پیارے بچو چھٹیاں مبارک ہوں
والدین کی ہمت و محبت اور سہولیات کا حکمت کے ساتھ استعمال، بچوں کی مہارتوں اور قابلیتوں کو مثبت رُخ فراہم کرسکتی ہے
الحمداللہ ۔۔۔۔ یکم جون سے موسم گرما کی تعطیلات کا آغاز ہوچکا ہے ۔۔۔ تعلیمی ادارے بے رونق اور تفریحی مقامات پر گہماگہمی عروج کو پہنچ رہی ہے۔ سخت پڑھائی، آئے دن کے ٹیسٹ، اسائننمنٹس، پروجیکٹس کی مشقت کے بعد، بچوں کے لئے بالآخر فرصت کے وہ حسین و خوابناک چھٹیوں کے ایام آہی گئے۔
اسکول کی پڑھائی و تیاری سے بے نیازی اور دن بھر کے کسے ہوئے معمولات سے چھٹکارہ ۔۔۔ مزہ ہی مزہ ۔۔۔ کبھی کسی عزیز کے یہاں مہمان بن کے جادھمکے، تو کبھی خود کسی رشتہ دار کی مہمان نوازی سے لطف اندوزی ۔۔۔ معمولات کی یہ تبدیلی ایک جانب موسم کی شدت اور پڑھائی کی مشقت سے کملائے ہوئے ننھے اور نوجوان بچوں پر نکھار لے کر آتی ہے تو دوسری جانب ماوں کے لئے بھی یہی چھٹیاں ''اوور ٹائم'' ثابت ہوتی ہیں۔ کام کے دنوں میں مائیں بچوں کو اسکول و کالج اور والد صاحبان کو دفتر روانہ کرنے کے بعد جو ''ذاتی وقت'' کی سہولت میسر تھی ۔۔۔ وہ پورے دو ماہ کے لئے رخصت ہوچکی ہیں۔
اب پورا دن نہ ختم ہونے والی مصروفیت ۔۔۔ چھٹیوں کا ابتدائی حصہ، بخیر و خوبی گزر ہی رہا ہے ۔۔۔ تفریحات کے سلسلے میں بعض تعلیمی اداروں نے بھی تعاون کیا ہے اور نہایت قلیل اخراجات کے بدلے، پاکستان کے اہم مقامات کی سیر کی سہولت فراہم کی ہے۔ ملک کے عدم تحفظ کے ماحول کے باوجود، نوجوان طالبعلم اس سہولت سے بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں۔ شفیق اساتذہ اور محب دوستوں کی ہمراہی میں، چند دنوں کا یہ مہماتی، مطالعاتی اور تربیتی دورہ، یقیناً ان نوجوان بچوں کے لئے ایک رہنما یاد گار ثابت ہوگا۔
تفریحات کے نام پر ماوں کے وقت اور باپوں کی جیب پر کچھ بار بھی آن پڑا ہے مگر بہرحال یہ اولاد کا حق ہے، حسبِ استطاعت خوش دلی کے ساتھ ادا ہونا چاہیئے۔
ایک صحابی احنف بن قیس ؓ کا حکیمانہ قول ہے، ''اولاد ہمارے قلوب کا ثمرہ ہیں، کمر کی ٹیک ہیں، ہماری حیثیت ان کے لئے نہایت نرم اور بے ضرر زمین کی طرح ہے اور ہمارا وجود ان کے لیے سایہ فگن آسمان کی مانند ہے۔ ہم ان ہی کے ذریعے بڑے بڑے کام انجام دینے کی ہمت کرتے ہیں، پس اگر وہ آپ سے کچھ مطالبہ کریں تو انہیں خوب دیجییٔے اور اگر وہ کبھی دل گرفتہ ہوں تو ان کا غم دور کیجئے۔ نتیجے میں وہ آپ سے محبت کریں گے، کبھی ان پر ناقابل برداشت بوجھ نہ بنیں کہ وہ آپ کی زندگی سے اکتا جائیں اور آپ کے قریب آنے سے نفرت کریں۔ ''
یہ قول سالوں گزرنے کے باوجود آج بھی ہماری معاشرتی صورتحال کے لئے رہنما ہے۔ آج ہمارے معاشرے کے سلگتے مسائل کی وجوہات میں ایک اہم وجہ، والدین کا اولاد کی تربیت کی جانب سے غفلت برتنا بھی ہے۔ معاشرے کی بہتری، ملتِ اسلامیہ کی بقاء وسلامتی کی خاطر والدین کو اس جانب متوجہ ہونا ہوگا۔ اس کے لیے رمضان کریم کے بابرکت اور تربیتی لمحات سے بھرپور چھٹیاں کسی نعمت سے کم نہیں۔ وقت تو گزرنے کی چیز ہے گزر ہی جاتا ہے، مگر عقلمند ہیں وہ جو اس گراں قدر سرمایہ کو حکمت کے ساتھ استعمال کریں۔
رمضان نیکیوں کے موسم بہار، اچھائیوں کے لئے موافق ماحول سے فائدہ اٹھا کر بھر پور منصوبہ بندی کے ساتھ ان چھٹیوں کو یادگار بنایا جاسکتا ہے۔ اپنی اولاد کو دونوں جہانوں کی کار گاہِ حیات میں بلند مقام دلانے کی خاطر اُن کی تربیت، تہذیب و سلیقہ کردار سازی، دین سیکھنے کی لگن اور بھلائیوں کی طرف پیش قدمی، یہ محاسن والدین کی عنایت خاص کے طالب ہیں۔
آج کا دور سہولتوں اور مہارتوں کا دور ہے، مگر والدین کی ہمت و محبت ہی ان سہولیات کی حکمت کے ساتھ استعمال کرکے بچوں کی مہارتوں اور قابلیتوں کو مثبت رُخ فراہم کرسکتی ہے۔ آج اِن ننھے شگوفوں کی آبیاری کل چمن کی روٹھی بہاروں کی واپسی کا سبب بنے گی.
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اسکول کی پڑھائی و تیاری سے بے نیازی اور دن بھر کے کسے ہوئے معمولات سے چھٹکارہ ۔۔۔ مزہ ہی مزہ ۔۔۔ کبھی کسی عزیز کے یہاں مہمان بن کے جادھمکے، تو کبھی خود کسی رشتہ دار کی مہمان نوازی سے لطف اندوزی ۔۔۔ معمولات کی یہ تبدیلی ایک جانب موسم کی شدت اور پڑھائی کی مشقت سے کملائے ہوئے ننھے اور نوجوان بچوں پر نکھار لے کر آتی ہے تو دوسری جانب ماوں کے لئے بھی یہی چھٹیاں ''اوور ٹائم'' ثابت ہوتی ہیں۔ کام کے دنوں میں مائیں بچوں کو اسکول و کالج اور والد صاحبان کو دفتر روانہ کرنے کے بعد جو ''ذاتی وقت'' کی سہولت میسر تھی ۔۔۔ وہ پورے دو ماہ کے لئے رخصت ہوچکی ہیں۔
اب پورا دن نہ ختم ہونے والی مصروفیت ۔۔۔ چھٹیوں کا ابتدائی حصہ، بخیر و خوبی گزر ہی رہا ہے ۔۔۔ تفریحات کے سلسلے میں بعض تعلیمی اداروں نے بھی تعاون کیا ہے اور نہایت قلیل اخراجات کے بدلے، پاکستان کے اہم مقامات کی سیر کی سہولت فراہم کی ہے۔ ملک کے عدم تحفظ کے ماحول کے باوجود، نوجوان طالبعلم اس سہولت سے بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں۔ شفیق اساتذہ اور محب دوستوں کی ہمراہی میں، چند دنوں کا یہ مہماتی، مطالعاتی اور تربیتی دورہ، یقیناً ان نوجوان بچوں کے لئے ایک رہنما یاد گار ثابت ہوگا۔
تفریحات کے نام پر ماوں کے وقت اور باپوں کی جیب پر کچھ بار بھی آن پڑا ہے مگر بہرحال یہ اولاد کا حق ہے، حسبِ استطاعت خوش دلی کے ساتھ ادا ہونا چاہیئے۔
ایک صحابی احنف بن قیس ؓ کا حکیمانہ قول ہے، ''اولاد ہمارے قلوب کا ثمرہ ہیں، کمر کی ٹیک ہیں، ہماری حیثیت ان کے لئے نہایت نرم اور بے ضرر زمین کی طرح ہے اور ہمارا وجود ان کے لیے سایہ فگن آسمان کی مانند ہے۔ ہم ان ہی کے ذریعے بڑے بڑے کام انجام دینے کی ہمت کرتے ہیں، پس اگر وہ آپ سے کچھ مطالبہ کریں تو انہیں خوب دیجییٔے اور اگر وہ کبھی دل گرفتہ ہوں تو ان کا غم دور کیجئے۔ نتیجے میں وہ آپ سے محبت کریں گے، کبھی ان پر ناقابل برداشت بوجھ نہ بنیں کہ وہ آپ کی زندگی سے اکتا جائیں اور آپ کے قریب آنے سے نفرت کریں۔ ''
یہ قول سالوں گزرنے کے باوجود آج بھی ہماری معاشرتی صورتحال کے لئے رہنما ہے۔ آج ہمارے معاشرے کے سلگتے مسائل کی وجوہات میں ایک اہم وجہ، والدین کا اولاد کی تربیت کی جانب سے غفلت برتنا بھی ہے۔ معاشرے کی بہتری، ملتِ اسلامیہ کی بقاء وسلامتی کی خاطر والدین کو اس جانب متوجہ ہونا ہوگا۔ اس کے لیے رمضان کریم کے بابرکت اور تربیتی لمحات سے بھرپور چھٹیاں کسی نعمت سے کم نہیں۔ وقت تو گزرنے کی چیز ہے گزر ہی جاتا ہے، مگر عقلمند ہیں وہ جو اس گراں قدر سرمایہ کو حکمت کے ساتھ استعمال کریں۔
رمضان نیکیوں کے موسم بہار، اچھائیوں کے لئے موافق ماحول سے فائدہ اٹھا کر بھر پور منصوبہ بندی کے ساتھ ان چھٹیوں کو یادگار بنایا جاسکتا ہے۔ اپنی اولاد کو دونوں جہانوں کی کار گاہِ حیات میں بلند مقام دلانے کی خاطر اُن کی تربیت، تہذیب و سلیقہ کردار سازی، دین سیکھنے کی لگن اور بھلائیوں کی طرف پیش قدمی، یہ محاسن والدین کی عنایت خاص کے طالب ہیں۔
آج کا دور سہولتوں اور مہارتوں کا دور ہے، مگر والدین کی ہمت و محبت ہی ان سہولیات کی حکمت کے ساتھ استعمال کرکے بچوں کی مہارتوں اور قابلیتوں کو مثبت رُخ فراہم کرسکتی ہے۔ آج اِن ننھے شگوفوں کی آبیاری کل چمن کی روٹھی بہاروں کی واپسی کا سبب بنے گی.
حرف ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس