’’اب کی بار ہمارا سمندر مشکل میں ہے‘‘

اگرعوام اپنے طور پر چند ضروری امور انجام دینا شروع کر دے تو شاید کسی حد تک سمندری آلودگی پر قابو پا لیا جائے۔


انعم احسن June 08, 2015
ماحولیاتی اور بحری آلودگی سےسمندروں کا حسن اور دلکشی ماند پڑتی جا رہی ہے۔فوٹو:فائل

سمندر کے بارے کہا جاتا ہے کہ سمندر ہماری زمیں کا دِل ہے۔ سمندر پر نگاہ ڈالتے ہی وسعت، گہرائی اور آفاقیت کا خیال آتا ہے۔ سمندر کی ٹھاٹھے مارتی لہریں جب ساحل سے ٹکراتی ہیں تو بے شمار رومانوی قسم کے خیالات جنم لیتے ہیں۔ ساحل سمندر پر چہل قدمی کا بھی اپنا ہی حسن ہے۔ شاعر حضرات بھی مہاورتاً سمندر کی گہرائی کو محبت اور محبوبہ کی آنکھوں کی گہرائی سے منسوب کرتے ہیں۔مگر ماحولیاتی اور بحری آلودگی سے انکا حسن اور دلکشی اب ماند پڑتی جا رہی ہے۔ سمندروں میں ملنے والے دریا اب خود بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔

سمندر ہمیشہ سے انسان کیلئے اہمیت کا حامل ہے۔ بنی اسرائیل کا حکمران فرعون اور اسکی فوج حضرت موسیٰ ؑ کا پیچھا کرتے ہوئے سمندر میں غرق ہوئی تھی۔ سورہ یونس میں ارشاد ہے ''وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو خشکی اورپانی (سمندروں) میں تم کو چلاتا ہے۔ چنانچہ جب تم کشتیوں میں سوار ہو کر باد موافق پر شاداں اور فرحاں سفر کر رہے ہوتے ہو اور پھر یکایک باد مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور مسافر سمجھتے ہیں کہ طوفان میں گِھر گئے ہیں اس وقت سب اپنے دین کو اللہ تعالیٰ کیلئے خالص کرتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں''۔

سمندر کو خدا نے انسان کے فائدے کیلئے بنایا مگر آج کا انسان اس سے فائدہ کم اور اسے نقصان زیادہ پہنچا رہا ہے۔ خدا نے نا صرف ایک بہترین نہری نظام سے زمین کو زرخیز رکھنے کا سبب بنایا، اس میں معدنیات کے بیش بہا خزانے ڈالے بلکہ زیر سمندر، آبی مخلوقات کی ساڑھے 7 لاکھ سے زائد اقسام بھی پیدا کیں جن میں سے متعدد حسین اور نایاب آبی حیات اب ناپید ہوچکی ہیں اور جو رہ گئی ہیں انکی زندگی کوشدید خطرات لاحق ہیں جو ایک خاموش تباہی کیطرف بڑھ رہے ہیں۔

اقوام متحدہ ہرسال سمندروں کے تحفظ کا عالمی دن مناتی ہے، 8جون کو منائے جانے والے اس دن میں دنیا بھر میں لوگوں کو سمندروں کے تحفظ کی آگہی دی جاتی ہے۔ اس سال بھی اقوام متحدہ نے ''صحت مند سمندر۔۔ صحت مند زمین'' کے سلوگن کے تحت منا رہی ہے کیوںکہ ہم ہر سانس جو لیتے ہیں، پانی کا ہر قطرہ جو پیتے ہیں اس کا تعلق سمندر سے ہوتا ہے۔ ہماری زمین کی بقاء سمندر کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔ لیکن ہم انسانوں نے جس طرح اوزون کی تہہ کو تباہ کیا اُسی طرح اب قدرت کی اس عظیم نعمت کو بھی اپنے ہاتھوں تباہ کر رہے ہیں۔

زمانہ قدیم سے سمندر سیروسیاحت، زراعت، تجارت اور دفاعی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے مگر ان کی تباہی بھی ہمارے ہاتھوں ہی ہورہی ہے۔ ہم ہی اِسے آلودہ کر رہے ہیں، سمندر کی حدود میں آلودگی کی بڑی وجہ مچھیروں کی جانب سے ڈالی جانے والی مردہ مچھلیاں، جہازوں اور لانچوں کا بہہ جانے والا گندا تیل، فیکٹریوں سے آنے والا فضلہ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بلند ہوتی سطحیں ہیں۔ یہ بات بالکل عیاں ہے کہ بحری آلودگی میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہم خود بھی ہیں۔ ساحلِ سمندر پر تفریح کیلئے آئے ہوئے بیشتر افراد کھانے پینے کی اشیاء کے ریپر سمندر میں ہی بہا دیتے ہیں اور یہ پلاسٹک کے لفافے سمندری حیات کیلئے نقصان کا سبب بنتے ہیں اکثر سمندری جانور انہیں خوراک جان کرنگل لیتے ہیں جو انکی موت کا موجب بنتی ہیں۔



پاکستان کا ساحل سمندر 1050 کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس میں 700 کلو میٹر رقبہ بلوچستان جبکہ 350 کلو میٹر سندھ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہ سمندر 40 فیصد زمین پر استعمال ہونے والا تازہ پانی اور 75 فیصد آکسیجن بھی پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان کی کُل آبادی میں سے 40ل اکھ سے زائد افراد ماہی گیری کے پیشے سے منسلک ہیں اور ہماری 95 فیصد تجارت کا دارومدار سمندر پر ہے جس میں آبی حیات کی بیرون ملک تجارت نہایت اہم ہے۔

اسی طرح آلودگی سیوریج کو ناقص نظام کے ذریعے دریائوں میں پہنچائی جارہی ہے اور جب یہ آلودہ دریا سمندروں میں گِرتے ہیں تو یہی آلودگی سمندر کا حصہ بن کر آلودہ مچھلی کی صورت میں ہماری خوراک اور ہمارے جسموں کا حصہ بن کر ہماری صحت تباہ کررہی ہے۔کراچی کے ساحل سمندر پر آئے روز سمندری جانوروں کا مردہ حالت میں پایا جانا اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ پاکستان میں سمندری صورتحال کس قدر آلودہ ہے۔ گندے پانی کی خطیر مقدار نا صرف آبی حیات کے بقاء کیلئے خطرہ ہیں بلکہ انسانی زندگی کو بھی اس سے بہت شدید خطرات لاحق ہیں۔

کراچی کی صنعتوں اور رہائشی علاقوں کا استعمال شدہ نصف سے زائد پانی ملیر و لیاری ندیوں کے ذریعے سمندر میں بہایا جاتا ہے حالانکہ قواعد کی رو سے گھریلو اور صنعتی استعمال شدہ پانی کو ٹریٹمنٹ پلانٹ کے ذریعے دوبارہ قابل استعمال بنانا چاہئے، جس سے پانی کی قلت بھی کافی حد تک دور ہوسکتی ہے۔ کراچی میں روزانہ 80 لاکھ گیلن پانی استعمال کیا جاتا ہے جس میں سے نصف سے بھی کم کو ٹریٹ کیا جاتا ہے جبکہ باقی پانی براہ راست سمندر میں بہا دیا جاتا ہے۔ سمندری آلودگی سے آبی حیات بُری طرح متاثر ہورہی ہیں، خاص طور پر سمندر سے حاصل ہونے والی خوراک، مچھلیاں، جھینگے، کیکڑے و دیگر مخلوق کی غذائی استعداد نہ صرف کم ہوجاتی ہے بلکہ بعض صورتوں میں صحت کے لیے نقصان دہ بھی ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ سمندری نباتاتی حیات پر بھی منفی اثر پڑتا ہے الغرض آلودہ سمندروں سے کرہ ارض کے ماحولیاتی توازن میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے جس کا براہ راست منفی اثر انسانی حیات پر پڑتا ہے۔



اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے (UNDP) کے مطابق بحری آلودگی کی 80 فیصد وجہ زمینی ذرائع، 10 فیصد موسمیاتی اور 10 فیصد بحری ذرائع ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایسی فیکٹریوں کے خلاف کارروائی کرے جو بغیر ٹریٹمنٹ کے فضلہ دریائوں میں بہا چھوڑتے ہیں۔ سمندری/نہری آلودگی سے بچنے کیلئے نہ صرف قوانین بنائے بلکہ اُنہیں لاگو بھی کرے۔ حکومت کے قطع نظر اگر عوام ہی اپنے طور پر چند ضروری امور انجام دینا شروع کردے تو شاید کسی حد تک اس پر قابو پا لیا جائے۔ جسطرح چند روز قبل کراچی میں 300 سے زائد طلباء نے سمندر کی صفائی مہم کے تحت سمندر کے ساحل سے کچرا ہٹا کر ساحلِ سمندر کو اس سے پاک کیا اگر اسی طرح ہر شہری اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنے طور پر ساحل سمندر پر کچرا نا پھینک کر اپنا کردار ادا کرے تو اس آلودگی کے سبب صفحہ ہستی سے مٹنے سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں اور مزید کسی آبی حیات کی نسل کو ناپید ہونے سے بھی بچایا جا سکتا ہے۔

لیکن چونکہ ہماری حکومت تو ابھی سڑکیں بنانے اور میٹرو بس میں مصروف ہے اور لسڑکوں کو تو اس طرح خوبصورت بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جیسے تمام مصائب اور بھوک سے ان سڑکوں اور میٹروبس نے ہمیں بچانا ہے۔ آئے روز ایک نیا اسکینڈل ہمارے ٹیلی ویژن سکرین کی زینت بنتا ہے اور عوام کو کبھی وینا ملک، کبھی ایان علی کی ادائیں دکھائی جاتی ہیں اور اب تو بجٹ کا لالی پوپ دے دیا گیا ہے ''لے بندیا مصروف رہ''۔ لیکن اگر اک سرسری سی نظر پاکستان کے ساحل پر بھی ڈال دی جائے تو گراں نہ ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں