آج کا دن چھوٹوں کے نام
انسدادِ چائلڈ لیبر ڈے کا مقصد چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی کرنا، بچوں کے تعلیم کے مساوی حقوق دلانا ہے۔
یہ بات کس سے ڈھکی چھپی ہے کہ بچے پھول کی حیثیت رکھتے ہیں اور ملک و قوم کا مستقبل انہی سے عبارت ہوتا ہے کہ انہیں ہی کل کو زمامِ کار تھامنا ہوتی ہے مگر یہ ننھے شگوفے اکثر حالات کے تلخ ہاتھوں سے مسلے جاتے ہیں اور معصومیت کی شاخوں سے ٹوٹ کر گلیوں کی دھول بن جاتے ہیں۔ ہر سال کتنے ہی بچے حالات کی چکی میں پس جاتے ہیں مگر کوئی انہیں یاد کرنے والا نہیں ہوتا اسی مقصد کیلئے ہر سال 12 جون کو انسدادِ چائلڈ لیبر ڈے منایا جاتا ہے جس کا مقصد چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی کرنا، بچوں کے تعلیم کے مساوی حقوق دلانا ہے۔ 2015ء میں چائلڈ لیبر، ''NO To Child Labour - YES To Quality Education'' کے تھیم کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 24,600,000 یعنی 24 کروڑ 60 لاکھ بچے اپنے بچپن سے محروم رہتے ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جو ہوش سنبھالتے ہی گھر سنبھالنے پر لگا دئیے جاتے ہیں جنہیں قدرت معصومیت کی بجائے کرختگی سکھاتی ہے، جو کھلونوں سے کھیلنے کی عمر میں کھلونے بیچنے لگتے ہیں، جو قلم تھامنے کی بجائے اوزار پکڑے نظر آتے ہیں اور جو اخبار پڑھنے کی بجائے سڑک کنارے، ٹریفک اشاروں پر اخبار بیچ رہے ہوتے ہیں۔
محنت کے عالمی ادارے آئی ایل او (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن) کے مطابق چائلڈ لیبر سے دنیا بھر میں 24 کروڑ 60 لاکھ بچے متاثر ہیں جسمیں سے تقریباً تین چوتھائی (تقریباً 17 کروڑ 10 لاکھ) سخت مشقت والے کام کرتے ہیں جیسے کہ کانوں میں کام کرنا، کیمیکلز کے ساتھ کام کرنا اور کھیتی باڑی کرنا، خطرناک مشینری کے ساتھ کام کرنا۔ بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں %33 بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں، یہاں تقریباً 12 ملین (1 کروڑ 20 لاکھ) سے زیادہ بچے چائلڈ لیبر کے طور پر کام کررہے ہیں اور اس تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، یونیسیف کے مطابق پاکستان میں 2012ء میں کام کرنیوالے کم عمر بچوں کی تعداد 1 کروڑ تھی مگر اب اس تعداد میں 20 فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ یہ تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ آئی ایل او اور یونیسیف کے مطابق بچوں کے کیے گئے ہر کام کو چائلڈ لیبر نہیں قرار دیا جا سکتا۔ چائلڈ لیبر یعنی بچوں کی مشقت اور چائلڈ ورک (بچوں کے کام) میں امتیاز ہے۔ اگر چائلڈ ورک بچے کی شخصی و جسمانی نشوونما اور اسکی تعلیم پر بُرا اثر نہیں ڈال رہا تو اس طرح کے کام کو چائلڈ لیبر نہیں قرار دیا جائے گا مثلاً اگر ایک بچہ اسکول سے واپس آکر یا اسکول کی تعطیلات کے دوران اگر کام کرتا ہے یا فیملی بزنس میں وہ ہاتھ بٹاتا ہے تو اسے چائلڈ لیبر نہیں قرار دیا جائے گا بلکہ اس طرح کی غیر نصابی سرگرمیوں کی عمومی طور پر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کیونکہ یہ کام تو بچوں کی شخصی نشوونما کیلئے بھی نہایت ضروری ہوتا ہے۔یہ نہ صرف انکو ہنر مند بناتا ہے بلکہ معاشرے کا قابل حصہ بننے میں بھی مدد دیتا ہے۔ آئی ایل او کے مطابق چائلڈ لیبر وہ کام ہے جس سے بچے اپنے بچپن کی امنگوں، باعزت و پُروقار طرزِ زندگی سے محروم ہوجائیں اور جو انکی جسمانی، ذہنی اور اخلاقی نشوونما کیلئے نقصان دہ ہو اور جس سے ان کی تعلیم میں حرج ہو۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم چائلڈ لیبر اور چائلڈ ورک میں فرق کیسے کریں؟ آئی ایل او کے مطابق اسکا تعین بچے کی عمر، کام کی نوعیت، اوقات اور حالات کار اور ممالک کی ڈویلپمنٹ اسٹیج کو سامنے رکھ کر کیا جانا چاہئے۔ یونیسیف کے مطابق چائلڈ لیبر دراصل وہ کام ہے جو بچے کیلئے بلحاظ عمر اور کام کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کم از کم متعین کردہ اوقات سے زیادہ ہو۔ لیکن اس سب کے باوجود پوری دنیا میں یہ ناسور عام ہے۔ براعظم ایشیاء میں چائلڈ لیبر کا شکار بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جہاں 12 کروڑ سے زائد بچے مزدوری کرتے ہیں جبکہ سب سے زیادہ شرح براعظم افریقہ میں ہے جہاں اندازاً ہر تیسرا بچہ مزدور ہے۔ چائلڈ لیبر کے شکار ان بچوں میں سے 90ل اکھ بچوں کو جرائم پیشہ سرگرمیوں میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ 3 لاکھ باقاعدہ عسکری کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ دنیا بھر میں 12 لاکھ بچوں کو خرید کر مزدور بنایا گیا ہے جبکہ 40-50 فیصد بچوں کو زبردستی کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر 70 فیصد بچے زراعت، 22 فیصد سروسز جبکہ نو 9 فیصد صنعتی شعبے کے ساتھ منسلک ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کچھ ایشیائی ملکوں میں افرادی قوت کا 10 واں حصہ چائلڈ لیبر پر مشتمل ہے۔ بھارت میں ساڑھے 15 سال سے کم عمر کے تقریباً 4.5 کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ بنگلا دیش اور نائیجیریا میں بھی مزدور بچوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں صرف صوبہ پنجاب میں 2500 سے زائد بھٹوں پر 5 سے 12 سال عمر تک کے ایک لاکھ سے زائد بچے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ شہروں میں گھر کی صفائی اور چھوٹے موٹے کاموں کے لیے تقریباً 30,000 بچے مصروف ہیں۔ بس اڈوں، سبزی، فروٹ منڈیوں، ہوٹلوں، ورکشاپوں اور دیگر صنعتیں تو چائلڈ لیبر کی خلاف ورزی کا گڑھ سمجھی جاتی ہیں۔
حالانکہ پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 3 کے تحت
آئین کے آرٹیکل 11 کے مطابق
آئین کے آرٹیکل 37 کے مطابق
ٹھہرئیے ! کیونکہ ابھی انسداد چائلڈ لیبر کے قوانین کا خاتمہ نہیں ہوا۔ درج ذیل قوانین صرف اور صرف چائلڈ لیبر کے تدارک کیلئے ہی بنائے گئے تھے؛
درج ذیل قوانین بچوں کی ملازمت سے متعلق ہیں اورکام کرنے والے بچوں کے حالات کار کو ضابطے میں لاتے ہیں؛
مگر شاید آئین کی موٹی موٹی کتابیں ٹی وی شوز اور وکیلوں کے دفاتر میں بیک گراونڈ میں موجود شیلف کو سجانے کے ہی کام آتی ہیں کیونکہ عملی زندگی میں ان کا کوئی عمل ہمیں نظر نہیں آتا۔ پاکستان میں ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے تحت بچے سے مراد وہ فرد ہے جس کی عمر 14 سال سے کم ہو جبکہ نوبالغ وہ ہے جس کی عمر 14 سال سے زیادہ لیکن 18 سال سے کم ہو۔ اگرچہ آئین میں بھی کم از کم عمر کی حد 14 سال ہے لیکن اٹھارویں ترمیم میں کم از کم عمر کی حد 14 سال سے بڑھا کر 16 سال کردی گئی اوراب آئین کی پچیسویں شق کے مطابق ریاست کیلئے ضروری ہے کہ وہ 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کیلئے لازمی اور مفت تعلیم کا انتظام کرے۔ تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کیلئے ضروری ہے کہ قانون میں موجود مستثنیات کا بھی ذکر کیا جائے کہ کن صورتوں میں قانون کا اطلاق نہیں ہوگا۔
''قانون کے مطابق بچوں کو کسی بھی ایسے پیشے، کاروباری ادارے اور پیداواری عمل میں کام کیلئے نہیں رکھا جا سکتا جسکا تعین خطرناک کام کے طور پر کیا گیا ہو تاہم اگر کوئی بچہ، خاندانی یا نجی کاروبار/فیملی بزنس میں مصروف عمل ہے یا کسی ٹریننگ/تربیتی اسکول (حکومت کا قائم کردہ یا منظور شدہ) میں ان پیشوں یا پیداواری عملوں سے متعلق ٹریننگ لے رہا ہو تو ان پر بچوں کی ملازمت سے متعلق ممانعت کا اطلاق نہ ہوگا''۔ تاہم ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ / بچوں کی ملازمت کے قانون مجریہ 1991 کی دفعہ چار کے تحت وفاقی حکومت ان تمام پیشوں اور پیداواری عملوں کے متعلق نوٹیفیکیشن جاری کرسکتی ہے جہاں بچوں کی ملازمت پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔
ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے حصہ سوم اور سیکشن 7 کے مطابق، کسی بھی بچے یا نوبالغ سے ایک دن میں 7 گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کروایا جا سکتا (اس میں آرام کا ایک گھنٹہ بھی شامل ہے گویا اصل میں 6 گھنٹے کا ہی کام کروایا جائے گا) اور کام کی ترتیب یوں رکھی جانا ضروری ہے کہ مسلسل کام کے ہر 3 گھنٹے بعد کم ازکم 1 گھنٹہ آرام کا وقفہ دینا ضروری ہے۔
شاپس اینڈ اسٹیبلش منٹس آرڈیننس کے تحت بچوں سے کسی بھی تجارتی/کاروباری ادارے میں کام نہیں کروایا جا سکتا (سیکشن بیس) جبکہ کم عمروں (یہ اصطلاح کمسنوں/بچوں اور نوبالغوں دونوں کیلیئے اکٹھی استعمال ہوتی ہے یعنی جنکی عمر 14 سے 18 سال کے درمیان ہو) سے صبح 9 بجے سے لیکر شام 7 بجے تک ہی کام کروایا جا سکتا ہے (سیکشن 7) اسی طرح سے اس ایکٹ کے سیکشن 8 کے تحت، کسی بھی کم عمر کو ایک دن میں 7 گھنٹے اور ایک ہفتے میں 42 گھنٹے سے زیادہ کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بچوں کی مشقت سے متعلق قانون یعنی چلڈرن (پلیجنگ آف لیبر) ایکٹ کے تحت ہر وہ معاہدہ کالعدم ہے جس میں کسی بچے کی مزدوری/کام کو کسی معاوضے یا فائدے کے عوض گروی رکھا گیا ہو۔ تاہم اس ایکٹ میں ایک استثنائی صورت یہ ہے کہ اگر یہ معاہدہ اسطرح کیا گیا ہو کہ اسکے مضر اثرات بچے پر نہ پڑیں یا بچے کی مزدوری مناسب اجرت کے عوض طے کی گئی ہو اور یہ معاہدہ ایک ہفتے کے نوٹس پر ختم کیا جا سکتا ہو توایسا کا معاہدہ کالعدم نہ ہوگا۔
ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے سیکشن 14 کے مطابق ''جو شخص بھی بچوں کو کسی ممنوع کام پر ملازم رکھتا ہے یا اسکی اجازت دیتا ہے تو اسے مبلغ 20 ہزار روپے تک جرمانہ، یا قید کی سزا جس کی مدت ایک سال تک ہو سکتی ہے، یا دونوں سزائیں اکٹھی دی جا سکتی ہیں۔ اگر وہ شخص دوبارہ اسی طرح کے جرم کا ارتکاب کرے تو اسکی کم از کم سزا 6 ماہ ہے جسکی مدت دوسال تک بڑھائی جاسکتی ہے۔
اب میرا قانون سازوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ چیلنج ہے کہ وہ کوئی ایسا شخص سامنے لے آئیں جسے پچھلے چھ ماہ کے دوران یا ایک سال یا دو سال کے دوران بھی مندرجہ بالا قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانے یا سزا کا سامنا رہا ہو۔ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ میں نے عرض کیا کہ اس طرح کے ایام ہمارے ہاں محض دنیا میں اپنا قد اونچا رکھنے اور آئین میں ہر طرح کا تحفظ فراہم کرنے کیلئے ہوتے ہیں وگرنہ عملی زندگی سے کسی کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
میں خود بھی کس بنیاد پر یہ بات کہہ سکتا ہوں؟ میرے گھر میں خود 16 سال سے کم عمر بچے کام کرتے ہیں، تاہم میں یہاں پر یہ قانونی نکتہ اٹھا سکتا ہوں کہ وہ 6 گھنٹے سے کم کام کرتے ہیں لیکن میں جس سے اپنی بائیک ٹھیک کرواتا ہوں وہ بھی تو 16 سال سے کم عمر ہے اور وہ 6 تو دور 16 گھنٹے سے زیادہ کام کرتا ہے۔ وہ اکیلا ہی کیا وہ پوری مارکیٹ، شہر کی ہر مارکیٹ ایسے بچوں سے بھری پڑی ہے، جو اپنے نازک کاندھوں پر وہ بوجھ اٹھائے پھر رہے ہیں جسے ڈھونا حقیقتاً ریاست کی ذمہ داری ہے۔
ایسے بچوں کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 24,600,000 یعنی 24 کروڑ 60 لاکھ بچے اپنے بچپن سے محروم رہتے ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جو ہوش سنبھالتے ہی گھر سنبھالنے پر لگا دئیے جاتے ہیں جنہیں قدرت معصومیت کی بجائے کرختگی سکھاتی ہے، جو کھلونوں سے کھیلنے کی عمر میں کھلونے بیچنے لگتے ہیں، جو قلم تھامنے کی بجائے اوزار پکڑے نظر آتے ہیں اور جو اخبار پڑھنے کی بجائے سڑک کنارے، ٹریفک اشاروں پر اخبار بیچ رہے ہوتے ہیں۔
محنت کے عالمی ادارے آئی ایل او (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن) کے مطابق چائلڈ لیبر سے دنیا بھر میں 24 کروڑ 60 لاکھ بچے متاثر ہیں جسمیں سے تقریباً تین چوتھائی (تقریباً 17 کروڑ 10 لاکھ) سخت مشقت والے کام کرتے ہیں جیسے کہ کانوں میں کام کرنا، کیمیکلز کے ساتھ کام کرنا اور کھیتی باڑی کرنا، خطرناک مشینری کے ساتھ کام کرنا۔ بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں %33 بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں، یہاں تقریباً 12 ملین (1 کروڑ 20 لاکھ) سے زیادہ بچے چائلڈ لیبر کے طور پر کام کررہے ہیں اور اس تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، یونیسیف کے مطابق پاکستان میں 2012ء میں کام کرنیوالے کم عمر بچوں کی تعداد 1 کروڑ تھی مگر اب اس تعداد میں 20 فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ یہ تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ آئی ایل او اور یونیسیف کے مطابق بچوں کے کیے گئے ہر کام کو چائلڈ لیبر نہیں قرار دیا جا سکتا۔ چائلڈ لیبر یعنی بچوں کی مشقت اور چائلڈ ورک (بچوں کے کام) میں امتیاز ہے۔ اگر چائلڈ ورک بچے کی شخصی و جسمانی نشوونما اور اسکی تعلیم پر بُرا اثر نہیں ڈال رہا تو اس طرح کے کام کو چائلڈ لیبر نہیں قرار دیا جائے گا مثلاً اگر ایک بچہ اسکول سے واپس آکر یا اسکول کی تعطیلات کے دوران اگر کام کرتا ہے یا فیملی بزنس میں وہ ہاتھ بٹاتا ہے تو اسے چائلڈ لیبر نہیں قرار دیا جائے گا بلکہ اس طرح کی غیر نصابی سرگرمیوں کی عمومی طور پر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کیونکہ یہ کام تو بچوں کی شخصی نشوونما کیلئے بھی نہایت ضروری ہوتا ہے۔یہ نہ صرف انکو ہنر مند بناتا ہے بلکہ معاشرے کا قابل حصہ بننے میں بھی مدد دیتا ہے۔ آئی ایل او کے مطابق چائلڈ لیبر وہ کام ہے جس سے بچے اپنے بچپن کی امنگوں، باعزت و پُروقار طرزِ زندگی سے محروم ہوجائیں اور جو انکی جسمانی، ذہنی اور اخلاقی نشوونما کیلئے نقصان دہ ہو اور جس سے ان کی تعلیم میں حرج ہو۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم چائلڈ لیبر اور چائلڈ ورک میں فرق کیسے کریں؟ آئی ایل او کے مطابق اسکا تعین بچے کی عمر، کام کی نوعیت، اوقات اور حالات کار اور ممالک کی ڈویلپمنٹ اسٹیج کو سامنے رکھ کر کیا جانا چاہئے۔ یونیسیف کے مطابق چائلڈ لیبر دراصل وہ کام ہے جو بچے کیلئے بلحاظ عمر اور کام کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کم از کم متعین کردہ اوقات سے زیادہ ہو۔ لیکن اس سب کے باوجود پوری دنیا میں یہ ناسور عام ہے۔ براعظم ایشیاء میں چائلڈ لیبر کا شکار بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جہاں 12 کروڑ سے زائد بچے مزدوری کرتے ہیں جبکہ سب سے زیادہ شرح براعظم افریقہ میں ہے جہاں اندازاً ہر تیسرا بچہ مزدور ہے۔ چائلڈ لیبر کے شکار ان بچوں میں سے 90ل اکھ بچوں کو جرائم پیشہ سرگرمیوں میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ 3 لاکھ باقاعدہ عسکری کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ دنیا بھر میں 12 لاکھ بچوں کو خرید کر مزدور بنایا گیا ہے جبکہ 40-50 فیصد بچوں کو زبردستی کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر 70 فیصد بچے زراعت، 22 فیصد سروسز جبکہ نو 9 فیصد صنعتی شعبے کے ساتھ منسلک ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کچھ ایشیائی ملکوں میں افرادی قوت کا 10 واں حصہ چائلڈ لیبر پر مشتمل ہے۔ بھارت میں ساڑھے 15 سال سے کم عمر کے تقریباً 4.5 کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ بنگلا دیش اور نائیجیریا میں بھی مزدور بچوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں صرف صوبہ پنجاب میں 2500 سے زائد بھٹوں پر 5 سے 12 سال عمر تک کے ایک لاکھ سے زائد بچے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ شہروں میں گھر کی صفائی اور چھوٹے موٹے کاموں کے لیے تقریباً 30,000 بچے مصروف ہیں۔ بس اڈوں، سبزی، فروٹ منڈیوں، ہوٹلوں، ورکشاپوں اور دیگر صنعتیں تو چائلڈ لیبر کی خلاف ورزی کا گڑھ سمجھی جاتی ہیں۔
حالانکہ پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 3 کے تحت
''مملکت، استحصال کی تمام اقسام کے خاتمہ اور اس بنیادی اصول کی تدریجی تکمیل کو یقینی بنائے گی کہ ہر کسی سے اسکی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے گا اور ہر کسی کو اسکے کام کے مطابق معاوضہ دیا جائے گا''۔
آئین کے آرٹیکل 11 کے مطابق
''14 سال سے کم عمر بچے کو کسی کارخانے یا کان یا دیگر پرخطر ملازمت میں نہیں رکھا جائے گا''۔ آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت ''ریاست تمام 5 سال کی عمر سے لیکر 16 سال کی عمر کے بچوں کیلئے لازمی اور مفت تعلیم دینے کا انتظام کرے گی، جس کا تعین قانون کر ے گا''۔
آئین کے آرٹیکل 37 کے مطابق
''ریاست منصفانہ اور نرم شرائط کار، اس امر کی ضمانت دیتے ہوئے کہ بچوں اور عورتوں سے ایسے پیشوں میں کام نہ لیا جائے گا جو انکی عمر یا جنس کیلئے نا مناسب ہوں، مقرر کرنے اور ملازم عورتوں کیلئے زچگی سے متعلق مراعات دینے کیلئے احکام وضع کرے گی''۔
ٹھہرئیے ! کیونکہ ابھی انسداد چائلڈ لیبر کے قوانین کا خاتمہ نہیں ہوا۔ درج ذیل قوانین صرف اور صرف چائلڈ لیبر کے تدارک کیلئے ہی بنائے گئے تھے؛
ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1991
ایمپلائمنٹ آف چلڈرن رولز1995
درج ذیل قوانین بچوں کی ملازمت سے متعلق ہیں اورکام کرنے والے بچوں کے حالات کار کو ضابطے میں لاتے ہیں؛
مائنز ایکٹ 1923
چلڈرن (پلیجنگ آف لیبر) ایکٹ 1933
فیکٹریز ایکٹ 1934
روڈ ٹرانسپورٹ ورکرز آرڈیننس 1961
شاپس اینڈ اسٹیبلش منٹس آرڈیننس 1969
مرچنٹ شپنگ آرڈیننس 2001
مگر شاید آئین کی موٹی موٹی کتابیں ٹی وی شوز اور وکیلوں کے دفاتر میں بیک گراونڈ میں موجود شیلف کو سجانے کے ہی کام آتی ہیں کیونکہ عملی زندگی میں ان کا کوئی عمل ہمیں نظر نہیں آتا۔ پاکستان میں ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے تحت بچے سے مراد وہ فرد ہے جس کی عمر 14 سال سے کم ہو جبکہ نوبالغ وہ ہے جس کی عمر 14 سال سے زیادہ لیکن 18 سال سے کم ہو۔ اگرچہ آئین میں بھی کم از کم عمر کی حد 14 سال ہے لیکن اٹھارویں ترمیم میں کم از کم عمر کی حد 14 سال سے بڑھا کر 16 سال کردی گئی اوراب آئین کی پچیسویں شق کے مطابق ریاست کیلئے ضروری ہے کہ وہ 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کیلئے لازمی اور مفت تعلیم کا انتظام کرے۔ تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کیلئے ضروری ہے کہ قانون میں موجود مستثنیات کا بھی ذکر کیا جائے کہ کن صورتوں میں قانون کا اطلاق نہیں ہوگا۔
''قانون کے مطابق بچوں کو کسی بھی ایسے پیشے، کاروباری ادارے اور پیداواری عمل میں کام کیلئے نہیں رکھا جا سکتا جسکا تعین خطرناک کام کے طور پر کیا گیا ہو تاہم اگر کوئی بچہ، خاندانی یا نجی کاروبار/فیملی بزنس میں مصروف عمل ہے یا کسی ٹریننگ/تربیتی اسکول (حکومت کا قائم کردہ یا منظور شدہ) میں ان پیشوں یا پیداواری عملوں سے متعلق ٹریننگ لے رہا ہو تو ان پر بچوں کی ملازمت سے متعلق ممانعت کا اطلاق نہ ہوگا''۔ تاہم ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ / بچوں کی ملازمت کے قانون مجریہ 1991 کی دفعہ چار کے تحت وفاقی حکومت ان تمام پیشوں اور پیداواری عملوں کے متعلق نوٹیفیکیشن جاری کرسکتی ہے جہاں بچوں کی ملازمت پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔
ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے حصہ سوم اور سیکشن 7 کے مطابق، کسی بھی بچے یا نوبالغ سے ایک دن میں 7 گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کروایا جا سکتا (اس میں آرام کا ایک گھنٹہ بھی شامل ہے گویا اصل میں 6 گھنٹے کا ہی کام کروایا جائے گا) اور کام کی ترتیب یوں رکھی جانا ضروری ہے کہ مسلسل کام کے ہر 3 گھنٹے بعد کم ازکم 1 گھنٹہ آرام کا وقفہ دینا ضروری ہے۔
شاپس اینڈ اسٹیبلش منٹس آرڈیننس کے تحت بچوں سے کسی بھی تجارتی/کاروباری ادارے میں کام نہیں کروایا جا سکتا (سیکشن بیس) جبکہ کم عمروں (یہ اصطلاح کمسنوں/بچوں اور نوبالغوں دونوں کیلیئے اکٹھی استعمال ہوتی ہے یعنی جنکی عمر 14 سے 18 سال کے درمیان ہو) سے صبح 9 بجے سے لیکر شام 7 بجے تک ہی کام کروایا جا سکتا ہے (سیکشن 7) اسی طرح سے اس ایکٹ کے سیکشن 8 کے تحت، کسی بھی کم عمر کو ایک دن میں 7 گھنٹے اور ایک ہفتے میں 42 گھنٹے سے زیادہ کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بچوں کی مشقت سے متعلق قانون یعنی چلڈرن (پلیجنگ آف لیبر) ایکٹ کے تحت ہر وہ معاہدہ کالعدم ہے جس میں کسی بچے کی مزدوری/کام کو کسی معاوضے یا فائدے کے عوض گروی رکھا گیا ہو۔ تاہم اس ایکٹ میں ایک استثنائی صورت یہ ہے کہ اگر یہ معاہدہ اسطرح کیا گیا ہو کہ اسکے مضر اثرات بچے پر نہ پڑیں یا بچے کی مزدوری مناسب اجرت کے عوض طے کی گئی ہو اور یہ معاہدہ ایک ہفتے کے نوٹس پر ختم کیا جا سکتا ہو توایسا کا معاہدہ کالعدم نہ ہوگا۔
ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے سیکشن 14 کے مطابق ''جو شخص بھی بچوں کو کسی ممنوع کام پر ملازم رکھتا ہے یا اسکی اجازت دیتا ہے تو اسے مبلغ 20 ہزار روپے تک جرمانہ، یا قید کی سزا جس کی مدت ایک سال تک ہو سکتی ہے، یا دونوں سزائیں اکٹھی دی جا سکتی ہیں۔ اگر وہ شخص دوبارہ اسی طرح کے جرم کا ارتکاب کرے تو اسکی کم از کم سزا 6 ماہ ہے جسکی مدت دوسال تک بڑھائی جاسکتی ہے۔
اب میرا قانون سازوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ چیلنج ہے کہ وہ کوئی ایسا شخص سامنے لے آئیں جسے پچھلے چھ ماہ کے دوران یا ایک سال یا دو سال کے دوران بھی مندرجہ بالا قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانے یا سزا کا سامنا رہا ہو۔ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ میں نے عرض کیا کہ اس طرح کے ایام ہمارے ہاں محض دنیا میں اپنا قد اونچا رکھنے اور آئین میں ہر طرح کا تحفظ فراہم کرنے کیلئے ہوتے ہیں وگرنہ عملی زندگی سے کسی کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
میں خود بھی کس بنیاد پر یہ بات کہہ سکتا ہوں؟ میرے گھر میں خود 16 سال سے کم عمر بچے کام کرتے ہیں، تاہم میں یہاں پر یہ قانونی نکتہ اٹھا سکتا ہوں کہ وہ 6 گھنٹے سے کم کام کرتے ہیں لیکن میں جس سے اپنی بائیک ٹھیک کرواتا ہوں وہ بھی تو 16 سال سے کم عمر ہے اور وہ 6 تو دور 16 گھنٹے سے زیادہ کام کرتا ہے۔ وہ اکیلا ہی کیا وہ پوری مارکیٹ، شہر کی ہر مارکیٹ ایسے بچوں سے بھری پڑی ہے، جو اپنے نازک کاندھوں پر وہ بوجھ اٹھائے پھر رہے ہیں جسے ڈھونا حقیقتاً ریاست کی ذمہ داری ہے۔
ایسے بچوں کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
''یہ جو ڈھابوں، دکانوں، ورکشاپوں، بھٹوں پر کام کرنے والے چھوٹے ہوتے ہیں نا، یہ دراصل اپنے گھر کے بڑے ہوتے ہیں''۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس