وزیراعظم نواز شریف کا حالیہ دورہ وسط ایشیا
ابھی گزشتہ دنوں وہ وسط ایشیا ہوکر آئے ہیں جہاں ان کی توجہ بنیادی طور پر توانائی کے منصوبوں پر مرکوز رہی۔
اگرچہ بحیثیت وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی ذمے داریاں بھی کچھ کم نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود انھوں نے وزارت خارجہ کا قلم دان اپنے ہی پاس رکھا ہوا ہے۔ نتیجتاً انھیں اپنا بے حد قیمتی وقت نکال کر وقتاً فوقتاً بیرونی ممالک کے دوروں پر بھی جانا پڑتا ہے۔
ابھی گزشتہ دنوں وہ وسط ایشیا ہوکر آئے ہیں جہاں ان کی توجہ بنیادی طور پر توانائی کے منصوبوں پر مرکوز رہی۔ ترکمانستان کے صدر قربان گلی بردی محمددوف کے ساتھ اشک آباد میں ملاقات کے بعد انھوں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے توانائی کے شعبے کی اہمیت کو خاص طور سے اجاگر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں تاپی سمیت خطے میں واقع تمام ممالک کے ساتھ تعاون کو فروغ دے کر توانائی کے منصوبوں پر تیز رفتار پیش قدمی کرنے کی ضرورت ہے۔
وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ پاکستان کے رشتے تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان نے خطے میں ترکمانستان کی مخصوص اہمیت کو روز اول سے ہی مدنظر رکھا ہے' اس ملک کی آزادی کے بعد اور 1991 سے دونوں ممالک کے روابط میں تیزی کے ساتھ پیش رفت ہوئی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ دسمبر 2010 میں پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے ترکمانستان کا اہم دورہ کیا تھا جس میں تاپی گیس منصوبے پر مفصل تبادلہ خیال ہوا تھا اور ایک چار جہتی سربراہی اجلاس بھی منعقد ہوا تھا۔ اس کے بعد اگلے ہی سال یعنی 2011 میں ترکمانستان کے صدر قربان علی محمددوف پاکستان کے سرکاری دورے پر تشریف لائے تھے ۔
ان کا یہ دورہ نہایت کامیاب ثابت ہوا تھا اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت، اقتصادیات، زراعت، سائنس و ٹیکنالوجی، صحت، تعلیم، سیاحت اور لائیو اسٹاک سمیت مختلف شعبوں میں کئی معاہدوں پر دستخط بھی ہوئے تھے۔ پاکستان اور ترکمانستان کے تعلقات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ 2012 میں دونوں برادر ممالک نے اپنے سفارتی تعلقات کی 20 ویں سالگرہ بہت دھوم دھام سے منائی تھی۔
وزیر اعظم پاکستان کے حالیہ دورے نے دونوں ممالک کے تعلقات کی ایک نئی تازگی بخشی ہے۔ اس دورے میں پاکستان اور ترکمانستان نے اضافی تجارت اور اقتصادی تعاون سے متعلق ایک اہم معاہدے اور یادداشت مفاہمت پر بھی دستخط کیے ہیں۔
ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان اور ترکمانستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سے متعلق مفاہمتی یادداشتوں پر وزیر تجارت خرم دستگیر اور ترکمانستان کے چیمبر آف کامرس کے سربراہ نے دستخط کیے۔ وزیر اعظم کے دورے کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہوا جس میں دونوں ممالک نے سڑک، ریل اور فضائی رابطوں کے قیام پر خصوصی توجہ دینے کا فیصلہ کیا۔
اسمگلنگ کی روک تھام اور انسداد دہشت گردی کے لیے باہمی تعاون بڑھانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ اس کے علاوہ سائنس، آرٹ، ثقافت، سیاحت اور کھیلوں کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے عزم کا بھی اظہار کیا گیا۔ اس دورے میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ترکمانستان کا ایک وفد گوادر کی بندرگاہ کی انفرااسٹرکچرل صلاحیتوں اور گنجائش کا جائزہ لینے کے لیے مستقبل قریب میں پاکستان کا دورہ کرے گا جو ایل این جی/ سی این جی کنورژن پلانٹس لگانے کے امکانات کا بھی جائزہ لے گا۔ وطن واپسی سے قبل وزیر اعظم نواز شریف نے ترکمانستان کے صدر کو پاکستان کے دورے پر آنے کی پرخلوص دعوت بھی دی جوکہ جذبہ خیرسگالی کا بہترین اظہار ہے۔ بلاشبہ وزیر اعظم کے اس دورے کو انتہائی اہم اور کامیاب دورہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے وسط ایشیائی ریاستوں کو پاکستان کی بندرگاہ تک رسائی دینے کی بروقت اور مخلصانہ پیشکش کی ہے جس سے باہمی تجارت و تعاون کو بہت فروغ حاصل ہوگا۔ اس لحاظ سے ان کا حالیہ دورہ کرغزستان بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔
جواباً کرغزستان کے وزیر اعظم تیمیر سریوفنے پاک چین اقتصادی راہداری کا حصہ بننے کی پیشکش بھی کی ہے۔ بشکیک میں وزیر اعظم تیمیر سریوف سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم نے کہا کہ دونوں ممالک توانائی، استحکام، انسداد دہشت گردی، منشیات، اسمگلنگ اور انتہا پسندی کے خاتمے سمیت تجارت اور معاشی تعاون کے فروغ میں یکساں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے انتہائی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی قریبی اور خوش گوار ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان علاقائی سالمیت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
اس موقعے پر دونوں ممالک کی جانب سے انسانی اور مادی وسائل کو زیادہ سے زیادہ بہتر اور موثر انداز میں بروئے کار لانے پر اتفاق کا اظہار کیا گیا اور اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ تجارت، سرمایہ کاری، انفرااسٹرکچر کی توسیع و بہتری کے علاوہ سڑکوں اور ریلوے کے ذریعے باہمی روابط کے فروغ کے عمل کو تیز سے تیز ترکیا جائے گا۔
دونوں جانب سے توانائی کے شعبے میں باہمی تعاون کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اس بات پر بھی اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیانCASA 100 (Central Asia South Asia)پراجیکٹ سے متعلق تمام معاہدات طے پاچکے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے واضح الفاظ میں کہا کہ پاکستان کے توانائی کے بحران پر قابو پانے میں کاسا1000 بڑا اہم کردار ادا کرے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کو وسط ایشیائی ممالک بشمول کرغزستان کے ساتھ مواصلاتی روابط کو فروغ دینے میں گہری دلچسپی ہے۔
انھوں نے اس موقعے پر چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کے معاہدے کی جانب خاص طور پر اشارہ کیا اور کہا کہ اس سے وسط ایشیائی ریاستوں کو ہماری بندرگاہوں سے استفادہ کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔
مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران وزیر اعظم نواز شریف نے بعض دیگر شعبوں کے حوالے سے بھی پاکستان اور کرغزستان کے قابل رشک اور قابل فخر تعلقات کا مختصراً تذکرہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں کرغز شہریوں کے لیے تربیتی کورسوں کا سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ اس بارے میں یہ بات نہایت اہم اور قابل ذکر ہے کہ اسلام آباد کی فارن سروس اکیڈمی میں اب تک 60 سے زائد کرغز سفارت کاروں کو ٹریننگ دی جاچکی ہے۔ اس کے علاوہ کرغزستان کے لوگوں کے لیے بینکنگ اور پوسٹل سروسز کے شعبوں میں بھی تربیتی کورسوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔
کرغزستان کے وزیر اعظم نے اپنے مشترکہ خطاب میں دونوں ممالک کے درمیان پائے جانے والے باہمی اعتماد کا خاص طور سے ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ اعتماد ہی دونوں ممالک کے قریبی تعلقات کی اساس ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی حکومت انتہائی قابل ترجیح شعبوں میں پاکستان کے ساتھ تعاون کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے لیے قطعی پرعزم ہے۔
انھوں نے کرغزستان کے لیے گوادر اورکراچی کی بندرگاہوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اپنے ملک کی گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے مذاکرات میں ٹرانسپورٹ انفرااسٹرکچر کی ترقی و توسیع کو بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے کیونکہ اقتصادی اور معاشی ترقی کا دارومدار اسی پر ہے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں ریجنل سیکیورٹی کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ اس شعبے میں پاکستان اور کرغزستان کے درمیان اچھا تعاون موجود ہے۔ دونوں جانب سے اس بات پر زور دیا گیا کہ باہمی خصوصی تعلقات کو اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کی صورت میں تبدیل کیا جائے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اس بات پر بھرپور اطمینان کا اظہار کیا کہ دونوں ممالک کے سیاسی تعلقات بہترین ہیں اور دفاعی شعبے میں بھی باہمی تعاون میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم تجارت اور معاشیات کے شعبوں میں موجودہ تعاون کو مزید فروغ دینے کے لیے ابھی بھی بہت گنجائش موجود ہے۔