شدت پسندی چند غور طلب پہلو
آج پوری مسلم دنیا ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر مذہبی شدت پسندی ایک ناقابل برداشت عفریت کی شکل اختیار کر چکی ہے
مسلم دنیا اس وقت ایک عجیب ہیجان و انتشار کی زد میں ہے۔ ایک طرف ایسی قدامت پرست اور شدت پسند قوتیں وجود میں آ چکی ہیں، جو عالمی امن کے علاوہ خود مسلم معاشروں کی بقا اور سلامتی کے لیے بہت بڑا چیلنج بن گئی ہیں، جب کہ دوسری طرف مسلم معاشروں کے صدیوں پرانے اندرونی تضادات اور روایتی فقہی اختلافات ایک نئی شکل میں ابھر کر سامنے آ گئے ہیں۔ وہ آگ جو 30 برس پہلے افغانستان میں بھڑکائی گئی تھی، اب اس کی تپش پوری دنیا میں محسوس کی جا رہی ہے۔
آج پوری مسلم دنیا ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر مذہبی شدت پسندی ایک ناقابل برداشت عفریت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ افغانستان اور پاکستان میں طالبان اور القاعدہ جیسی شدت پسند تنظیمیں ریاستی مقتدر اعلیٰ کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہیں۔ یہ تنظیمیں افغانستان کے علاوہ پاکستان میں جہاں چاہیں اور جب چاہیں شدت پسندی کے ذریعے سیکڑوں بے گناہ شہریوں کو پیوند خاک کر دیتی ہیں، ساتھ ہی بعض کالعدم تنظیمیں متشدد فرقہ واریت کو فروغ دینے کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ نائیجریا میں بوکو حرام نامی انتہا پسند تنظیم سفاکانہ قتل و غارت گری کی نئی داستانیں رقم کر رہی ہے، جب کہ شام اور عراق میں داعش (دعوت اسلامی عراق و شام) اقتدار پر قبضہ کے لیے جنگ و جدل میں مصروف ہے اور مخالفین کو انتہائی سفاکی کے ساتھ خاک و خون میں نہلا رہی ہے۔
منظر عام پر موجود انتہا پسند تنظیموں کے علاوہ ان گنت چھوٹی بڑی تنظیمیں دنیا بھر میں مذہب کے نام پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ ان کے اقدامات کا نقصان ان کروڑوں مسلمانوں کو بھگتنا پڑا رہا ہے، جو دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے روزگار کی خاطر معاشی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور جن کا اس قسم کے رجحانات سے کسی قسم کا کوئی عملی تعلق بھی نہیں ہے۔
دہشت گردی یا مذہبی شدت پسندی کے مظہر (Phenomenon) اور اس کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے۔ معروف تاریخ دان، مورخ اور سماجی دانشور ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ فکری شدت پسندی خواہ عقیدے کی بنیاد پر ہو، یا نسلی و لسانی بنیادوں پر دہشت گردی کو منطقی جواز فراہم کرنے کا سبب بنتی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اجتماعی قتل، خودکش حملے اور ٹارگٹ کلنگ کوئی نیا مظہر نہیں ہیں۔ بلکہ تاریخ کے مختلف ادوار میں ان مظاہر کے شواہد ملتے ہیں۔ ماضی بعید میں دہشت گردی کا مقصد مفتوح اقوام، مزارعوں، غلاموں اور اقلیتوں کو تابع لانا ہوا کرتا تھا، جب کہ بیشتر ریڈیکل اور انقلابی عناصر آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ریاستی ڈھانچے میں مطلوبہ تبدیلیاں دہشت گردی کے ذریعے اعلیٰ ریاستی عہدیداروں کو قتل کر کے یقینی بنائی جا سکتی ہیں۔
اسی طرح مختلف مذاہب میں جنم لینے والا Puritan طبقہ بھی اصلاح احوال کے لیے منکرین یا بدعقیدہ افراد کے قتال پر یقین رکھتا ہے، جب کہ نسلی، لسانی اور قومیتی گروہ اپنے ثقافتی تفاخر کو جلا بخشنے اور معاشرے پر اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے دہشت گردی کی راہ اپناتے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد کے مختلف گروہ بھی اپنی طاقت میں اضافہ اور جرم کی دنیا میں اپنی حاکمیت قائم کرنے کے لیے دیگر جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف دہشت گردی کا سہارا لیتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ تیسری صدی قبل مسیح میں جب ڈورین قوم نے اسپارٹا پر قبضہ کیا تو قدیمی ہیلوٹ قوم کو دہشت گردی کے ذریعے شہر چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ 11 ویں صدی میں حسن بن صباح کے مریدین نے جو فدائین کہلاتے تھے، اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے وزراء، عمائدین ریاست اور اعلیٰ عہدیداروں کو ٹارگٹ کلنگ اور خودکش حملوں کے ذریعے قتل کر کے شمالی ایران میں دہشت کی نئی فضا قائم کی تھی۔
اسی طرح 12 ویں صدی میں روس میں بعض ریڈیکل گروپ منظم ہونا شروع ہوئے اور انھوں نے زار روس کے اہم ذمے داروں کو قتل کر کے ریاست کے بنیادی ڈھانچہ میں تبدیلی لانے کی کوشش کی۔ جب کہ جدید دنیا میں برطانیہ میں آئرش ری پبلکن آرمی اور سری لنکا میں تامل ٹائیگرز نے آزادی کے حصول کی خاطر بالترتیب عقیدے اور قومیت کی بنیاد پر دہشت گردی کی نئی داستانیں رقم کیں۔ 1990ء کے عشرے میں سابقہ یوگوسلاویہ میں سرب قوم پرستوں نے بوسنیائی عوام کی منظم نسل کشی کرنے کی۔ جسے روکنے میں جب یورپی ممالک ناکام رہے، تو امریکا نے اقوام متحدہ کی مدد سے بوسنیا ہرزے گووینیا کی ریاست قائم کرائی، جب کہ دوسری طرف سرب شدت پسندوں پر جنگی جرائم کے مقدمات قائم کرا کے بوسینائی عوام کو تحفظ فراہم کیا۔
یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ماضی بعید سے جدید دور تک متعلقہ حکومتوں نے شدت پسند عناصر کے ساتھ مذاکرات یا بات چیت کرنے کے بجائے ان کی پوری قوت کے ساتھ سرکوبی کرنے کو ترجیح دی۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ دنیا کی معلوم تاریخ میں دہشت گرد گروہوں نے عوام اور ریاست کو جان و مال کا نقصان تو بہت پہنچایا، مگر انھیں اپنے مقاصد میں کبھی مکمل کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ چاہے فدائین ہوں یا روسی ریڈیکل گروپس یا پھر دور جدید میں آئرش ری پبلکن آرمی (IRA) ہو یا تامل ٹائیگرز، کوئی بھی دہشت گردی کے ذریعے اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکا۔ جس طرح ماضی میں زار روس نے ریڈیکل عناصر کو پوری قوت سے کچل دیا تھا، اسی طرح برطانوی اور سری لنکن حکومتوں نے اپنے سیاسی عزم و حوصلہ اور دہشت گردی کے خلاف بے لچک حکمت عملیوں کے ذریعے شدت پسند عناصر کو نشان عبرت بنا دیا۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلم مذہبی شدت پسندی کا حالیہ مظہر 30 برس قبل 1980ء کے عشرے میں اس وقت ابھر کر سامنے آیا، جب عالمی سطح پر دو اہم واقعات رونما ہوئے۔ اول، ایران میں شہنشاہیت کے خلاف انقلاب، جس کے نتیجے میں مذہبی قوتوں کو بلاشرکت غیرے اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔ دوئم، افغانستان میں روسی فوجوں کی آمد اور اس کے نتیجے میں دو عالمی قوتوں کے درمیان شروع ہونے والی پراکسی جنگ۔ افغانستان میں لڑی جانے والی گوریلا جنگ کو جہاد کا نام دے کر دنیا بھر سے جنگجو جتھوں کو لا کر اس میں جھونکا گیا۔ اس نئی صورتحال نے ایک طرف مختلف فقہوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنماؤں اور جماعتوں کو اقتدار میں آنے کا حوصلہ بخشا۔ جب کہ دوسری طرف سیاست اور اقتدار کی کشمکش نے مسلم دنیا میں فقہی تقسیم کو مزید گہرا کر دیا، یوں مسلم معاشروں میں افقی اور عمودی تقسیم گہری ہو گئی۔
اس وقت صورتحال کچھ اس طرح ترتیب پا چکی ہے کہ ایک طرف سوویت یونین کو شکست و ریخت سے دوچار کرنے کے زعم میں مبتلا بعض عسکریت پسند گروہ پوری دنیا میں اسلحے کے زور پر اسلام کے نفاذ کے لیے سرگرم ہیں، ساتھ ہی وہ امریکا اور مغربی ممالک کو مسلمانوں کی پسماندگی کا ذمے دار سمجھتے ہیں، جو غلط بھی نہیں ہے۔ مگر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے حسن بن صباح کے فدائین والا طرز عمل اختیار کرتے ہوئے وہ یہ فراموش کر بیٹھے ہیں کہ 9 صدی پہلے اختیار کی گئی حکمت عملیاں آج کے دور میں قابل عمل نہیں رہی ہیں۔ جب کہ دوسری طرف فقہی آویزش بھی متشدد شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔
دو دوست مسلم ممالک کے درمیان ہونے والی پراکسی جنگ خلیج کے علاقے سے نکل کر پاکستان تک پہنچ چکی ہے۔ یوں پوری دنیا میں مسلم معاشرے اور ان کی قوت بری طرح منقسم ہو چکی ہے۔ یہ دوسروں کے بجائے آپس میں زیادہ دست و گریباں ہیں۔ اس لیے دہشت گردی کے ذریعے مغربی دنیا کو شکست دینا یا اس سے اپنے مطالبات منوانا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ بلکہ اس عمل کے نتیجے میں خود مسلمانوں کے لیے عالمی سطح پر نئے مسائل پیدا ہونے کے خدشات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دراصل انفارمیشن اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی نے اس کرہ ارض کے باسیوں کو ویسے تو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے، مگر تہذیبی، ثقافتی اور فکری فرق آج بھی برقرار ہے۔ جس کی وجہ سے مختلف معاشروں میں شناخت کا بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے ایک دوسرے کے رویوں کو سمجھنے کے بجائے شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں، جس کی وجہ سے حالات کے سنگین سے سنگین تر ہو جانے کے خطرات اپنی جگہ موجود ہیں۔
دوسری طرف شدت پسندی کے تیزی کے ساتھ بڑھتے ہوئے مظہر نے دنیا کے مختلف ممالک میں آباد مسلمانوں کے لیے نئے سیاسی و سماجی اور معاشی مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا، تو مسلمانوں کے عالمی سطح پر ناقابل قبول مخلوق بنا دیے جانے کے شدید خدشات بھی موجود ہیں، جس کی وجہ سے پہلے سے سیاسی، سماجی اور فکری پسماندگی میں مبتلا مسلم معاشرے مزید ابتری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ اب امریکا یا مغربی دنیا خلیج کے قدرتی وسائل کی محتاج نہیں رہی ہے، بلکہ کئی متبادل سامنے آ چکے ہیں۔ اس لیے کوئی انتہا پسندانہ فیصلہ کرتے ہوئے اس کے مستقبل پر پڑنے والے ممکنہ اثرات کو مدنظر رکھنا بھی نہایت ضروری ہو گیا ہے۔
لہٰذا اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم دانشور سر جوڑ کر بیٹھیں اور ان فکری معاملات و مسائل پر غور کریں جو عام مسلمان میں بڑھتی ہوئی بیگانگی کے علاوہ مذہبی شدت پسندانہ رجحانات کو قبولیت بخشنے کا سبب بن رہے ہیں۔ کیونکہ ان رجحانات کی وجہ سے مسلمانوں اور ترقی یافتہ صنعتی معاشروں کے درمیان خلیج گہری ہو رہی ہے، جو کسی بھی وقت بڑے تصادم کا سبب بن کر عالم انسانیت کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔
آج پوری مسلم دنیا ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر مذہبی شدت پسندی ایک ناقابل برداشت عفریت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ افغانستان اور پاکستان میں طالبان اور القاعدہ جیسی شدت پسند تنظیمیں ریاستی مقتدر اعلیٰ کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہیں۔ یہ تنظیمیں افغانستان کے علاوہ پاکستان میں جہاں چاہیں اور جب چاہیں شدت پسندی کے ذریعے سیکڑوں بے گناہ شہریوں کو پیوند خاک کر دیتی ہیں، ساتھ ہی بعض کالعدم تنظیمیں متشدد فرقہ واریت کو فروغ دینے کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ نائیجریا میں بوکو حرام نامی انتہا پسند تنظیم سفاکانہ قتل و غارت گری کی نئی داستانیں رقم کر رہی ہے، جب کہ شام اور عراق میں داعش (دعوت اسلامی عراق و شام) اقتدار پر قبضہ کے لیے جنگ و جدل میں مصروف ہے اور مخالفین کو انتہائی سفاکی کے ساتھ خاک و خون میں نہلا رہی ہے۔
منظر عام پر موجود انتہا پسند تنظیموں کے علاوہ ان گنت چھوٹی بڑی تنظیمیں دنیا بھر میں مذہب کے نام پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ ان کے اقدامات کا نقصان ان کروڑوں مسلمانوں کو بھگتنا پڑا رہا ہے، جو دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے روزگار کی خاطر معاشی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور جن کا اس قسم کے رجحانات سے کسی قسم کا کوئی عملی تعلق بھی نہیں ہے۔
دہشت گردی یا مذہبی شدت پسندی کے مظہر (Phenomenon) اور اس کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے۔ معروف تاریخ دان، مورخ اور سماجی دانشور ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ فکری شدت پسندی خواہ عقیدے کی بنیاد پر ہو، یا نسلی و لسانی بنیادوں پر دہشت گردی کو منطقی جواز فراہم کرنے کا سبب بنتی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اجتماعی قتل، خودکش حملے اور ٹارگٹ کلنگ کوئی نیا مظہر نہیں ہیں۔ بلکہ تاریخ کے مختلف ادوار میں ان مظاہر کے شواہد ملتے ہیں۔ ماضی بعید میں دہشت گردی کا مقصد مفتوح اقوام، مزارعوں، غلاموں اور اقلیتوں کو تابع لانا ہوا کرتا تھا، جب کہ بیشتر ریڈیکل اور انقلابی عناصر آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ریاستی ڈھانچے میں مطلوبہ تبدیلیاں دہشت گردی کے ذریعے اعلیٰ ریاستی عہدیداروں کو قتل کر کے یقینی بنائی جا سکتی ہیں۔
اسی طرح مختلف مذاہب میں جنم لینے والا Puritan طبقہ بھی اصلاح احوال کے لیے منکرین یا بدعقیدہ افراد کے قتال پر یقین رکھتا ہے، جب کہ نسلی، لسانی اور قومیتی گروہ اپنے ثقافتی تفاخر کو جلا بخشنے اور معاشرے پر اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے دہشت گردی کی راہ اپناتے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد کے مختلف گروہ بھی اپنی طاقت میں اضافہ اور جرم کی دنیا میں اپنی حاکمیت قائم کرنے کے لیے دیگر جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف دہشت گردی کا سہارا لیتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ تیسری صدی قبل مسیح میں جب ڈورین قوم نے اسپارٹا پر قبضہ کیا تو قدیمی ہیلوٹ قوم کو دہشت گردی کے ذریعے شہر چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ 11 ویں صدی میں حسن بن صباح کے مریدین نے جو فدائین کہلاتے تھے، اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے وزراء، عمائدین ریاست اور اعلیٰ عہدیداروں کو ٹارگٹ کلنگ اور خودکش حملوں کے ذریعے قتل کر کے شمالی ایران میں دہشت کی نئی فضا قائم کی تھی۔
اسی طرح 12 ویں صدی میں روس میں بعض ریڈیکل گروپ منظم ہونا شروع ہوئے اور انھوں نے زار روس کے اہم ذمے داروں کو قتل کر کے ریاست کے بنیادی ڈھانچہ میں تبدیلی لانے کی کوشش کی۔ جب کہ جدید دنیا میں برطانیہ میں آئرش ری پبلکن آرمی اور سری لنکا میں تامل ٹائیگرز نے آزادی کے حصول کی خاطر بالترتیب عقیدے اور قومیت کی بنیاد پر دہشت گردی کی نئی داستانیں رقم کیں۔ 1990ء کے عشرے میں سابقہ یوگوسلاویہ میں سرب قوم پرستوں نے بوسنیائی عوام کی منظم نسل کشی کرنے کی۔ جسے روکنے میں جب یورپی ممالک ناکام رہے، تو امریکا نے اقوام متحدہ کی مدد سے بوسنیا ہرزے گووینیا کی ریاست قائم کرائی، جب کہ دوسری طرف سرب شدت پسندوں پر جنگی جرائم کے مقدمات قائم کرا کے بوسینائی عوام کو تحفظ فراہم کیا۔
یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ماضی بعید سے جدید دور تک متعلقہ حکومتوں نے شدت پسند عناصر کے ساتھ مذاکرات یا بات چیت کرنے کے بجائے ان کی پوری قوت کے ساتھ سرکوبی کرنے کو ترجیح دی۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ دنیا کی معلوم تاریخ میں دہشت گرد گروہوں نے عوام اور ریاست کو جان و مال کا نقصان تو بہت پہنچایا، مگر انھیں اپنے مقاصد میں کبھی مکمل کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ چاہے فدائین ہوں یا روسی ریڈیکل گروپس یا پھر دور جدید میں آئرش ری پبلکن آرمی (IRA) ہو یا تامل ٹائیگرز، کوئی بھی دہشت گردی کے ذریعے اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکا۔ جس طرح ماضی میں زار روس نے ریڈیکل عناصر کو پوری قوت سے کچل دیا تھا، اسی طرح برطانوی اور سری لنکن حکومتوں نے اپنے سیاسی عزم و حوصلہ اور دہشت گردی کے خلاف بے لچک حکمت عملیوں کے ذریعے شدت پسند عناصر کو نشان عبرت بنا دیا۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلم مذہبی شدت پسندی کا حالیہ مظہر 30 برس قبل 1980ء کے عشرے میں اس وقت ابھر کر سامنے آیا، جب عالمی سطح پر دو اہم واقعات رونما ہوئے۔ اول، ایران میں شہنشاہیت کے خلاف انقلاب، جس کے نتیجے میں مذہبی قوتوں کو بلاشرکت غیرے اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔ دوئم، افغانستان میں روسی فوجوں کی آمد اور اس کے نتیجے میں دو عالمی قوتوں کے درمیان شروع ہونے والی پراکسی جنگ۔ افغانستان میں لڑی جانے والی گوریلا جنگ کو جہاد کا نام دے کر دنیا بھر سے جنگجو جتھوں کو لا کر اس میں جھونکا گیا۔ اس نئی صورتحال نے ایک طرف مختلف فقہوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنماؤں اور جماعتوں کو اقتدار میں آنے کا حوصلہ بخشا۔ جب کہ دوسری طرف سیاست اور اقتدار کی کشمکش نے مسلم دنیا میں فقہی تقسیم کو مزید گہرا کر دیا، یوں مسلم معاشروں میں افقی اور عمودی تقسیم گہری ہو گئی۔
اس وقت صورتحال کچھ اس طرح ترتیب پا چکی ہے کہ ایک طرف سوویت یونین کو شکست و ریخت سے دوچار کرنے کے زعم میں مبتلا بعض عسکریت پسند گروہ پوری دنیا میں اسلحے کے زور پر اسلام کے نفاذ کے لیے سرگرم ہیں، ساتھ ہی وہ امریکا اور مغربی ممالک کو مسلمانوں کی پسماندگی کا ذمے دار سمجھتے ہیں، جو غلط بھی نہیں ہے۔ مگر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے حسن بن صباح کے فدائین والا طرز عمل اختیار کرتے ہوئے وہ یہ فراموش کر بیٹھے ہیں کہ 9 صدی پہلے اختیار کی گئی حکمت عملیاں آج کے دور میں قابل عمل نہیں رہی ہیں۔ جب کہ دوسری طرف فقہی آویزش بھی متشدد شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔
دو دوست مسلم ممالک کے درمیان ہونے والی پراکسی جنگ خلیج کے علاقے سے نکل کر پاکستان تک پہنچ چکی ہے۔ یوں پوری دنیا میں مسلم معاشرے اور ان کی قوت بری طرح منقسم ہو چکی ہے۔ یہ دوسروں کے بجائے آپس میں زیادہ دست و گریباں ہیں۔ اس لیے دہشت گردی کے ذریعے مغربی دنیا کو شکست دینا یا اس سے اپنے مطالبات منوانا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ بلکہ اس عمل کے نتیجے میں خود مسلمانوں کے لیے عالمی سطح پر نئے مسائل پیدا ہونے کے خدشات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دراصل انفارمیشن اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی نے اس کرہ ارض کے باسیوں کو ویسے تو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے، مگر تہذیبی، ثقافتی اور فکری فرق آج بھی برقرار ہے۔ جس کی وجہ سے مختلف معاشروں میں شناخت کا بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے ایک دوسرے کے رویوں کو سمجھنے کے بجائے شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں، جس کی وجہ سے حالات کے سنگین سے سنگین تر ہو جانے کے خطرات اپنی جگہ موجود ہیں۔
دوسری طرف شدت پسندی کے تیزی کے ساتھ بڑھتے ہوئے مظہر نے دنیا کے مختلف ممالک میں آباد مسلمانوں کے لیے نئے سیاسی و سماجی اور معاشی مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا، تو مسلمانوں کے عالمی سطح پر ناقابل قبول مخلوق بنا دیے جانے کے شدید خدشات بھی موجود ہیں، جس کی وجہ سے پہلے سے سیاسی، سماجی اور فکری پسماندگی میں مبتلا مسلم معاشرے مزید ابتری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ اب امریکا یا مغربی دنیا خلیج کے قدرتی وسائل کی محتاج نہیں رہی ہے، بلکہ کئی متبادل سامنے آ چکے ہیں۔ اس لیے کوئی انتہا پسندانہ فیصلہ کرتے ہوئے اس کے مستقبل پر پڑنے والے ممکنہ اثرات کو مدنظر رکھنا بھی نہایت ضروری ہو گیا ہے۔
لہٰذا اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم دانشور سر جوڑ کر بیٹھیں اور ان فکری معاملات و مسائل پر غور کریں جو عام مسلمان میں بڑھتی ہوئی بیگانگی کے علاوہ مذہبی شدت پسندانہ رجحانات کو قبولیت بخشنے کا سبب بن رہے ہیں۔ کیونکہ ان رجحانات کی وجہ سے مسلمانوں اور ترقی یافتہ صنعتی معاشروں کے درمیان خلیج گہری ہو رہی ہے، جو کسی بھی وقت بڑے تصادم کا سبب بن کر عالم انسانیت کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔