اسٹارٹ اَپس
پاکستان میں غیر استعمال شدہ صلاحیتیں بے انتہا موجود ہیں
کیا آپ جانتے ہیں کہ امریکا اتنا کامیاب کیوں ہے؟ شاید آپ کا جواب ہوکہ اپنی ٹیکنالوجی اور پاور کی وجہ سے وہ کامیاب ہے یا پھر تعلیم، بزنس کی وجہ سے، ڈالر کا مضبوط ہونا بھی ان کی طاقت ہوسکتی ہے لیکن یہ سب بعد میں آیا ہم اس پہیے کی بات کر رہے ہیں جس سے اس ملک کی کامیابیوں کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ تو اس کامیابی کی وجہ ہے Entrepreneurship یعنی سیلف میڈ بزنس مین سے شروع ہوا امریکا کی کامیابی کا سلسلہ۔
تھامس ایڈیسن کو لوگ بابائے بجلی کے نام سے جانتے ہیں، جنھوں نے بجلی کا بلب ایجاد کیا تھا لیکن بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ وہ ایک بہت اچھے بزنس مین بھی تھے اور انھوں نے دو سو سے زیادہ ایجادات کو پیٹنٹ کرا رکھا تھا، ساتھ ہی انھوں نے بجلی کی سب سے زیادہ قابل اعتماد کمپنی ''کون ایڈیسن'' 1890'sمیں شروع کی، اسی طرح انیسویں صدی کے آغاز میں ہنری فورڈ نے اپنے گھر میں گاڑی بناکر فورڈ کمپنی کی بنیاد ڈالی، ان مثالوں کو سامنے رکھ کر لاکھوں امریکی نوجوانوں نے ہمت پکڑی اپنے بزنس شروع کرنے کی اور اس میں ہزاروں کامیاب ہوئے اور اس طرح امریکا طاقتور بن گیا۔
Start Ups یعنی وہ کمپنی جو دو تین لوگ مل کر بہت کم ذرایع سے صرف ایک قومی جذبے کے تحت شروع کرتے ہیں، ان کا رجحان آج بھی امریکا میں بہت ہے، لیکن پاکستان میں کبھی یہ رجحان آیا ہی نہیں۔ ہمارے یہاں آج بھی بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر بننے کی ترغیب دی جاتی ہے یا پھر ایم بی اے کرکے کوئی مناسب نوکری تلاش کرنے کو کہا جاتا ہے اور اگر کبھی خوابوں کو دھکا دیا بھی جاتا ہے تو پاکستان میں نہیں بلکہ ملک سے باہر جاکر کچھ کرنے کی پلاننگ لیکن اسٹارٹ اپس کا کوئی نہیں سوچتا۔
پاکستان میں اس وقت 66 فیصد لوگ انڈر تھرٹی (30) ہیں یعنی 180 ملین والی آبادی کا یہ ملک ''نوجوان'' ہے، پھر بھی ہمارا سسٹم نوجوانوں کو اسٹارٹ اپس کا موقع نہیں دیتا، ایسے میں جب ذہین اور کامیاب لوگ نوجوانوں کے سامنے آتے ہیں تو یوتھ کے لیے ایک مثبت مثال بن جاتے ہیں اور کالج یونیورسٹی کے طلبا ویسا ہی بننا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں ایک کمپنی 1997 میں ایک کمرے سے شروع ہوئی تھی اور کچھ ہی سال میں بلین ڈالرز کے ریونیو تک پہنچ گئی، یہ سب دو نوجوانوں نے مل کر کیا یعنی ایک چھوٹے سے اسٹارٹ اپ سے۔ پاکستان میں صرف یہی ایک مثال نہیں سیکڑوں اور مثالیں ہیں ان Starters کی جو اپنے بل پر شروع ہوئیں اور جن کا مستقبل بہت اچھا ثابت ہو رہا ہے۔
عمیر عزیز نامی لڑکے نے 2000 میں اوہائیو امریکا سے گریجویٹ کیا تو وہ وہاں رکا نہیں بلکہ پاکستان واپس جاکر اپنا اسٹارٹ اپ شروع کیا، ان کی Creative Chaos نامی کمپنی دنیا کی بڑی بڑی کارپوریشن کے ساتھ کام کر رہی ہے ۔
ایک چھوٹے سے کمرے سے شروع ہونے والی اس کمپنی میں آج درجنوں انجینئرز اور کمپیوٹر پروگرامرز کام کرتے ہیں ۔ یہ اس وقت ایشیا کی سب سے زیادہ آگے بڑھنے والی اسٹارٹ اپس کمپنیوں میں سے ایک ہے۔
ایک دوسری کمیونٹی جو نوجوانوں کے لیے بہت کچھ کر رہی ہے کراچی میں ہے جس کا نام ہے "NEST"۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو ان لوگوں کو موقع دیتا ہے جو کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں مگر ان کے پاس ذرایع نہیں ہیں، اس ادارے کو جوائن کرنا بہت آسان ہے، اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے آئیڈیے میں دم ہے تو صرف ان کی ویب سائٹ پر جاکر اس بارے میں ای میل کریں جس کے بعد NEST کی ٹیم خود رابطہ کرے گی آپ سے۔
NEST کا مقصد کسی کو نوکری دلوانا نہیں بلکہ ان کی مدد کرنا ہے جو خود آگے بڑھنا چاہتے ہیں، مثلاً امریکا میں بہت مشہور ویب سائٹ ''CRAIG لسٹ'' جیسی سائٹ پاکستان میں ایک لڑکے نے بنانی چاہی تو نیسٹ کے ذریعے اسے کئی ویب ڈیزائنر مارکیٹنگ کے لوگوں کی مدد ملی جس سے نہ صرف اس کا تجربہ بڑھا بلکہ مدد کرنے والوں کے تجربے میں بھی اضافہ ہوا۔
انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، جب پہلی بار ٹی وی اسٹیشن امریکا میں قائم ہوا اس کے بعد انیس(19) سال لگے پاکستان میں ٹیلی ویژن اسٹیشن قائم ہونے میں، لیکن آج جب امریکا میں کوئی نیا فون ریلیز ہوتا تو 19 گھنٹے میں پاکستان میں دستیاب ہوجاتا ہے، انٹرنیٹ تو اور بھی آگے ہے، کوئی بھی ویب سائٹ یا سروس دنیا بھر میں ایک ساتھ لاؤنچ ہوجاتی ہے۔
پاکستان میں غیر استعمال شدہ صلاحیتیں بے انتہا موجود ہیں جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ نہ جانے ہمارے یہاں کتنے تھامس ایڈیسن اور ہنری فورڈ صرف گھر چلانے کے چکر میں کسی پکی نوکری کو پکڑ کر ساری زندگی کے لیے اپنی بقیہ صلاحیتوں کو کبھی بروئے کار نہیں لاپاتے، جب کہ NESTکو باہر کی کمپنیاں فنڈ کر رہی ہیں۔ اس کے باوجود ان کے ایڈمنسٹریشن کو شکایت ہے کہ کوئی بھی مقامی بینک یا سرمایہ کار اسٹارٹ اپس پر پیسہ لگانے پر تیار نہیں ہیں۔
1950's میں پانچ لڑکے تھے امریکا میں جنھوں نے ایک کمپنی شروع کی لیکن کسی بھی بینک نے انھیں پیسے نہیں دیے مگر انھوں نے ہمت نہیں ہاری کوشش کرتے رہے اس کمپنی کا نام تھا INTEL۔ جس کی وجہ سے کمپیوٹرز کی دنیا میں انقلاب آیا۔
اگر آگے بڑھنا ہے تو پہلا قدم خود لیں کسی ''اچھے وقت'' کا انتظار نہ کریں اور کسی بھی رکاوٹ کو خاطر میں نہ لائیں۔
تھامس ایڈیسن کو لوگ بابائے بجلی کے نام سے جانتے ہیں، جنھوں نے بجلی کا بلب ایجاد کیا تھا لیکن بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ وہ ایک بہت اچھے بزنس مین بھی تھے اور انھوں نے دو سو سے زیادہ ایجادات کو پیٹنٹ کرا رکھا تھا، ساتھ ہی انھوں نے بجلی کی سب سے زیادہ قابل اعتماد کمپنی ''کون ایڈیسن'' 1890'sمیں شروع کی، اسی طرح انیسویں صدی کے آغاز میں ہنری فورڈ نے اپنے گھر میں گاڑی بناکر فورڈ کمپنی کی بنیاد ڈالی، ان مثالوں کو سامنے رکھ کر لاکھوں امریکی نوجوانوں نے ہمت پکڑی اپنے بزنس شروع کرنے کی اور اس میں ہزاروں کامیاب ہوئے اور اس طرح امریکا طاقتور بن گیا۔
Start Ups یعنی وہ کمپنی جو دو تین لوگ مل کر بہت کم ذرایع سے صرف ایک قومی جذبے کے تحت شروع کرتے ہیں، ان کا رجحان آج بھی امریکا میں بہت ہے، لیکن پاکستان میں کبھی یہ رجحان آیا ہی نہیں۔ ہمارے یہاں آج بھی بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر بننے کی ترغیب دی جاتی ہے یا پھر ایم بی اے کرکے کوئی مناسب نوکری تلاش کرنے کو کہا جاتا ہے اور اگر کبھی خوابوں کو دھکا دیا بھی جاتا ہے تو پاکستان میں نہیں بلکہ ملک سے باہر جاکر کچھ کرنے کی پلاننگ لیکن اسٹارٹ اپس کا کوئی نہیں سوچتا۔
پاکستان میں اس وقت 66 فیصد لوگ انڈر تھرٹی (30) ہیں یعنی 180 ملین والی آبادی کا یہ ملک ''نوجوان'' ہے، پھر بھی ہمارا سسٹم نوجوانوں کو اسٹارٹ اپس کا موقع نہیں دیتا، ایسے میں جب ذہین اور کامیاب لوگ نوجوانوں کے سامنے آتے ہیں تو یوتھ کے لیے ایک مثبت مثال بن جاتے ہیں اور کالج یونیورسٹی کے طلبا ویسا ہی بننا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں ایک کمپنی 1997 میں ایک کمرے سے شروع ہوئی تھی اور کچھ ہی سال میں بلین ڈالرز کے ریونیو تک پہنچ گئی، یہ سب دو نوجوانوں نے مل کر کیا یعنی ایک چھوٹے سے اسٹارٹ اپ سے۔ پاکستان میں صرف یہی ایک مثال نہیں سیکڑوں اور مثالیں ہیں ان Starters کی جو اپنے بل پر شروع ہوئیں اور جن کا مستقبل بہت اچھا ثابت ہو رہا ہے۔
عمیر عزیز نامی لڑکے نے 2000 میں اوہائیو امریکا سے گریجویٹ کیا تو وہ وہاں رکا نہیں بلکہ پاکستان واپس جاکر اپنا اسٹارٹ اپ شروع کیا، ان کی Creative Chaos نامی کمپنی دنیا کی بڑی بڑی کارپوریشن کے ساتھ کام کر رہی ہے ۔
ایک چھوٹے سے کمرے سے شروع ہونے والی اس کمپنی میں آج درجنوں انجینئرز اور کمپیوٹر پروگرامرز کام کرتے ہیں ۔ یہ اس وقت ایشیا کی سب سے زیادہ آگے بڑھنے والی اسٹارٹ اپس کمپنیوں میں سے ایک ہے۔
ایک دوسری کمیونٹی جو نوجوانوں کے لیے بہت کچھ کر رہی ہے کراچی میں ہے جس کا نام ہے "NEST"۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو ان لوگوں کو موقع دیتا ہے جو کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں مگر ان کے پاس ذرایع نہیں ہیں، اس ادارے کو جوائن کرنا بہت آسان ہے، اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے آئیڈیے میں دم ہے تو صرف ان کی ویب سائٹ پر جاکر اس بارے میں ای میل کریں جس کے بعد NEST کی ٹیم خود رابطہ کرے گی آپ سے۔
NEST کا مقصد کسی کو نوکری دلوانا نہیں بلکہ ان کی مدد کرنا ہے جو خود آگے بڑھنا چاہتے ہیں، مثلاً امریکا میں بہت مشہور ویب سائٹ ''CRAIG لسٹ'' جیسی سائٹ پاکستان میں ایک لڑکے نے بنانی چاہی تو نیسٹ کے ذریعے اسے کئی ویب ڈیزائنر مارکیٹنگ کے لوگوں کی مدد ملی جس سے نہ صرف اس کا تجربہ بڑھا بلکہ مدد کرنے والوں کے تجربے میں بھی اضافہ ہوا۔
انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، جب پہلی بار ٹی وی اسٹیشن امریکا میں قائم ہوا اس کے بعد انیس(19) سال لگے پاکستان میں ٹیلی ویژن اسٹیشن قائم ہونے میں، لیکن آج جب امریکا میں کوئی نیا فون ریلیز ہوتا تو 19 گھنٹے میں پاکستان میں دستیاب ہوجاتا ہے، انٹرنیٹ تو اور بھی آگے ہے، کوئی بھی ویب سائٹ یا سروس دنیا بھر میں ایک ساتھ لاؤنچ ہوجاتی ہے۔
پاکستان میں غیر استعمال شدہ صلاحیتیں بے انتہا موجود ہیں جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ نہ جانے ہمارے یہاں کتنے تھامس ایڈیسن اور ہنری فورڈ صرف گھر چلانے کے چکر میں کسی پکی نوکری کو پکڑ کر ساری زندگی کے لیے اپنی بقیہ صلاحیتوں کو کبھی بروئے کار نہیں لاپاتے، جب کہ NESTکو باہر کی کمپنیاں فنڈ کر رہی ہیں۔ اس کے باوجود ان کے ایڈمنسٹریشن کو شکایت ہے کہ کوئی بھی مقامی بینک یا سرمایہ کار اسٹارٹ اپس پر پیسہ لگانے پر تیار نہیں ہیں۔
1950's میں پانچ لڑکے تھے امریکا میں جنھوں نے ایک کمپنی شروع کی لیکن کسی بھی بینک نے انھیں پیسے نہیں دیے مگر انھوں نے ہمت نہیں ہاری کوشش کرتے رہے اس کمپنی کا نام تھا INTEL۔ جس کی وجہ سے کمپیوٹرز کی دنیا میں انقلاب آیا۔
اگر آگے بڑھنا ہے تو پہلا قدم خود لیں کسی ''اچھے وقت'' کا انتظار نہ کریں اور کسی بھی رکاوٹ کو خاطر میں نہ لائیں۔