش کی ہے کہ ادارے کی صدارت کو ایک خاص مدت کے لیے محدود کردیا جائے تاکہ کوئی اپنی کرسی کو اس قدر مضبوط نہ سمجھے کہ من مانی کرتا پھرے، ماضی کے برعکس خفیہ رکھنے کے بجائے صدر کی تنخواہ بھی ظاہر کی جائے گی۔
فٹبال کی علاقائی فیڈریشنوں کی نمائندگی کرنے والوں پر بھی نظر رکھی جائے گی۔ فیفا حکام کے مطابق سیپ بلاٹر کے جانشین کے انتخاب کے لیے غیر معمولی کانگریس دسمبر 2015 سے مارچ 2016 کے درمیان ہو سکتی ہے، نو منتخب کے لیے سب سے اہم سوال یہ ہو گا کہ آیا وہ امریکی اٹارنی مچل گارسیا کی 2018 اور 2022 میں ہونے والے میگا ایونٹس کی بولی کے بارے میں رپورٹ شائع کرنے کی جرات کرینگے، واضح رہے کہ فیفا نے مچل گارسیا کو ان ٹورنامنٹس کی میزبانی کے حوالے سے تحقیقات کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی لیکن انہوں نے مکمل رپورٹ شائع نہ کئے جانے پر بطور احتجاج استعفیٰ دیدیا تھا۔
ان کا اصرار تھا کہ میری رپورٹ صحیح تھی لیکن دبا لی گئی، مبصرین کے مطابق روس کی ورلڈکپ 2018 کے لیے بولی شاید محفوظ رہے لیکن اگلے میگا ایونٹ کے لیے قطر کی میزبانی خطرے میں ہے، دوسری جانب ایشیائی کنفیڈریشن میں یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ درحقیقت عرب ملک کو میگا ایونٹ کے انعقاد سے محروم رکھنے کے لیے ہی ملی بھگت سے مختلف کارڈز کھیلے جارہے ہیں، میڈیا کی معاونت سے غیر یقینی کی فضا پیدا کرکے تنظیم نو کا نعرہ لگایا جارہا ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں فٹبال مقبول ترین کھیلوں میں شمار نہیں ہوتا،اس کے باوجود حکام اسے ایک قومی مسئلہ بنائے ہوئے ہیں،اپنا مقصد حاصل ہونے تک یہ گرد بیٹھنے نہیں دی جائے گی۔
یہ تمام ممالک افریقہ، ایشیا، یورپ، جنوبی و وسطی امریکہ اور کیریبیئن، اوشیانا اور شمالی امریکہ کی صورت میں موجود 6کنفیڈریشنز میں سے کسی ایک کے بھی رکن ہوتے ہیں۔گرچہ فیفا فٹبال کے قوانین کو کنٹرول نہیں کرتی تاہم کھیل کے تمام بین الاقوامی سطح کے ٹورنامنٹ اورفروغ کے لیے سرگرمیاں اسی کے بینر تلے ہوتی ہیں، ان کے بدولت عالمی باڈی کو سپانسرشپ کے مد میں بھاری آمدن ہوتی ہے،صرف 2013میں فیفا کا ریونیو 1.3بلین، جس میں 72ملین خالص منافع کے تھے،اس وقت بھی فٹبال کی اس عالمی باڈی کے پاس 1.4بلین سرمائے محفوظ تھا۔
ایک خود مختار اور طاقتور ادارے کا اثر رسوخ دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے،کئی ملک کسی ایک ایونٹ کی میزبانی کے لیے اس کے عہدیداروں آؤ بھگت اور خوشامد میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، فیفا کے صدر کا کسی سربراہ مملکت کی طرح ہی استقبال کیا جاتا ہے، ورلڈ کپ کی میزبانی حاصل کرنے کے لیے سرد جنگ تو کئی ملکوں کے باہمی تعلقات کشیدہ کرنے کا سبب بنتی رہی ہے۔
ماضی میں سامنے آنے والے چند سکینڈلز کے باوجود فیفا کے دامن پر کوئی ایسا بڑا داغ نہیں تھاکہ ایسوسی ایشنز اور کروڑوں شائقین کا اعتبار اٹھ جاتا لیکن مئی میں برپا ہونے والا طوفان اس کی ساکھ کو مسلسل پامال کرتا چلا جارہا ہے، کرپشن کا پینڈورا باکس ایسا کھلا ہے کہ بند ہونے کا نام نہیں لے رہا،روزانہ ماضی اور حال کے عہدیداروں کی رشوت ستانی، کمیشن خوری اور منی لانڈرنگ کے حوالے چشم کشا انکشافات کی ایک نئی پٹاری کھل جاتی ہے، ماضی اور حال کے کئی نامی گرامی عہدیداروں کی پگڑیاں اچھلتی نظر آتی ہیں۔
امریکی اٹارنی جنرل لوریٹا لینچ نے گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے پریس کانفرنس میں الزامات کی بارش سے دنیائے فٹبال کو حیرت میں مبتلا کردیا کہ فیفا کے عہدیداروں نے جنوبی افریقہ میں ورلڈ کپ 2010 کرانے کے لیے رشوت لی تھی، انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ 2011 میں فیفا کے صدر سیپ بلاٹر کے انتخاب کے لیے بھی ووٹ خریدے گئے۔
کوپا لبرٹاڈورس ٹورنامنٹ میں پہلے بھی رشوت دی گئی تھی،عہدیداران نے رشوت لینے کے لیے اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھایا، انہوں نے ایسا ایک مرتبہ نہیں بار بار کیا، ایک کے بعد دوسرے سال، ایک ایونٹ کے بعد دوسرے میںبھی بدعنوانی کا بازار گرم رکھا گیا۔ دوسری جانب سوئٹزرلینڈ میں فیفا کے 7سرکردہ عہدیداروں کو بطور رشوت 15 کروڑ ڈالر لینے کے جرم میں حراست میں لیا گیا، ان میں فیفا کے نائب صدر جیفری ویب بھی شامل تھے۔
ورلڈکپ 2018 کی میزبانی روس اور 2022 کا میگا ایونٹ میں قطر کو دیئے جانے کے بارے میں بھی الگ مجرمانہ تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا، زیورخ میں پولیس کی جانب سے گرفتاریوں کے باوجود فیفا کے صدارتی الیکشن طے شدہ شیڈول کے مطابق ہوئے، سیپ بلاٹر کا مقابلہ پرنس علی ابن الحسین سے تھا، وہ کامیاب ہو کر پانچویں بار فیفا کے صدر منتخب بھی ہوگئے، انہوں نے کرپشن کے خلاف قدامات کا خیرمقدم اور بدعنوانی کو جڑ سے ختم کرنے کا اعلان بھی کیا لیکن دنیا بھر میں بد اعتمادی کی فضا اس قدر تیزی سے پھیل رہی تھی کہ ان کو حکمرانی کا 17سال پرانا تاج بوجھ لگنے گا، سیپ بلاٹر کے مستعفی ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی امریکی میڈیا میں خبریں گردش کرنے لگیں تھیں کہ ایف بی آئی نے بدعنوانی کی انکوائری کرتے ہوئے فیفا کے سابق صدر بھی شاملِ تفتیش کر لیا ہے۔
انہوں نے عہدہ چھوڑنے کے اعلان کیساتھ یہ تجویز بھی پیش کی کہ وہ اپنے جانشین کو اختیار سونپنے سے قبل فٹبال کے کھیل میں اصلاحات لانے چاہتے ہیں، مبصرین کے خیال میں یہ اپنی رخصتی کو باوقار بنانے کا منصوبہ ہے،وہ خود کو ایک ایسے شخص کے روپ میں پیش کرنا چاہتے ہیں جس نے فیفا کو بچایا حالانکہ ان کا اپنا دامن بھی صاف نہیں، اگر ہے بھی تو یہ جرم بھی کم نہیں کہ ان کی چھتری کے تلے یہ سب کچھ ہوتا رہا اور وہ سکون کیساتھ اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔
ان حالات میں دنیا کے مقبول ترین کھیل کے انتظامی امور چلانے والی تنظیم کو ساکھ کی بحالی کا سخت ترین چیلنج درپیش ہے، فیفا کی آڈٹ اور کمپلائنس کے سربراہ ڈومینکو سکالا نے مستقبل کے لیے بڑی سطح پر اصلاحات لانے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سب کچھ میز پر ہو گا،انہوںنے ایک تجویز یہ بھی پیش کی ہے کہ ادارے کی صدارت کو ایک خاص مدت کے لیے محدود کردیا جائے تاکہ کوئی اپنی کرسی کو اس قدر مضبوط نہ سمجھے کہ من مانی کرتا پھرے، ماضی کے برعکس خفیہ رکھنے کے بجائے صدر کی تنخواہ بھی ظاہر کی جائے گی۔
فٹبال کی علاقائی فیڈریشنوں کی نمائندگی کرنے والوں پر بھی نظر رکھی جائے گی۔ فیفا حکام کے مطابق سیپ بلاٹر کے جانشین کے انتخاب کے لیے غیر معمولی کانگریس دسمبر 2015 سے مارچ 2016 کے درمیان ہو سکتی ہے، نو منتخب کے لیے سب سے اہم سوال یہ ہو گا کہ آیا وہ امریکی اٹارنی مچل گارسیا کی 2018 اور 2022 میں ہونے والے میگا ایونٹس کی بولی کے بارے میں رپورٹ شائع کرنے کی جرات کرینگے، واضح رہے کہ فیفا نے مچل گارسیا کو ان ٹورنامنٹس کی میزبانی کے حوالے سے تحقیقات کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی لیکن انہوں نے مکمل رپورٹ شائع نہ کئے جانے پر بطور احتجاج استعفیٰ دیدیا تھا۔
ان کا اصرار تھا کہ میری رپورٹ صحیح تھی لیکن دبا لی گئی، مبصرین کے مطابق روس کی ورلڈکپ 2018 کے لیے بولی شاید محفوظ رہے لیکن اگلے میگا ایونٹ کے لیے قطر کی میزبانی خطرے میں ہے، دوسری جانب ایشیائی کنفیڈریشن میں یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ درحقیقت عرب ملک کو میگا ایونٹ کے انعقاد سے محروم رکھنے کے لیے ہی ملی بھگت سے مختلف کارڈز کھیلے جارہے ہیں، میڈیا کی معاونت سے غیر یقینی کی فضا پیدا کرکے تنظیم نو کا نعرہ لگایا جارہا ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں فٹبال مقبول ترین کھیلوں میں شمار نہیں ہوتا،اس کے باوجود حکام اسے ایک قومی مسئلہ بنائے ہوئے ہیں،اپنا مقصد حاصل ہونے تک یہ گرد بیٹھنے نہیں دی جائے گی۔