مرے مولا مجھے حیران رکھنا

غالب کے اس نسبتاً کم معروف شعر میں جس دردناک استہزا سے کام لیا گیا ہے

Amjadislam@gmail.com

ISLAMABAD:
اپنے پہ کر رہا ہوں قیاس اہل دہر کا

سمجھا ہوں دلپذیر متاع ہنر کو میں

غالب کے اس نسبتاً کم معروف شعر میں جس دردناک استہزا سے کام لیا گیا ہے اس کی بازگشت ہمیں تقریباً ہر بڑے تخلیقی فن کار کے ہاں کسی نہ کسی شکل میں سنائی دے جاتی ہے۔ بالخصوص اسلامی دنیا کی تاریخ میں اس کا اظہار جابجا نظر آتا ہے کہ ہم لوگ عمومی طور پر مردہ پرست ہیں اور اپنے مشاہیر اور محسنین کی ان کی زندگی میں قدر کرنا ہمارے مزاج کا حصہ نہیں۔ احمد ندیم قاسمی مرحوم کا یہ شعر بھی ہمارے اسی اجتماعی رویے کا ترجمان ہے کہ

عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن

یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ

حیرت کی بات ہے کہ یہ سب باتیں مجھے ایک ایسی تقریب کے دوران یاد آئیں جو دو برس قبل جدا ہونے والے ہمارے عزیز دوست اور عہد ساز شاعر خالد احمد مرحوم کی 72ویں سالگرہ کے حوالے سے ترتیب دی گئی تھی۔ جسمانی طور پر اس عالم فانی سے پردہ کرجانے والے احباب کے لیے یادگاری محافل کا انعقاد اگرچہ کم کم ہوا ہے مگر یہ کوئی بالکل نئی بات بھی نہیں ہے۔

ہمارے جیسے معاشروں میں کچھ عرصہ قبل تک کسی کی مصدقہ تاریخ پیدائش کا تعین بہت مشکل تھا کہ اس کے لیے کوئی باقاعدہ نظام وضع ہی نہیں کیا گیا تھا سو عام طور پر خاندانی روایتوں پر ہی انحصار کیا جاتا تھا۔ دور کیوں جائیے خود شاعر مشرق علامہ اقبال کی تاریخ پیدائش کا معاملہ بہت سے متضاد بیانات کا شکار رہا ہے حالانکہ ان کا زمانہ کوئی اتنا زیادہ پرانا بھی نہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے البتہ بعد ازمرگ سال گرہیں منانے کا طریقہ خاصا مقبول ہورہا ہے۔ بالخصوص کسی سنگ میل جیسے ایک سویں یا دو سو سالہ یوم پیدائش پر تقریبات کا انعقاد خاصے تواتر سے دیکھنے میں آرہا ہے۔


گزشتہ چند برسوں میں منٹو، ڈپٹی نذیر احمد، مجید امجد، محمد حسین آزاد، فیض احمد فیض، مولانا حالی اور شبلی نعمانی کے حوالے سے خاصی گہما گہمی دیکھنے میں آئی ہے۔ مختلف یونیورسٹیوں اور متعلقہ اداروں نے خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا ہے۔ محکمہ ڈاک نے یادگاری ٹکٹ جاری کیے ہیں اور مختلف شہروں کی سڑکوں کے نام ان مشاہیر کے اسمائے گرامی پر رکھے گئے ہیں۔ محاورے کی زبان میں غالباً اسے دیر آید درست آید کہا جائے گا لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ ہم لوگ عمومی طور پر نہ اپنے زندوں کی ڈھنگ سے تکریم کرتے ہیں اور نہ جانے والوں کو خاطر خواہ طریقے سے یاد کیا جاتا ہے۔

خالد احمد کو ہم سے رخصت ہوئے دو برس ہوچکے ہیں اور اگرچہ ادبی دنیا میں اس کا ایک منفرد مقام متعین ہوچکا ہے اور اردو شعر و ادب سے متعلق لوگ اس کے ادبی کارناموں سے بخوبی واقف ہیں اور ان حلقوں کی حد تک اسے زندگی میں بھی سراہا گیا ہے۔ اس کے فنی کمالات اور شخصیت کے متنوع پہلوئوں پر بھی روشنی ڈالی گئی لیکن کتاب سے دوری اور بظاہر ایک غیر منافع بخش کام ہونے کی وجہ سے عام لوگ یعنی خلقت شہر اپنی تہذیب کے چمن کے ان مالیوں سے متعارف نہیں ہوپاتی جن کا فیض ان کی موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔

خالد احمد اس اعتبار سے بہت خوش قسمت رہا کہ اسے بے حد محبت کرنے والے دوستوں اور جونیئرز کے ساتھ ساتھ دو ایسے نسبتی بھائی بھی عطا ہوئے جنہوں نے اس کے نام اور کام کو زندہ رکھنے کے لیے اپنے تن من دھن کو وقف کردیا۔ بالخصوص عزیزی عمران منظور نے ''بیاض'' کی شکل میں نہ صرف خالد احمد کی یاد اور یادگار کو قائم رکھا بلکہ گزشتہ برس کی طرح اس بار بھی اس کی سالگرہ کے موقع پر ادبی کتابوں پر ایوارڈز بھی پیش کیے جو ایک خوبصورت تقریب میں تقسیم کیے گئے۔ اس بار ان میں لائف اچیومنٹ ایوارڈ کا بھی اضافہ کیا گیا جس کے حق دار بجا طور پر برادر عزیز عطاء الحق قاسمی ٹھہرے۔

اس تقریب میں اپنی افتتاحی گفتگو کے دوران عمران منظور نے ایک ایسی بات کی جو میرے اس کالم کا موضوع اور قوت متحرکہ ٹھہری ہے کہ 20 نومبر 2015ء سے احمد ندیم قاسمی کا ایک سو وا سال پیدائش شروع ہوجائے گا۔ تمام ندیم دوستوں اور اہل ادب کا فرض ہے کہ وہ ابھی سے اس کی تیاریاں شروع کردیں تاکہ اس سال کو شایان شان طریقے سے منایا جاسکے اور 20 نومبر 2016ء تک پوری اردو دنیا میں ''قاسمی صدی'' سے متعلق تقریبات کا انعقاد ہوتا رہے۔ ان کی کتابوں کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوں۔ ان کی زندگی کے مختلف گوشوں سے متعلق یادگاریں قائم کی جائیں۔ ان کے نام پر سڑکوں، انڈرپاسز، ڈاک کے یادگاری ٹکٹ، تعلیمی اداروں اور کالجز کا قیام عمل میں لایا جائے۔

ایک جدید اصطلاح کے مطابق اردو کی نئی بستیوں مثلاً برطانیہ، امریکا، سعودی عرب، مشرق وسطیٰ کے ممالک، آسٹریلیا اور جاپان وغیرہ میں مقامی احباب کی مدد سے خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا جائے اور بھارت میں قاسمی صاحب کے شاگرد، دوست اور چیلے برادرم گلزار (جو قاسمی صاحب کو ہمیشہ ''بابا'' کے نام سے پکارتے تھے اور پکارتے ہیں) کو اس مرکزی انتظامی کمیٹی کا حصہ بنایا جائے جو بوجوہ بہت محدود ہوگی اور جس کے تمام اراکین کسی عہدے کی تخصیص کے بغیر تمام متعلقہ معاملات کی تفصیلات طے کرنے کے ساتھ ساتھ اس ہمہ جہت پیش رفت کی رضاکارانہ طور پر نگرانی بھی کرتے رہیں گے۔

خالد احمد سے منسوب اس تقریب میں یہ اعلان اس اعتبار سے بھی بہت برمحل اور موزوں تھا کہ خود خالد احمد کی تمام تر ادبی تربیت قاسمی صاحب کے ہاتھوں سے انجام پائی تھی اور اس نے اس کا حق اس طرح سے ادا کیا کہ تمام عمر قاسمی صاحب کی طرح اپنے جونیئرز کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی۔

اس تقریب میں مشہور نعت خوان شاعر اعظم چشتی صاحب کے دو صاحبزادوں جمشید اور اسرار چشتی کے علاوہ اسی خانوادے کے ایک شاگرد نے بھی کلام خالد ساز و آواز کے ساتھ پیش کیا جس پر ایک صاحب نے بہت پر لطف تبصرہ کیا کہ پٹیالہ اور شام چوراسی گھرانوں کے بعد اب یہ سلسلۂ چشتیہ تصوف کے ساتھ ساتھ موسیقی میں بھی داخل ہوگیا ہے۔ اس پر یاد آیا کہ لفظوں کی موسیقی اور شعری بحور کا جس قدر شعور خالد احمد مرحوم کو تھا اب اس کی کوئی مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔ اس محفل میں اس کی ذات اور خدمات کو بھر پور خراج تحسین پیش کیا گیا جو اپنی جگہ پر ایک خوبصورت روایت کے آغاز کا درجہ رکھتا ہے۔
Load Next Story