بے چاری ملالہ کو معاف کر دیں

امریکا کی طرف سے شمالی وزیرستان میں آپریشن کا مطالبہ اتنی بار کیا جا چکا ہے کہ پاکستانی عوام کے کان پک چکے ہیں


Abbas Athar October 14, 2012
[email protected]

خبریں گرم ہیں کہ شمالی وزیرستان پر حملہ بس ہونے ہی والا ہے۔

ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کے بعد شمالی وزیرستان میں آپریشن کی قیاس آرائی بھی ہونے لگی ہیں۔ پچھلے تین چار دن میں شمالی وزیرستان پر حملے کے بارے میں باخبر ذرائع کی خبریں اور متعلقہ حلقوں کی طرف سے مطالباتی بیانات اب پورے زوروں پر ہیں۔سب سے پہلے یہ مطالبہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک وزیر کی طرف سے آیا جو اس سے پہلے سوات آپریشن کے موقع پر بھی ایسے مطالبے کر چکے ہیں، اس لیے یہ قیاس آرائی بھی کی جا رہی ہے کہ سوات آپریشن پر ان کا مطالبہ مانا گیا تھا، اب نئے مطالبے کو بھی شرف قبولیت بخشا جائے گا۔ اے این پی اور متحدہ قومی موومنٹ میں لاکھ دشمنی ہو ،آپریشن کے معاملے پر دونوں ہم خیال ہو جاتی ہیں اور شاید آپریشن واحد معاملہ ہے جہاں ان کے اتحادی ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ اعلیٰ سطح کے اجلاسوں کی خبر ہمیشہ ذرائع کے حوالے سے آتی ہے۔ چنانچہ اس مرتبہ بھی ''ذرائع'' نے خبر دی ہے کہ ان اجلاسوں میں شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ نے یہ کہہ کر کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن پر غور ہو رہا ہے، ان باخبر ذرائع کی اطلاعات کو زیادہ با وزن بنا دیا ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرور کرنا چاہیے لیکن اس کے لیے ملالہ یوسف زئی پر حملے کو بنیادی وجہ بنایا جانا کتنا ضروری ہے، یہ بات سمجھ نہیں آرہی۔ شمالی وزیرستان کافی بڑی آبادی کا علاقہ ہے۔ ملالہ یوسف زئی پر حملہ بہت سنگین سہی لیکن اسے تو کسی گلی محلے پر حملے کا جواز بنانا بھی آسان نہیں۔ سوات آپریشن کیلیے ایک ویڈیو کلپ جواز بنا تھا، اس وقت حالات اور تھے۔ یہ بات بہت بعد میں سامنے آئی کہ امریکا کی طرف سے سخت دبائو تھا۔

دوسری مختلف وجہ یہ تھی وہاں مولوی فضل اﷲ کا گروپ مار دھاڑ میں بہت زیادہ سرگرم تھا۔ یہ قصہ بہر حال الگ ہے کہ جب سوات آپریشن ہوا تو اس سے پہلے فضل اﷲگروپ کے سارے لوگ ایک یا دو دن پہلے ہی سوات چھوڑ کر سرحد پار جا چکے تھے۔ اس طرح آپریشن کا اصل ٹارگٹ ہاتھ سے نکل گیا۔ شمالی وزیرستان کا معاملہ ان دونوں حوالوں سے مختلف ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ یہاں آپریشن کے لیے امریکی دبائو کی تصدیق خود حکمران اور مقتدر حلقے بار بار کر چکے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ یہاں کوئی مولوی فضل اﷲ گروپ کسی قسم کی مار دھاڑ نہیں کررہا۔

امریکا کی طرف سے شمالی وزیرستان میں آپریشن کا مطالبہ اتنی بار کیا جا چکا ہے کہ پاکستانی عوام کے کان پک چکے ہیں۔ امریکی میڈیا، نیٹو کے ذمے داران اور پاکستان میں غیر مُلکی سفارتکار اس مطالبے کو دہرا چکے ہیں۔ مقتدر حلقوں کے مشورے سے لکھی گئی باخبر ذرائع کی تجزیاتی رپورٹوں میں قوم کو درجنوں بار بتایا جا چکا ہے کہ امریکا دبائو ڈال رہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کیا جائے لیکن ہماری دونوں قسم کی قیادت اس سے انکاری ہے۔حسب روایت یہ بات باخبر ''ذرائع'' کے منہ سے ہی کہلوائی جاسکتی ہے۔ یہ رپورٹیں بھی بار بار آچکی ہیں۔

بلکہ امریکی فوج کے افسر خود شکوہ کرتے رہے ہیں کہ وہ تو افغانستان کی جنگ جیت چکے ہوتے اگر یہ حقانی نیٹ ورک نہ ہوتا۔ اس سارے تناظر کا کلائمکس پچھلے مہینے اس وقت سامنے آیا جب یہ بتایا گیا کہ پاکستان کے مقتدر حضرات نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لیے ہاں کر دی ہے اور اب کسی مناسب موقع کا انتظار ہے۔ اس مناسب موقع کی شناخت سرکاری حلقوں نے یہ کہہ کر کرائی ہے کہ یہ فیصلہ ہم کریں گے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کب کرنا ہے؟ ہم خود مختار ہیں، کسی کے دبائو پر کوئی فیصلہ نہیں کریں گے۔اس تناظر میں یہ تشریح کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ آپریشن کرنا ہے ، فیصلہ امریکا نے کرلیا ہے.

لیکن کب کرنا ہے، اس کی ''خود مختاری'' ہمارےپاس ہے۔ اب ملالہ پر حملے کے سانحہ کے بعد لگتا ہے کہ ''خود مختاری'' ''اوون'' میں گرم کی جارہی ہے۔ لیکن پھر سوال وہی ہے کہ آپریشن کب کرنا ہے، اگر فیصلہ ہو ہی گیا ہے تو جو وجہ بتائی جارہی ہے اس پر پھر سے غور کرنا ضروری ہے کہ یہاں معاملہ خود داری اور خودمختاری کا نہیں دانشمندی کا ہے۔ اب یہ اقرار کرلینے کا وقت شاید آگیا ہے۔ مجبوروں کی کوئی خود مختاری نہیں ہوتی، اگر اقرار سے آپ کی ''خود داری'' متاثر ہوتی ہے تو تب بھی کم از کم ایسا کمزور بہانہ نہیں بنانا چاہئے جسے بچے بھی قبول نہ کریں۔

اس سے بہتر ہے کہ شمالی وزیرستان آپریشن کا آغاز اس اعلان سے کردیا جائے کہ یہ آپریشن ہماری داخلی سلامتی کے لئے لازمی ہے اور امریکی دبائو کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ بے چاری ملالہ کو خدا صحت دے ، اسے اس معاملے سے نتھی کریں گے تو یہ شمالی وزیرستان اور ملالہ دونوں سے زیادتی ہوگی۔ ڈاکٹر قدیر مشرف کے دور میں کچھ اعترافات کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ کیا حرج ہے ہمارے مقتدرین ڈاکٹر صاحب کی پیروی کریں اور قوم کو بتا دیں کہ ہم امریکی دبائو کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔

اب تک طالبان اور دہشت گردی کے حوالے سے ہماری پالیسی دوغلی اور تذبذب کا شکار رہی ہے۔ ایک قسم کے طالبان اور دہشت گردی کو ہم اپنا اثاثہ سمجھتے رہے ہیں اور دوسری قسم کے طالبان اور دہشت گردی کو دشمنی کے زمرے میں شمارکرتے رہے ہیں۔

ہم نے اس حقیقت سے آنکھیں بند کررکھی ہیں کہ دہشت گرد ایک قسم کا ہو یا دوسری قسم کا، اصل وہ ایک ہی ہوتا ہے۔ ہماری اب تک کی تباہیوں کی بنیاد دہشت گردی کی جنگ میں ہمارا تذبذب تھا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ایک طرف یا دوسری طرف یکسو ہو جائیں۔ اس معاملے میں یہ نیکی کرنا ضروری ہے کہ بیچاری ملالہ کو معاف کر دیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔