بنگالی جادو مودی کے ’سر چڑھ کر‘ بولا

ہندوستان اکثر دشمنی کا برملا اظہار کرتا رہتا ہے لیکن بنگلہ دیش خاموشی سے دشمنی کرنے کا عادی رہا ہے۔


محمد حسان June 09, 2015
یہ ایوارڈ تھا یا بنگالی جادو کی کوئی قسم تھی کہ ایوارڈ ملتے ہی مودی ’صاب‘ ’’سفید سچ‘‘ بولنا شروع ہوگئے۔ فوٹو: اے ایف پی

کہا جاتا ہے کہ وہم ایک لا علاج مرض ہے اور اس کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا، بالکل اسی طرح ''اللہ واسطے کے بیر'' کا بھی کوئی علاج دنیا میں نہیں پایا جاتا، کم از کم ہندوستان اور بنگلہ دیش میں تو نہیں پایا جاتا۔ دِلّی میں کسی بچے کی چڈی گیلی ہو جائے ، کبوتر کسی کبوتری کو بھگا کے لے جائے یا کوئی بچہ اپنے دادا کی دھوتی میں پٹاخہ چھوڑ دے تو اس کا الزام بھی آئی ایس آئی اور پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے، اور بنگلہ دیش کسی نالائق بچے کی طرح بس ہندوستان کی نقل مارنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔



ہندوستان کی پاکستان سے دشمنی تو کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، ہندوستان اکثر اس کا بر ملا اظہار کرتا رہتا ہے لیکن بنگلہ دیش خاموشی سے دشمنی کرنے کا عادی رہا ہے، اگرتلا سازش، سقوطِ ڈھاکا، ''پاکستانی'' بنگالیوں کو پھانسی، پاکستان کرکٹ ٹیم کو ہرانے پر بنگالی ٹیم کو پیسوں، فلیٹ اور قیمتی گاڑیوں کے تحفے اور بنگلہ دیش لیبریشن وار آنر ایوارڈ۔ یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو صرف اور صرف پاکستان کی دشمنی میں کی جا رہی ہیں، کچھ کھلم کھلا اور کچھ ڈھکے چھپے انداز میں۔

تمام بنگالی اور تمام ہندوستانی، حسینہ اور مودی جیسی ذہنیت کے حامل نہیں ہیں، اسکی ایک بڑی مثال ہندوستانی دانشور خاتون اروندتی رائے ہیں جو منطقی بات کرتی ہیں اور ہوا میں تیر نہیں چلاتیں، بالکل اسی طرح اگرتلا سازش پکڑنے والا آئی ایس آئی آفیسر بھی ایک بنگالی تھا، سقوطِ ڈھاکا کے بعد شیخ مجیب کو قتل کرنے والے بھی بنگالی تھے جنہیں احساس ہوگیا تھا کہ ان سے کتنی بڑی غلطی ہوگئی ہے۔

غلام اعظم، عبدالقادر ملّا، قمر الزمان، اظہر الاسلام، عبدالسبحان اور مطیع الرحمن نظامی جیسے عظیم لوگ جو بنگالی ہونے کے باوجود بھی پاکستانی تھے، ہیں اور رہیں گے۔ عبدالقادر ملّا اور قمر الزمان چالیس سال بعد بھی پاکستان کی حمایت کرنے پر ہندوستان نواز بنگلہ دیشی حکومت کے آگے نہیں جھکے بلکہ تختۂ دار پر جھول جانے کو فوقیت دی اور اَمر ہوگئے۔

'چھوٹی سوچ' کا ثبوت دیتے ہوئے حسینہ واجد نے کھیل کی آڑ میں اپنی پاکستان دشمنی کو مزید پروان چڑھایا اور پاکستان کے خلاف جیت پر بنگالی کھلاڑیوں کو خوب نوازا، پاکستان دشمنی اور ''اللہ واسطے کے بیر'' کی انتہا کو پہنچتے ہوئے بنگلہ دیش لیبریشن وار آنر ایوارڈ تشکیل دیا اور اِس بار مودی کو بھی یہ ایوارڈ دیا گیا ہے جو انہوں نے سابق ہندوستانی وزیر اعظم واجپائی کی جگہ وصول کیا۔

پتا نہیں یہ ایوارڈ تھا یا بنگالی جادو کی کوئی قسم تھی کہ ایوارڈ ملتے ہی مودی 'صاب' ''سفید سچ'' بولنا شروع ہوگئے اور انہوں نے ان تمام باتوں کا سرِعام اعتراف کرلیا جس کا آج تک ہندوستان انکار کرتا چلا آیا تھا۔

پہلا اعتراف: بنگلہ دیش کا قیام ہر ہندوستانی کی خواہش تھی اور اس میں ہندوستانی شہریوں نے بھی کردار ادا کیا ہے۔

دوسرا اعتراف: 1971میں ہندوستانیوں نے بھی کندھے سے کندھا ملا کر بنگلہ دیش کی آزادی کیلئے جدوجہد کی تھی۔

تیسرا اعتراف: 1971میں جب ہندوستان نے بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک چلائی تو مودی 'صاب' خود بھی ایک رضا کار کی حیثیت سے اس میں شامل ہوئے تھے اور ہندوستانی دہشتگرد تنظیم مکتی باہنی کا ساتھ دیا تھا۔

https://twitter.com/AQpk/status/607826451325284353

ویسے 'کچھ' لوگ ابھی بھی اس ''تین بار'' کئے گئے مودی کے ''شرعی'' اعترافی بیان کے باوجود بھی ہندوستان کا دفاع کرتے ہوئے نظر آئیں گے اور ''شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار'' ہونے کا ثبوت فراہم کریں گے تو آپ بھی آنکھوں پر پٹی باندھ کر یہ سب کچھ ماننے سے انکار کردیں کیونکہ پاکستان میں ہر سچ کو ''کانسپریسی تھیوری'' اور ہر ''کانسپریسی تھیوری'' کو سچ سمجھا جاتا ہے۔

اس بلاگ پر کمنٹس آئیں گے کہ اس میں ہمارا اپنا قصورہے دوسروں کو برا کیوں کہہ رہے ہو؟تو ان حضرات سے پیشگی عرض ہے کہ ''اللہ واسطے کے بیر'' کا کوئی علاج دنیا میں نہیں پایا جاتا۔ 1950سے 'پراکسی وار' ہم نے نہیں ہندوستان نے شروع کی تھی، 1971 میں ہندوستان نے مشرقی پاکستان میں مداخلت کی، اس کا اعتراف اب مودی نے بھی کرلیا ہے، ایٹمی دھماکوں میں پہل ہندوستان نے کی ہم نے نہیں، افغانستان کو پاکستان کے خلاف ہندوستان نے استعمال کیا، ٹی ٹی پی کے ذریعے ہندوستان نے پاکستان میں دہشتگردی کی شروعات کی، اور ایک طویل فہرست موجود ہے۔ یہ سب حقیقت ہے لیکن آخر میں پھر کہوں گا کہ ''اللہ واسطے کے بیر'' کا کوئی علاج دنیا میں نہیں پایا جاتا۔

[poll id="469"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں