برما اور مسلم امہ
برما (میانمار) میں مسلمانوں کے ساتھ عرصے سے آگ و خون کا کھیل جاری ہے اور ساری دنیا چین کی بانسری بجا رہی ہے۔
برما (میانمار) میں مسلمانوں کے ساتھ عرصے سے آگ و خون کا کھیل جاری ہے اور ساری دنیا چین کی بانسری بجا رہی ہے۔ برما کی جمہوریت پسند نوبل انعام یافتہ خاتون آنگ سان سوچی بھی خاموش ہے اور بدھ بھکشو راہب آشین وراتھو (جو کہ برما میں سب سے طاقتور مذہبی رہنما سمجھا جاتا ہے) نے بھی تمام روہنگیا مسلمانوں کو واجب القتل قرار دے دیا ہے۔
وہ مسلمانوں کے خلاف ہر قسم کے تشدد کو جائز قرار دے چکا ہے اور اس کے مطابق مسلمانوں کو قتل کرنے سے بدھ مت کے پیروکاروں کو ثواب ملتا ہے اور اب تک ہزاروں مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا جا چکا ہے۔ اس میں بلا امتیاز بچے، بوڑھے، جوان، مرد و خواتین تمام شامل ہیں، جو ویڈیوز اور تصاویر منظر عام پر آئی ہیں اس قدر بھیانک اور ہولناک ہیں کہ روح کانپ اٹھتی ہے ڈیڑھ لاکھ مسلمان بے گھر غیر محفوظ اور غلیظ کیمپوں میں بے یارومددگار بھوکے پیاسے سسکتی بلکتی موت کے منتظر ہیں۔
اس کا اعتراف خود اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے۔ تمام مقامی مساجد شہید کر دی گئی ہیں، کوئی سر عام نماز ادا نہیں کر سکتا یہاں تک کہ کیمپوں میں پناہ گزین مسلمانوں میں سے بھی اگر کوئی نماز ادا کرنے کی جرأت کرے تو اسے بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
کیمپوں میں غلیظ پانی سے ان کی خاطر کی جاتی ہے، بیمار ہو جائیں تو کوئی اسپتال ان کا علاج نہیں کرتا ماں کو بچے سے تعلق کو ثابت کرنے کے لیے سرعام اپنا دودھ پلانے پر مجبور کیا جاتا ہے، مسلمانوں کی وہ 13 بستیاں جو کبھی آباد تھیں آج ہر جگہ تباہی و بربادی پھیلی ہوئی ہے، 4862 مکانات مسمار و منہدم کر دیے گئے ہیں، میانمار میں مختلف دیگر اقوام کے ساتھ مسلمانوں کو ملا کر کل نو اقوام آباد ہیں لیکن برما کے آئین میں صرف آٹھ اقوام کا ذکر ہے جب کہ روہنگیا ان میں شامل نہیں، سالہا سال سے آباد ان مسلمانوں پر عرصہ حیات مکمل تنگ کر دیا گیا، وہ سفاکیت اور جبر و بربریت سے تنگ آ کر اپنی جانیں بچانے کے لیے برما چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
افسوس کہ سدھارتھ گوتم بدھ نے عالمگیر انسانی محبت کا ہمیشہ درس دیا اور حشرات الارض اور دیگر جانداروں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی، آج اسی گوتم بدھ کے یہ نام نہاد پیروکار برمی مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں جس کی بازگشت صدیوں گونجتی رہے گی۔ اسلام کے نزدیک ایک بے گناہ انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کی جان بچانا تمام انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے جس میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کے لیے زندگی کا راز مضمر ہے اور جو عقل والے ہیں وہ خوب اس حکمت سے واقف ہیں۔
مسلم ممالک کے بے حس و کٹھ پتلی حکمراں، سادہ عوام اورکچھ مصلحت اندیش علما مسلسل خاموش تماشائی بنے رہنے کی وجہ سے شعوری یا لاشعوری طور پر اس گھناؤنے جرم میں برابر کے شریک اور مجرم ہیں، مسلمانوں کے حقوق کی برائے نام علمبردار OIC بھی ایک غیر موثر ادارہ ہے، عرب لیگ اور دیگر عرب ممالک کو بھی صرف عرب مسلمانوں کی فکر لاحق ہے، غیر عرب یا عجمی مسلمان گویا ان کے لیے سوتیلے بھائیوں کا درجہ رکھتے ہیں، جن کے لیے اقدام تو دور کی بات ہے آواز تک نہیں اٹھائی جاتی۔ آج مسلمانوں کے عبرت کدہ بننے کی اصل وجہ ہی عالم اسلام و مسلم امہ کے وہ باہمی اختلافات، جھگڑے اور انتشار، ابتری اور الجھنیں ہیں کہ شاید جنھیں سلجھنے تک خدانخواستہ ہماری داستان بھی نہ رہے داستانوں میں۔
کیا یہ حیرت انگیز امر تمام مسلمانوں کو دعوت فکر فراہم کرنا اور سوچ بچار پر مجبور نہیں کرتا کہ وہ تمام نام نہاد جہادی تنظیمیں اور گروپس مثلاً افغانستان میں طالبان، پاکستان میں TTP، عراق میں ISIS، شام میں النصرہ فرنٹ، صومالیہ میں الشباب، نائیجیریا میں بوکو حرام اور دنیا کے مختلف ممالک میں سرگرم القاعدہ آخر مسلم ممالک میں مسلمانوں ہی کے خلاف کیوں سرگرم عمل ہیں، مسلمان آخر مسلمانوں کے ساتھ ہی کیوں دست وگریباں ہیں، یہ مسلم ممالک میں آخر مسلمانوں ہی کا کیوں قتل عام کر رہے ہیں، یہ آخر جہاد کی کون سی قسم ہے جو انھوں نے اپنی ہی اصطلاح میں ایجاد کر ڈالی ہے؟
ان جہادی تنظیموں کو برما، فلسطین، کشمیر اور دنیا بھر میں مدد کے منتظر مظلوم و مجبور مسلمان نظر کیوں نہیں آتے؟ ذرا سوچیے صرف عرب ممالک ہی میں کیوں جہاد کے نام پر آگ و خون کا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟ ایسا سازشی اور تخریبی کھیل جس میں مسلمان کے ہاتھوں مسلمان ہی کا خون بہایا جا رہا ہے؟ اور اس قابل مذمت عمل کو اسلام کی جنگ قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ اس میں مدمقابل کوئی ایک غیر مسلم نہیں۔ گویا جہاں جہاد کی حقیقی معنوں میں اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ضرورت ہے وہاں کے مسلمان بے یارو مددگار، بے بس و مجبور و لاچار ظلم و ستم کی چکی میں مسلسل پس رہے ہیں۔
جہاد کے نام پر ان کی مدد کو کوئی نہیں پہنچتا، جہاں اصل جہاد کی ضرورت ہے وہاں مسلمان لاوارث کٹ مر رہے ہیں اور جہاں جہاد کی ضرورت ہی نہیں وہاں ایک سوچی سمجھی منظم عالمی سازش کے تحت مسلمانوں کو مسلمانوں سے ہی ٹکرا دیا اور لڑا دیا گیا ہے اور یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ مسلم ممالک میں مسلمانوں ہی کے خلاف صف آرا ان نام نہاد جہادی تنظیموں میں سے اکثر کی بھاری امداد اور فنڈنگ غیر مسلم اسلام دشمن طاقتیں کر رہی ہیں، جن کے تانے بانے اور ڈانڈے یہود و ہنود اور نصاریٰ سے ملتے ہیں اسلامی ممالک میں مسلمانوں کے درمیان جاری ہر فتنہ و فساد کے خلاف یہی اسلام دشمن اور مسلم کش ناپاک قوتیں متحرک اور مصروف سازش و شورش ہیں۔
یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ یہ تمام نام نہاد جہادی تنظیمیں جو اسلام کے نام پر اسلام ہی کو بدنام کر رہی ہیں، ان کا اسلام سے دور تک بلکہ بہت دور تک قطعی کوئی تعلق نہیں، اس میں بالعموم پوری دنیا اور بالخصوص اسلامی دنیا کے لیے دعوت فکر ہے، خصوصی طور پر ان کے لیے بھی جو آج بھی اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھتے ہیں یقینا وہ سنگین غلط فہمی کا شکار ہیں۔ ان زمینی حقائق اور نفسانفسی کے حالات میں برما سمیت دنیا بھر کے وہ مظلوم مسلمان جو بے یارومددگار داد رسی کے منتظر ہیں ان کی یہ حالت زار عقل و فہم و سمجھ سے بالا تر نہیں، لیکن آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟
یقینا اس کے لیے تمام عالم اسلام کو متحد و منظم ہو کر سر جوڑ کر بیٹھنا اور ایک مربوط و منظم، دیرپا اور پائیدار لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا، جس میں تمام امت مسلمہ کے مسائل و چیلنجز کے پیش نظر دور رس بنیادوں پر مسلمانوں کے حقوق و مفادات، تحفظ و بقا کے لیے حقیقی معنوں میں معرکہ آرا اور تاریخ ساز اقدام اٹھانا ہوں گے، یہ امر مشکل کے باوجود ناممکن نہیں ہے بس ذرا اخلاص کی ضرورت ہے اور اس کا درست وقت یہی ہے۔
وہ مسلمانوں کے خلاف ہر قسم کے تشدد کو جائز قرار دے چکا ہے اور اس کے مطابق مسلمانوں کو قتل کرنے سے بدھ مت کے پیروکاروں کو ثواب ملتا ہے اور اب تک ہزاروں مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا جا چکا ہے۔ اس میں بلا امتیاز بچے، بوڑھے، جوان، مرد و خواتین تمام شامل ہیں، جو ویڈیوز اور تصاویر منظر عام پر آئی ہیں اس قدر بھیانک اور ہولناک ہیں کہ روح کانپ اٹھتی ہے ڈیڑھ لاکھ مسلمان بے گھر غیر محفوظ اور غلیظ کیمپوں میں بے یارومددگار بھوکے پیاسے سسکتی بلکتی موت کے منتظر ہیں۔
اس کا اعتراف خود اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے۔ تمام مقامی مساجد شہید کر دی گئی ہیں، کوئی سر عام نماز ادا نہیں کر سکتا یہاں تک کہ کیمپوں میں پناہ گزین مسلمانوں میں سے بھی اگر کوئی نماز ادا کرنے کی جرأت کرے تو اسے بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
کیمپوں میں غلیظ پانی سے ان کی خاطر کی جاتی ہے، بیمار ہو جائیں تو کوئی اسپتال ان کا علاج نہیں کرتا ماں کو بچے سے تعلق کو ثابت کرنے کے لیے سرعام اپنا دودھ پلانے پر مجبور کیا جاتا ہے، مسلمانوں کی وہ 13 بستیاں جو کبھی آباد تھیں آج ہر جگہ تباہی و بربادی پھیلی ہوئی ہے، 4862 مکانات مسمار و منہدم کر دیے گئے ہیں، میانمار میں مختلف دیگر اقوام کے ساتھ مسلمانوں کو ملا کر کل نو اقوام آباد ہیں لیکن برما کے آئین میں صرف آٹھ اقوام کا ذکر ہے جب کہ روہنگیا ان میں شامل نہیں، سالہا سال سے آباد ان مسلمانوں پر عرصہ حیات مکمل تنگ کر دیا گیا، وہ سفاکیت اور جبر و بربریت سے تنگ آ کر اپنی جانیں بچانے کے لیے برما چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
افسوس کہ سدھارتھ گوتم بدھ نے عالمگیر انسانی محبت کا ہمیشہ درس دیا اور حشرات الارض اور دیگر جانداروں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی، آج اسی گوتم بدھ کے یہ نام نہاد پیروکار برمی مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں جس کی بازگشت صدیوں گونجتی رہے گی۔ اسلام کے نزدیک ایک بے گناہ انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کی جان بچانا تمام انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے جس میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کے لیے زندگی کا راز مضمر ہے اور جو عقل والے ہیں وہ خوب اس حکمت سے واقف ہیں۔
مسلم ممالک کے بے حس و کٹھ پتلی حکمراں، سادہ عوام اورکچھ مصلحت اندیش علما مسلسل خاموش تماشائی بنے رہنے کی وجہ سے شعوری یا لاشعوری طور پر اس گھناؤنے جرم میں برابر کے شریک اور مجرم ہیں، مسلمانوں کے حقوق کی برائے نام علمبردار OIC بھی ایک غیر موثر ادارہ ہے، عرب لیگ اور دیگر عرب ممالک کو بھی صرف عرب مسلمانوں کی فکر لاحق ہے، غیر عرب یا عجمی مسلمان گویا ان کے لیے سوتیلے بھائیوں کا درجہ رکھتے ہیں، جن کے لیے اقدام تو دور کی بات ہے آواز تک نہیں اٹھائی جاتی۔ آج مسلمانوں کے عبرت کدہ بننے کی اصل وجہ ہی عالم اسلام و مسلم امہ کے وہ باہمی اختلافات، جھگڑے اور انتشار، ابتری اور الجھنیں ہیں کہ شاید جنھیں سلجھنے تک خدانخواستہ ہماری داستان بھی نہ رہے داستانوں میں۔
کیا یہ حیرت انگیز امر تمام مسلمانوں کو دعوت فکر فراہم کرنا اور سوچ بچار پر مجبور نہیں کرتا کہ وہ تمام نام نہاد جہادی تنظیمیں اور گروپس مثلاً افغانستان میں طالبان، پاکستان میں TTP، عراق میں ISIS، شام میں النصرہ فرنٹ، صومالیہ میں الشباب، نائیجیریا میں بوکو حرام اور دنیا کے مختلف ممالک میں سرگرم القاعدہ آخر مسلم ممالک میں مسلمانوں ہی کے خلاف کیوں سرگرم عمل ہیں، مسلمان آخر مسلمانوں کے ساتھ ہی کیوں دست وگریباں ہیں، یہ مسلم ممالک میں آخر مسلمانوں ہی کا کیوں قتل عام کر رہے ہیں، یہ آخر جہاد کی کون سی قسم ہے جو انھوں نے اپنی ہی اصطلاح میں ایجاد کر ڈالی ہے؟
ان جہادی تنظیموں کو برما، فلسطین، کشمیر اور دنیا بھر میں مدد کے منتظر مظلوم و مجبور مسلمان نظر کیوں نہیں آتے؟ ذرا سوچیے صرف عرب ممالک ہی میں کیوں جہاد کے نام پر آگ و خون کا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟ ایسا سازشی اور تخریبی کھیل جس میں مسلمان کے ہاتھوں مسلمان ہی کا خون بہایا جا رہا ہے؟ اور اس قابل مذمت عمل کو اسلام کی جنگ قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ اس میں مدمقابل کوئی ایک غیر مسلم نہیں۔ گویا جہاں جہاد کی حقیقی معنوں میں اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ضرورت ہے وہاں کے مسلمان بے یارو مددگار، بے بس و مجبور و لاچار ظلم و ستم کی چکی میں مسلسل پس رہے ہیں۔
جہاد کے نام پر ان کی مدد کو کوئی نہیں پہنچتا، جہاں اصل جہاد کی ضرورت ہے وہاں مسلمان لاوارث کٹ مر رہے ہیں اور جہاں جہاد کی ضرورت ہی نہیں وہاں ایک سوچی سمجھی منظم عالمی سازش کے تحت مسلمانوں کو مسلمانوں سے ہی ٹکرا دیا اور لڑا دیا گیا ہے اور یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ مسلم ممالک میں مسلمانوں ہی کے خلاف صف آرا ان نام نہاد جہادی تنظیموں میں سے اکثر کی بھاری امداد اور فنڈنگ غیر مسلم اسلام دشمن طاقتیں کر رہی ہیں، جن کے تانے بانے اور ڈانڈے یہود و ہنود اور نصاریٰ سے ملتے ہیں اسلامی ممالک میں مسلمانوں کے درمیان جاری ہر فتنہ و فساد کے خلاف یہی اسلام دشمن اور مسلم کش ناپاک قوتیں متحرک اور مصروف سازش و شورش ہیں۔
یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ یہ تمام نام نہاد جہادی تنظیمیں جو اسلام کے نام پر اسلام ہی کو بدنام کر رہی ہیں، ان کا اسلام سے دور تک بلکہ بہت دور تک قطعی کوئی تعلق نہیں، اس میں بالعموم پوری دنیا اور بالخصوص اسلامی دنیا کے لیے دعوت فکر ہے، خصوصی طور پر ان کے لیے بھی جو آج بھی اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھتے ہیں یقینا وہ سنگین غلط فہمی کا شکار ہیں۔ ان زمینی حقائق اور نفسانفسی کے حالات میں برما سمیت دنیا بھر کے وہ مظلوم مسلمان جو بے یارومددگار داد رسی کے منتظر ہیں ان کی یہ حالت زار عقل و فہم و سمجھ سے بالا تر نہیں، لیکن آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟
یقینا اس کے لیے تمام عالم اسلام کو متحد و منظم ہو کر سر جوڑ کر بیٹھنا اور ایک مربوط و منظم، دیرپا اور پائیدار لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا، جس میں تمام امت مسلمہ کے مسائل و چیلنجز کے پیش نظر دور رس بنیادوں پر مسلمانوں کے حقوق و مفادات، تحفظ و بقا کے لیے حقیقی معنوں میں معرکہ آرا اور تاریخ ساز اقدام اٹھانا ہوں گے، یہ امر مشکل کے باوجود ناممکن نہیں ہے بس ذرا اخلاص کی ضرورت ہے اور اس کا درست وقت یہی ہے۔