عورتوں پر تشدد کے خاتمے کی تحریک

عورتوں پر تشدد سے مراد انھیں کسی طرح کا جسمانی، جنسی یا نفسیاتی نقصان پہنچانا یا اس کی دھمکی دینا شامل ہے۔

عورتوں پر تشدد سے مراد انھیں کسی طرح کا جسمانی، جنسی یا نفسیاتی نقصان پہنچانا یا اس کی دھمکی دینا شامل ہے۔ اس میں اقتصادی نقصان بھی شامل ہے۔ عالمی بینک نے بھی اس بارے میں تحقیق کی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں عورتوں اور لڑکیوں پر ہونے والے تشدد کو اس خطے میں تیزی سے رونما ہونے والی اقتصادی اور سماجی تبدیلیوں کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔

اقتصادی ترقی صنفی مساوات پر اثرانداز ہوتی ہے کیونکہ اس کی بدولت عورتوں کی لیبر فورس میں شمولیت اور تعلیم کے مواقعے میں اضافہ ہوتا ہے۔ مگر لیبر فورس میں شمولیت سے اس کے مسائل خودبخود حل نہیں ہو جاتے، اس پر ہونے والے تشدد کا خاتمہ نہیں ہو جاتا بلکہ اکثر صورتوں میں تشدد میں اضافہ ہوتا ہے۔ کراچی میں اور بنگلہ دیش میں عورتیں بڑی تعداد میں گارمنٹس فیکٹریوں میں کام کرتی ہیں اور اکثر ان کے نوکری کرنے کے نتیجے میں گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ شوہر حضرات سے یہ بات برداشت نہیں ہوتی کہ عورت اپنی مرضی سے اپنی کمائی خرچ کرے نیز فیکٹری میں مرد سپروائزر اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

روایتی پدرسری سوچ عورت کو گھر کی چار دیواری میں مقید دیکھنا چاہتی ہے۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ ہم ایک طبقاتی معاشرے میں رہ رہے ہیں اور طبقاتی نظام کی بنیاد ہی محنت کشوں اور غریبوں کے استحصال پر رکھی جاتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ معاشرہ پدرسری یا مردانہ حاکمیت والا معاشرہ بھی ہے۔ اس لیے غریب اور محنت کش عورتیں دُہرے استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔ عورتوں کے لیے روزگار کے مواقعے پیدا کرنے کی بات کرتے ہوئے ہمیں پدرسری اور روایتی سوچ کو تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ اقتصادی نظام کی جابرانہ شکلوں کو بھی تبدیل کرنا چاہیے۔ عورتوں اور غریبوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہوئے ایک فلاحی ریاست کے قیام کا مطالبہ بھی ضروری ہے۔

آج کل ہم سرمایہ داری کی ایک نئی شکل یعنی نیولبرل عہد میں رہ رہے ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ہم نے یہ خبر سنی تھی کہ مین ہیٹن کے ایک مہنگے ہوٹل میں ایک بے لباس سفید فام ہوٹل کے کوریڈور میں ایک پناہ گزیں سیاہ فام نوجوان خاتون کے پیچھے دوڑتے ہوئے پایا گیا تا کہ اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنا سکے۔

وہ صاحب اس وقت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ IMF کے ڈائریکٹر تھے، وہ فرانس کے سیاست دان بھی تھے اور ہوٹل کی بتیس سالہ ملازمہ کا تعلق گنی سے تھا جو فرانس کی نوآبادی رہ چکا ہے۔ گو کہ آئی ایم ایف کے سربراہ کے خلاف زنابالجبر اور جنسی تشدد کے الزامات ختم کر دیے گئے مگر انھیں اپنی اس حرکت کی قیمت تو چکانا پڑی تھی، انھیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا اور ہوٹل کی ملازمہ کو بھاری جرمانہ بھی دینا پڑا۔

امریکا میں فائرنگ کر کے لوگوں کو ہلاک کرنے کے واقعات بہت عام ہیں، زیادہ تر لوگ اپنی سابقہ یا موجودہ بیوی کو، قریبی دوست یا خاندان کے لوگوں کو فائرنگ کر کے ہلاک کرتے ہیں۔ اسی طرح گینگ ریپ کے واقعات بھی عام ہیں۔ جب کہ غریب ممالک میں محنت کش خواتین پر تشدد کے واقعات عام ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ عورتوں کے خلاف ایک عالمی جنگ چھڑ چکی ہے۔

محترمہ وندنا شیوا کا دنیا بھر میں ماحولیات کے حوالے سے جانا پہچانا نام ہے، ان کا کہنا ہے کہ عورتوں پر تشدد اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ پدرسری نظام۔ اس نظام کی بنیاد عورت کی محکومیت اور اسے مساوی انسانی درجہ حاصل کرنے کے حق سے انکار پر رکھی جاتی ہے۔ عورتوں پر تشدد کے خاتمے کی تحریک اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک ہر عورت کو انصاف نہ مل جائے۔


عورتوں پر تشدد دنیا بھر میں ایک اہم پالیسی ایشو رہا ہے اور اس حوالے سے شلٹر ہومز اور دیگر محفوظ پناہ گاہیں قائم کرنے پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اپنی حکومتوں سے مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ سروس ڈلیوری کے لیے بجٹ فراہم کیا جائے، عورتوں کے تحفظ کے لیے بہتر اور موثر قوانین بنائے جائیں اور تشدد کے بنیادی اسباب پر زیادہ توجہ دی جائے جن میں عورتوں کی ساختیاتی سماجی عدم مساوات بھی شامل ہے۔ ان مطالبات کو پورا کرنے کے لیے حکومتوں کی دلچسپی اور شمولیت اور بجٹ میں اضافہ ضروری ہے۔

سرمایہ داری کے موجودہ دور یعنی نیولبرل ازم میں جس کا آغاز 1970ء کے عشرے میں تھیچر اور ریگن کی حکومتوں سے ہوا، نج کاری اور ڈی ریگولیشن کو فروغ دیا گیا تا کہ مسابقت اور خرچ اور استعمال کرنے کی انفرادی آزادیوں کا تحفظ کیا جا سکے۔ مارکسٹ عالم ڈیوڈ ہاروے کے بقول 70ء کے عشرے کی کساد بازاری کے نتیجے میں دنیا گرتی پڑتی نیولبرل ازم کی طرف بڑھی جب ایک مداخلت کار ریاست کا بنایا ہوا سرمایہ اور محنت کا مضطرب جوڑ ختم ہو گیا۔ مثال کے طور پر برطانوی حکومت کو آئی ایم ایف کے کہنے پر فلاحی اخراجات ختم کرنے پڑے تھے۔

مشہور صحافی راحیلہ گپتا کے بقول 1970ء کے عشرے سے حقوق نسواں کی دوسری لہر اور نیولبرل ازم کے پھلنے پھولنے کی بدولت تحریک نسواں کی کچھ رہنماؤں خاص طور پر نینسی فریزر کا کہنا ہے کہ تحریک نسواں نے سرمایہ دارانہ معاشرے کی ساختیاتی قلب ماہیت کو جائز ثابت کرنے میں مدد دی ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ سرمایہ دار اپنی بقا کے لیے اپنے مخالفین کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا گُر جانتے ہیں۔

نیولبرل ازم کا ایک مقصد ریاست کے اختیارات کو کم کرنا بھی ہے۔ دوسری طرف تحریک نسواں کی قائدین بھی ریاست کو پدرسری ہونے پر تنقید کا نشانہ بنا رہی تھیں۔ یہ تنقید نیولبرل سرمایہ داروں کو اپنے حق میں لگتی تھی۔ مگر اب نیولبرل ازم کی چمک دمک ختم ہو رہی ہے جب کہ تحریک نسواں پوری آب و تاب کے ساتھ سامنے آئی ہے۔ تحریک نسواں نے شاید نیولبرل ازم کے لیے اتنا جواز فراہم نہیں کیا مگر نیولبرل ازم نے ایک چمکتی دمکتی اور بالآخر ایک جعلی تحریک نسواں کے لیے جگہ ضرور فراہم کی۔ جس کا مظاہرہ Spice Girls کے اس گیت میں ہوا:

I really, really, want Girl Power

تحریک نسواں کی دوسری لہر اور حالیہ لہر کا درمیانی عبوری عرصہ وہ تھا جس میں سرمایہ داروں نے تحریک نسواں کے سیاسی سیاق و سباق پر قینچی چلا دی۔''

نیولبرل پالیسیوں کے نتیجے میں جہاں عورتوں کے لیے روزگار کے مواقعے بڑھے ہیں وہیں منڈی اور گھر دونوں جگہ عورتوں کے کام کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی غیر ہنر مند عورتوں کی غربت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان کے پاس نہ پیداواری وسائل ہیں اور نہ ہی سرکار انھیں کوئی سہولت مہیا کرتی ہے۔ اس غربت اور پسماندگی کی وجہ سے ان کے تشدد کا شکار ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

مرد جب سرمایہ داری کے استحصال کا شکار ہوتا ہے اور بے روزگار ہوتا ہے تو وہ اپنا غصہ عورت پر ہی نکالتا ہے۔ دوسری طرف نیولبرل پالیسیوں کے نتیجے میں حکومت کی عوام کے لیے فلاحی اقدامات کرنے کی استعداد کم ہو جاتی ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر بجٹ میں تعلیم، صحت اور دیگر سماجی خدمات کے لیے مختص رقم کم سے کم ہوتی جاتی ہے۔ عوام کے مسائل حل کرنے اور عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے ہمیں ایک فلاحی مملکت کے قیام کا مطالبہ کرنا چاہیے۔
Load Next Story