میٹروبسچند گذارشات
میٹرو بس سروس کا افتتاح اور اگلے برس کے بجٹ کا اعلان دو اہم واقعات تھے چونکہ بجٹ ایک تیکنیکی معاملہ ہے
گئے ہفتے وفاقی دارالحکومت میں کئی اہم سرگرمیاں ہوئیں۔ صدر ممنون حسین نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اسلام آباد راولپنڈی میٹرو بس سروس کا افتتاح کیا جب کہ جمعے کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں اگلے سال(2015-16)کا بجٹ پیش کیا۔ ہمیں ان پروگراموں میں شرکت کی دعوت ملی تھی ۔
جمعرات کی صبح 7بجے قومی ائیر لائن کی جس فلائٹ سے روانہ ہونا تھا، وہ فنی خرابی کے باعث کہیں ساڑھے نو بجے کے قریب روانہ ہوکرساڑھے گیارہ بجے اسلام آباد پہنچی۔ یوں صدرممنون حسین کے پارلیمان سے مشترکہ اجلاس سے خطاب،جو11بجے شروع ہوا، اسے قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں بیٹھ کر براہ راست سننے سے محروم رہے۔
اسی سہ پہر راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس سروس کی افتتاحی تقریب تھی۔ محکمہ اطلاعات(PID)کا عملہ صحافیوں کو کنونشن سینٹر تک پہنچانے میں نہایت مستعدی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔لیکن مختلف محکموں کے درمیان روابط کے فقدان کی وجہ سے روایتی افراتفری کے مناظر یہاں بھی دیکھنے میں آئے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پولیس اور سیکیورٹی پر معمور عملہ یا توPID سے واقف نہیں تھا، یا دانستہ شانِ بے نیازی کا مظاہرہ کر رہا تھا جنہوں نے صحافیوں کو لے جانے والی دونوں کوچزکوکنونشن سینٹر کے دروازے پرکوئی نصف گھنٹے روکے رکھا۔ اسی طرح تقریب کے اختتام پر یہ طے تھا کہ پورے ملک سے آئے سینئر صحافی وزیر اعظم کے ساتھ کچھ دور تک میٹرو بس میں سفر کریں گے۔ دعوت نامہ کے ساتھ بس نمبر بھی درج تھا ۔
جس میں اس صحافی کو سوار ہونا تھا۔کنونشن سینٹر میں افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔اس کے بعد یہ طے تھا کہ صحافی وزیر اعظم کے ساتھ کچھ دوربس میں سفر کریں گے۔ہمیں جاری کردہ دعوت ناموں پر ان بسوں کا نمبر بھی درج تھا، جن میں ہمیں سوار ہونا تھا۔بس ٹرمینل پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ وزیر اعظم چند وزراء اور سرکاری افسران کے ساتھ اکیلے ہی چلے گئے۔ اس بات کی توثیق گزشتہ روز اس وقت ہوئی، جب اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر شروع ہوتے ہی تمام صحافی باہر آگئے۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید کی اس یقین دہانی پر مظاہرہ ختم کردیا کہ حکومت اسی ہفتے متاثرہ صحافیوں کی تنخواہوں کی ادائیگی کا بندوبست کر رہی ہے۔
گزشتہ روز یعنی جمعے کی سہ پہر وزیر خزانہ نے اگلے مالیاتی سال کا بجٹ پیش کیا۔ اتفاق سے اس روز بھی وہی ہوا، جوگزشتہ روز ہوا تھا۔ اب اس اقدام کو پولیس کی مستعدی قرار دیں یا مختلف ریاستی شعبہ جات کے درمیان روابط کا فقدان؟ یہ فیصلہ قارئین خود کریں۔یہ تو تذکرہ تھا ان مشکلات اور ذہنی اذیتوں کا جن سے صحافی شاذونادر ہی دوچار ہوتے ہیں جب کہ عام آدمی کے لیے ان مشکلات سے گذرنا روز کا معمول ہے۔
میٹرو بس سروس کا افتتاح اور اگلے برس کے بجٹ کا اعلان دو اہم واقعات تھے چونکہ بجٹ ایک تیکنیکی معاملہ ہے،جو تفصیلی بحث کا متقاضی ہے۔اس لیے اس پر جائزے کو اگلے اظہاریے پر اٹھا رکھتے ہیں۔اس اظہاریے میں اپنی گفتگو کو راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس سروس تک محدود رکھیں تو بہتر ہے۔اس بس سروس کے حوالے سے متضاد آرا سامنے آئیں اور مسلسل آرہی ہیں۔دونوں آراء میں وزن بھی ہے۔
ایک حلقے کا کہنا ہے کہ اس منصوبے پر جتنی رقم خرچ کی گئی ، اس کے چوتھائی حصے میں صاف ستھری بسیں جڑواں شہروں کے مختلف روٹس پر چلائی جاسکتی تھیں جب کہ بقیہ رقم تعلیم، صحت اور سماجی ترقی کے دیگر شعبہ جات میں بہتری کے لیے استعمال میں لائی جاسکتی تھی۔ جب کہ دوسرے حلقے کا خیال ہے کہ میٹرو بس کی وجہ سے جڑواں شہروں کے باسیوں کو سفر میں سہولت کے علاوہ اس سروس کی وجہ سے پاکستان کا ترقی کرتا امیج دنیا کے سامنے آیا ہے۔
اس لیے ترقی کے عمل کو جاری رہنا چاہیے۔ ایک نجی ٹیلی ویژن کے ڈرائیور نے بتایا کہ اسے راولپنڈی سے اسلام آباد اپنے چینل تک پہنچنے کے لیے تین بسیں بدلنا پڑتی تھیں اوریک طرفہ کرایہ میں62 روپے خرچ ہوتے تھے۔ اب وہ 25 روپے یک طرفہ کرایہ میں دفتر پہنچ سکتا ہے۔ اس نے خوش ہوکر بتایا کہ آج(اس روز )وہ وقت سے نصف گھنٹہ قبل ہی اپنے چینل پہنچ گیا تھا۔
اس لیے نہ تو اس اقدام کو یکسر رد کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اتنی خطیر رقم سے صرف ایک روٹ کی تیاری کی عیاشی کی توصیف کی جاسکتی ہے۔اگر اس خطیر رقم سے وفاقی دارالحکومت اور جڑواں شہر راولپنڈی میں نئی اورصاف ستھری بسیں مختلف روٹس پر چلادی جاتیں تو صرف ایک مخصوص آبادی کے بجائے، دونوں شہروں کے عوام کی بہت بڑی تعداد اس سے مستفیض ہو سکتی تھی۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی نیت عوام کوجدید ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کی نہیں ہے، بلکہ اس کی دلچسپی کا سبب کمیشن(Kick backs)کا ہے، جو منصوبہ سازوں کی پرتعیش زندگیوں میں مزید رنگ بھرنے کا سبب بنتا ہے، اس تناظر میں اگر ریاست کا گھر سے تقابل کیا جائے، تو گھر ریاست کا چھوٹا ترین یونٹ ہوتا ہے۔گھرکا سربراہ اپنے خاندان کی صحت اور بچوں کی تعلیمی ضروریات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی آمدنی عمدہ گاڑیوں کی خریداری اور مکان کی تزئین وآرائش سمیت تعیشات پر صرف کرتا رہے، تو جلد ہی گھر بیماریوں اور جہل آمادگی کی آماجگاہ بن کر تباہی کا شکار ہوجاتا ہے۔
پرتعیش سہولیات ان کے کسی کام نہیں آتیں۔ اس کے برعکس اگر گھر کا سربراہ اپنے وسائل کوسلیقہ مندی اور دوراندیشی کے ساتھ استعمال کرتا ہے ، تو ایسا خاندان محدود آمدنی کے باوجود اپنے اہداف باآسانی حاصل کرلیتا ہے۔
یہی کچھ معاملہ ریاست کی منتظمہ کا ہے۔اگر ریاستی منتظمہ مخلص، دوراندیش اور سلیقہ مند ہوتی ہے، تووہ قومی وسائل کی ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے انھیں سلیقے کے ساتھ استعمال کر کے پورے ملک کو خوش حالی کی راہ پر ڈال دیتی ہے۔لیکن اگر وہ پوہڑ خاتونِ خانہ کی مانند بے سلیقہ ہو، تو ریاست کو قرضوں میں جکڑ کر پوری معیشت کا جنازہ نکال دیتی ہے۔ پاکستان کا المیہ یہی ہے کہ بابائے قوم کی آنکھ بند ہونے کے بعد سے آج تک اسے صاحبِ بصیرت قیادت نہیں مل سکی بلکہ 68 برس کی تاریخ کے بیشتر حصہ وہ حلقے حکمران رہے ہیں، جنھیں اقتدار سونپے جانے کی عظیم فلسفی افلاطون نے اپنی کتابRepublicمیںبڑی شدو مد سے مخالفت کی تھی۔
پھر عرض ہے کہ مسائل لاتعداد ہیں جب کہ وسائل محدود ہیں۔اس لیے ہمیں ایسے منصوبہ سازوں کی ضرورت ہے، جو مسائل کی نوعیت اور شدت کا ادراک رکھتے ہوں اور جن میں مسائل حل کرنے کی صلاحیت، اہلیت اور استعداد ہو۔ جو اخلاص اور سلیقہ مندی کے ساتھ درپیش مسائل کی ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے قومی وسائل کو استعمال کرسکیں۔ یہ طے ہے کہ جدید ایجادات سے مستفیض ہونا ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے۔مگر ان خواہشات کی تکمیل کے لیے سب سے پہلے دستیاب وسائل کو سلیقہ مندی کے ساتھ استعمال کرنے کی عادت ڈالنا ہوتی ہے۔اس کے بعد اپنی توانائیاں آمدنی میں اضافے پر صرف کرنا ہوتی ہیں،تاکہ نئی ایجادات اور سہولیات کا حصول ممکن ہوسکے۔
یہی کچھ معاملہ ریاست کا ہوتا ہے۔ایک دانشمند ریاستی مقتدرہ سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ دوراندیشی، سلیقہ مندی اور اخلاص کا مظاہرہ کرتے ہوئے،سب سے پہلے ملک کو قرضوں کے گرداب سے نکالنے کی حکمت عملی تیار کرے گی۔اس کے بعد وہ تعلیم، صحت اور سماجی ترقی جیسے اہداف حاصل کرنے پراپنی توجہ مرکوز کرے گی۔ ریاست کی ترقی کا اس کے سوا کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا۔اس کے برعکس حکمرانوں کی غیر سنجیدگی، بے سلیقگی اور قومی مسائل سے بے اعتنائی مسائل کے انبار میں اضافے اور انھیں بحرانی شکل دینے کا سبب بنتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی، میڑوبس کی۔اس میں شک نہیں کہ ٹرانسپورٹ پاکستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کا حل کیا جانا لازمی طور پر حکومتوں کی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔مگر اس کہاوت کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ'' جتنی چادر ہو اتنے ہی پاؤں پھیلائے جائیں۔'' اب جہاں تک خواہشوں کا تعلق ہے، تواس کے بارے میں مرزا غالب کہہ گئے ہیں کہ'' ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔'' اس لیے جوخطیر رقم میٹرو بسوں پر اور ان کے لیے روٹس کی تیاری پر صرف کی جا رہی ہے اس رقم سے ملک کے کئی شہروں میں عمدہ اور آرام دہ ٹرانسپورٹ سروس مہیا کی جا سکتی ہے۔
مانا کہ قومی وسائل شیر مادرہوتے ہیں۔ مگرجس طرح ماں کا دودھ خشک ہو جاتا ہے، اسی طرح قدرتی وسائل کا ذخیرہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔جس کی تازہ ترین مثال قدرتی گیس ہے،جس کا چند برس پہلے تک انتہائی بے دردی کے ساتھ بے دریغ استعمال کیا گیا۔اب اس کے ذخائر تیزی کے ساتھ ختم ہو رہے ہیں، تو فیکٹریوں، کارخانوں اور CNG اسٹیشنوں پر ناغے کا نظام رائج کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ لہٰذا ہر منصوبہ شروع کرنے سے پہلے اس کے تمام پہلوؤں پر غور کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بعد دور اندیشی، کفایت شعاری اور مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھا جائے تو کامیابی یقینی ہوتی ہے۔ بصورت دیگر بھوک، افلاس اور مفلوک الحالی قوموں کا مقدر ٹھہرتے ہیں۔
جمعرات کی صبح 7بجے قومی ائیر لائن کی جس فلائٹ سے روانہ ہونا تھا، وہ فنی خرابی کے باعث کہیں ساڑھے نو بجے کے قریب روانہ ہوکرساڑھے گیارہ بجے اسلام آباد پہنچی۔ یوں صدرممنون حسین کے پارلیمان سے مشترکہ اجلاس سے خطاب،جو11بجے شروع ہوا، اسے قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں بیٹھ کر براہ راست سننے سے محروم رہے۔
اسی سہ پہر راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس سروس کی افتتاحی تقریب تھی۔ محکمہ اطلاعات(PID)کا عملہ صحافیوں کو کنونشن سینٹر تک پہنچانے میں نہایت مستعدی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔لیکن مختلف محکموں کے درمیان روابط کے فقدان کی وجہ سے روایتی افراتفری کے مناظر یہاں بھی دیکھنے میں آئے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پولیس اور سیکیورٹی پر معمور عملہ یا توPID سے واقف نہیں تھا، یا دانستہ شانِ بے نیازی کا مظاہرہ کر رہا تھا جنہوں نے صحافیوں کو لے جانے والی دونوں کوچزکوکنونشن سینٹر کے دروازے پرکوئی نصف گھنٹے روکے رکھا۔ اسی طرح تقریب کے اختتام پر یہ طے تھا کہ پورے ملک سے آئے سینئر صحافی وزیر اعظم کے ساتھ کچھ دور تک میٹرو بس میں سفر کریں گے۔ دعوت نامہ کے ساتھ بس نمبر بھی درج تھا ۔
جس میں اس صحافی کو سوار ہونا تھا۔کنونشن سینٹر میں افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔اس کے بعد یہ طے تھا کہ صحافی وزیر اعظم کے ساتھ کچھ دوربس میں سفر کریں گے۔ہمیں جاری کردہ دعوت ناموں پر ان بسوں کا نمبر بھی درج تھا، جن میں ہمیں سوار ہونا تھا۔بس ٹرمینل پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ وزیر اعظم چند وزراء اور سرکاری افسران کے ساتھ اکیلے ہی چلے گئے۔ اس بات کی توثیق گزشتہ روز اس وقت ہوئی، جب اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر شروع ہوتے ہی تمام صحافی باہر آگئے۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید کی اس یقین دہانی پر مظاہرہ ختم کردیا کہ حکومت اسی ہفتے متاثرہ صحافیوں کی تنخواہوں کی ادائیگی کا بندوبست کر رہی ہے۔
گزشتہ روز یعنی جمعے کی سہ پہر وزیر خزانہ نے اگلے مالیاتی سال کا بجٹ پیش کیا۔ اتفاق سے اس روز بھی وہی ہوا، جوگزشتہ روز ہوا تھا۔ اب اس اقدام کو پولیس کی مستعدی قرار دیں یا مختلف ریاستی شعبہ جات کے درمیان روابط کا فقدان؟ یہ فیصلہ قارئین خود کریں۔یہ تو تذکرہ تھا ان مشکلات اور ذہنی اذیتوں کا جن سے صحافی شاذونادر ہی دوچار ہوتے ہیں جب کہ عام آدمی کے لیے ان مشکلات سے گذرنا روز کا معمول ہے۔
میٹرو بس سروس کا افتتاح اور اگلے برس کے بجٹ کا اعلان دو اہم واقعات تھے چونکہ بجٹ ایک تیکنیکی معاملہ ہے،جو تفصیلی بحث کا متقاضی ہے۔اس لیے اس پر جائزے کو اگلے اظہاریے پر اٹھا رکھتے ہیں۔اس اظہاریے میں اپنی گفتگو کو راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس سروس تک محدود رکھیں تو بہتر ہے۔اس بس سروس کے حوالے سے متضاد آرا سامنے آئیں اور مسلسل آرہی ہیں۔دونوں آراء میں وزن بھی ہے۔
ایک حلقے کا کہنا ہے کہ اس منصوبے پر جتنی رقم خرچ کی گئی ، اس کے چوتھائی حصے میں صاف ستھری بسیں جڑواں شہروں کے مختلف روٹس پر چلائی جاسکتی تھیں جب کہ بقیہ رقم تعلیم، صحت اور سماجی ترقی کے دیگر شعبہ جات میں بہتری کے لیے استعمال میں لائی جاسکتی تھی۔ جب کہ دوسرے حلقے کا خیال ہے کہ میٹرو بس کی وجہ سے جڑواں شہروں کے باسیوں کو سفر میں سہولت کے علاوہ اس سروس کی وجہ سے پاکستان کا ترقی کرتا امیج دنیا کے سامنے آیا ہے۔
اس لیے ترقی کے عمل کو جاری رہنا چاہیے۔ ایک نجی ٹیلی ویژن کے ڈرائیور نے بتایا کہ اسے راولپنڈی سے اسلام آباد اپنے چینل تک پہنچنے کے لیے تین بسیں بدلنا پڑتی تھیں اوریک طرفہ کرایہ میں62 روپے خرچ ہوتے تھے۔ اب وہ 25 روپے یک طرفہ کرایہ میں دفتر پہنچ سکتا ہے۔ اس نے خوش ہوکر بتایا کہ آج(اس روز )وہ وقت سے نصف گھنٹہ قبل ہی اپنے چینل پہنچ گیا تھا۔
اس لیے نہ تو اس اقدام کو یکسر رد کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اتنی خطیر رقم سے صرف ایک روٹ کی تیاری کی عیاشی کی توصیف کی جاسکتی ہے۔اگر اس خطیر رقم سے وفاقی دارالحکومت اور جڑواں شہر راولپنڈی میں نئی اورصاف ستھری بسیں مختلف روٹس پر چلادی جاتیں تو صرف ایک مخصوص آبادی کے بجائے، دونوں شہروں کے عوام کی بہت بڑی تعداد اس سے مستفیض ہو سکتی تھی۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی نیت عوام کوجدید ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کی نہیں ہے، بلکہ اس کی دلچسپی کا سبب کمیشن(Kick backs)کا ہے، جو منصوبہ سازوں کی پرتعیش زندگیوں میں مزید رنگ بھرنے کا سبب بنتا ہے، اس تناظر میں اگر ریاست کا گھر سے تقابل کیا جائے، تو گھر ریاست کا چھوٹا ترین یونٹ ہوتا ہے۔گھرکا سربراہ اپنے خاندان کی صحت اور بچوں کی تعلیمی ضروریات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی آمدنی عمدہ گاڑیوں کی خریداری اور مکان کی تزئین وآرائش سمیت تعیشات پر صرف کرتا رہے، تو جلد ہی گھر بیماریوں اور جہل آمادگی کی آماجگاہ بن کر تباہی کا شکار ہوجاتا ہے۔
پرتعیش سہولیات ان کے کسی کام نہیں آتیں۔ اس کے برعکس اگر گھر کا سربراہ اپنے وسائل کوسلیقہ مندی اور دوراندیشی کے ساتھ استعمال کرتا ہے ، تو ایسا خاندان محدود آمدنی کے باوجود اپنے اہداف باآسانی حاصل کرلیتا ہے۔
یہی کچھ معاملہ ریاست کی منتظمہ کا ہے۔اگر ریاستی منتظمہ مخلص، دوراندیش اور سلیقہ مند ہوتی ہے، تووہ قومی وسائل کی ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے انھیں سلیقے کے ساتھ استعمال کر کے پورے ملک کو خوش حالی کی راہ پر ڈال دیتی ہے۔لیکن اگر وہ پوہڑ خاتونِ خانہ کی مانند بے سلیقہ ہو، تو ریاست کو قرضوں میں جکڑ کر پوری معیشت کا جنازہ نکال دیتی ہے۔ پاکستان کا المیہ یہی ہے کہ بابائے قوم کی آنکھ بند ہونے کے بعد سے آج تک اسے صاحبِ بصیرت قیادت نہیں مل سکی بلکہ 68 برس کی تاریخ کے بیشتر حصہ وہ حلقے حکمران رہے ہیں، جنھیں اقتدار سونپے جانے کی عظیم فلسفی افلاطون نے اپنی کتابRepublicمیںبڑی شدو مد سے مخالفت کی تھی۔
پھر عرض ہے کہ مسائل لاتعداد ہیں جب کہ وسائل محدود ہیں۔اس لیے ہمیں ایسے منصوبہ سازوں کی ضرورت ہے، جو مسائل کی نوعیت اور شدت کا ادراک رکھتے ہوں اور جن میں مسائل حل کرنے کی صلاحیت، اہلیت اور استعداد ہو۔ جو اخلاص اور سلیقہ مندی کے ساتھ درپیش مسائل کی ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے قومی وسائل کو استعمال کرسکیں۔ یہ طے ہے کہ جدید ایجادات سے مستفیض ہونا ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے۔مگر ان خواہشات کی تکمیل کے لیے سب سے پہلے دستیاب وسائل کو سلیقہ مندی کے ساتھ استعمال کرنے کی عادت ڈالنا ہوتی ہے۔اس کے بعد اپنی توانائیاں آمدنی میں اضافے پر صرف کرنا ہوتی ہیں،تاکہ نئی ایجادات اور سہولیات کا حصول ممکن ہوسکے۔
یہی کچھ معاملہ ریاست کا ہوتا ہے۔ایک دانشمند ریاستی مقتدرہ سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ دوراندیشی، سلیقہ مندی اور اخلاص کا مظاہرہ کرتے ہوئے،سب سے پہلے ملک کو قرضوں کے گرداب سے نکالنے کی حکمت عملی تیار کرے گی۔اس کے بعد وہ تعلیم، صحت اور سماجی ترقی جیسے اہداف حاصل کرنے پراپنی توجہ مرکوز کرے گی۔ ریاست کی ترقی کا اس کے سوا کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا۔اس کے برعکس حکمرانوں کی غیر سنجیدگی، بے سلیقگی اور قومی مسائل سے بے اعتنائی مسائل کے انبار میں اضافے اور انھیں بحرانی شکل دینے کا سبب بنتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی، میڑوبس کی۔اس میں شک نہیں کہ ٹرانسپورٹ پاکستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کا حل کیا جانا لازمی طور پر حکومتوں کی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔مگر اس کہاوت کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ'' جتنی چادر ہو اتنے ہی پاؤں پھیلائے جائیں۔'' اب جہاں تک خواہشوں کا تعلق ہے، تواس کے بارے میں مرزا غالب کہہ گئے ہیں کہ'' ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔'' اس لیے جوخطیر رقم میٹرو بسوں پر اور ان کے لیے روٹس کی تیاری پر صرف کی جا رہی ہے اس رقم سے ملک کے کئی شہروں میں عمدہ اور آرام دہ ٹرانسپورٹ سروس مہیا کی جا سکتی ہے۔
مانا کہ قومی وسائل شیر مادرہوتے ہیں۔ مگرجس طرح ماں کا دودھ خشک ہو جاتا ہے، اسی طرح قدرتی وسائل کا ذخیرہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔جس کی تازہ ترین مثال قدرتی گیس ہے،جس کا چند برس پہلے تک انتہائی بے دردی کے ساتھ بے دریغ استعمال کیا گیا۔اب اس کے ذخائر تیزی کے ساتھ ختم ہو رہے ہیں، تو فیکٹریوں، کارخانوں اور CNG اسٹیشنوں پر ناغے کا نظام رائج کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ لہٰذا ہر منصوبہ شروع کرنے سے پہلے اس کے تمام پہلوؤں پر غور کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بعد دور اندیشی، کفایت شعاری اور مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھا جائے تو کامیابی یقینی ہوتی ہے۔ بصورت دیگر بھوک، افلاس اور مفلوک الحالی قوموں کا مقدر ٹھہرتے ہیں۔