غربت اور بجٹ
پاکستان کی 60 فیصد آبادی فی کس 2 ڈالر یعنی 200 روپے یومیہ سے کم کما رہی ہے
پاکستان کی 60 فیصد آبادی فی کس 2 ڈالر یعنی 200 روپے یومیہ سے کم کما رہی ہے۔ وفاقی بجٹ کے اعلان سے پہلے یہ انکشاف سرکاری ڈرافٹ رپورٹ میں کیا گیا۔ اخباری اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ وزارت خزانہ نے سوشل سیفٹی نیٹ انسٹی ٹیوٹس کو مضبوط کرنے کے لیے ٹاسک فورس قائم کی تھی۔اس ٹاسک فورس نے سفارش کی تھی کہ وزارت خزانہ کے تحت سوشل سیفٹی ڈویژن قائم کیا جائے۔
جس میں وہ ادارے شامل کیے جائیں جو غربت کے خاتمے کے لیے مالیاتی امداد فراہم کرتے ہیں مگر وفاق اور صوبوں کے درمیان اس معاملے پر اتفاقِ رائے نہ ہونے پر سوشل سیفٹی نیٹ ورک کا معاملہ ہنوزغور طلب ہے۔ پاکستان میں غربت کی جڑیں انتہائی گہری ہیں۔ اس کے بہت سے اسباب ہیں اور غربت کے خاتمے کے لیے ادارہ جاتی کوششیں نہیں ہوئیں ، مگر غربت کے نقصانات بہت گہرے ہیں۔
دہشت گردی پر تحقیق کرنے والے غربت کو اس ایک اہم وجہ قراردیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں غربت کو جڑ سے ختم کرنے کے بجائے فیاضی کے طریقے پر زیادہ زور دیا جاتا ہے، یوں فقیروں کو امداد ملتی ہے مگر فقیروں کی تعداد کم نہیں ہوتی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ قیامِ پاکستان کے وقت پاکستان کے بیشتر علاقے پسماندہ تھے ۔غربت نو آبادیاتی نظام سے ورثے میں ملی مگر برسرِ اقتدار حکومتیں غربت کی شرح کو کم کرنے میں ناکام رہیں۔ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افرادکی تعداد کبھی 30،کبھی 50اورکبھی 60 فیصد تک پہنچ گئی۔
اس وقت پاکستان کے شہری علاقوں میں ایک خاندان میاں بیوی کے علاوہ 4 سے 5 بچوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ بعض دفعہ بچوں کی تعداد 8سے 10 تک پہنچ جاتی ہے۔ دیہی علاقوں میں ابھی تک چھوٹے خاندانوں کا تصور نہیں ہے، یوں ایک میاں بیوی اور 4 یا 5 بچوں کے خاندان کی آمدنی یعنی 7ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہے۔ اگر اس خاندان کا بجٹ تیارکیا جائے تو روزانہ صرف تین وقت دال روٹی کھانے پر ایک فرد پر تقریباً 100 روپے کی رقم خرچ ہوگی، صبح کے ناشتے میں چائے اور ممکنہ طور پر دودھ شامل کرلیا جائے تو اس خاندان کو ہر صورت مزید ایک ہزار روپے صرف کھانے کی مد میں خرچ کرنے پڑیں گے۔ ایک یا دوکمرے کا مکان اس کا کرایہ بجلی گیس اخراجات اس خاندان کو ادا کرنے ہونگے۔
اس جیسے کروڑوں خاندان ہیں جو اپنے مصارفِ زندگی پورے نہیں کر پاتے۔ جب بھی وفاقی اورصوبائی بجٹ آتا ہے تو حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرتی ہے اور اس کے ساتھ براہِ راست اور بلواسطہ ٹیکس بھی عائدکردیتی ہے، یوں پٹرول اورگیس کی قیمتیں بڑھتی ہیں، ادویہ پر مزید ٹیکس لگتے ہیں اور بنیادی اشیائکی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، یوں 2ڈالر یومیہ آمدنی والے خاندان مزید غربت کے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں۔ ان کے پاس خیراتی اداروں سے مدد لینے یا جرائم میں ملوث ہونے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں رہتا۔ ان خاندانوں کے بچے یا تو بھیک مانگتے ہیں یا مدارس میں پناہ لیتے ہیں جہاں رہائش،کھانے اور لباس کی سہولتیں مفت میں مل جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دینی مدارس کی تعداد بڑھتی جارہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
گزشتہ 20 برسوں سے چند گروہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک سے منسلک ہوگئے ہیں، ریاستی اداروں کی کوششوں کے باوجود دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوپا رہا۔ غربت کے مارے والدین اپنے بچوں کو اسکولوں میں داخل نہیں کرا پاتے اور جو بچے اسکولوں میں تعلیم کے لیے جاتے ہیں ان میں سے بیشتر ابتدائی کلاسوں میں ہی اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ خاص طور پر بچیوں کے اسکول چھوڑنے کی شرح زیادہ ہے۔ خواندگی کی شرح نہ بڑھنے سے صنعتی ترقی کے لیے افرادی قوت دستیاب نہیں ہوتی اور ترقیاتی منصوبے اپنا ہدف پورا نہیں کرپاتے۔
سماجی علوم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آبادی کی شرح کم کرنے سے غربت کے خاتمے میں مدد مل سکتی ہے۔ 60ء اور 70ء کی دھائی میں خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام پر خصوصی توجہ دی گئی اور لوگوں میں کم بچوں کی افادیت اجاگر ہوئی۔ مذہبی علماء نے بھی اس تصور کو قبول کرلیا مگر جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں آبادی کا معاملہ پسِ پشت چلا گیا۔ پورے ملک میں سرکاری اسکولوں کی صورتحال خاصی خراب ہے ، سرکاری اسکولوں کو فعال کرنے سے ہی خواندگی کی شرح بڑھتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو اسکالرشپ اسکیمیں دینے کا سلسلہ شروع کرنا بھی ضروری ہے تاکہ جو غریب والدین بچوں کو اسکول بھیجیں تو بچے اسکالرشپ کی ذریعے مدد حاصل کرسکیں۔ خاص طور پر اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کے اسکالرشپ کی رقم زیادہ ہونی چاہیے تاکہ والدین بچیوں کو اسکول بھیجنے کو اپنے حق میں بہتر جانیں۔
بھارت اور دیگر ممالک میں دیہاتوں میں غربت کے خاتمے کے لیے بہت سے منصوبے شروع کیے گئے۔ ان منصوبوں میں بے روزگار نوجوانوں کو سستے قرضے، بے زمین کسانوں کو زمین کی فراہمی، دیہاتوں میں تعلیمی اداروں اسپتالوں کے قیام کے ساتھ دیہات کو سڑک اور ریل کے ذریعے شہروں سے منسلک کرنا شامل تھے۔ دیہی علاقوں میں زراعت سے متعلق صنعتوں کے قیام کی خصوصی اسکیمیں شامل تھیں۔ اسی طرح بجلی اور گیس کی فراہمی جیسے منصوبے شامل ہیں۔
گزشتہ حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا تھا جو اس حکومت نے بھی جاری رکھا ہے مگر محض وظیفہ دینا مسئلے کا حل نہیں۔ لوگوں کو روزگار سے منسلک کرنا اور ان کی صلاحیتوں کو استعمال کر کے ہی غربت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ اس پروگرام کے مصنف ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام غربت کے خاتمے کے لیے صرف لوگوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ غربت کے خاتمے کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے آغا خان فاؤنڈیشن کی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں فیاضی کی شرح بہت زیادہ ہے ۔
متوسط طبقہ اور امراء اپنی آمدنی میں سے خاصی خیرات کرتے ہیں مگر یہ خیرات مخصوص افراد تک پہنچتی ہے۔ اس طرح لوگ مدد لینے کے عادی ہوتے جاتے ہیں مگر فقیروں کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہے۔
وفاقی بجٹ میں غربت کے خاتمے جیسے اہم معاملے پر توجہ نہیں دی گئی، صرف سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی گئی ہیں اور ملازمین کی کم از کم تنخواہ 13000 روپے ماہانہ مقرر کی گئی ، اس پر تو اسلام آباد میں بھی عملدرآمد نہیں ہوتا۔ دوسری جانب جب سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ساڑھے سات فیصد بڑھائی گئی ہیں تو سرکاری ملازمین بھی مجموعی آبادی کا چندفیصد بھی نہیں بنتے۔اسی طرح میڈیکل انشورنس کی اسکیم شروع کی گئی ہے جو صرف 37 اضلاع تک محدود ہوگی۔ بجٹ میں غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والوں کے لیے کوئی خوش خبری نہیں ہے۔