سبق پھر پڑھ بجٹ کا

اور یہ بہت سی ’’مدیں‘‘ ہیں جہاں عوام سے ’عمدہ سلوک‘ بسلسلہ ’ٹیکس وصولی‘ کیا جاتا ہے



آج ہم بجٹ پر'سبق' پڑھیں گے۔ یہ سبق پڑھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہر سال جون میں اس کا امتحان ہوتا ہے اور امتحان کی تیاری کے لیے بجٹ کا سبق پڑھنا بہت ضروری ہے۔ 2013 سے اس مضمون کے سلیبس میں ''ٹیکسوں کی ڈار'' شامل کی گئی ہے۔ یہ ڈار ہرنوں کی اس ڈار سے مشابہہ ہے جو اکثر یہ سمجھتی ہے کہ وہ شیر یا تیندوے کے ہاتھ بلکہ منہ سے بچ نکلیں گے مگر ایسا کم ہوتا ہے۔ اکثر پیچھے رہ جانے والے ان کا شکار ہوجاتے ہیں۔

پاکستان کے صرف 'غریب عوام' اس ڈار کا وہی پچھلا حصہ ہیں، ہرنوں کی ڈار شکار ہونے والے پر ایک نظر ڈال کر پھر ''چرنے'' لگتے ہیں اور شکار ہوجانے والوں کو قدرت کا فیصلہ قرار دے دیتے ہیں۔ یہاں تو یہ ٹھیک ہے کیونکہ جنگل کا قانون ہے''جو ڈر گیا وہ مرگیا۔''

بجٹ کے سبق میں زیادہ تر ان لوگوں کا ذکر ہے جو ''ڈرائے جاتے ہیں'' اور آخر کار بجٹ کے شیر یا تیندوے کا شکار ہوجاتے ہیں۔

اس بجٹ کو آپ بارہ مہینے میں جب چاہیں خود ''لکھ پڑھ سکتے ہیں'' کیونکہ اس میں زیادہ ترعوام کے خون کی ''وصولیوں'' کا ذکر ہوتا ہے۔ ٹیکس میں دیا جانے والا روپیہ اگر وہاں خرچ نہ ہو جہاں ہونا چاہیے تو پھر یہ عوام کا خون ہی ہے نا۔ آپ اگر ٹیکس کے نت نئے طریقوں کو جاننا چاہتے ہیں کہ ''کم دے کر زیادہ کیسے وصولا'' جاتا ہے تو اس سلیبس کے مضامین کا مطالعہ کیجیے نہ صرف یہ کہ آپ کو ''سمجھ آجائے گی'' بلکہ آپ خود ''سمجھانے کے لائق'' نہیں رہیں گے۔ جب ٹیکس لگانے کا مرحلہ آتا ہے تو سارے عوام میں'غریبوں' کو اولیت دی جاتی ہے اور ان سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ سینئر سٹیزن بھی اس کارخیر میں شریک ہوتے ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی کے فنکاروں کو ہی دیکھ لیجیے دس فی صد ٹیکس ان سے اس سرکاری دور میں وصول کیا جا رہا ہے۔ یہ فنکاروں کی عزت افزائی ہے اس ملک میں۔

اور یہ بہت سی ''مدیں'' ہیں جہاں عوام سے 'عمدہ سلوک' بسلسلہ 'ٹیکس وصولی' کیا جاتا ہے اور اگر آپ رعایتوں کا خانہ کھولیں تو وہاں صرف امرا کا نام لکھا ہوا ہے۔ اسمبلی قومی کے ممبران کی تنخواہوں میں شاید100 فی صد سے بھی زیادہ اضافہ کیا گیا ہے ۔ عوام کا اس سے کیا تعلق، وہ تو 2018 میں یا اس سے قبل بس ووٹ دیں گے۔

ووٹ کا حق معمولی رعایت ہے؟ بہت بڑی رعایت ہے۔ ووٹ دینے کے بعد آپ کے نمایندے کا عالی شان کار سے اترکر اسمبلی ہال میں جانے کا منظر کچھ کم 'قیمتی' ہے۔ شکر ادا کیجیے اللہ کا کہ آپ اس منظر کو دیکھنے کے حقدار اور اس قابل ہوئے۔

سارے طبقے خواہ ''تنخواہ بڑھاؤ'' مطالبے کرتے رہتے ہیں آپ کوکیا ضرورت ہے زیادہ تنخواہ کی جب آپ دفتر جاتے نہیں ہیں کام کرتے نہیں ہیں آپ کا نمایندہ روز اسمبلی جاتا ہے جب بھی اسمبلی ہوتی ہے۔ اسے تو یہ بھی شکایت ہے کہ اسمبلی کم کیوں ہوتی ہے۔ بھلے آپ بات نہ کریں ''ایشوز'' پر اسمبلی تو بلائیں ہمارا ''روزینہ'' تو بحال رہے اب تو وہ اور بڑھ گیا ہے۔ ہم عوام کے نمایندے ہیں آپ کو عوام کا خیال ہی نہیں ہے۔

یقین جانیے عوام کے یہ ''نمایندے'' اتنے سچے ہیں کہ ہر سال بجٹ امتحان سے پہلے یہ ہر حکومت کے خلاف ''صف آرا'' ہوکر ''عوامی طاقت'' کا مظاہرہ کرتے ہیں تاکہ عوام کی ''قوت'' بحال رہے اب عوام کے کام کرنا سرکاری افسروں کا کام ہے۔ یہ نمایندے تو نہیں نا یہ کام کریں گے یہ تو صرف ''منظور'' کریں گے۔

یہ بتانا ضروری ہے کیونکہ ''بجٹ سبق'' کا بڑا حصہ ان ''عوامی نمایندوں'' کے معاملات پر منحصر ہوتا ہے یہ اپنا اپنا ترقیاتی اسکیموں کا ''ہوم ورک'' کرکے انھیں بجٹ میں ہر سال شامل کرواتے ہیں اور ایک ایک اسکیم پانچ پانچ بجٹ تک چلتی رہتی ہے۔ دوسرے ملک اس میں ناکام ہیں وہ ایک بجٹ میں منظور کردہ اسکیم اسی سال میں پورا کرکے ''بجٹ کا لطف'' ختم کردیتے ہیں۔ بھارت ہمارے ساتھ ہے وہاں بھی یہ اسکیمیں ایسے ہی سالہا سال چلتی ہیں۔ یہ ''بجٹ طالب علم'' نوٹ کرلیں یہ لازمی سوالات میں سے ایک ہوسکتا ہے۔

آسان نہیں ہوتا بجٹ بنانا،کس طرح عوام کو کم دے کر ان سے زیادہ وصولا جائے اور ان کے چہرے خوشی سے کھلے بھی رہیں، یہ ایک فن ہے جو کم لوگوں کو آتا ہے اور اس کے حکومتی کم ہی لوگ ہیں۔ ایک موصوف ہوا کرتے تھے خدا انھیں خوش رکھے کیا شخصیت تھے۔ انھوں نے آج سے 25 سال پہلے یہ کہہ دیا تھا کہ تنخواہیں سو فیصد بڑھائی جائیں۔

وہ یہ کہنا بھول گئے کہ کتنے سال میں بڑھائی جائیں بس اس کا فائدہ ''ڈار لوگ'' نے حاصل کرلیا۔ دس فی صد کا ریٹ لگا دیا ہے۔ دس سال تو حکومت چلے گی اس دوران مہنگائی ایک ہزار فی صد اگر بڑھتی ہے تو بڑھ جائے اس کا ان سے کیا تعلق؟ جنھیں بجٹ سمجھ میں نہیں آتا وہ ''جزبز'' ہوکر بھی ٹیکس دیتے ہیں اور جو سمجھتے ہیں وہ وہی ہیں جنھوں نے بجٹ ترتیب دیا ہے اور انھیں کچھ نہیں دینا ہوتا ''بچت'' کے راستے بہت ہوتے ہیں ان کے لیے۔

دوسرے ملکوں میں سینئر سٹیزن کو مراعات بہت دی جاتی ہیں اب تو ایک ملک میں مکان تک دیے جاتے ہیں۔ نعرہ یہاں لگا تھا عمل وہاں ہو رہا ہے۔ یہاں ہم نے ریڈیو ٹی وی کے فنکاروں سے ٹیکس وصولی کا حال لکھا ہے جو ظلم کی انتہا ہے۔ بجائے ان کے سینئر سٹیزن کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے ان کو نہ بلانے کے احکامات دیے جاتے ہیں جو فن و ثقافت کے شعبے سے سخت ناانصافی ہے۔

نوکری پیشہ افراد کو سات فیصد کے علاوہ شاید ہاؤس رینٹ، کنوینس الاؤنس میں اضافہ دیا جاتا ہے مگر پنشن یافتہ افراد جن کی پنشن تنخواہ کا صرف 30 چالیس فی صد ہوتی ہے انھیں اس پنشن کا صرف سات فیصد اضافہ دیا گیا ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی نہیں ہے۔ وہ کام کرنا چاہیں اور اچھا کام کرسکتے ہیں تو ان کو اجازت نہیں ہے۔

پابندی لگا دی جاتی ہے۔ زندوں سے ''مردوں'' کا سلوک کرنے والی ایک ہی قوم ہے اور وہ ہے پاکستانی قوم۔ اعلیٰ طبقہ ریٹائر ہونے کے بعد مزید کسی پوسٹ پر تعینات 90برس کے مشیر خارجہ اور دوسرے افراد وہاں کسی کو یہ نظر نہیں آتا۔ غریب اگر قابل بھی ہے تو اس قابل نہیں کہ وہ خدمت انجام دے سکے، Source نہیں ہے تو Resource کا مطالبہ کیوں؟یہ ہے ہمارا ملک اور اس کا قانون۔ قانون نہ ہونا اور قانون پر عمل درآمد نہ ہونا ہی پاکستان کا قانون ہے۔کس بات کا ذکر کرسکتے ہیں جعلی ڈگریوں کا کتنا بڑا فراڈ سامنے آیا ہے نہ جانے کون کون وہاں سے ڈگری یافتہ ہے اور کہاں کہاں بیٹھا ہے اس ملک میں۔

بجٹ کا سبق بہت طویل ہے اس میں وزارت داخلہ سے خارجہ تک کے تمام شعبے شامل ہیں اور اسمبلیوں کے ممبران سے لے کر افسران تک سارے افراد۔ ہر نقصان کا ذمے دار عوام، ہر ٹیکس وصولی عوام سے اور عوام میں 80 فی صد۔ 20 فی صد ٹیکس فری ہیں۔ جائیدادیں بھی ہیں کاروبار بھی مگر یہ سب کاؤ بوائے ہیں اور باقی عوام ان کی بھیڑ بکریاں۔ جن سے سارے فائدے اور جن سے ساری وصولیاں۔ تو بجٹ کا مضمون بہت Importantہے اور اس کے ایکسپرٹ بہت محدود۔ چند ایک ہی ''ڈار'' ہیں جو حکومت کا پسندیدہ بجٹ پیش کرتے ہیں اور جس میں تمام فائدوں کا ہدف عوام کے نمایندے سرکاری افسران ہی ہوتے ہیں کہ تنخواہیں نہ بھی بڑھائی جائیں تو ترقیاتی اسکیمیں ہیں نا، عوامی نمایندوں اور سرکاری افسران کے لیے ''سونے کی کانیں'' ان کو کیا ضرورت ہے ،زیادہ تنخواہ کی لہٰذا عوام کا بڑا طبقہ ''ملازم'' ہے اور ملازم کو حق نہیں کہ وہ مالک کے معاملات یعنی ''بجٹ'' میں دخل اندازی کرے۔

لہٰذا بجٹ کو ہر ممکن حد تک ''غیر عوامی'' تیار کیا جاتا ہے جس کا Blue Print عوامی ہوتا ہے مگر اصل میں اس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے ابھی تک موبائل کارڈ سے آپ کی کٹوتی چل رہی ہے نا تو بجٹ بھی زندہ ہے۔ یہ تھا آج کا بجٹ کے بارے میں نیا سبق۔ اگلا سبق 2016 میں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں