پولیس کلچر
وہ بیورو کریسی اور’’کلرک کریسی‘‘ کا کلچر بدلنے کی کوشش کیوں نہیں کرنا چاہتے
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ میرا شہر کی معروف شاہراہوں سے گزر ہوتا تو مجھے پولیس کی جانب سے کئی مقامات پر لگے ہوئے بورڈوں کی اس وارننگ میں وزن لگتا کہ ''دل کی بات پر دھیان مت دیجیے، کہیں بھی کوئی مشتبہ چیز یا بیگ یا بریف کیس پڑا ہوا دکھائی دے تو اس کی اطلاع فوری طورپر قریبی پولیس اسٹیشن کو دیجیے''... ایک بار مجھے ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہوا تو میں نے عقل کے دروازے پر دستک دی، آواز آئی تھانے نہ جانا۔ ابھی ''تھانہ کلچر نہیں بدلا'' تھانے والے تم سے پوچھ سکتے ہیں... تم ادھر کیا لینے گئے تھے جہاں بریف کیس پڑا ہے؟
تم نے کسی کو بریف کیس رکھتے دیکھا تھا؟ سڑکوں پر اکیلے کیوں پھرتے ہو؟ آوارہ گردی کرتے ہو؟ خود ہی بریف کیس رکھ کر تھانے بتانے آ گئے ہو؟...میں مفروضہ سوالوں سے گھبرا گیا۔ موبائل فون جیب سے نکالا اور ایمرجنسی پولیس کو فون کر دیا اور مختصر اطلاع دیکر بند کر دیا اور سیدھے دفتر پہنچ کر دم لیا ۔ مجھے افسوس اس بات پرہوتا ہے کہ گزشتہ 68 برسوں میں سیاسی اور فوجی حکمرانی کا کلچر نہیں بدلا، حیرت اس بات پرہوتی ہے کہ سیاستدان اور جرنیل اپنی حکمرانی کا کلچر نہیں بدل سکتے تو وہ دوسروں خصوصاً پولیس کا کلچر یا تھانہ کلچر کیوں بدلنا چاہتے ہیں؟وہ کورٹ کچہری کلچر کیوں نہیں بدلنا چاہتے؟... وہ وڈیرہ کلچر کیوں تبدیل نہیں کرنا چاہتے؟
وہ بیورو کریسی اور''کلرک کریسی'' کا کلچر بدلنے کی کوشش کیوں نہیں کرنا چاہتے؟...خیر بات پولیس سسٹم سے آگے نکل جائے گی۔۔۔ اس لیے باقی سسٹم بعد میں ''ٹھیک'' کر لیں گے۔۔۔ گزشتہ کالم میں میں نے سیالکوٹ (ڈسکہ) کے ایس ایچ او شہزاد وڑائچ کے بارے میں بات کی تھی جس کے ہاتھوں صدربار رانا خالد عباس اور عرفان چوہان قتل ہوئے، یہ ایک انتہائی ناخوشگوار واقعہ تھا جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ حکومت کو جہاں اس معاملے میں دیگر پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ہو گا وہاں اس پہلو کی بھی انکوائری ہونی چاہیے کہ کیا ایس ایچ او کی جان خطرے میں تھی کہ اس نے فائرنگ کردی اگر اس کی جان کو خطرہ نہیں تھا تو اس نے اس قدر درندگی کا مظاہرہ کیوں کیا۔ کیا یہ پرانی چپقلش کا نتیجہ تھا یا ہماری پولیس 24گھنٹے کی تھکاوٹ سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوگئی ہے؟
ماہر نفسیات کے مطابق پولیس کی 24گھنٹے کی ڈیوٹی سے وہ نفسیاتی طور پر مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں، افسروں کی ڈانٹ ڈپٹ اور انتہائی کشمکش کے ماحول میں ڈیوٹیاں محافظوں کی ذہنی صلاحیتوں کو زنگ آلود کر رہی ہیں۔ تھانہ کلچر کوتبدیلی کی آڑمیں کچرے کاڈھیربنانیوالے کوئی اورنہیں حکمران اورسیاستدان ہیں۔ حالیہ مہینوں میں محکمہ پولیس سندھ کی تنخواہیں پنجاب پولیس کے برابرکرنے کا فیصلہ کیا گیا تو سندھ کی پولیس میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی لیکن یہ تنخواہیں بین الاقوامی معیار کی نہیں جن پر ہم فخر کریں، ترقی یافتہ ممالک جن کے ہم قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے وہاں پولیس کو اتنا معاوضہ دیا جاتا ہے کہ انھیں رشوت لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، لیکن ہماری پولیس کا حال تو یہ ہے کہ بقول شاعر:
غم ہوا ہے شریک کار اپنا
اب تو رونا ہے روزگار اپنا
اس وقت پاکستان میں پولیس کی مجموعی نفری کے تناسب سے ہر 500 پاکستانیوں کے لیے ایک پولیس مین مقرر ہے یعنی وطن عزیز میں پولیس کی تعداد 4لاکھ ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جرائم کنٹرول نہ ہونے کی ایک وجہ پولیس نفری میں قلت ہے لیکن اصل صورتحال اس سے بھی زیادہ سنگین ہے کیونکہ موجودہ نفری میں آدھی سے زیادہ پولیس VIP شخصیات کی حفاظت پر مامور ہے۔ اس حساب سے ہر 1000 پاکستانیوں کے لیے درحقیقت ایک پولیس مین ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پولیس میں مین پاور کی قلت کا کتنا بڑا مسئلہ ہے۔
ایک تجویز یہ تھی کہ VIP شخصیات کی حفاظت کے لیے الگ فورس بنا دی جائے اور پولیس کو اپنا کام کرنے دیا جائے مگر سیاسی مقتدرین اس تجویز کو خاطر میں نہیں لاتے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ جہاں رشوت یا سیاسی دباؤ نہ ہو وہاں پولیس کی کارکردگی بہتر ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پولیس نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر سیکڑوں دہشت گرد پکڑے ہیں۔ حال ہی میں زمبابوے کی کرکٹ ٹیم کو کامیاب سیکیورٹی کوریج دینا پولیس کی اعلیٰ کارکردگی کی ایک مثال ہے۔
ہم طبقات کے نام پراپنے اوردوسروں کے درمیان نفرت اورتعصب کی دیواریں تعمیرکررہے ہیں۔ پولیس کے ساتھ خوامخواہ الجھنااوردوران ڈیوٹی اہلکارو ں کی توہین کرنا معاشرے کے مٹھی بھر بااثر افراد نے اپنابنیادی حق سمجھ لیا ہے۔ ملزم کوتفتیشی مرحلے کی تکمیل کے بعدمجرم ڈکلیئرکرنا پولیس جب کہ شواہد کی روشنی میں اسے کیفرکردارتک پہنچانا عدلیہ کاکام ہے اسی حوالے سے حضرت عمرفاروقؓ کافرمان ہے'' جوریاست مجرموں پررحم کرتی ہے وہاں کے بیگناہ لوگ بڑی رحمی سے مرتے ہیں''۔
ہمیں ہر گز یہ بھی نہیں کہنا چاہیے کہ معاشرے میں موجود تمام برائیوں کی جڑ صرف پولیس ہی ہے، اگر پولیس والے سبھی برائیوں ،بحرانوں ،بدعنوانی اور بدامنی کی روٹ کاز ہیں توانھیں صرف دوروزکے لیے گھروں میں بٹھادیا جائے توپھردیکھیں گے کون کون پولیس کی حفاظتی حصار کے بغیر گھرسے باہرنکلتا ہے۔کسی ایس ایچ اویااہلکارکاذاتی کردارجوبھی ہواگروہ یونیفارم میں ہے تواس کی عزت کرناہوگی۔
پاکستان کے تنظیمی ڈھانچوں میں پولیس ہی ایک ایسا ادارہ ہے جس پر بھرپور توجہ نہیں دی گئی۔ اگر ہمارے حکمران سنجیدہ کوشش کریں گے تو یہی محکمہ پورے ملک سے کرائم کو کنٹرول کرے گا۔ اور دنیا کے لیے ایک مثال بنے گا۔اس حوالے سے چند ایک تجاویز ہیں اگر ان پر حکومت عمل پیرا ہو جائے تو محکمہ پولیس عوام کے دل میں گھر کر سکتا ہے۔
٭ محکمہ پولیس سے سیاست کا خاتمہ کر کے ایک آزاد، خود مختار اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کی طرز پر ادارہ بنادیا جائے۔ ٭اگرپولیس کے انتظامی اوراندرونی فیصلے حکومت کے بجائے آئی جی کوکرنے دیے جائیں تو صوبائی حکومت کوبار بار بلیک میل نہیں ہوناپڑے گا۔٭ حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ پولیس کو جدید طرز پر تربیت دے اور ماڈرن ٹیکنالوجی سے لیس کرے تاکہ وہ عوام کا صحیح معنوں میں دفاع کرسکیں۔ اب پولیس کو جدید زمانے کے لحاظ سے تربیت دینا ناگزیر ہوگیا ہے، پولیس 25،30سالہ پرانے اسلحے سے جدید ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔٭پولیس افسران کی تعیناتیوں میں سیاسی دباؤ ہرگز برداشت نہ کیا جائے۔
٭ حکمران طبقہ پولیس کو آزاد کرنا نہیں چاہتا۔ اگر پولیس آزاد ہو گی تو قانون کے مطابق کارروائی کرے گی۔ ٭ ہونہار پولیس افسران کو زیادہ سے زیادہ بیرون ملک تربیت کے لیے بھجوایا جائے تاکہ ان کی صلاحیت پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوں اور محکمہ پولیس میں جدت آئے۔ ٭محکمہ پولیس کو ہنگامی بنیادوں پر فنڈز فراہم کیے جائیں تاکہ وہ جدید سہولتوں سے آراستہ ہو کر عوامی خدمت کو بروئے کار لائے۔
٭ CMHکی طرز پر محکمہ پولیس کے لیے اسپتال تعمیر کیے جائیں جہاں انھیں تمام علاج معالجے کی سہولیات میسر ہوں۔ ٭ تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے تاکہ ایک عام اہلکار کرپشن و رشوت کے بارے میں سوچ بھی نہ رکھے۔ ٭جب فوج، ریلوے و دیگر اداروں کے لیے ملک بھر میں اسکول موجود ہیں تو اس محکمہ کے لیے الگ سے اسکول موجود کیوں نہیں؟