آخر کب تک
کے پی کے میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو کسی بھی سیاسی پارٹی نے آزادانہ و منصفانہ تسلیم نہیں کیا ہے۔
QUETTA:
2009 کے بعد 2015 بلدیاتی انتخابات کا سال ہے۔ بلدیاتی انتخابات کروانے کا سہرا بلاشبہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سر جاتا ہے۔ اس سال مارچ میں عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کرنے کے لیے حتمی تاریخ دینے کا قطعی حکم دیا تھا، جس کے بعد کے پی کے میں مئی اور پنجاب اور سندھ میں ستمبر کے مہینے میں انتخابات کرانے کے شیڈول کا اعلان کیا گیا تھا۔ کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات کے دوران بڑے پیمانے پر پرتشدد ہنگامہ آرائی، بدنظمی، بدانتظامی اور بے ضابطگیوں کے واقعات دیکھنے میں آئے۔
عمران خان اور صوبائی وزیراعلیٰ نے ان تمام کی ذمے داری الیکشن کمیشن کے کاندھوں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی، ان کا کہنا تھا کہ اگر مرحلہ وار انتخابات کرائے جاتے تو خون ریزی اور بدانتظامی سے بچا جاسکتا تھا جب کہ الیکشن کمیشن نے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امن و امان کی ذمے داری صوبائی حکومت کی تھی اور انتخابات مرحلہ وار کرانے کی تجویز خود الیکشن کمیشن نے نہیں دی تھی تاکہ تشدد و بدنظمی کے واقعات کو روکا جاسکے۔ اس سلسلے میں دو مرتبہ صوبائی حکومت سے رابطہ کیا گیا لیکن اس کا اصرار تھا کہ انتخابات ایک ہی دن کرائے جائیں۔ ان انتخابات میں جعلی ووٹ، جعلی مہریں، انتخابی عملہ کو کمروں میں بند کرکے تالا لگا دینے اور خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کے واقعات سامنے آئے۔
انتخابات کے دوران اور اس کے بعد جشن منانے اور انتخابی تنازعات کی بنیاد پر حملوں کے نتیجے میں درجنوں افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ حکومتی وزیر کی جانب سے بیلٹ باکس اٹھاکر لے جانے اور غنڈہ گردی کے واقعات سامنے آئے۔ اے این پی کے مرکزی رہنما میاں افتخار حسین پر قاتلانہ حملہ اور ان کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج ہونے کا واقعہ رونما ہوا۔ جنھیں ہتھکڑیاں لگا کر گرفتار اور عدالت میں پیش کیا گیا، جنھیں عدالت نے دو لاکھ روپے کی ضمانت پر رہا کیا۔ رہائی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے میاں افتخار نے بتایا کہ انھیں 4 گھنٹے ہجوم نے یرغمال بنائے رکھا، پولیس تماشائی بنی رہی۔ مقتول کے والد اور پاک فوج کے جوانوں نے انھیں بحفاظت نکالا۔ انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی والے مجھے مارنا چاہتے تھے، مجھے تو گرفتار کرلیا گیا لیکن جس کے خلاف ہم نے ایف آئی آر درج کرائی اسے گرفتار نہیں کیا گیا۔
پولیس کا یہ بیان کہ میاں افتخار حسین کو حفاظتی تحویل میں لیا گیا تھا پھر ایف آئی آر درج کرکے ہتھکڑیاں لگا کر گھمانا پولیس کی جانبداری اور غلط بیانی کو ظاہر کرتا ہے۔ میاں افتخار حسین کا شمار ملک کے چند ایسے سیاستدانوں میں ہوتا ہے جن کی دیانت، شرافت اور متانت کے اپنے اور غیر سب معترف نظر آتے ہیں۔ انھوں نے مقتول کے گھر جاکر اس کے اہل خانہ سے تعزیت کی جب کہ مقتول کے والد بھی یہ بیان دے چکے ہیں کہ ان پر دباؤ ڈال کر میاں صاحب کا نام ایف آئی آر میں ڈلوایا گیا تھا۔ دوسری جانب پولیس ووٹوں سے بھرا پورا باکس اپنی گاڑی میں ڈال کر لے جانے والے وزیر کی گرفتاری کی ہمت نہ کرسکی، کارکنوں نے ان کی رہائش گاہ کو گھیرے رکھا اور انھوں نے خود پورے پروٹوکول کے ساتھ گرفتاری دی۔ جب کہ پی ٹی آئی کی طرف سے کے پی کے پولیس کو کرپشن، سفارش اور سیاست سے پاک اور دوسرے صوبوں کے لیے مثال قرار دیا جاتا ہے۔
دوسری طرف شیخ محمد عمران نے پرویز خٹک کے داماد اور بیٹے پر رشوت لے کر پولیس میں بھرتیاں کرانے کا الزام لگایا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں اس کے پاس گھنٹوں کی ریکارڈنگ ہے جسے تلف کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ نے اسے رشوت دینے کی کوششیں بھی کی ہیں، جب کہ وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ اس سے بڑا کوئی اور جھوٹ نہیں ہوسکتا، وہ 101 فیصد میرٹ کے حامی ہیں، اگر الزام ثابت ہوجائے تو استعفیٰ دے دیں گے۔ان الزامات کی تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ اصل صورتحال واضح ہو سکے۔
کے پی کے میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو کسی بھی سیاسی پارٹی نے آزادانہ و منصفانہ تسلیم نہیں کیا ہے۔ خود پی ٹی آئی کی حلیف اور شریک اقتدار جماعت اسلامی نے بھی پی ٹی آئی کو دھاندلی میں چیمپئن جماعت کے خطاب سے نواز دیا ہے۔ جماعت اسلامی نے انتخابات میں منظم دھاندلی کا الزام عائد کرکے تمام حلقوں میں دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی کی طرف سے سنگین الزامات اور تنقید پر عمران خان نے شدید برہمی کا اظہار کیا ہے، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی میں بڑھتی ہوئی خلیج کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت کے وجود کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کی تشکیل کے وقت جماعت نے وزارت تعلیم کا قلم دان مانگا تھا لیکن اسے صحت کی وزارت دی گئی تھی۔
پی ٹی آئی نے قومی انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر جو 4 مہینے کا دھرنا اور وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کیا تھا جماعت اسلامی نے اس سے اختلاف کیا تھا۔ جماعت نے کراچی کے ضمنی انتخابات حلقہ 246 میں جہاں سے ماضی میں اس کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے تھے پی ٹی آئی کو اپنا امیدوار بٹھانے کی درخواست کی تھی، جو مسترد کردی گئی تھی۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں کے پی کے میں جماعت اسلامی کا گراف کافی نیچے گرا، جو دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں سے بھی نیچے پہنچ چکا ہے۔ پی ٹی آئی کے ساتھ سیاسی گٹھ جوڑ، شراکت اقتدار اور مصالحت پسندی نے جماعت اسلامی کی سیاسی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ کے پی کے میں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی دونوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔
خاص طور پر تحریک انصاف کا کہ اگر اس کی حکومت ختم ہوتی ہے تو اس کے نامہ اعمال میں کوئی چیز یا کارکردگی ایسی نہیں جس کی بنیاد پر وہ انتخابی مہم چلا کر سرخ رو ہوسکے۔ سرحد کے ماضی کے انتخابی نتائج بھی اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں کے ووٹر محض سیاسی و نظریاتی وابستگی کی بنا پر کسی سیاسی و مذہبی جماعت کے کھونٹے سے نہیں بندھے رہتے ہیں وہ بیلٹ کو بلٹ کے طور پر استعمال کرکے سیاسی جماعتوں سے جمہوری طریقے سے انتقام لیتے ہیں۔ (ن) لیگ، متحدہ مجلس عمل، پی پی پی، اے این پی اور پی ٹی آئی کی بدلتی صوبائی حکومتیں یہاں کے ووٹرز کے مزاج کی عکاسی کرتی ہیں۔
عمران خان رائٹ و لیفٹ کے بجائے رائٹ و رانگ کی جنگ کے نام پر کبھی خود کو محب وطن، قوم پرست و مذہب پرست کہیں لبرل، سیکولر اور روشن خیال ظاہر کرکے کہیں مذہب کا سہارا لے کر کہیں موسیقی کے ذریعے اپنا جتنا ووٹ بینک پیدا کرسکتے تھے اور اپنی جماعت کو جس بلندی تک پہنچا سکتے تھے پہنچا چکے ہیں، اب اس میں مزید اضافہ و استحکام اور دوام صرف کارکردگی کی بنیاد پر حاصل ہوسکتا ہے۔ ورنہ یہ جماعت اتنی ہی تیزی سے نیچے بھی آسکتی ہے۔ قومی انتخابات کے بعد سے تحریک انصاف کی سیاست ''آزادانہ ومنصفانہ انتخابات'' کے سلوگن کے تحت چل رہی ہے۔ اسی کے تحت دیگر سیاسی جماعتوں کی مخالفت کے باوجود اس نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر وزیراعظم کے استعفے اور دوبارہ قومی انتخابات کرانے کے لیے 4 ماہ تک دھرنا دیے رکھا تھا۔ اب خود اس کی نگرانی میں کرائے جانے والے انتخابات میں دیگر سیاسی جماعتیں اس سے اسی قسم کے مطالبات دہرا رہی ہیں۔ جس کو میاں نواز شریف نے مکافات عمل قرار دیا ہے۔
صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے عمران خان نے تمام نشستوں پر دوبارہ فوج کی نگرانی میں الیکشن کرانے پر آمادگی کا اظہار کردیا ہے۔ جو بظاہر ایک اچھا وقتی سیاسی فیصلہ نظر آتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دوبارہ الیکشن کا انعقاد کوئی آسان کام ہے اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ پورے صوبے میں فوج کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات حقیقتاً منصفانہ اور سب کے لیے قابل قبول ہوں گے؟ کہیں کوئی دھاندلی اور بدنظمی نہیں ہوگی پھر سے انسانی زندگیاں ضایع نہیں ہوں گی؟ انتخابات کے دوبارہ انعقاد سے قومی خزانے پر جو اربوں روپوں کا اضافی بوجھ پڑے گا اس کو اس ملک کے غریب عوام ہی برداشت کریں گے، جس طرح 4 ماہ کے طویل دھرنوں کے نتیجے میں ہونے والا کھربوں روپوں کا نقصان غریب عوام کی گردنوں پر لدا ہوا ہے۔ آخر اس ملک کے غریب عوام سیاستدانوں کی خرمستیوں کا خراج کب تک ادا کرتے رہیں گے؟