نہ کوئی دین نہ ایمان نہ پاکستان
آپ کو کئی سیاستدانوں سے واسطہ پڑتا ہے جن کی بے حساب دولت ملک سے باہر کے بینکوں میں پڑی ہے اور یہ کوئی راز نہیں ہے
ISLAMABAD:
حیرتوں کا زمانہ آ گیا ہے۔ ہر روز کسی نئی حیرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حیرتوں کے ورق بڑی تیزی کے ساتھ الٹ رہے ہیں اور کئی ناقابل یقین حالات کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ یوں کہیں کہ ہم پاکستانی اب اس قدر کمزور ہو گئے ہیں کہ ہمارے دشمن ہمارے منہ پر ہماری دشمنی کو بیان کر رہے ہیں۔
بھارت کے جناب نریندر مودی نے بلا جھجک اعلان کیا ہے کہ بنگلہ دیش بنانے میں بھارتی فوجیوں کا خون شامل ہے، جب بنگلہ دیش کی علیحدگی کے لیے مکتی باہنی والے اپنا خون بہا رہے تھے تو بھارتی بھی ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر جدوجہد کر رہے تھے، اس طرح بھارتیوں نے بنگلہ دیش کا خواب پورا کرنے میں مدد کی، ہر بھارتی چاہتا تھا کہ بنگلہ دیش کی علیحدگی کا خواب حقیقت بن جائے، 1971ء میں جب بنگلہ دیش کی علیحدگی کے لیے دہلی میں ستیہ گرہ تحریک چلی تھی تو ایک نوجوان رضا کار کے طور پر وہ بھی اس میں شامل ہونے دلی آئے تھے۔ بنگلہ دیش کے دورے میں وہاں کی حکومت نے بھارتی وزیراعظم کو بنگلہ دیش لبریشن وار آنر ایوارڈ دیا۔
بھارتی وزیراعظم کی باتیں زیادہ تفصیل کے ساتھ اخباروں میں چھپ چکی ہیں میں ان تمام باتوں کو نقل کرنا چاہتا تھا تاکہ پاکستان بھارتی ایجنٹوں کے منہ پر ان کے سرپرست مودی صاحب نے جو تھپڑ عطا کیے ہیں میں بھی حتی المقدور ان میں شامل رہوں۔ ہمارے بعض نام نہاد پاکستانیوں نے بھی بنگلہ دیش حکومت سے ایوارڈ حاصل کیے ہیں ان میں ہمارے کئی نامور کالم نویس بھی شامل ہیں اور علامہ اقبال کی اولاد میں سے بھی بعض بدقسمت بھی۔ آپ سے صرف اتنی گزارش ہے کہ آپ مہربانی کر کے اپنے اندر کے غداروں کو یاد رکھیں ملک کی سلامتی کے لیے ان لوگوں کی نشاندہی لازم ہے۔
اس سلسلے میں گزارش ہے کہ آپ اپنے حکمرانوں پر بھی کڑی نظر رکھیں جو بھارت کے ساتھ دوستی اور قریبی تجارتی تعلقات کے لیے مرے جا رہے ہیں۔ ناپختہ عمران خان کی ایک بات مجھے یاد رہتی ہے کہ ہمارے دو بڑے سیاستدان بھارت پسندی میں یک جان ہیں اور باریاں لیتے رہتے ہیں۔ حیرتوں میں سب سے بڑی حیرت ایک یہ ہے کہ لوگ بڑے دھڑلے سے بھارت پسندی کا اعلان کرتے ہیں اور جب بھارت کا لیڈر ان کے منہ پر مارتا ہے تو وہ جواب نہیں دے پاتے۔ جواب دیں تو کیا دیں۔ شرم و حیا گنوا دینے کے بعد اب ان کے دامن میں بچا ہی کیا ہے کہ اس میں سے کوئی جواب نکال سکیں۔
پاکستان کی تباہی کا سب سے بڑا سبب اس کے یہ سیاستدان ہیں جن کا نہ کوئی دین ہے نہ ایمان اور نہ پاکستان۔ کل کی طرح آج بھی ہمارے قائدین مال بنانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ وہ جو مختلف منصوبوں کے لیے بجٹ میں رقم مخصوص کرتے ہیں وہ ایک محرم راز کے بقول کھانے کے لیے ہوتی ہے جو کئی احمقانہ اور ناقابل عمل منصوبوں کے نام پر خرچ کی جاتی ہے اور خرچ کیا کی جاتی ہیں محفوظ کر لی جاتی ہے اور پھر بانٹ لی جاتی ہے۔ پاکستان کو کھانے کے اور بھی کئی طریقے ہیں جو ان سیاستدانوں کو خوب معلوم ہیں۔ آپ کو کئی سیاستدانوں سے واسطہ پڑتا ہے جن کی بے حساب دولت ملک سے باہر کے بینکوں میں پڑی ہے اور یہ کوئی راز نہیں ہے، کوئی ہے جو ان سے پوچھے کہ آپ نے یہ دولت اپنے کس کاروبار سے بنائی ہے۔
بھارتی وزیراعظم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے پاکستانیوں کو یاد دلاتا ہوں کہ آپ بلوچستان اور ملک کے بعض حصوں میں بھارت کی تخریب کاری کو ذہن میں رکھیں اور بنگلہ دیش کو بھی یاد رکھیں۔ وہی بھارت ہے بلکہ پہلے سے زیادہ تیز و طرار بھارت ہے جس کی جراتیں تازہ دم ہیں اور اس کے سامنے سازش اور تخریب کاری کے میدان کھلے ہیں۔ حیرت کیجیے کہ ہمارے بعض حکمران سیاستدان اس بھارت کا نام لینے سے ڈرتے تھے جو آج کل کھل کر پاکستان کے اندر اپنی دہشت گردی کا اعلان کر رہا ہے اور بلا جھجک پاکستانیوں کو اپنی تخریبی سرگرمیوں کی کامیابی کی روداد سنا رہا ہے۔
ان دنوں ہماری فوج اور اس کے سپہ سالار نے تنگ آ کر بھارت کی تخریب کاری کے خلاف باقاعدہ جنگ شروع کر دی ہے کیونکہ بھارتی خفیہ یلغار اب اکا دکا مزاحمتی کارروائیوں سے روکی نہیں جا سکتی تھی۔ ہماری پوری فوج ضرب عضب کے نام سے بھارت کے خلاف حالت جنگ میں ہے اور کامیابی اس کے قدم چوم رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ بھارتی لیڈر اور وزیراعظم اب جس گھبرائے ہوئے لہجے میں بات کر رہا ہے وہ دراصل ضرب عضب کی کامیابی ہے جس کو برداشت کرنا اب بھارت کے لیے ممکن نہیں رہا۔ یہی وہ ناقابل برداشت کیفیت ہے جو بھارتی وزیراعظم کے سر چڑھ کر بول رہی ہے اس لیے ہم پاکستانیوں کو دشمن کی اس بے قرار قسم کی فریاد سے گھبرانا نہیں چاہیے۔
سقوط ڈھاکا کی خوشی میں اندرا گاندھی نے بے قرار اور آپے سے باہر ہو کر کہا تھا کہ ہم نے مسلمانوں سے ایک ہزار برس کی غلامی کا بدلہ لے لیا ہے۔ درست کہا تھا وہ ایک ہزار برس سے بھی زائد عرصہ تک مسلمان حکمرانوں کے غلام رہے اور انھیں رشتے دے کر خوش کرتے رہے وہ تو بھلا ہو انگریزوں کا، ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے خلاف ان کی سازش کامیاب ہو گئی اور انھوں نے ہندوستان کو مسلمانوں سے چھین لیا اس طرح بھارت کے ہندو بھی مسلمانوں کی غلامی سے آزاد ہو گئے اور بعد میں بھی انگریزوں نے ہندوستان کے ہندوؤں کی خصوصی دلجوئی کی کیونکہ مسلمانوں سے تو انگریزوں نے اقتدار چھینا تھا صرف ہندو ان کے حامی ہو سکتے تھے جنہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے مقابلے میں انگریزوں کی حمائت کی اور مسلمانوں سے آزادی کا جشن مناتے رہے۔
برطانوی دور کی تاریخ دیکھ لیجیے اس میں ہندو انگریزوں کے حامی دکھائی دیتے ہیں اور مسلمان پھانسیاں پاتے رہے ہیں اور کالا پانی کی قید کاٹتے رہے ہیں۔ آج اگر نریندر مودی مسلمانوں سے اپنی پرانی غلامی کا کوئی بدلہ لے کر خوش ہوتا ہے تو وہ حق بجانب ہے۔ ہم مسلمانوں نے ہزار برس تک ہندوستان پر حکومت کی۔ یہ ایک تاریخ ہے۔ اگر آج کوئی بھارتی خوشی مناتا ہے تو وہ ٹھیک ہی کرتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ مسلمان کس بات کی وجہ سے بھارت کے ہندو کی حمایت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کاروبار وغیرہ کی خواہش کرتے ہیں۔
یہ پرلے درجے کی بے غیرتی ہے جس کی کسی مسلمان اور وہ بھی پاکستانی ہو' سے توقع ہر گز نہیں کی جا سکتی مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کے لوگ اپنے وقتی مفادات کی خاطر بھارت سے بہتر تعلقات کی خواہش کرتے ہیں۔ وہ اپنی تاریخ بھول جاتے ہیں اور اس سے غداری کرتے ہیں لیکن تاریخ افراد یا اقوام کو معاف نہیں کرتی۔ بھارت کھل کر سامنے آیا ہے اس کا شکریہ اور یہ ذکر جاری رہے گا۔