فرشتوں کے خدشات اور ہم
آج کے انسان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے یہ دنیا میں نیک لوگوں کا جینا جنجال اور مرنا محال ہو کر رہ گیا ہے۔
بیشک دنیا اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی وجہ سے ہی آباد ہے ورنہ انسان نے تو اب تک فرشتوں کے خدشے کو صحیح ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آج کے انسان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے یہ دنیا میں نیک لوگوں کا جینا جنجال اور مرنا محال ہو کر رہ گیا ہے۔
یادش بخیر، مرد مومن مرد حق، ضیاالحق کے سنہری دور میں پنجاب کے ایک گاؤں نواب پور میں ایک چوہدری صاحب نے اپنے ایک مزارع کی بیوی کو برہنہ گاؤں میں گشت کرایا تھا۔ اس پر کوئی بھی ایکشن نہیں ہوا۔ بلکہ چوہدری صاحب کی موچھوں میں ایک اور بل آ گیا۔ غریب مزارع یہ سب بے عزتی اور خواری برداشت کرتا ہوا، اسی چوہدری صاحب کی زمین پر کام کرتا رہا۔
اس کے بعد بھی کچھ اور ایسے واقعات رونما ہوئے اور ہوتے رہتے ہیں، جو اخبارات کے صفحات کی زینت بنتے رہے ہیں، لیکن کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اْس وقت ملک میں صرف ایک ہی سرکاری ٹی وی چینل ہوتا تھا، جس پر اس قسم کی خبر کا آنا نا ممکن تھا۔ آج گو کہ ٹی وی کے پچاس کے قریب اور ایف ایم کے ان گنت چینل ہیں، جن پر اس قسم کے واقعات کی بریکنگ نیوز اور لال پٹیاں تو آ رہی ہیں، لیکن ان پر شاذ و نادر ہی کوئی ایکشن ہوتا ہو، جس میں اس قسم کے ظلم کرنے والوں کو کوئی قرار واقعی اور عبرت ناک سزا دی گئی ہو۔ ایک ہفتہ پہلے ایک واقعہ میری نظر سے گزرا، جس میں ایک پچیس سالہ نوجوان کو درخت سے باندھ کر، آگ لگا کر جلا دیا گیا۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم پتہ نہیں کس طرح آزاد ہوئے ہیں کہ ہمارے قوانین ابھی تک انگریز بہادر والے ہی ہیں، جن میں دادا کا مقدمہ پوتا لڑتا ہے۔ مرد مومن کے زمانے میں کوڑے صرف ایک سیاسی پارٹی کے اراکین کو لگائے گئے، کسی ایک بھی مجرم کو نہیں۔
کہنے کو تو یہ کہاوت ہے کہ انصاف میں دیر انصاف کی نفی کے برابر ہے، لیکن ایک نئی کہاوت بھی گھڑی گئی ہے، انصاف میں جلدی، انصاف کو دفن کرنے کے مترادف ہے۔ اس لیے مقدمے سالہاسال چلتے رہتے ہیں۔
انگریزی قانون میں (اور ہمارے ملک میں مروجہ قانون میں بھی) یہ ہے کہ اگر کوئی نابالغ، بالغوں والا جرم بھی کرے، تب بھی اس کو سزا نابالغوں والی ملے گی۔ دہلی میں جن لوگوں نے بس میں ایک لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی، ان میں ایک نابالغ نے بھی بہتی گنگا سے ہاتھ دھوئے۔
بالغ مجرموں کو سزائے موت ہوئی، جس پر عمل درآمد پتہ نہیں کتنی اور دہائیوں کے بعد ہو گا، لیکن نابالغ بچے کے وکلا صاحبان نے یہ استدلال دیا کہ چونکہ وہ نابالغ تھا اور ناسمجھی میں یہ کار نمایاں انجام دیا، اس لیے اسے سزائے موت نا دی جائے۔ کاش کہ یہ واقعہ اگر ان وکیل صاحبان میں سے کسی ایک کی بیٹی یا بہن کے ساتھ ہوتا، تو پھر اس کا رد عمل کیا ہوتا؟ لیکن قانون قانون ہوتا ہے۔
ابھی ہمارے ہاں بھی شفقت نامی ایک قاتل کا معاملہ عدالتوں میں زیر بحث رہا کہ جب اس نے ایک قتل کیا تھا اس وقت وہ نابالغ اور نا سمجھ تھا۔ اس کی عمر کے ریکارڈ میں بھی قطع و برید کر کے اسے نابالغ قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ بہر حال ان الفاظ لکھتے وقت معلوم ہوا کہ عدالت میں مقتول کے ورثا نے اس بات کا ثبوت فراہم کیا کہ وہ قتل کے وقت بالغ تھا۔ اس کی موت کا پروانہ عدالت سے جاری ہو چکا ہے۔ کیا مزے کی بات نہیں ہے کہ جرم تو بالغوں والا کیا جائے اور (اور وہ بھی مکمل بالغوں کی طرح)، لیکن سزا نابالغوں والی، آم کے آم، گٹھلیوں کے دام۔
انگریز کی حکومت میں کچھ خوبیاں بھی تھیں۔ اس نے بلدیاتی نظام اٹھارہ سو تراسی میں لوکل سیلف گورنمنٹ کے نام سے شروع کیا، جس کا مطلب تھا صوبائی حکومتوں کا بوجھ ہلکا کرنا اور مقامی لوگوں کو کار حکومت میں شامل کرنا۔ کارپوریشن، میونسپل اور لوکل کونسلوں کے انتخابات تو ہوتے تھے لیکن وہ غیر سیاسی ہوتے تھے۔ ماحول دوستانہ ہوتا تھا، جس میں کوئی دشمنیاں نہیں ہوتی تھی۔
عدالتوں پر سے مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لیے اچھی شہرت رکھنے والے ریٹائرڈ جج یا سرکاری عملداروں کو جسٹس آف پیس کے طور پر مقرر کیا جاتا تھا، جو لوگوں کے چھوٹے چھوٹے تنازعات نمٹاتے تھے، سزائیں بھی دیتے تھے اور اعلیٰ عدالتیں بھی ان کے فیصلے مانتی تھیں۔ لیکن یہ پورا سلسلہ غیر سیاسی ہوتا تھا۔ کوئی بھی سیاسی آدمی جسٹس آف پیس مقرر نہیں کیا جاتا تھا۔ کسی کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ کوئی سفارش کر سکے۔
ہمارے موجودہ بلدیاتی قانون میں بھی مصالحتی کونسلوں کی گنجائش ہے، لیکن چونکہ اب ہماری دنیا بدل چکی ہے۔ ہر چیز سیاسی ہے، اس لیے یہ سسٹم ناقابل عمل ہو چکا ہے۔ ہمارے موجودہ بلدیاتی نظام میں حکمرانوں کی دخل اندازی بدرجہ اتم موجود ہے۔ مثلا کونسلر تو منتخب ہوتے ہیں، لیکن میئر یا چیئرمین غیر منتخب ہوتا ہے، بلکہ مرکزی حکومت کا نامزد ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس نظام میں سے صوبوں کا عمل دخل ختم کر دیا گیا، جب کہ میں اوپر عرض کر چکا ہوں کہ بلدیاتی نظام بنا ہی صوبوں کی مدد کے لیے تھا اور ہم نے بلدیاتی نظام کا کیا حشر کیا ہے، اس کا کیا کہنا۔ ایوب خان نے بھی بنیادی جمہوریت کے نام سے 80 ہزار بے جمہوریے پیدا کیے تھے۔انگریز کی حکومت میں قاتلوں کی ضمانتیں نہیں ہوتی تھیں۔ ہمارے قانون میں قاتلوں کی بھی ضمانتیں ہوتی ہیں، جو ضمانت پر رہا ہو کر، بدلے چکاتے ہیں اور پھر قتل کرتے ہیں۔ہمارے ہاں جرگوں کا بھی ایک نظام رائج ہے، جس میں علاقے کے صرف با اثر لوگ منصف ہوتے ہیں۔
ان کا قانون بھی الگ ہوتا ہے، جو جہالت کے زمانے والی قبائلی روایتوں پر مبنی ہوتا ہے۔ گو کہ اعلیٰ عدالتیں اس نظام کو غیر قانونی قرار دے چکی ہیں، لیکن ابھی تک ان جرگوں کے منعقد کرنے والوں کو عدالتوں نے طلب کر کے ان سے اس غیر قانونی کام پر سرزنش نہیں کی۔ ان کے فیصلوں کی خبریں بھی اخبارات اور ٹی وی چینلز کی زینت بنتی رہتی ہیں۔
لیکن ایک بات ہے کہ ان میں فیصلے جلدی ہو جاتے ہیں، لوگوں کو سالہاسال عدالتوں کے چکر نہیں لگانے پڑتے ہیں۔ وہاں کوئی وکیل بھی نہیں ہوتا۔ گو کہ ان فیصلوں میں مصالحتیں بھی کرائی جاتی ہیں، لیکن سب سے برے فیصلے وہ ہوتے ہیں، جن کے تحت تین، چار سال کی معصوم بچیوں کو مقتول کے خاندان میں خون بہا کے طور پر بیاہ دیا جاتا ہے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ جو لڑکیاں خون بہا کے طور پر کسی خاندان کو بیاہی جاتی ہونگی، ان کے لیے مقتول کے خاندان والے کونسی محبت رکھتے ہوں گے۔ ان سے تو نفرت ہی کی جاتی ہو گی۔
ہمارا ملک تو اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے، لیکن اڑسٹھ سالوں میں انگریزی قانون پر نظر ثانی نہیں کی گئی۔ شاید آپ کہیں گے کہ قتل، ڈکیتیاں، اغوا، جنسی زیادتیاں، حتیٰ کہ اجتماعی جنسی زیادتیاں ہمارے ملک کے سوا دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی ہو رہی ہیں۔ ہاں، لیکن دوسرے ملک اسلام کے نام پر قائم نہیں ہوئے۔
کیا تحریک پاکستان کے دوران لوگوں سے انصاف اور برابری کے وعدے نہیں کیے گئے تھے؟ تحریک پاکستان میں تو ہر فرقے کے مسلمان نعرہ لگاتے تھے، لے کے رہیں گے پاکستان۔ تو اب ہم کیوں فرقوں میں نا صرف بٹ گئے ہیں، ان فرقوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بھی ہو گئے ہیں۔ کوئٹہ میں ایک فرقے کے لوگ دوسرے فرقے کے لوگوں پر قتل کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ کوئی ان کو روکنے والا نہیں ہے۔
یادش بخیر، مرد مومن مرد حق، ضیاالحق کے سنہری دور میں پنجاب کے ایک گاؤں نواب پور میں ایک چوہدری صاحب نے اپنے ایک مزارع کی بیوی کو برہنہ گاؤں میں گشت کرایا تھا۔ اس پر کوئی بھی ایکشن نہیں ہوا۔ بلکہ چوہدری صاحب کی موچھوں میں ایک اور بل آ گیا۔ غریب مزارع یہ سب بے عزتی اور خواری برداشت کرتا ہوا، اسی چوہدری صاحب کی زمین پر کام کرتا رہا۔
اس کے بعد بھی کچھ اور ایسے واقعات رونما ہوئے اور ہوتے رہتے ہیں، جو اخبارات کے صفحات کی زینت بنتے رہے ہیں، لیکن کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اْس وقت ملک میں صرف ایک ہی سرکاری ٹی وی چینل ہوتا تھا، جس پر اس قسم کی خبر کا آنا نا ممکن تھا۔ آج گو کہ ٹی وی کے پچاس کے قریب اور ایف ایم کے ان گنت چینل ہیں، جن پر اس قسم کے واقعات کی بریکنگ نیوز اور لال پٹیاں تو آ رہی ہیں، لیکن ان پر شاذ و نادر ہی کوئی ایکشن ہوتا ہو، جس میں اس قسم کے ظلم کرنے والوں کو کوئی قرار واقعی اور عبرت ناک سزا دی گئی ہو۔ ایک ہفتہ پہلے ایک واقعہ میری نظر سے گزرا، جس میں ایک پچیس سالہ نوجوان کو درخت سے باندھ کر، آگ لگا کر جلا دیا گیا۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم پتہ نہیں کس طرح آزاد ہوئے ہیں کہ ہمارے قوانین ابھی تک انگریز بہادر والے ہی ہیں، جن میں دادا کا مقدمہ پوتا لڑتا ہے۔ مرد مومن کے زمانے میں کوڑے صرف ایک سیاسی پارٹی کے اراکین کو لگائے گئے، کسی ایک بھی مجرم کو نہیں۔
کہنے کو تو یہ کہاوت ہے کہ انصاف میں دیر انصاف کی نفی کے برابر ہے، لیکن ایک نئی کہاوت بھی گھڑی گئی ہے، انصاف میں جلدی، انصاف کو دفن کرنے کے مترادف ہے۔ اس لیے مقدمے سالہاسال چلتے رہتے ہیں۔
انگریزی قانون میں (اور ہمارے ملک میں مروجہ قانون میں بھی) یہ ہے کہ اگر کوئی نابالغ، بالغوں والا جرم بھی کرے، تب بھی اس کو سزا نابالغوں والی ملے گی۔ دہلی میں جن لوگوں نے بس میں ایک لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی، ان میں ایک نابالغ نے بھی بہتی گنگا سے ہاتھ دھوئے۔
بالغ مجرموں کو سزائے موت ہوئی، جس پر عمل درآمد پتہ نہیں کتنی اور دہائیوں کے بعد ہو گا، لیکن نابالغ بچے کے وکلا صاحبان نے یہ استدلال دیا کہ چونکہ وہ نابالغ تھا اور ناسمجھی میں یہ کار نمایاں انجام دیا، اس لیے اسے سزائے موت نا دی جائے۔ کاش کہ یہ واقعہ اگر ان وکیل صاحبان میں سے کسی ایک کی بیٹی یا بہن کے ساتھ ہوتا، تو پھر اس کا رد عمل کیا ہوتا؟ لیکن قانون قانون ہوتا ہے۔
ابھی ہمارے ہاں بھی شفقت نامی ایک قاتل کا معاملہ عدالتوں میں زیر بحث رہا کہ جب اس نے ایک قتل کیا تھا اس وقت وہ نابالغ اور نا سمجھ تھا۔ اس کی عمر کے ریکارڈ میں بھی قطع و برید کر کے اسے نابالغ قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ بہر حال ان الفاظ لکھتے وقت معلوم ہوا کہ عدالت میں مقتول کے ورثا نے اس بات کا ثبوت فراہم کیا کہ وہ قتل کے وقت بالغ تھا۔ اس کی موت کا پروانہ عدالت سے جاری ہو چکا ہے۔ کیا مزے کی بات نہیں ہے کہ جرم تو بالغوں والا کیا جائے اور (اور وہ بھی مکمل بالغوں کی طرح)، لیکن سزا نابالغوں والی، آم کے آم، گٹھلیوں کے دام۔
انگریز کی حکومت میں کچھ خوبیاں بھی تھیں۔ اس نے بلدیاتی نظام اٹھارہ سو تراسی میں لوکل سیلف گورنمنٹ کے نام سے شروع کیا، جس کا مطلب تھا صوبائی حکومتوں کا بوجھ ہلکا کرنا اور مقامی لوگوں کو کار حکومت میں شامل کرنا۔ کارپوریشن، میونسپل اور لوکل کونسلوں کے انتخابات تو ہوتے تھے لیکن وہ غیر سیاسی ہوتے تھے۔ ماحول دوستانہ ہوتا تھا، جس میں کوئی دشمنیاں نہیں ہوتی تھی۔
عدالتوں پر سے مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لیے اچھی شہرت رکھنے والے ریٹائرڈ جج یا سرکاری عملداروں کو جسٹس آف پیس کے طور پر مقرر کیا جاتا تھا، جو لوگوں کے چھوٹے چھوٹے تنازعات نمٹاتے تھے، سزائیں بھی دیتے تھے اور اعلیٰ عدالتیں بھی ان کے فیصلے مانتی تھیں۔ لیکن یہ پورا سلسلہ غیر سیاسی ہوتا تھا۔ کوئی بھی سیاسی آدمی جسٹس آف پیس مقرر نہیں کیا جاتا تھا۔ کسی کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ کوئی سفارش کر سکے۔
ہمارے موجودہ بلدیاتی قانون میں بھی مصالحتی کونسلوں کی گنجائش ہے، لیکن چونکہ اب ہماری دنیا بدل چکی ہے۔ ہر چیز سیاسی ہے، اس لیے یہ سسٹم ناقابل عمل ہو چکا ہے۔ ہمارے موجودہ بلدیاتی نظام میں حکمرانوں کی دخل اندازی بدرجہ اتم موجود ہے۔ مثلا کونسلر تو منتخب ہوتے ہیں، لیکن میئر یا چیئرمین غیر منتخب ہوتا ہے، بلکہ مرکزی حکومت کا نامزد ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس نظام میں سے صوبوں کا عمل دخل ختم کر دیا گیا، جب کہ میں اوپر عرض کر چکا ہوں کہ بلدیاتی نظام بنا ہی صوبوں کی مدد کے لیے تھا اور ہم نے بلدیاتی نظام کا کیا حشر کیا ہے، اس کا کیا کہنا۔ ایوب خان نے بھی بنیادی جمہوریت کے نام سے 80 ہزار بے جمہوریے پیدا کیے تھے۔انگریز کی حکومت میں قاتلوں کی ضمانتیں نہیں ہوتی تھیں۔ ہمارے قانون میں قاتلوں کی بھی ضمانتیں ہوتی ہیں، جو ضمانت پر رہا ہو کر، بدلے چکاتے ہیں اور پھر قتل کرتے ہیں۔ہمارے ہاں جرگوں کا بھی ایک نظام رائج ہے، جس میں علاقے کے صرف با اثر لوگ منصف ہوتے ہیں۔
ان کا قانون بھی الگ ہوتا ہے، جو جہالت کے زمانے والی قبائلی روایتوں پر مبنی ہوتا ہے۔ گو کہ اعلیٰ عدالتیں اس نظام کو غیر قانونی قرار دے چکی ہیں، لیکن ابھی تک ان جرگوں کے منعقد کرنے والوں کو عدالتوں نے طلب کر کے ان سے اس غیر قانونی کام پر سرزنش نہیں کی۔ ان کے فیصلوں کی خبریں بھی اخبارات اور ٹی وی چینلز کی زینت بنتی رہتی ہیں۔
لیکن ایک بات ہے کہ ان میں فیصلے جلدی ہو جاتے ہیں، لوگوں کو سالہاسال عدالتوں کے چکر نہیں لگانے پڑتے ہیں۔ وہاں کوئی وکیل بھی نہیں ہوتا۔ گو کہ ان فیصلوں میں مصالحتیں بھی کرائی جاتی ہیں، لیکن سب سے برے فیصلے وہ ہوتے ہیں، جن کے تحت تین، چار سال کی معصوم بچیوں کو مقتول کے خاندان میں خون بہا کے طور پر بیاہ دیا جاتا ہے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ جو لڑکیاں خون بہا کے طور پر کسی خاندان کو بیاہی جاتی ہونگی، ان کے لیے مقتول کے خاندان والے کونسی محبت رکھتے ہوں گے۔ ان سے تو نفرت ہی کی جاتی ہو گی۔
ہمارا ملک تو اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے، لیکن اڑسٹھ سالوں میں انگریزی قانون پر نظر ثانی نہیں کی گئی۔ شاید آپ کہیں گے کہ قتل، ڈکیتیاں، اغوا، جنسی زیادتیاں، حتیٰ کہ اجتماعی جنسی زیادتیاں ہمارے ملک کے سوا دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی ہو رہی ہیں۔ ہاں، لیکن دوسرے ملک اسلام کے نام پر قائم نہیں ہوئے۔
کیا تحریک پاکستان کے دوران لوگوں سے انصاف اور برابری کے وعدے نہیں کیے گئے تھے؟ تحریک پاکستان میں تو ہر فرقے کے مسلمان نعرہ لگاتے تھے، لے کے رہیں گے پاکستان۔ تو اب ہم کیوں فرقوں میں نا صرف بٹ گئے ہیں، ان فرقوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بھی ہو گئے ہیں۔ کوئٹہ میں ایک فرقے کے لوگ دوسرے فرقے کے لوگوں پر قتل کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ کوئی ان کو روکنے والا نہیں ہے۔