ایک اہم معاشرتی بیماری

ان کی نمایاں خوبی یہ تھی کہ وہ قول و فعل کے پکے تھے۔ ان کے قول و فعل میں کوئی فرق نہ تھا


Dr Naveed Iqbal Ansari June 09, 2015
[email protected]

FAISALABAD: آج کا کالم جس اہم بات کی بنا پر لکھنے پر مجبور ہوا اس کا ذکر آخر میں کروں گا، پہلے ایک غیر معروف مگر باکردار شخص کا ذکر جوکہ ایک عرصہ ہوا اس دنیا سے رخصت ہوچکا ہے۔ اس شخص کا نام شوکت احمد شکلا تھا۔ شوکت احمد شکلا ہندو مذہب چھوڑکر مسلمان ہوئے تھے میں انھیں تب سے جانتا ہوں جب وہ جامعہ کراچی میں ایمپلائیز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر تھے۔

ان کی نمایاں خوبی یہ تھی کہ وہ قول و فعل کے پکے تھے۔ ان کے قول و فعل میں کوئی فرق نہ تھا دوسری خوبی جو سب کو حیران کردیتی تھی وہ ان کا نڈر اور بے باک ہونا تھا۔ بحیثیت صدر وہ اپنے ملازمین کے حقوق کے لیے ہر جگہ کلمہ حق کہنے کو تیار رہتے تھے اور آفیشل میٹنگ میں شیخ الجامعہ کراچی کے سامنے بھی دھڑلے سے بات کرتے تھے۔

جس کے خلاف جو بھی بات کرتے منہ پر کرتے یہی وجہ ہے کہ جب ان کا انتقال ہوا تو تعزیتی اجلاس (جو اجازت نہ ملنے کے باعث جامعہ کراچی کے انتظامیہ بلاک کی راہ داری میں) ہوا، تمام جماعتوں ، گروپوں کے نمایندے موجود تھے اور ہر کوئی ان کے کردار کی تعریف کر رہا تھا اور کیوں نہ کرتا کہ جب وہ ریٹائرڈ ہوئے تو لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ بھی دیگر ملازمین کی طرح دوبارہ کنٹریکٹ پر ملازم ہو جایے تو انھوں نے صاف منع کردیا کہ جب وہ خود ہی ریٹائرڈ ملازمین کے دوبارہ کنٹریکٹ پر ملازمت کے خلاف ہیں تو اپنے لیے اصول کیوں بدلیں۔ مرحوم اپنے قول و فعل کے اتنے پکے تھے کہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد ایک دن بھی جامعہ کراچی میں نظر نہیں آئے۔

ویسے تو مرحوم کی بے شمار خوبیاں ہیں لیکن آج کے کالم میں موضوع کے اعتبار سے صرف یہ باور کرانا ہے کہ شوکت احمد شکلا جیسے اور بھی بہت سے لوگ اس معاشرے میں آج بھی موجود ہیں جو قول اور فعل میں یکتا ہیں، منہ پر بات کہہ دیتے ہیں لیکن منافقت نہیں کرتے۔لیکن ایسے لوگوں کی تعداد اب کم ہوتی جا رہی ہے معاشرے میں ایک غلط عادت رواج پاچکی ہے کہ کسی کے بھی پیٹ پیچھے کلمہ حق تو ضرور ہو مگر جب وہ سامنے ہو تو اس کی واہ واہ کرو۔

یہ ضرور ہے کہ منہ پر تنقید کرنے سے بعض اوقات آپ کے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں بلکہ آپ کے مفادات کو سخت نقصان بھی پہنچ سکتا ہے لیکن ایسے موقعے پر خاموش بھی تو رہا جاسکتا ہے؟ ہماری یہ معاشرتی بیماری کچھ اس قسم کی ہوگئی ہے کہ ہم ایسے مواقعوں پر کلمہ حق کہنا یا خاموش رہنا تو دور کی بات الٹا اس شخص کی واہ واہ کرنے لگتے ہیں جس کو پیٹ پیچھے بہت برا تصور کرتے ہیں اور سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

ہم کسی بھی ادارے یا اپنے دفاتر میں یہ منظر صبح و شام دیکھتے ہیں کہ جب ہم آپس میں گفتگو کرتے ہوئے اپنے سے سینئر یا بڑے عہدے کے فرد کے متعلق کہتے ہیں کہ فلاں بڑا غلط کام کر رہا ہے اس کا یہ فیصلہ قطعی غلط ہے یا وہ بڑا غلط کردار کا مالک ہے یا وہ ناجائز طریقے سے آگے بڑھ گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اگلے ہی لمحے جس شخص کے بارے میں اس قسم کی رائے ظاہر کی گئی ہوتی ہے، وہ سامنے آجائے تو پھر ہم سب یک زبان ہوکر اس کو مبارک باد دیتے ہیں، اس کی تعریف کرتے ہیں، کیوں؟ شاید اس لیے کہ اس سے ہمیں بھی کوئی فائدہ ہوجائے یا ہمارے تعلقات مزید اچھے اور مستحکم ہوجائیں۔

مجھے نہیں معلوم کہ یہ منافقت ہے یا کیا ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ میرے نزدیک یہ صرف غلط عمل ہی نہیں ایک ایسا عمل ہے کہ جس سے معاشرے کو سخت نقصان پہنچتا ہے لیکن شاید ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا مثلاً یہ غور کیجیے کہ جب ہم کسی غلط آدمی کی یا کسی شخص کی خواہ وہ کتنا ہی اچھا ہو اس کے غلط اقدام کی حمایت کرتے ہیں، منہ پر اس کو ٹوکنے کے بجائے مبارک باد دیتے ہیں اور شاباش دیتے ہیں تو پھر وہ شخص اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے اور شرمندہ ہونے کے بجائے اپنے غلط اقدام پر مزید کاربند ہوجاتا ہے اور ظلم و زیادتی میں مزید آگے نکلنے لگتا ہے جس سے ظاہر ہے کہ ہمارے معاشرے کا، ہم سب کا نقصان ہوتا ہے۔

یہ پتہ نہیں کہ ہماری احساس محرومی کا نتیجہ ہوتا ہے یا کردارکی خرابی کہ ہم اپنے سے اچھے ''اسٹیٹس'' والے فرد کی کبھی بھی مخالفت نہیں کرتے اور جب بھی موقع ملتا ہے بالمشافہ ملاقات میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ نقطے نکالتے ہیں کہ جس سے متعلقہ فرد کی شان میں اضافہ ہوسکے اور ہم اس کے وفادار ثابت ہوسکیں، یہی ہمارے دفاتر، اداروں میں ہو رہا ہے اور یہی کچھ سیاسی جماعتوں میں بھی؟ اور یقینا پورے معاشرے میں ہو رہا ہے۔

منہ پر واہ واہ اور پیٹ پیچھے نوے درجے کے زاویے سے بھی زیادہ ایک دوسرے کی مخالفت کے مناظر آج ہمارے سامنے صبح و شام ہوتے ہیں لیکن شاید ہمیں اس کے مضمرات اور معاشرے کے لیے نقصان دہ ہونے کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں راقم نے اس اہم خرابی سے متعلق دینی نقطہ نگاہ سے ایک تحریر پڑھی تو اندازہ ہوا کہ یہ معاشرے کے لیے بھی کس قدر خطرناک ہے اور اللہ تعالیٰ کی نظر میں بھی کس قدر بڑا جرم ہے۔

سورۃ المائدہ آیت نمبر 79 کی تشریح نظر سے گزری جس میں ایک حدیث کو بیان کیا گیا کہ ''سب سے پہلا نقص جو بنی اسرائیل میں داخل ہوا وہ یہ تھا کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو برائی کرتے دیکھتا تو کہتا ''اللہ سے ڈر اور یہ برائی چھوڑ دے، یہ تیرے لیے جائز نہیں ہے'' لیکن پھر دوسرے روز اسی کے ساتھ کھانے پینے میں شرم و عار محسوس نہ ہوتی جب کہ ایمان کا تقاضا اس سے نفرت اور ترک تعلق تھا جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان عداوت ڈال دی اور وہ لعنت الٰہی کے مستحق پائے۔'' (الحدیث ابوداؤد)

اسی حوالے سے آگے ایک اور حدیث میں یہ وعید دی گئی کہ ''تم عذاب الٰہی کے مستحق بن جاؤگے پھر تم اللہ سے دعا بھی مانگو گے تو قبول نہ ہوگی۔'' (مسند احمد)

مذکورہ بالا آیات کی تشریح و حدیث بیان کرنے کا مقصد یہاں اسلامی درس دینا مقصود نہیں بلکہ اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ وہ معاشرتی بیماری جس کو ہم کوئی برائی ہی نہیں سمجھتے وہ کتنی بڑی برائی اور خطرناک عمل ہے کہ دینی اعتبار سے اللہ کی جانب سے لعنت اور دعا کے قبول نہ ہونے کی خبر دی جا رہی ہے۔

اس تناظر میں کچھ دیر کے لیے غورکیجیے کہ جتنے بڑے لوگ اور ایسے عہدوں پر براجمان لوگ جو اپنا کردار صحیح طور پر ادا نہیں کر رہے ہیں جو معاشرے پر ظلم وستم ڈھانے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ شریک ہیں ہم انھیں جانتے بھی ہیں لیکن جس جس کو موقع ملتا ہے ہم میں سے وہ تمام ان سے دوستی اور تعلقات مضبوط کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں بجائے اس کے کہ منہ پر بھی غلط کو غلط کہیں یا کم ازکم خاموش رہیں اور ظالم سے دور رہیں۔

راقم کا آج کا کالم اور ہماری معاشرتی صورتحال دونوں سامنے ہے، آئیے تھوڑی دیر کے لیے دنیا داری کے تمام معاملات ایک طرف رکھ کر غور کریں کہ ہم کیا کر رہے ہیں، درست یا غلط؟ اور یہ بھی سوچیں کہ ہمارا حلقہ احباب و دوست کیا ہے اور کن لوگوں پر مشتمل ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔