اداس موسم کی شاعری
اور ہم حیران ہو رہے ہیں کہ احمد مشتاق تو بہت دور امریکا کے کسی گوشے میں بیٹھا ہے
آواز دور سے آئی ہے۔ مگر لگتا ہے کہ اہل درد میں سے کوئی قریب ہی کھڑا ہے اور بڑبڑا رہا ہے
دیکھیے اہل دین کا اعجاز
موت بھی ہو گئی شریک نماز
اور ہم حیران ہو رہے ہیں کہ احمد مشتاق تو بہت دور امریکا کے کسی گوشے میں بیٹھا ہے' ہماری نمازوں کا اب جو احوال ہے وہ اس پر کیسے کھلا۔ اور کیسا بروقت یہ شعر ہم تک پہنچا ہے۔ رمضان کی آمد آمد ہے۔ مسجدوں کی نئے سرے صفائی آراستگی ہو رہی ہے۔ ادھر ایک خبر میں حکومت کی طرف سے بھی اطمینان دلایا گیا ہے کہ رمضان میں مسجدوں کی سیکیورٹی کا پورا انتظام کیا جا رہا ہے۔ وہ تو ضروری ہے۔ وہ دن گئے جب شرفا بلا تکلف قدم مارتے مسجد میں پہنچتے تھے اور جماعت میں شامل ہو جاتے تھے۔ اب ہم سیکیورٹی کے سائے میں مسجدوں میں قدم رکھتے ہیں۔ لیجیے علامہ اقبال کا ایک شعر سن لیجیے؎
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
کم از کم اب آسان نہیں رہا کہ ہماری مسجدیں شہادت گہہ الفت بن چکی ہیں۔ اب یہ لازم نہیں کہ آپ عید پر خوش خوش نماز پڑھنے جائیں' وہاں اطمینان سے ہم جماعتوں سے مصافحہ کریں' گلے ملیں، عید مبارک کہہ کر بچوں کے لیے کھلونے لیتے ہوئے خوش خوش گھر واپس آئیں۔
لیجیے ہم کدھر نکل گئے۔ ہم یاروں کو بتانا یہ چاہتے تھے کہ زمانے بعد احمد مشتاق کا نیا مجموعہ کلام آیا ہے۔ دیباچہ میں شمیم حنفی نے صحیح کہا ہے کہ یہ کم گو شاعر ہے۔ یہ سوچتا بہت ہے' کہتا کم ہے۔ ''پھر بھی تفکر کا عمل ان کے یہاں نمایاں نہیں ہوتا۔ ایسی شائستہ فکری ہمارے دور اور اس دور کی شاعری دونوں کے مزاج سے مختلف ہے''۔ اور شاید اسی لیے مشتاق پر غزل پہ غزل باندھے چلے جانے کا دورہ نہیں پڑتا۔ شائستہ فکری بلند آہنگ ہونے کی بھی اجازت نہیں دیتی۔ بس ایک اداسی کا موسم چلتا رہتا ہے۔ اور اس رنگ کے شعر وارد ہوتے رہتے ہیں ؎
ان ٹھکانوں کے نشانات بھی باقی نہ رہے
جمع ہوتے تھے مرے یار جہاں آخرِ شب
............
نظر ملی تھی گھڑی بھر کو پھر ملا نہ کبھی
نہ جانے کون تھا' کس دیس کا مسافر تھا
............
صبح ہوتی نہیں دیکھی ہم نے
رات گزری تھی کہ پھر رات آئی
جس کا پوچھا یہی جواب ملا
وہ تو کب کے مکان چھوڑ گئے
............
تیرے گھر کا پتہ ہے یاد اب تک
جُھنڈ تھے کچھ وہاں درختوں کے
............
اسے نئے در و دیوار بھی نہ روک سکے
وہ اک صدا جو پرانے مکاں سے آتی ہے
............
کل شام اک پرندہ جانے کہاں سے آیا
کچھ دیر چہچہایا شاخِ دلِ حزیں پر
............
وہی صدا تھی مگر یوں لگا کہ جیسے کوئی
پکارتا ہو کسی دوسرے زمانے سے
............
نہ جانے کیوں مرا جی چاہتا تھا وقت وداع
پلٹ کے پھر تجھے دیکھوں کسی بہانے سے
............
کتنے رفیق و ہم سفر جن کی ملی نہ کچھ خبر
کس کے قدم اٹھے کدھر کون کہاں پسر گیا
بجھ گئی رونق بدن' اڑ گیا رنگ پیرہن
جان امید وار من' وقت بہت گزر گیا
............
فٹ پاتھ پہ بھی سونے نہ دیا' ترے شہر کے عزت داروں نے
ہم کتنی دور سے آئے تھے اک رات بسر کرنے کے لیے
............
مگر پھر بیچ بیچ میں ایسی آواز بھی سنائی دے جاتی ہے
ظالم تھے ماورائے حساب و کتاب کیا
ان پر نزول قہر خدا کیوں نہیں ہوا
اب جیسے نجی دکھ سکھ کی دنیا سے گزر کر کسی اور ہی دنیا میں آ گئے ہیں؎
گلیوں کو چپ لگی ہے نگر بولتے نہیں
دیوار و در وہی ہیں مگر بولتے نہیں
کوے کہاں چلے گئے چڑیوں کو کیا ہوا
جو بولتے تھے شام و سحر بولتے نہیں
تم کو خبر ہے بام حرم کے کبوترو
کیوں طائران شاخ و شجر بولتے نہیں
اور اس کے بعد سیدھا سیدھا بیان شروع ہو جاتا ہے
وطن بدلا مگر بدلے نہ حالات
وہی دنیا وہی اس کے سوالات
وہی بپھرا ہوا بکھرا ہوا دن
وہی سہمی ہوئی سمٹی ہوئی رات
کبھی یہ کہہ کے دیتا ہوں تسلی
سحر ہو گی بدل جائیں گے حالات
کبھی یہ سوچ کر ہنستا ہوں دل میں
کہاں جائیں گے یہ ارض و سماوات
پھر یہ نرالا خیال دل میں گھر کرنے لگتا ہے
کبھی یہ شک کہ ہو سکتا ہے اس نے
بنایا ہی نہ ہو روز مکافات
اقبال نے تو یہ کہہ کر امید دلائی تھی کہ
دنیا ہے تری منتظرِ روز مکافات
یہاں یہ اندیشہ ستانے لگتا ہے کہ شاید اس نے
بنایا ہی نہ ہو روز مکافات
تو بس اس طرح کے اداس موسم کے ساتھ احمد مشتاق اپنے نئے مجموعہ کلام میں جس کا عنوان ہے ''اوراق خزانی'' نمودار ہوا ہے۔ اور اسے چھاپا ہے اس ادارے نے جس نے اردو کے سلسلہ میں نئے عزائم کے ساتھ ریختہ فاؤنڈیشن کے نام سے دلی شہر میں نمود کی ہے
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
دیکھیے اہل دین کا اعجاز
موت بھی ہو گئی شریک نماز
اور ہم حیران ہو رہے ہیں کہ احمد مشتاق تو بہت دور امریکا کے کسی گوشے میں بیٹھا ہے' ہماری نمازوں کا اب جو احوال ہے وہ اس پر کیسے کھلا۔ اور کیسا بروقت یہ شعر ہم تک پہنچا ہے۔ رمضان کی آمد آمد ہے۔ مسجدوں کی نئے سرے صفائی آراستگی ہو رہی ہے۔ ادھر ایک خبر میں حکومت کی طرف سے بھی اطمینان دلایا گیا ہے کہ رمضان میں مسجدوں کی سیکیورٹی کا پورا انتظام کیا جا رہا ہے۔ وہ تو ضروری ہے۔ وہ دن گئے جب شرفا بلا تکلف قدم مارتے مسجد میں پہنچتے تھے اور جماعت میں شامل ہو جاتے تھے۔ اب ہم سیکیورٹی کے سائے میں مسجدوں میں قدم رکھتے ہیں۔ لیجیے علامہ اقبال کا ایک شعر سن لیجیے؎
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
کم از کم اب آسان نہیں رہا کہ ہماری مسجدیں شہادت گہہ الفت بن چکی ہیں۔ اب یہ لازم نہیں کہ آپ عید پر خوش خوش نماز پڑھنے جائیں' وہاں اطمینان سے ہم جماعتوں سے مصافحہ کریں' گلے ملیں، عید مبارک کہہ کر بچوں کے لیے کھلونے لیتے ہوئے خوش خوش گھر واپس آئیں۔
لیجیے ہم کدھر نکل گئے۔ ہم یاروں کو بتانا یہ چاہتے تھے کہ زمانے بعد احمد مشتاق کا نیا مجموعہ کلام آیا ہے۔ دیباچہ میں شمیم حنفی نے صحیح کہا ہے کہ یہ کم گو شاعر ہے۔ یہ سوچتا بہت ہے' کہتا کم ہے۔ ''پھر بھی تفکر کا عمل ان کے یہاں نمایاں نہیں ہوتا۔ ایسی شائستہ فکری ہمارے دور اور اس دور کی شاعری دونوں کے مزاج سے مختلف ہے''۔ اور شاید اسی لیے مشتاق پر غزل پہ غزل باندھے چلے جانے کا دورہ نہیں پڑتا۔ شائستہ فکری بلند آہنگ ہونے کی بھی اجازت نہیں دیتی۔ بس ایک اداسی کا موسم چلتا رہتا ہے۔ اور اس رنگ کے شعر وارد ہوتے رہتے ہیں ؎
ان ٹھکانوں کے نشانات بھی باقی نہ رہے
جمع ہوتے تھے مرے یار جہاں آخرِ شب
............
نظر ملی تھی گھڑی بھر کو پھر ملا نہ کبھی
نہ جانے کون تھا' کس دیس کا مسافر تھا
............
صبح ہوتی نہیں دیکھی ہم نے
رات گزری تھی کہ پھر رات آئی
جس کا پوچھا یہی جواب ملا
وہ تو کب کے مکان چھوڑ گئے
............
تیرے گھر کا پتہ ہے یاد اب تک
جُھنڈ تھے کچھ وہاں درختوں کے
............
اسے نئے در و دیوار بھی نہ روک سکے
وہ اک صدا جو پرانے مکاں سے آتی ہے
............
کل شام اک پرندہ جانے کہاں سے آیا
کچھ دیر چہچہایا شاخِ دلِ حزیں پر
............
وہی صدا تھی مگر یوں لگا کہ جیسے کوئی
پکارتا ہو کسی دوسرے زمانے سے
............
نہ جانے کیوں مرا جی چاہتا تھا وقت وداع
پلٹ کے پھر تجھے دیکھوں کسی بہانے سے
............
کتنے رفیق و ہم سفر جن کی ملی نہ کچھ خبر
کس کے قدم اٹھے کدھر کون کہاں پسر گیا
بجھ گئی رونق بدن' اڑ گیا رنگ پیرہن
جان امید وار من' وقت بہت گزر گیا
............
فٹ پاتھ پہ بھی سونے نہ دیا' ترے شہر کے عزت داروں نے
ہم کتنی دور سے آئے تھے اک رات بسر کرنے کے لیے
............
مگر پھر بیچ بیچ میں ایسی آواز بھی سنائی دے جاتی ہے
ظالم تھے ماورائے حساب و کتاب کیا
ان پر نزول قہر خدا کیوں نہیں ہوا
اب جیسے نجی دکھ سکھ کی دنیا سے گزر کر کسی اور ہی دنیا میں آ گئے ہیں؎
گلیوں کو چپ لگی ہے نگر بولتے نہیں
دیوار و در وہی ہیں مگر بولتے نہیں
کوے کہاں چلے گئے چڑیوں کو کیا ہوا
جو بولتے تھے شام و سحر بولتے نہیں
تم کو خبر ہے بام حرم کے کبوترو
کیوں طائران شاخ و شجر بولتے نہیں
اور اس کے بعد سیدھا سیدھا بیان شروع ہو جاتا ہے
وطن بدلا مگر بدلے نہ حالات
وہی دنیا وہی اس کے سوالات
وہی بپھرا ہوا بکھرا ہوا دن
وہی سہمی ہوئی سمٹی ہوئی رات
کبھی یہ کہہ کے دیتا ہوں تسلی
سحر ہو گی بدل جائیں گے حالات
کبھی یہ سوچ کر ہنستا ہوں دل میں
کہاں جائیں گے یہ ارض و سماوات
پھر یہ نرالا خیال دل میں گھر کرنے لگتا ہے
کبھی یہ شک کہ ہو سکتا ہے اس نے
بنایا ہی نہ ہو روز مکافات
اقبال نے تو یہ کہہ کر امید دلائی تھی کہ
دنیا ہے تری منتظرِ روز مکافات
یہاں یہ اندیشہ ستانے لگتا ہے کہ شاید اس نے
بنایا ہی نہ ہو روز مکافات
تو بس اس طرح کے اداس موسم کے ساتھ احمد مشتاق اپنے نئے مجموعہ کلام میں جس کا عنوان ہے ''اوراق خزانی'' نمودار ہوا ہے۔ اور اسے چھاپا ہے اس ادارے نے جس نے اردو کے سلسلہ میں نئے عزائم کے ساتھ ریختہ فاؤنڈیشن کے نام سے دلی شہر میں نمود کی ہے
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا