’’اپنی دنیا آپ پیدا کر۔۔۔‘‘

حقیقت پسندی کے ساتھ نوجوانوں کو اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے مصداق عملی جدوجہد کو اوڑھنا بچھونا بنانا ہوگا۔


فہیم زیدی June 14, 2015
والدین سے شکوہ اور شکایت کرنے کے بجائے خود کو عملی طور پر مستحکم اور مضبوط کرکے خود اپنی دنیا آپ پیدا کریں۔ فوٹو:فائل

RAWALPINDI:
اکثر نوجوانوں کو اس بات کا شکوہ کرتے دیکھا گیا ہے کہ ان کے والدین نے ان کے لئے کچھ نہیں کیا، ان کے لئے اتنا کچھ نہیں کیا یا بچایا کہ جس سے انھیں مستقبل میں کوئی فائدہ حاصل ہوتا۔ پیدائش سے لے کر جوانی تک محض تنگ دستی اور نا مساعد حالات ہی انھوں نے اپنی زندگی میں دیکھے ہیں۔ خاص طور پر ایسا وہ نوجوان سوچتے ہیں جن کا تعلق متوسط گھرانوں سے ہوتا ہے کیوںکہ ایسے نوجوان زیادہ تر امیر بننے کے خواب دیکھا کرتے ہیں اور جب وہ از خود کامیاب ہو نہیں پاتے تو اس کا سارا ملبہ اپنے والدین پر گرا دیتے ہیں جو کہ والدین کے ساتھ سراسر نا انصافی ہے۔


یہ بات سوچنے سے قبل ایسے نوجوانوں کو کم از کم اس نقطہ پر ضرور غور کرنا چاہئے کہ جس زبان سے وہ یہ کلمات ادا کررہے ہیں ان کو یہ زبان ان ہی کی وجہ سے عطا ہوئی ہے اور اگر وہ والدین اپنا پیٹ کاٹ کر اُن کی پرورش و پرداخت میں کلیدی کردار ادا نہیں کرتے تو وہ یہ سب باتیں کہنے اور کرنے کے قابل بھی نہیں ہوتے۔ اُنھیں بس یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ ان کی بہتر تعلیم اور تربیت کی جو ان کے والدین نے احسن طریقے سے ذمہ داری سر انجام دی، اعلیٰ تعلیم دلانے کے بعد ان کو معاشرے میں ایک مقام اور نشست و برخاست کے طور طریقے سکھانے کا سبب بنے اور اگر اس لمحہ وہ بھی ہزاروں ان پڑھ اورغیر تعلیم یافتہ والدین کی طرح تعلیم کی اہمیت سے واقف نہ ہوتے اور نا مساعد حالات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے انھیں تعلیم جیسے اہم ترین زیور سے آراستہ نہ کرتے تو کیا آج وہ معاشرے میں وقعت و مرتبہ ظاہر کرنے کے قابل ہوتے؟ ہر گزنہیں !


اور اگر ان کے سامنے اپنے کوئی ایسے صاحب ثروت دوستوں کی مثال ہے تو بے شک ان کے وہ دوست اپنے منہ میں سونے کا چمچہ لے کر ضرور پیدا ہوئے ہیں تو ان نوجوانوں کو یہ بھی اچھی طرح سمجھ لینا ہوگا کہ ان کے امیر ترین دوستوں کے والدین نے بھی کبھی نہ کبھی نقطہ صفر سے مسلسل اپنی محنت اور جستجو کے بعد کامیابیاں حاصل کی ہوں گی تب ہی ان کے ان دوستوں نے دنیا میں آنکھ کھولنے کے بعد امارات اوردولت کی ریل پیل دیکھی ہوگی اور جس کے بعد ہی وہ معاشرے کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں شامل ہوئے ہوں گے۔ یہ ان کے بچوں کی خوش قسمتی ہے کہ انھوں نے آنکھ کھولنے کے بعد اپنے گھر میں کسی بھی قسم کی تنگی اور پریشانی کا سامنا نہیں کیا۔


ایسے نوجوان جو اپنے والد کو کسی بھی قسم کی مالی ابتری اور غربت کا ذمہ دار تصور کرتے ہیں انھیں یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ اگر ان کے والدین ان کو کچھ فراہم نہیں کرسکے تو آپ خود اپنے محاسبہ کریں کہ کیا وہ اپنی آنے والی نسل کو کچھ دینے کی تیاری کر چکے ہیں کیا؟

https://twitter.com/AbbiMir/status/596292932723838977
یاد رکھیں کسی ایک نسل کو اپنی آئندہ نسلوں کی خوش حالی اور بہتری کے لئے طویل ترین جدوجہد، محنت اور قربانیاں دینی پڑتی ہیں تب کہیں جا کر ان کی آئندہ آنے والی نسلوں کا سکھ اور سکون مقدر بن پاتا ہے۔ تو لہٰذا ایسے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے لبوں پر اپنے والدین کے خلاف کسی بھی قسم کا شکوہ، شکایت لانے کے بجائے خود کو اس روش پر ڈال دیں کہ مستقبل میں اُن کی نسل خود اُن کو اس طرح کے الزام نہ دے ۔ امیر بننے کے خواب دیکھنے والے نوجوانوں کو یہ بات ازبر کرلینی چاہئے کہ دنیا کا ہر نظام ﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ بہتر جانتا ہے کہ کس کو دینا ہے اور کس کو نہیں۔ بسا اوقات انسان پوری زندگی جدودجہد کرتا ہے پھر بھی کامیابی ان کا مقدر نہیں بن پاتی، کیونکہ یہ سب خدا کی مصلحت ہوتی ہے کہ وہ کس کو کس انداز اور کس طریقے سے نوازتا ہے۔


اس لئے نوجوان طبقے کو اپنے والدین سے شکوہ اور شکایت کرنے کے بجائے خود کو عملی طور پر اِس قدر مستحکم اور مضبوط کرکے خود اپنی دنیا آپ پیدا کرنا ہوتی ہے اور موجودہ دور میں کسی کا سہارا بننے اور اور ان پر تکیہ کرنے کے بجائے وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں تاکہ وہ ایسی سوچ رکھنے والے دیگر نوجوانوں کے لئے بھی مشعل راہ ثابت ہوں۔


گزشتہ زمانوں کے مقابلے میں آج کے دور میں نوجوان بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال ہیں، ان کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں وہ کسی بھی شعبے میں اپنی دنیا اپنا مقام پیدا کرسکتے ہیں۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے مستقل مزاجی اور بے تکان محنت کو اپنا شعار بنائیں، وگرنہ تا حیات ان کے لبوں پر اپنے والدین کے خلاف شکوہ مچلتا رہے گا کہ ان کے والدین نے ان کے لئے ترکہ میں کچھ نہیں چھوڑا۔ بعد ازاں یہ شکوہ ان سے منتقل ہوکر خود ان کے اپنے بچوں کی زبان پر بھی آسکتا ہے تو لہٰذا حقیقت پسندی کے ساتھ آج کے نوجوان کو اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے مصداق عملی جدوجہد کو اوڑھنا بچھونا بنانا ہوگا تاکہ ان کی نسلوں کو ان سے کوئی شکوہ، شکایت نہ ہو۔


[poll id="474"]



نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں