ایندھن کے بغیر چلنے والا خلائی جہاز

جارجیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنس دانوں کو گرافین کی تازہ ترین خاصیت کا پتا حادثاتی طورپرچلا


ع۔ر June 09, 2015
اضافی الیکٹرون خارج ہونے پر propellant کی طرح عمل کرتے ہوئے گرافین کو مخالف سمت میں دھکیلتے ہیں،فوٹو : فائل

HARIPUR: گرافین کو اس کی حیران کُن خصوصیات کی بنا پر سائنس دانوں نے '' ونڈر میٹیریل'' کا نام دیا ہے۔ اس کی موٹائی اگرچہ ایک ایٹم کے مساوی ہوتی ہے، اس کے باوجود یہ فولاد سے 200 گنا زیادہ مضبوط اور پائیدار ہوتا ہے۔

گرافین نیم شفاف میٹیریل ہے جس میں روشنی اور حرارت بے حد آسانی سے گزرجاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ممکنہ طور پر یہ اب تک دریافت ہونے والے عناصر میں سب سے زیادہ مفید عنصر ہے۔ گرافین کے حیرت انگیز خواص اور اس سے تیار ہونے والی مصنوعات ان گنت ہیں۔ اب سائنس دانوں نے ' ونڈر میٹیریل' کی ایک اور حیران کُن خاصیت دریافت کرلی ہے: یہ روشنی کو حرکت میں تبدیل کردیتا ہے!

جارجیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنس دانوں کو گرافین کی تازہ ترین خاصیت کا پتا حادثاتی طور پر چلا۔ Yongsheng Chen اور ان کے ساتھی محققین گرافین آکسائیڈ کی پرتوں سے بنی اسفنج کو لیزر شعاعوں کے ذریعے کاٹنے کا تجربہ کررہے تھے۔

انھوں نے دیکھا کہ جیسے ہی لیزر شعاعیں پڑتے ہی ، اسفنج نے آگے کی جانب حرکت کی۔ سائنس دانوں کے مطابق لیزرشعاعیں اس قابل نہیں ہوتیں کہ گرافین اسفنج جیسی بڑی ساخت کو حرکت میں لے آئیں۔



چناں چہ وہ اس حرکت کا سبب جاننے کی جستجو میں لگ گئے۔ اب کی بار گرافین اسفنج کو خلا میں رکھ کر اس پر لیزرشعاعیں ڈالی گئیں۔ حیران کُن طور پر لیزر نے اس بار اسفنج کو اس کی جگہ سے 40 سینٹی میٹر دور تک دھکیل دیا۔ بعدازاں محققین نے سورج کی روشنی پر گرافین کا ردعمل دیکھنے کے لیے اسے کُھلی فضا میں رکھ دیا۔ پھر اس پر محدب عدسے کے ذریعے دھوپ مرتکز کی گئی۔ سائنس داں یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ گرافین میں پھر حرکت ہونے لگی۔

سائنس داں گرافین کی حرکت پذیری کی درست وجہ اب تک نہیں جان سکے، تاہم اس بارے میں دو نظریات پیش کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ گرافین آکسائیڈ ایک شمسی بادبان کے طور پر عمل کررہا ہے۔ دراصل فوٹانز کسی جسم تک مومینٹم منتقل کرکے اسے آگے دھکیل سکتے ہیں، اور خلا میں یہ اثر دھکیل کی اتنی قوت پیدا کرسکتا ہے کہ خلائی جہاز کو حرکت میں لے آئے۔

جب سائنس دانوں نے شمسی بادبان کے نظریے کو سامنے رکھتے ہوئے تحقیق کی تو یہ درست ثابت ہوا۔ بعدازاں ماہرین نے اس دوسرے نظریے پر بھی توجہ دی کہ گرافین، لیزر شعاعوں کی توانائی جذب کرکے الیکٹرون کا چارج پیدا کرتا ہے۔

اضافی الیکٹرون خارج ہونے پر propellant کی طرح عمل کرتے ہوئے گرافین کو مخالف سمت میں دھکیلتے ہیں۔ ایک تجربے کے ذریعے سائنس داں یہ معلوم کرنے میں کام یاب ہوگئے کہ دوسرا نظریہ بھی خاصی حد تک درست ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ محققین نے حادثاتی طور پر ایک ایسے خلائی جہاز کے لیے پروپلژن سسٹم دریافت کرلیا ہے جسے سفر کرنے کے لیے ایندھن کی ضرورت نہیں ہوگی! گرافین سے تیارکردہ خلائی جہاز صرف دھوپ کے ذریعے رواں رہ سکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں