کشمکش

پاکستان بنتے ہی ایک کشمکش شروع ہو گئی، ابھی مملکت کو بنے دو سال ہی ہوئے تھے کہ دونوں طبقے میدان میں آ گئے۔


[email protected]

KABUL: پاکستان بنتے ہی ایک کشمکش شروع ہو گئی، ابھی مملکت کو بنے دو سال ہی ہوئے تھے کہ دونوں طبقے میدان میں آ گئے۔ یہ لیاقت علی خان کا دور تھا جب ان کی بیگم نے اپوا کی بنیاد رکھی۔ قائد ملت ہی کی وزارت عظمیٰ میں ''قرارداد مقاصد'' اسمبلی سے منظور ہوئی، ایک طرف آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن تھی تو دوسری طرف مذہبی عناصر، ایک جانب خواتین کو آزادی دینے کا نعرہ تھا تو دوسری طرف اسے آزادی کے نام پر آوارگی کا مشن، دوسری جانب اس پردے میں عورتوں کو قید کرنے کا الزام دھرایا گیا۔ کیا یہ کشمکش آج تک جاری ہے؟

محمد علی بوگرہ کی اپنی سیکریٹری سے دوسری شادی ہو یا فیملی لاز، دونوں طبقات ایک دوسرے سے برسر پیکار نظر آئے۔ ایک جانب کہا گیا کہ وزیراعظم نے دوسری شادی کر کے ہمارا سر شرم سے جھکا دیا تو دوسری جانب بیوی کی موجودگی میں لبرل طبقے کے گرل فرینڈز اور غیر عورتوں سے معاشقے کو جدید تہذیب کی ''برکت'' کہا گیا۔ ابھی یہ جنگ جاری تھی کہ ایوب خان کے فیملی لا کے تعارف نے آگ کو مزید بھڑکا دیا۔ دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت کو اسلام کے خلاف گردانا گیا۔ ایک جانب مذہبی طبقہ فوجی حکمران کے خلاف تھا تو دوسری جانب خوشحال گھرانوں کی ماڈرن اور پڑھی لکھی خواتین ایسے اقدامات سے خوش تھیں۔ ایک کی حمایت اور دوسرے کی مخالفت کا واضح مطلب کشمکش کی موجودگی قرار پاتا ہے۔

یحییٰ خان اور بھٹو کا دور سیاسی کشمکش کا دور تھا۔ ان زمانوں میں کوئی ایسا خاص کام نہیں ہوا جس پر دونوں طبقات برسر پیکار نظر آتے ہوں۔ اس کے باوجود بھی دیکھا جائے تو کچھ کام ایسے ہوئے جس نے اسلامی طبقات کی حوصلہ افزائی کی۔

دارالحکومت کا نام اسلام آباد تجویز کیا جانا کہ ایوب دور میں اس کام کی ذمے داری یحییٰ پر تھی۔ اراکین اسمبلی کی تعداد 313 مقرر کرنا، مشرقی و مغربی پاکستان کے کل اراکین تین سو جب کہ تیرہ خصوصی ممبران۔ بھٹو کے زمانے میں آئین میں اسلام پسند پارٹیوں کے مطالبات کو جگہ دینا اور پھر قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے فیصلے کو لبرل طبقے نے پسند نہیں کیا لیکن وہ خاموش رہے۔ اسلامی سربراہ کانفرنس کے انعقاد اور آخر زمانے میں بھٹو کا شراب و جوئے پر پابندی اور جمعہ کی تعطیل کو بھی ماڈرن طبقے نے مجبوراً برداشت کر لیا، یوں 5 جولائی 1977ء کو ایک دور کا خاتمہ ہوا۔

جنرل ضیا کا زمانہ مذہبی عناصر اور ماڈرن طبقے کی کشمکش کے عروج کا زمانہ تھا۔ ضیا کی اسلام پسندی لبرل طبقے کو ایک آنکھ نہ بھاتی۔ نظام صلوٰۃ و زکوٰۃ و عشر کے علاوہ اسلامی سزاؤں کے نفاذ کو سیکولر عناصر نے غضب ناکی سے دیکھا، ایوب آمریت کے فیصلوں کو سراہنے والوں کو یاد آیا کہ جنرل ضیا منتخب نمایندے نہیں۔ فیملی لاز پر مسرت کا اظہار کرنے والوں نے واویلا مچایا کہ ''حدود آرڈیننس'' کو کسی اسمبلی نے منظور نہیں کیا۔

بے نظیر کے آنے پر قوانین کی منسوخی کی مہم چلائی گئی۔ شوہر سے طلاق لے کر دوسری شادی کرنے والی نکاح پر نکاح کرنے کے الزام میں گرفتار ہو جاتی۔ سیکولر طبقہ اس کا الزام حدود آرڈیننس پر دھرتا۔ حقیقت یہ تھی کہ یہ ایوب دور کا عائلی قانون تھا جس کے باعث عورتیں دھری جاتیں۔ فیملی لا کے مطابق طلاق پانے والی خاتون پر لازم قرار دیا گیا تھا کہ وہ چیئرمین سے تصدیق حاصل کرے کہ شوہر نے اسے فارغ کر دیا ہے۔

ایسی خواتین کی گرفتاری کا ملبہ جنرل ضیا کے سر ڈالا جاتا جب کہ یہ ذمے داری ایوب خان کے سر ڈالی جانی چاہیے بعد میں اعلیٰ عدالتوں نے اس مسئلے کو حل کر دیا کہ خواتین بلا جواز گرفتار نہ ہوں۔ جنرل ضیا کے دور کے اعداد و شمار پیش کیے جاتے کہ بہت ساری خواتین جیل میں ہیں جو اس سے قبل نہ تھیں۔ اسلام بدکاری کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے گرفتار کرتا ہے جب کہ انگریزی قانون اس پر رعایت دیتا ہے۔

وہ اس وقت حرکت میں آتا ہے جب کسی کے ساتھ زبردستی کی جائے یا لائف پارٹنر عدالت کے دروازے پر دستک دے۔ قبل از ضیا اور بعد از ضیا کے قوانین کا یہ فرق ماڈرن طبقے کو گوارا نہ تھا وہ حدود آرڈیننس کے خاتمے کے لیے مہم چلاتے رہے۔ بے نظیر اور نواز شریف کی پچھلی صدی کے آخری عشرے والی حکومتوں میں کچھ نہ ہو سکا۔

انسانی حقوق کے نام پر خواتین این جی اوز کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔ یورپ اور امریکا ایسی آرگنائزیشن کی حوصلہ افزائی کرتیں جو اس ایجنڈے پر عمل کرتیں جو مغرب کو بھاتا۔ ان تنظیموں نے جانا کہ جو کام ایوب اور ضیا کر گزرے وہ جمہوری حکومتوں سے نہ ہو سکے۔ انھوں نے مشرف کی آمد کو غنیمت جانا برسراقتدار آنے پر کتوں کو گود میں لے کر تصویریں بنانا چاہتی تھیں کہ مشرف ایسے میں جیسے دنیا کے طاقت ور گورے پاکستان کے کسی حکمران کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس تصویر سے ماڈرن خواتین خوش ہو گئیں ہوں گی اور مذہبی طبقے نے لاحولہ ولا پڑھی ہو گی۔

حقوق نسواں کے نام سے قانون نے حدود آرڈیننس کا خاتمہ کر کے ایک طبقے کو خوش کر دیا۔ ابھی مشرف سے امیدیں وابستہ تھیں کہ ان کے ایک بیان نے امیدوں پر اوس ڈال دی۔ مختاراں مائی ایک مظلوم خاتون تھی لیکن این جی اوز نے جس طرح اس کے معاملے کو پوری دنیا میں اچھال کر پاکستان کو بدنام کیا، اس سے مشرف خوش نہ تھے۔ انھوں نے کہہ دیا کہ اس قسم کی حرکتیں مغربی ممالک سے شہرت و شہریت کے علاوہ رقوم کے لیے کی جاتی ہیں۔ اس بیان نے ماڈرن خواتین کو بھڑکا دیا۔

عافیہ صدیقی ایک مظلوم خاتون ہے بالکل اس طرح جیسے مختاراں مائی تھی۔ فرق یہ تھا کہ ایک پر ظلم امریکا میں ہوا اور دوسری پر پاکستان میں۔ ایک پر اس قدر واویلا اور دوسری کی قید پر این جی اوز کی جانب سے اس قدر مجرمانہ خاموشی اس سناٹے نے پچھلے ایک عشرے میں ثابت کر دیا ہے کہ ماڈرن خواتین کی تنظیمیں کس نوعیت کے معاملات پر میدان میں نکلتی ہیں، اگر مغرب کہے کہ سزائے موت ختم کر دو تو وہ ایک 23 سالہ قاتل کو تیرہ سال کا ثابت کرنے اور مغربی ایجنڈے کی تکمیل کو نکل کھڑے ہوتی ہیں۔ کالم اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کا اہم مقصد آنے والے ایک منٹ میں آپ پر ظاہر ہو جائے گا۔

9/11 سے چھ ماہ قبل کی طرف ہم بڑھتے ہیں یہ مارچ دو ہزار ایک کی بات ہے جب افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی۔ ان کے ایک صوبے بامیان میں مجسمے تھے جسے طالبان مسمار کر رہے تھے۔ پوری دنیا سراپا احتجاج بن گئی اور بین المذاہب ہم آہنگی کی باتیں ہونے لگی۔ طالبان کو ظالمان کہا گیا کہ وہ بدھ مذہب کے ماننے والوں کے مجسموں کو گرا رہے تھے۔ جاپان نے امداد کی پیشکش کے ساتھ درخواست کی کہ انھیں یہ مجسمے اکھاڑ کر اپنے ملک لے جانے کی اجازت دی جائے۔ طالبان نہ مانے اور دنیا بھر کے انسانی حقوق کے علمبردار میدان میں نکل آئے۔

بدھ مذہب کو بڑا پر امن قرار دے کر ان کی قابل احترام چیزوں کی بے حرمتی پھر بڑا شور کیا گیا، آج اسی مذہب کے ماننے والے میانمار میں جیتے جاگتے انسانوں کو در بدر کر رہے ہیں تو انسانی حقوق کے ٹھیکیدار خاموش ہیں۔ میانمار میں خواتین کی در بدری پر پاکستانی این جی اوز کے منہ پر تالے لگ گئے ہیں۔ پاکستان میں شروع سے کشمکش میں رہنے والی خواتین و انسانی حقوق کے لیے اٹھ کھڑی ہونے والی این جی اوز سے ایک سوال ہے۔ سوال ہے کہ کس قدر سچی ہے یہ کشمکش؟ مصنوعی طور پر معاشرے میں پہچان پیدا کر کے مغربی ایجنڈے کی تکمیل تو کہا جا سکتا ہے کہ واقعی جائز اور حقیقی ہے اور کشمکش؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں