معصومیت کی تلاش
نجانے کتنے بالے اکیسویں صدی کے گلوبل مہذب معاشروں میں ناروا سلوک، ظلم، سماجی استحصال اور تشدد کا سامنا کر رہے ہیں
اوئے بالے 12 نمبرکی گوٹی پکڑا، میں جب ارشد مکینک کی ورکشاپ واقع سمن آباد میں داخل ہوا تو ارشد مکینک گاڑی کے نیچے گھسا ہوا اپنے شاگرد اقبال عرف بالے کو آوازیں دے رہا تھا، میری گاڑی کچھ تنگ کر رہی تھی اس لئے واپڈا ٹاون سے اپنے پرانے مکینک کے پاس لے کر آیا تھا کہ وہ واقعی مکینک ہے اور گاڑی پر زیادہ خرچہ نہیں کراتا۔
بالے کا تھوڑا سا نقشہ کھینچ دوں، بالا یہی کوئی 9،10 سال کا معصوم سی شکل کا بھولا بھالا لڑکا ہے۔ بالا اسکول یونیفارم میں ہوتا تو خوبصورت لڑکوں میں شمار ہوتا لیکن یہ بالا جس کے دونوں ہاتھ موبائل سے کالے ہو رہے تھے اور منہ پر بھی کہیں کہیں کالک لگی ہوئی تھی۔ ابھی پچھلی بار جب میں ارشد مکینک کی ورکشاپ پر آیا تھا تو یہ وہاں نہیں تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ نیا نیا ارشد مکینک کا شاگرد بنا ہے، خیر بالا ورکشاپ کے ایک کونے میں رکھی بڑی سی میز کی طرف گیا اور وہاں سے گوٹی اٹھا کر اس کار کی طرف آیا جس کے نیچے ارشد مکینک کام کر رہا تھا۔ ''لو استاد جی 12 نمبر دی گوٹی''، بالے نے بھی گاڑی کے پاس پہنچ کر زور سے آواز دی۔ ''ٹہر جا'' الو دا پٹھا۔اَگوں بولدا ایں (آگے سے بولتا ہے) ارشد مکینک غصے میں گاڑی کے نیچے سے نکلا اور ایک زوردار تھپڑ بالے کو رسید کیا۔ بالے کے منہ سے ایک سسکاری سی نکلی اور دو موٹے موٹے آنسو اس کے رخساروں پر لکیر ڈالتے ہوئے اس کے کھلے گریبان میں کہیں گم ہو گئے۔ بالا جس کا کوئی قصور نہیں تھا تھپڑ کھا کر دور کھڑی ایک دوسری گاڑی کا کوئی نٹ کسنے میں لگ گیا۔
میں لرز کر رہ گیا۔ یہ بالے کے کھیلنے کودنے کے دن تھے لیکن وہ بے قصور گالیاں اور تھپڑ کھا رہا تھا، نجانے کیا مجبوری تھی جو وہ اس ورکشاپ میں موجود تھا۔
''ارشد صاحب بڑی زیادتی ہے بالے نے تو آپ کو کچھ بھی نہیں کہا پھر بھی آپ نے اسے تھپڑ مار دیا'' میں نے ارشد مکینک کو اس کی زیادتی پر سرزنش کرنے کی کوشش کی۔ او نہیں جی صدیقی صاحب، کم ایسی طرح سکھیا جاندا اے اساں وی ایسی طرح سکھیاسی (صدیقی صاحب کام ایسے ہی سیکھا جاتا ہے ہم نے بھی ایسے ہی سیکھا تھا)۔
ارشد مکینک کی بات سن کر میں چپ کر گیا، مجھے بالے پر ترس بھی آ رہا تھا لیکن میں ورکشاپ کے کام سیکھنے کے اصولوں میں مداخلت نہیں کرسکتا تھا۔
ورکشاپ ہو یا چائے کی دکان، قالین بافی کا کارخانہ غرض ہر طرف نجانے کتنے بالے اکیسویں صدی کے گلوبل مہذب معاشروں میں غیروں اور اپنوں کے ناروا سلوک، ظلم، زیادتی، معاشی اور سماجی استحصال اور تشدد کا سامنا کر رہے ہیں۔
پاکستان میں اسپارک نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق ایک کروڑ دو لاکھ بچے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں سے 60 لاکھ بچے 10 سال سے کم عمر ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ایک تخمینے کے مطابق مجموعی طور پر پوری دنیا میں 215 ملین سے زائد جبکہ ایشیائی ملکوں میں ہر دس میں سے ایک بچہ جبری مشقت کر رہا ہے۔ ہندوستان میں 44 ملین 10 سے 14 سالہ بچے، پاکستان میں 8 سے 10، بنگلہ دیش میں 10 سے 12، برازیل میں 7، جبکہ نائیجیریا میں 12 ملین بچے اپنے گھروں کی کفالت کرنے پر مجبور ہیں۔
یونائیٹڈ نیشنز ڈیویلپمنٹ پروگرام(UNDP ) کے مطابق بنیادی طور پر غربت، روزگار کے مواقع کی کمی، بڑھتی ہوئی آبادی، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں کا فقدان، فرسودہ روایات اور اقدار کی وجہ سے یہ کم سن بالے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
یونائیٹڈ نیشنز ڈیویلپمنٹ پروگرام اورایشین ڈیویلپمنٹ بینک کے مطابق پاکستان میں 47 ملین سے زائد لوگ غربت کی انتہائی سطح سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے یہ لوگ بنیادی سہولتوں کے ساتھ ساتھ جہالت کا بھی شکار ہیں، اس لئے زیادہ تر والدین دو وقت کی روٹی کے لئے اپنے بچوں کو دوسرے گھروں، ورکشاپوں، قالین بافی کے کارخانوں وغیرہ میں بھیج دیتے ہیں۔
یو این کنونشن 34 چائلڈ لیبر واضح کرتا ہے کہ 18 سال سے کم عمر بچہ ایسا کوئی کام نہیں کرے گا جس سے اس کی صحت اور تعلیم متاثر ہو۔ آئی ایل او مین کنونشن 138 وضاحت کرتا ہے کہ 14 سال کی عمر تک بچہ مشقت والا کام نہیں کر سکتا۔ آئی ایل او کنونشن 182 کے مطابق بچہ کسی ایسی جگہ کام نہیں کرسکتا جس سے اسکی صحت متاثر ہو۔ مثلاً فیکٹریوں، ماربل انڈسٹری، لوہا بنانے کے کارخانے، اینٹوں کے بھٹے وغیرہ۔ بچوں کے معاشی استحصال کا یہ عالم ہے کہ 21 کروڑ 80 لاکھ بچے معاشی طور پر متحرک چائلڈ لیبر ہیں۔ ان میں سے 57.8 فیصد یعنی 12 کروڑ 60 لاکھ انتہائی خطرناک کاموں سے وابستہ ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق 57 لاکھ بچوں سے جبری مشقت لی جا رہی ہے۔ 18 لاکھ بچوں سے جسم فروشی کا دھندہ کرایا جا رہا ہے جبکہ 12 لاکھ بچے اسمگل کئے جا چکے ہیں جو وہاں اونٹوں پر باندھ کر ان ممالک کے باشندوں کو تفریح کا سامان مہیا کر رہے ہیں۔
اعداد وشمار کی یہ بڑی ہولناک تصویر ہے، خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے نجانے کتنے خاندان زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لئے دل پر پتھر رکھ کر یا خود ہی پتھر ہو کر اپنے اقبال عرف بالوں کو زندگی کے بے رحم سمندر میں دھکیل دیتے ہیں جہاں استاد کی گالیاں اور تھپڑ تو ہیں، ماں کی ممتا کا سایہ اور باپ کی شفقت کا احساس نہیں ہے۔ یہ احساسِ محرومی ان ننھے ننھے ہاتھوں کو زمانے کی سختیوں کے ساتھ ساتھ جرائم اور نشے کی ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں سے ازخود واپسی ممکن نہیں۔
حکومتی ادارے اور این جی اوز کی معاونت سے ان معصوم بچوں کی واپسی ممکن ہے اور کچھ نہیں تو ان کی معصومیت واپس دلائی جاسکتی ہے، ان کے ہاتھوں میں کتاب تھمائی جا سکتی ہے انہیں معاشرے کا باعزت اور باوقار شہری بنایا جا سکتا ہے۔ حکومت اگر چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے لیبر ڈیپارٹمنٹ کو متحرک کرے تو بہت سے بالے محمد اقبال بن سکتے ہیں۔ ان کے جسم پر بھی یونیفارم سج سکتا ہے، ورکشاپ سے نکل کر اس کی خوبصورتی بحال ہو سکتی ہے۔
[poll id="472"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
بالے کا تھوڑا سا نقشہ کھینچ دوں، بالا یہی کوئی 9،10 سال کا معصوم سی شکل کا بھولا بھالا لڑکا ہے۔ بالا اسکول یونیفارم میں ہوتا تو خوبصورت لڑکوں میں شمار ہوتا لیکن یہ بالا جس کے دونوں ہاتھ موبائل سے کالے ہو رہے تھے اور منہ پر بھی کہیں کہیں کالک لگی ہوئی تھی۔ ابھی پچھلی بار جب میں ارشد مکینک کی ورکشاپ پر آیا تھا تو یہ وہاں نہیں تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ نیا نیا ارشد مکینک کا شاگرد بنا ہے، خیر بالا ورکشاپ کے ایک کونے میں رکھی بڑی سی میز کی طرف گیا اور وہاں سے گوٹی اٹھا کر اس کار کی طرف آیا جس کے نیچے ارشد مکینک کام کر رہا تھا۔ ''لو استاد جی 12 نمبر دی گوٹی''، بالے نے بھی گاڑی کے پاس پہنچ کر زور سے آواز دی۔ ''ٹہر جا'' الو دا پٹھا۔اَگوں بولدا ایں (آگے سے بولتا ہے) ارشد مکینک غصے میں گاڑی کے نیچے سے نکلا اور ایک زوردار تھپڑ بالے کو رسید کیا۔ بالے کے منہ سے ایک سسکاری سی نکلی اور دو موٹے موٹے آنسو اس کے رخساروں پر لکیر ڈالتے ہوئے اس کے کھلے گریبان میں کہیں گم ہو گئے۔ بالا جس کا کوئی قصور نہیں تھا تھپڑ کھا کر دور کھڑی ایک دوسری گاڑی کا کوئی نٹ کسنے میں لگ گیا۔
میں لرز کر رہ گیا۔ یہ بالے کے کھیلنے کودنے کے دن تھے لیکن وہ بے قصور گالیاں اور تھپڑ کھا رہا تھا، نجانے کیا مجبوری تھی جو وہ اس ورکشاپ میں موجود تھا۔
''ارشد صاحب بڑی زیادتی ہے بالے نے تو آپ کو کچھ بھی نہیں کہا پھر بھی آپ نے اسے تھپڑ مار دیا'' میں نے ارشد مکینک کو اس کی زیادتی پر سرزنش کرنے کی کوشش کی۔ او نہیں جی صدیقی صاحب، کم ایسی طرح سکھیا جاندا اے اساں وی ایسی طرح سکھیاسی (صدیقی صاحب کام ایسے ہی سیکھا جاتا ہے ہم نے بھی ایسے ہی سیکھا تھا)۔
ارشد مکینک کی بات سن کر میں چپ کر گیا، مجھے بالے پر ترس بھی آ رہا تھا لیکن میں ورکشاپ کے کام سیکھنے کے اصولوں میں مداخلت نہیں کرسکتا تھا۔
ورکشاپ ہو یا چائے کی دکان، قالین بافی کا کارخانہ غرض ہر طرف نجانے کتنے بالے اکیسویں صدی کے گلوبل مہذب معاشروں میں غیروں اور اپنوں کے ناروا سلوک، ظلم، زیادتی، معاشی اور سماجی استحصال اور تشدد کا سامنا کر رہے ہیں۔
پاکستان میں اسپارک نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق ایک کروڑ دو لاکھ بچے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں سے 60 لاکھ بچے 10 سال سے کم عمر ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ایک تخمینے کے مطابق مجموعی طور پر پوری دنیا میں 215 ملین سے زائد جبکہ ایشیائی ملکوں میں ہر دس میں سے ایک بچہ جبری مشقت کر رہا ہے۔ ہندوستان میں 44 ملین 10 سے 14 سالہ بچے، پاکستان میں 8 سے 10، بنگلہ دیش میں 10 سے 12، برازیل میں 7، جبکہ نائیجیریا میں 12 ملین بچے اپنے گھروں کی کفالت کرنے پر مجبور ہیں۔
یونائیٹڈ نیشنز ڈیویلپمنٹ پروگرام(UNDP ) کے مطابق بنیادی طور پر غربت، روزگار کے مواقع کی کمی، بڑھتی ہوئی آبادی، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں کا فقدان، فرسودہ روایات اور اقدار کی وجہ سے یہ کم سن بالے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
یونائیٹڈ نیشنز ڈیویلپمنٹ پروگرام اورایشین ڈیویلپمنٹ بینک کے مطابق پاکستان میں 47 ملین سے زائد لوگ غربت کی انتہائی سطح سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے یہ لوگ بنیادی سہولتوں کے ساتھ ساتھ جہالت کا بھی شکار ہیں، اس لئے زیادہ تر والدین دو وقت کی روٹی کے لئے اپنے بچوں کو دوسرے گھروں، ورکشاپوں، قالین بافی کے کارخانوں وغیرہ میں بھیج دیتے ہیں۔
یو این کنونشن 34 چائلڈ لیبر واضح کرتا ہے کہ 18 سال سے کم عمر بچہ ایسا کوئی کام نہیں کرے گا جس سے اس کی صحت اور تعلیم متاثر ہو۔ آئی ایل او مین کنونشن 138 وضاحت کرتا ہے کہ 14 سال کی عمر تک بچہ مشقت والا کام نہیں کر سکتا۔ آئی ایل او کنونشن 182 کے مطابق بچہ کسی ایسی جگہ کام نہیں کرسکتا جس سے اسکی صحت متاثر ہو۔ مثلاً فیکٹریوں، ماربل انڈسٹری، لوہا بنانے کے کارخانے، اینٹوں کے بھٹے وغیرہ۔ بچوں کے معاشی استحصال کا یہ عالم ہے کہ 21 کروڑ 80 لاکھ بچے معاشی طور پر متحرک چائلڈ لیبر ہیں۔ ان میں سے 57.8 فیصد یعنی 12 کروڑ 60 لاکھ انتہائی خطرناک کاموں سے وابستہ ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق 57 لاکھ بچوں سے جبری مشقت لی جا رہی ہے۔ 18 لاکھ بچوں سے جسم فروشی کا دھندہ کرایا جا رہا ہے جبکہ 12 لاکھ بچے اسمگل کئے جا چکے ہیں جو وہاں اونٹوں پر باندھ کر ان ممالک کے باشندوں کو تفریح کا سامان مہیا کر رہے ہیں۔
اعداد وشمار کی یہ بڑی ہولناک تصویر ہے، خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے نجانے کتنے خاندان زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لئے دل پر پتھر رکھ کر یا خود ہی پتھر ہو کر اپنے اقبال عرف بالوں کو زندگی کے بے رحم سمندر میں دھکیل دیتے ہیں جہاں استاد کی گالیاں اور تھپڑ تو ہیں، ماں کی ممتا کا سایہ اور باپ کی شفقت کا احساس نہیں ہے۔ یہ احساسِ محرومی ان ننھے ننھے ہاتھوں کو زمانے کی سختیوں کے ساتھ ساتھ جرائم اور نشے کی ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں سے ازخود واپسی ممکن نہیں۔
حکومتی ادارے اور این جی اوز کی معاونت سے ان معصوم بچوں کی واپسی ممکن ہے اور کچھ نہیں تو ان کی معصومیت واپس دلائی جاسکتی ہے، ان کے ہاتھوں میں کتاب تھمائی جا سکتی ہے انہیں معاشرے کا باعزت اور باوقار شہری بنایا جا سکتا ہے۔ حکومت اگر چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے لیبر ڈیپارٹمنٹ کو متحرک کرے تو بہت سے بالے محمد اقبال بن سکتے ہیں۔ ان کے جسم پر بھی یونیفارم سج سکتا ہے، ورکشاپ سے نکل کر اس کی خوبصورتی بحال ہو سکتی ہے۔
[poll id="472"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس