میری بیٹی کا دل

مجھے نہیں معلوم کہ یہ بڑے بڑے ہندسے بتا کر ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے والوں کے دل کتنے کالے ہیں


انیس منصوری June 10, 2015
[email protected]

مجھے نہیں معلوم کہ یہ بڑے بڑے ہندسے بتا کر ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے والوں کے دل کتنے کالے ہیں، لیکن میں جانتا ہوں کہ تین سال کی معصوم صنم کے دل میں کیا ہے۔ اس کے اندر ایک جینے کی امید ہے۔ مگر وہ کیسے جیے جب اس کے چھوٹے سے دل کے اندر بھی ایک چھوٹا سا سوراخ ہو۔ یہ جو روز روز آ کر ہمیں یہ جتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا دل بہت بڑا ہے اور اس میں قوم کے درد کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔

ان کے دل میں جھانک کر کیسے دیکھا جائے کہ کہیں چھ سال کی یاسمین بھی ہے، جو اپنی پیدائش کے وقت سے ہی اپنے دل کو تھامے ہوئے ہے کہ کاش کسی نام نہاد بڑے کے دل میں رحم جاگے اور وہ اپنا دل بڑا کر کے اس کے چھوٹے سے دل میں موجود سوراخ کو بھر سکے۔ مجھے نہیں معلوم کے ان لوگوں کے محل میں بھی کوئی عشانہ رہتی ہے جس کا دل نجانے کب بند ہو جائے۔

جسے یہ نہ معلوم ہو کہ اس کے زندگی کی اگلی سانس آئے گی یا نہیں آئے گی۔ کوئی اصغر علی سے جا کر یہ کیوں نہیں پوچھتا کہ وہ اس بجٹ کو چاٹے یا پھر اس کو ردی میں بیچ کر ایک وقت کی روٹی کا بندوبست کرے۔ آپ کو اگر اصغر علی کی کہانی سمجھ آ جائے تو شاید یہ فیصلہ کرنا آسان ہو کہ آج تک ہمارے منہ پر مارے جانے والے کتنے بجٹ عوام دوست ہوئے ہیں۔

کہتے ہیں کہ پھل انسان کی صحت کے لیے اچھا ہوتا ہے لیکن اگر یہ پھل، نوشہرو فیروز کے ایک علاقے کا نام ہو تو سمجھ جائیے کہ وہاں دکھ ہی دکھ ہے۔ اصغر علی ملاح اسی آبادی کا رہائشی ہے۔ ایک مزدور ہے اس لیے آپ کو اس کی کوئی خبر نہیں مل سکتی۔ بڑا نام ہوتا تو کیمرے ہر وقت یہ بتا رہے ہوتے کہ اس کا دن کیسے گزر رہا ہے۔ مگر وہ پریس کلب آ کر چلاتا رہا لیکن کسی کی اتنی مجال کہاں کہ اس کی خبر بھی لگا سکے۔ ہم چاہے جتنا دعویٰ کر لیں لیکن ہمارے معاشرے کے ایک بہت بڑے حصہ میں آج بھی لڑکیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔

مگر اصغر علی ان لوگوں میں سے نہیں ہے، اس کے یہاں تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ سب سے بڑی بیٹی عشانہ 8 سال کی ہے، اس سے چھوٹی یاسمین 6 سال کی جب کہ صنم 3 سال کی ہے۔ اس نے بیٹیوں کو رحمت سمجھا مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ اس کی تینوں بیٹیوں کے لیے اس نے اپنے آباؤاجداد کی ساری دولت فروخت کر دی۔ ایک چھوٹا سا مکان تھا وہ بھی بیچ دیا اور آج دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔

گھر میں فاقوں کی نوبت ہے۔ لیکن آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ ہماری حکومت تو یہ کہہ رہی ہے کہ بجٹ عوام دوست ہے تو ایسا کیا ہو گیا کہ اصغر علی کا بجٹ خسارے کا ہو گیا۔ اسے اپنی ساری جائیداد بیچنا پڑ گئی، اسے بے گھر ہونا پڑ گیا، اور وہ اپنے بچوں کو فاقے کرا رہا ہے۔ اور اس نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اسے اور اس کے بچوں کو بھارت بھیج دیا جائے۔ اس بھارت کا نام لے رہا ہے جسے ہم دشمن قرار دیتے ہیں، جو ہمارے یہاں امن تباہ کر رہا ہے، جو ہمارے دشمنوں کو طاقتور کر رہا ہے۔ ایسا کیا ہو گیا ہے اصغر علی کے ساتھ کہ اسے ہماری حکومت کی پالیسی کا خیال ہی نہیں ہے۔

تو سن لیجیے کہ اصغر علی کی تین معصوم بیٹیوں کے دل میں سوراخ ہے۔ اس نے اپنی بیٹیوں کو بوجھ نہیں سمجھا بلکہ ان کا ہر ممکن علاج کرایا۔ اس نے ان کا علاج کرانے کے لیے اپنا سب کچھ فروخت کر دیا ہے، یہاں کے ہر ڈاکٹر اور ہر رئیس کا دروازہ کھٹکھٹا چکا ہے۔ اب اسے کہا گیا ہے کہ تمھاری بیٹیوں کا علاج اس ملک میں ممکن نہیں ہے اگر تم اپنی بیٹیوں کا علاج کرانا چاہتے ہو تو تمھیں دشمن ملک میں جانا ہو گا۔ ہمارے یہاں تو کوئی اسپتال ہی نہیں ہے۔ ہمارے یہاں کوئی ایسا رئیس ہے ہی نہیں جو تمھاری مدد کر سکے، کیوں کہ تمھاری مدد کر کے ٹی وی چینلز پر کسی کو واہ واہ سننے کے لیے نہیں ملے گی۔

ایسا نہیں ہے کہ نوشہرو فیروز میں کوئی امیر آدمی نہیں رہتا، ایسا بھی نہیں ہے کہ یہاں کا کوئی آدمی وزیراعظم کے مسند تک بھی نہیں پہنچا۔ ایسا بھی ہرگز ہرگز نہیں ہے کہ یہاں انسان نہیں رہتے۔ اس وقت اس ڈسٹرکٹ کا ایک صوبائی رکن اسمبلی ڈاکٹر بھی ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ انھیں اصغر علی کا گھر معلوم نہ ہو۔ اور یہ صاحب ایک زمانے میں وزیراعظم کے مشیر برائے صحت بھی رہے ہیں لیکن انھیں نہیں معلوم ہو گا کہ تین بہنوں کی کہانی کیا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ صاحب اپوزیشن میں ہوں، یہ اس وقت بھی سندھ کی حکمران جماعت سے ہے لیکن ہو سکتا ہے ان کی کوئی سن نہ رہا ہو۔

دو رکن اسمبلی اپوزیشن جماعت سے ہیں مگر ان کا سکہ چلتا ہے نوشہرو فیروز میں۔ کہتے ہیں کہ ان کی زمین اتنی ہے کہ آپ چلتے چلتے تھک جائیں گے اور ایک ہفتے چلتے رہے تب جا کر آپ کو اندازہ ہو گا کہ ان کی زمین کتنی ہے۔ جب زمین اتنی ہو تو کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ کون دل کا مارا یہاں رہتا ہے۔ ایک اور صاحب بھی ہیں جو 1970ء سے اسمبلیوں میں رہے، لیکن انھیں کیا معلوم کہ ایک چھوٹا سا ووٹر کس مرض کا شکار ہے۔ اصغر علی اور اس کی بیوی نے وزیراعظم سے درخواست کی ہے کہ وہ ان کی مدد کریں لیکن وہ کیسے مدد کر سکتے ہیں، کیونکہ اس وقت ان کی پوری توجہ ترقی کے کاموں پر ہے، اصغر علی کو اس بات کا خیال ہونا چاہیے کہ 45 ارب روپے سے ایک پراجیکٹ بن چکا ہے۔

اس لیے اب اس کے بچوں کے دل کا سوراخ بند نہیں ہو سکتا۔ اسے عمران خان سے اپیل نہیں کرنی چاہیے کیونکہ جب تک وہ دھاندلی کا مسئلہ حل نہیں کر لیتے تب تک وہ خیبرپختونخوا میں بھی ایک ایسا اسپتال نہیں بنا سکتے جس کے بعد اصغر علی کو دشمن ملک نہ جانا پڑے۔ اس لیے وہ انتظار کرے۔ مجھے سمجھ نہیں آئی یہ بات کہ اصغر علی نے کیوں وزیراعلیٰ سندھ سے یہ فرمایا کہ وہ اس کی بیٹیوں پر ترس کھائیں۔ سندھ حکومت نے اربوں روپے تو صحت کے نام پر خرچ کیے ہیں۔ اتنی جلدی کیا ہے اصغر علی کو کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آئے گا ابھی تو اور پچاس سال انھیں حکومت کرنی ہے۔ آپ کو حیرت نہیں ہونی چاہیے، کیوں کہ پورے سندھ کے اضلاع میں سے کسی کو اگر دل کا شدید قسم کا مرض لاحق ہو جائے تو اسے کراچی آنا پڑتا ہے۔

ایک ایک وزیر کی گاڑی اتنے کی ہے کہ اس سے اصغر علی کی بیٹیوں کو بھارت نہیں بھیجنا پڑے گا۔ مگر ہمارے دل اتنے بڑے کہاں ہیں۔ آئیے یہ الزام نہ لگ جائے کہ ہم نے کچھ بتایا ہی نہیں تو آپ خود دیکھ لیجیے کہ وفاقی حکومت نے 20 کروڑ پاکستانیوں کی صحت کے لیے فی کس 52 روپے رکھے ہیں۔ یہ اپنا دامن بچا سکتے ہیں یہ کہہ کر کہ اٹھارویں ترمیم کے مطابق یہ معاملہ اب صوبہ کا ہے۔

تو آپ کو یہ جان کر حیرت نہیں ہو گی کہ پنجاب کے لوگوں کے لیے وہاں کی حکومت نے پچھلے سال فی کس تقریباً 2000 روپے رکھے تھے۔ اب آپ بتا دیجیے کہ جب اس بجٹ کا ایک بڑا حصہ تنخواہ میں جاتا ہو تو اس سے کسی اصغر علی کی مراد پوری ہو سکتی ہے۔ سندھ حکومت نے بھی اپنے لوگوں پر اتنا ہی رحم کیا ہے جتنا کہ پنجاب نے۔

یہ بجٹ ہو گا عوام دوست، مگر اس ملک کے 20 کروڑ اصغر علی کے لیے نہیں ہے۔ ہم اسے عوام دوست بالکل کہیں گے جب مجھے ہر طرف سے یہ آواز آئے گی کہ کسی عشانہ کے دل میں کوئی سوراخ نہیں ہے۔ یہ صوبائی حکومت ہمیں بہت اچھی لگے گی جب کسی 6 سال کی یاسمین کے باپ کو اپنی بیٹی کے لیے سب کچھ نہیں بیچنا پڑے گا۔ وفاقی حکومت کی ہم ہر وقت تعریف کرتے رہیں گے جب 3 سال کی صنم کی ماں کو ہر روز کسی کا دروازہ کھٹکھٹا کر یہ نہیں کہنا ہو گا کہ میری بیٹی کو ایک وقت کا کھانا کھلا دو۔ اس کی ماں ہر وقت سب سے یہ کہہ رہی ہے کہ کوئی ہے جو سن سکے، ہے کوئی جو دیکھ سکے، کسی کے بجٹ میں ہے اتنی ہمت کہ میری بیٹیوں کے دل پورے کر سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔