ایک سیاستدان …کچھ یادیں
ٹی وی اسکرین پر ایک سیاستدان مدظلہ تعالیٰ کو شمالی علاقوں میں گِلگِتی ٹوپی پہنے گرجتے برستے دیکھا
ٹی وی اسکرین پر ایک سیاستدان مدظلہ تعالیٰ کو شمالی علاقوں میں گِلگِتی ٹوپی پہنے گرجتے برستے دیکھا تو اسی روز ایک پُرانی البم سے ان کا ایک فوٹو نِکل آیا جس میں وہ پچّیس سال پہلے میری دعوت پر پولیس لائنز راولپنڈی میں پولیس اور شہریوں کی مشترکہ افطاری میں کچھ دوسرے ممبران اور معززین کے ساتھ جلوہ افروز ہیں۔
ناچیز منتحب ممبران کو ہمیشہ بڑی عزت دیتا رہا ہے مگر پولیس افسروں کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر میں ان کی دخل اندازی کبھی قبول نہیں کی۔ 1989-90کی بات ہے میں راولپنڈی میں سپرنٹنڈنٹ پولیس تھا، ہیڈکواٹر زکے کام کے ساتھ ساتھ شہر میں جرائم کی روک تھام اور امن وامان کا قیام میری ذمّہ داری تھی ۔اسلام آباد کا ائرپورٹ چونکہ راولپنڈی کی انتظامی حدود میں واقع ہے اس لیے وی وی آئی پی موومنٹ کے موقع پر سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے ائرپورٹ پر موجود ہونا بھی ہمارے فرائض میں شامل تھا۔ مجھے یاد ہے ایک بار بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی دورے پر آئے جنھیںمحترمہ بینظیر بھٹو نے ریسیو کیا، گارڈ آف آنرز کی رسومات کے بعد جب وہ کار میں بیٹھ کر روانہ ہونے لگے تو وہاں موجود تمام افسروں نے انھیں سلیوٹ کیا مگر میرے دِل میں وطنِ عزیز کا مشرقی بازو کٹنے کی ایسی ٹِیس اُٹھی کہ سلیوٹ کے لیے ہاتھ اوپر نہ اُٹھ سکے۔
اسوقت راولپنڈی میں چوھدری نثار علی خان سے زیادہ ان صاحب کا طوطی بولتا تھا۔ مختلف حکومتوں اور لیڈروں سے انھیں اپنے تین اوصاف کی بناء پرقرب حاصل رہاہے ۔ پہلے نمبر پر ان کا گلاَ جس سے ٹلی کی طرح گونجتی ہوئی آواز نِکلتی ہے اور یہ خُداداد صِفت ہے دوسرے نمبرپر اِنکی عوامی زبان یا بازاری زبان جس کا وہ بے لگام استعمال کرتے ہیں اور اِنکی تیسرِی خوبی عوامی سیاست کی سوجھ بُوجھ ہے۔
تیسری خوبی کی اہمیت زیادہ نہیں ہے، پہلے دو اوصاف ہی کافی ہیں۔ چونکہ حکمرانوں کے مخالف بھی ہوتے ہیں جن کے خلاف سخت ترین تنقید کرنے یا ایسی تیسی کرنے کے لیے انھیں کوئی ایساشخص درکار ہوتا ہے جسکی آواز گونجدار ہواور جو مخالفین کو گالی دینے سے بھی گریز نہ کرے۔اُن دنوںوزیراعظم بے نظیربھٹو اور وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں نوازشریف کے تعلقات سخت کشیدہ تھے لہذا ان صاحب کی اُنکے گَلے اور دیگر خصوصیات کے باعث بہت مانگ تھی۔ وہ پارلمنٹ کے اندر اور باہر اپنے گلے اور زبان کا خوب استعمال کررہے تھے ۔
آجکل بھی مختلف پارٹیوں کے کچھ نوجوان ٹی وی چینلوں پر ان جیسا بننے کی کوشش ضرور کرتے ہیں مگر ابھی وہ انڈر ٹریننگ لگتے ہیں، اگر وہ اپنے گلے کی مالش کراتے رہیں اور زبان کو کھُلا چھوڑ دیں تو پھرشاید اس مقام تک پہنچ جائیں۔
راولپنڈی اسوقت ایک پُر امن شہر تھا، سنگین جرائم کم تھے مگرکار چوری اور منشیات کا کاروبارعروج پر تھا۔ کارچورپنڈی سے گاڑیاں چوری کرکے اسوقت کے صوبہ سرحد میں لے جاتے تھے (اب بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔۔ چوری شدہ گاڑیوں کی خریدوفروخت کا گڑھ ابھی تک وہی علاقہ ہے ۔کے پی کے کی حکومت کو اس لعنت کے خاتمے پر فوری توجہ دینی چاہیے) مردان اس کاروبار کامرکز تھا۔ مجھے یاد ہے ہم نے کئی بار مردان جاکر چوری شدہ گاڑیاں برآمد کیں اور انھیں ملزموں سمیت پنڈی لے آئے۔ راولپنڈی کے داخلی اور خارجی پوانٹس پر سخت ترِین چیکنگ اور صوبہ سرحد میں جاکر مسلسل ریڈ کرنے اور گاڑیاَں برآمد کرنے سے کار چوری خاصی کم ہوگئی تھی۔ منشیات فروشی کی لعنت عام تھی ۔
ڈالڈا سرائے کو پنڈی کا سہراب گوٹھ کہا جاتا تھا۔گَلیوں اور محّلوں میں بھی ھیروئن اور چرس کھلے عام بِکتی تھی۔ نئی نسل بڑی تیزی سے اس لعنت کا شکار ہوکر صحت اور زندگی سے محروم ہورہی تھی۔ لہذا اس کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کا پروگرام بنایا گیا، مختلف ذرایع سے معلومات حاصل کرکے ٹیمیں ترتیب دی گئیں اور ایک رات کو آپریشن شروع کردیا گیا۔ جو تین دن جاری رہا، ڈالڈا سرائے اور دوسرے بڑے اڈوں پر میں نے خود ریڈ کیے اور بڑے بڑے منشیات فروشوں کو گِرفتار کرلیا۔ آپریشن کا نتیجہ یہ نکلا کہ راولپنڈی میں منشیات ملنی بند ہوگئی، میونسپل کمیٹی کے ملازم کئی روز تک نالیوں میں گرے ہوئے نشیوؤں کو اُٹھا کر اسپتال پہنچاتے رہے جہاں ان کا باقاعدہ علاج شروع ہوگیااور ان میںسے کئی صحت یاب ہوکر فعال اور کارآمد شہری بن گئے۔
شہریوں کا پولیس پر اعتماد بحال ہونے لگا۔ اس کے بعد بھی جس جگہ میری تعیناتی ہوئی نوجوانوں کو تباہ کرنے والی اس لعنت کا سب سے پہلے خاتمہ کیاگیا۔ اس سلسلے میں پولیس افسروںکو میری واضح ہدابات ہوتی تھیںکہ "I don't care about the number of cases. We have to achieve our target and that is-zero availability of drugs." ( مجھے مقدموں یا پرچوں کی تعداد سے غرض نہیںمنشیات کی دستیابی مکمل طور پر ختم ہونی چاہیے) جسطرح یہ ٹارگٹ راولپنڈی میں حاصل ہوا اس کی مثال دی جاتی رہی کہ پنڈی کی طرح نشے کی ایک پُڑی اور ایک گولی بھی نہیں ملنی چاھئے۔ پولیسنگ کے عمل میں شہریوں کی شراکت کو یقینی بنانا شروع سے ہی میرے طریقہ کار کا اہم جُز رہا ہے اس سلسلے میں راولپنڈی میں بھی وارڈ کی سطح پر جاکر کھلی کچہریاں لگا کر شہریو ں سے ملنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔
ہر عوامی اجتماع میں جہاں عام لوگ منشیات کے خاتمے پر پولیس کی کوششوں کوسراہتے وہاں یہ بات بھی کرتے کہ شہر میں جوّئے کے اڈے سرِعام چل رہے ہیں جنھیں پولیس کی سرپرستی حاصل ہے انھیں بھی ختم کرائیں۔ کئی لوگوں نے تو کھل کر کہہ دیاکہ جوئے کے بدنام ترین اڈّے کو ایم این اے صاحب کی سرپرستی حاصل ہے۔ میں نے ایس ایچ او کو ہدایات دیں مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا، ڈی ایس پی کو بلا کر حکم دیا کہ جوئے کے اڈوّں پر ریڈ کرکے انھیں ختم کراؤ۔ مگر کوئی کارروائی نہ ہوئی۔
اچھی شہرت کے ایک دو افسروں نے آکر راز کی بات بتادی کہ سَر! ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کو ایم این اے صاحب نے ہی لگوایا ہے، وہ جوئے کے اڈے پر کیسے ریڈ کریں گے؟ میں نے کوئی اور حکمت عملِی اختیار کرنے پر سوچنا شروع کردیا۔ اس دوران کئی سینئر افسروں اور سوشیالوجی اور نفسیات کے ماہرین سے ملاقاتیں کیں تو جوئے کی قباحتوں اور خطرناک اثرات کے بارے میںآشنائی ہوئی کہ جوئے سے چوری، ڈاکے اور کرپشن کو فروغ مِلتاہے اور راتوں رات کروڑپتی بننے کی ہوَس میں کئی بدبخت پہلے کیش، پھر گھر کا زیور اور اُسکے بعد بیویاں تک جوئے میں ہار جاتے ہیں۔
چند روز بعد میں دفتر میں بیٹھا پنڈی کے بدنام ترین جوئے کے اڈّے کو smash کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی ، دوسری جانب پولیس کے ضلعی سربراہ یعنی ایس ایس پی صاحب تھے ۔ جنہوں نے جلدی اور گھبراہٹ میں کہا" آپ کو ایک اہم لیٹر بھیجا جا رہا ہے اوپر سے فیصلہ ہوا ہے کہ آپ خوداِسکی انکوائری کرکے فوری رپورٹ بھجوائیں"۔
میں نے خط کا مضمون جاننا چاہا تو موصوف گریزاں تھے۔لگتا تھا مضمون کچھ زیادہ ہی حسّاس نوعیت کا ہے جسکے متعلق کسی کارروائی کی ذمے داری ایس ایس پی صاحب خود نہیں لیناچاہتے تھے۔ چند منٹوں میں خط پہنچ گیا، جو واقعی حساس نوعیت کا نکلا۔ جی ایچ کیو اور وزارت خارجہ کی طرف سے پنجاب حکومت سے کہا گیا تھا کہ ایم این اے صاحب اپنی تقریروں میں اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ انھوں نے "فتح جنگ کے قریب کشمیری مجاہدین کے لیے ٹریننگ کیمپ قائم کر رکھے ہیں۔ جنکے آس پاس ہر طرف مسلحّ سیکیورٹی گارڈ تعینات ہیں، اس کا دعویٰ ہے کہ اگر کوئی زمینی راستے سے قریب آئے یا فضائی جائزہ لینے کی کوشش کرے تو اس پر فائرنگ کی جائے گی ۔
ایسی خبروں سے عالمی سطح پرپاکستان کی پوزیشن خراب ہورہی ہے، پاک آرمی کو بھی اس کے خطرناک نتائج کے بارے میں تشویش ہے، حقائق دریافت کرکے بتائیں کہ ایم این اے کے فارم پرکیا ہورہا ہے اور کن لوگوں کو کس نوعیت کی ٹریننگ دی جارہی ہے؟" اخبارات میں بھی ایم این اے صاحب کے "ٹریننگ کیمپ" کے بارے میں مسلسل خبریں چھپ رہی تھیں۔1985ء تک ان صاحب کی مالی حالت پتلی تھی' چند سالوں میں سیاست کی برکت سے وہ صاحب مہنگی گاڑی میں مہنگے سوٹ پہن کر نکلنے لگے اور کئی بنگلوں اور فتح جنگ کے قریب زمینوں کے مالک بھی بن گئے۔
ان کے قریبی ذرایع بتاتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین ان کے آئیڈیل ہیںاور وہ چاہتے ہیں کہ وہ پنڈی کا الطاف حسین بنیں۔جس کی ایک کال پر سارا شہر بند ہو جائے۔بہرحال ان کے کیمپ کا اتا پتہ معلوم کرکے میں نے اپنا گن مین کار میں ساتھ بٹھایا اور اﷲ کا نام لے کر فتخ جنگ روڈ پر چل پڑا۔ اﷲ تعالیٰ پر بھروسے کے علاوہ یہ بھی اعتماد تھا کہ اب پنڈی کے عوام مجھے جانتے ہیں اس لیے مجھ پر کوئی اتنی آسانی سے فائر کرنے کی جرأت نہیں کریگا۔ ان صاحب نے یہ بھی کہا کہ کیمپ میں آنے والے ایس پی ذوالفقار چیمہ کو میرے مسلّح آدمیوں نے کمرے میں بند کردیا۔
یہ سراسر جھوٹ ہے، حقیقت یہ ہے کہ راستے میں کہیں کہیں مسلّح افراد نظر آئے حتیٰ کہ میں عین "مرکز" پر پہنچ گیا جہاں کچھ اور مسلّح لوگ بھی موجود تھے، میں وہاں پندرہ بیس مِنٹ گھومتا رہا اور حقائق معلوم کرکے بخیریت واپس آگیا۔کسی بھی جگہ کسی شخص کو میری طرف بڑھنے یا بد تمیزی کرنے کی جُرأت نہیں ہوئی۔ واپس پہنچا ہی تھا کہ اوپر سے فون آنا شروع ہوگئے۔
ایم این اے صاحب نے چیف منسٹر ہاؤس کے تار ہلا دیے ہیں کہ ایس پی نے میرے فارم پر ریڈ کر کے میری توہین کی ہے' کمشنر راولپنڈی کولاہور جاکراس ریڈ کی وضاحت کرنا پڑی ۔ ابھی اس توہین کا پسینہ بھی خشک نہیں ہوا تھا کہ اسی ایس پی نے جوئے کے مشہورومعروف اڈے پر مقامی ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کو بتائے بغیر خود ریڈ کردیا اور لاکھوں روپے کی رقم سمیت جواریوں کو گرفتار کر لیا۔ اس گستاخی پر وہ صاحب آگ بگولہ ہو کر چھت سے جا لگے۔ فوراً لاہور پہنچے اور وزیرِاعلیٰ سے شکایت کی کہ" ایس پی نے میرے یعنی مسلم لیگ کے ورکروں کو بہت بے عزّت کیا ہے اسے فوراً تبدیل کیا جائے۔ "
(جاری ہے)