خدا را اب تو بڑے ہوجائیں

میاں صاحب! پاکستان میں اقتدار کا سورج تو کب غروب ہوجائے کسی کو خبر نہیں۔ جس نے تکبر کیا، دھڑام سے نیچے آ گرا۔


June 11, 2015
وزیر اعظم صاحب !دلوں پر راج کرنا ہے تو دلوں کو فتح کرنا ہوگا،فوٹو:فائل

حکمرانوں کی کارکردگی کا اندازہ ان سے سابقہ حکومتوں سے موازنہ کرکے لگایا جاتا ہے، آیا کہ یہ ان سے بہتر ہے یا اس سے بھی گئی گزری؟ اسی کشمکش میں، میں بھی اپنے دماغ پر زور دینے لگا، سابقہ اور موجود دور حکومت میں موازنہ کرتے ہیں تو کئی معاملات میں تو خاص فرق نظر نہیں آتا۔ ہاں! لیکن کہیں کہیں کچھ بہتری بھی نظر آئی۔

بہرحال لوڈشیڈنگ میں تھوڑی سی کمی، سکیورٹی صورتحال میں بہتری، دہشتگردوں کے سرپرستوں کے اعلانیہ تعین، اداروں کی کارکردگی کی بہتری سے تو چشم پوشی ممکن نہیں۔ باقی فیصلہ عوام پر چھوڑتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں؟

جیسا کہ ایک تاثر پایا جاتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت جب بھی آئی اس نے عام آدمی کے بجائے خواص کو فائدہ پہنچایا، جو کہ ملکی آبادی کا دو چار فیصد ہونگے، اس میں کچھ کچھ صداقت بھی نظر آتی ہے۔ حکومتی کیمپ کے لوگ دن رات یہ تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں کہ ملک میں انفرا اسٹرکچر بہتر ہوگا تو قوم ترقی کرے گی، عام آدمی خوشحال ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ اُن کی بات ٹھیک ہوگی لیکن یہ بھی تو دیکھا جائے نا کہ جس ملک نے بھی ترقی کی ہے اس نے پہلے اپنے باشندوں کو تعلیم یافتہ کیا ہے، ان کیلئے روزی روٹی کا بندوبست کیا، ان کو چھت فراہم کی ہے، دو چار فیصد کو فائدہ پہنچا کر ترقی کا دعویٰ کیا جائے تو یہ اپنے آپ کو بیوقوف بنانے کے سوا کچھ نہیں۔

https://twitter.com/MunazaHassan/status/606889469292077057

ملک کی ترقی کی جھلک میں نے آفس آتے ہوئے لاہور کے کلمہ چوک پر بھی دیکھی۔ میٹرو بس، ہاں میٹروبس کے روٹ پر میں نے رش دیکھا، خبر کے تجسس میں نزدیک جانے پر پتا چلا کہ نابینا افراد بسوں کے آگے لیٹے ہوئے ہیں، ان کے گلے میں مختلف اداروں سے حاصل کی گئی ڈگریاں تھیں جو حکمرانوں کی ترقی کے دعوئوں کا ماتم کرنے کیلئے کافی تھیں۔ میٹرو پر تو اربوں خرچ کردیے گئے لیکن ان بیچاروں کو نوکری نہ مل سکی جو اس میٹرو کو دیکھ بھی نہیں سکتے، صرف یہ اندھے ہی رو پیٹ نہیں رہے بلکہ کئی آنکھوں والے بھی اس نام نہاد ترقی کا شکار ہیں۔ ایک سمجھدار سمجھ سکتا ہے کہ بڑے منصوبوں کا لوہا، سیمنٹ بیچنے والوں کو ہی فائدہ ہوسکتا ہے ہاتھ میں ڈگریاں تھامے اندھوں کو نہیں۔

قانون تو جیسے ہمارے ملک میں ہے ہی نہیں، جس کا جی چاہتا ہے ڈنڈا اٹھاکے خود ہی منصف، خود ہی وکیل اور خود ہی تھانیدار بن جاتا ہے۔ جس کی جھلک ہم نے لاہور کے ماڈل ٹاون، یوحنا آباد، فیصل آباد کے کینال روڈ، ڈسکہ کے بلدیہ آفس اور ملک کے دیگر حصوں میں دیکھی۔

روزانہ خبریں ملتی ہیں کہ فلاں علاقے میں فلاں کی بیٹی با اثر لوگوں کے ظلم کا شکار ہوگئی، کیوں؟ حوا کی بیٹیاں غیر محفوظ ہوگئیں، کہیں ان کی عزتیں پامال ہو رہیں تو کہیں زندگی سے جا رہی ہیں، معاشرہ غیرت، محبت، عزت وآبرو کے نام پر قتل کا نام دے کر روائیتی بے حسی کا مظاہرہ کررہا ہے۔

اب دیکھیں چند دن بعد رمضان المبارک شروع ہونیوالا ہے، ہمارے ملک میں اس کے استقبال کیلئے ذخیرہ اندوزوں، گراں فروشوں نے پہلے ہی سے پریکٹس شروع کردی ہے۔ سال کے گیارہ مہینے مارکیٹ نارمل رہتی ہے لیکن جیسے ہی رمضان آتا ہے تو لوٹ مار شروع ہوجاتی ہے۔ اشیاء خوردو نوش عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوجاتی ہیں، جو ملتی ہیں ان کی قیمتیں سن کر صارف کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا، کسی بھی مذہب میں جب کوئی تہوار آتا ہے تو اس کے ماننے والے ریلیف دیتے ہیں، اشیاء کی قیمتیں کم کردی جاتی ہیں تاکہ ایک عام شخص بھی خوشیوں میں شریک ہوسکے، لیکن ہمارے ہاں تو واہ واہ کرنے کو جی کرتا ہے۔ ہاں! حکومت نے یہاں بھی مہنگائی کا جن قابو کرنے کیلئے کمیٹیاں بنائی ہیں، ان کی کارکردگی بازار میں جاکر عیاں ہو جاتی ہے۔

حکمرانوں کو کوئی سمجھائے کہ عوام کا مسئلہ روٹی ہے، روٹی ملے گی تو یہ بڑے خوابوں کو حقیقت بنتے دیکھیں گے ناں! نوجوانوں کا اولین مسئلہ ملازمت ہے اور یہ مسئلہ میٹرو بس یا نئی سڑکوں کی تعمیر سے تو ظاہر ہے کہ حل نہیں ہو سکتا، تعلیم اور صحت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوانوں سمیت تمام شہروں کی فوری ضروریات پوری ہوسکیں، آپ نوجوانوں کو لیپ ٹاپ تو دے رہے ہو ساتھ میں انٹرنیٹ بھی مہنگا کررہے ہو۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟

میاں صاحب! ہر ڈھلتی شام کے ساتھ زندگی کا ایک دن غروب ہوجاتا ہے، صبح کا سورج کس نے دیکھا؟ پاکستان میں اقتدار کا سورج تو کب غروب ہوجائے کسی کو خبر نہیں۔ جس نے تکبر کیا، دھڑام سے نیچے آ گرا۔ خواہ ٹرک ہو یا لفٹر، کرسی ہو یا کنٹینر۔ جو چیز خدا کو ناپسند ہے وہ ٹھیک ہو ہی نہیں سکتی۔ آپ کے پاس وقت ہے، دولت اور اقتدار کی طاقت ہے، بدل ڈالیے اس پرانی روش کو، پرانے سیاست اور حکومت کے طریقوں کو۔ یہ جو ملک کے 18 کروڑ گوشت پوست کے انسان ہیں، جو بظاہر تو آپ کو گونگے، بہرے اور اندھے نظر آتے ہیں، حقیقت میں یہ ہیں نہیں، ان کا ضمیر نیند میں ہے جس دن جاگ گیا اس دن آٹا چینی کے بھاو کا حقیقت میں پتہ لگ جائے گا۔ اپنے ہی شیر کو جاگنے سے پہلے سدھا لیجئے، دلوں پر راج کرنا ہے تو دلوں کو فتح کرنا ہوگا جو شاید آپ کے مشیر کرنے نہیں دیں گے۔

67 برس ہوگئے پاکستان بنے، اس عمر میں تو بچے نہیں ملک بھی بالغ ہوجاتے ہیں، ہم ہیں کہ وہی روش، وہی طرز حکمرانی۔ وہی غلطیاں بار بار اور ہر بار، کبھی کراچی میں امن و امان کا مسئلہ، کبھی آپریشن کا آغاز، دھرنوں کا پھوٹ پڑنا، پٹرول کی عدم دستیابی، پٹرول بحران کے ذمہ داروں کا عدم تعین، پھر ملک بھر کا اندھیروں میں ڈوب جانا، پھر تیل کی قیمتوں میں کمی اور تیل کا پٹرول پمپوں سے غائب ہوجانا۔اور پھر بیروزگاری کا رونا ہے۔ اِس لیے اب بھی وقت ہے خدارا اب تو بالغ ہوجائیں کہ قسمت کی دیوی بہت دیر مہربان نہیں رہتی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں