بیچارے ڈاکو بھائی
پھانسی کے وقت حکام بالا نے ہمارے نانا حضور سے دریافت کیا کہ آپ مجر م کو معاف کرنا چاہیں گے
وطن عزیز کی آزادی کے لگ بھگ پہلے عشرے تک جدید اسلحہ نہ تھا بلکہ آپس کے لڑائی جھگڑوں اور مختلف وارداتوں میں اپنے حریف کو شکست دینے کے لیے لاٹھی، تیز دھار والا چاقو، کلہاڑی یا اینٹ پتھر کا سہارا لیا جاتا تھا۔
ہاں البتہ دیسی ساخت کی بندوقیں ضرور تھیں جو ہر عام آدمی کی قوت خرید سے باہر تھیں۔ چوری جیسے معاشرتی اور موذی جرم کا رواج زمانہ قدیم ہی سے چلا آ رہا ہے (یہ یاد رہے کہ یہاں معزز بجلی چوروں کی بات نہیں ہو رہی) چوری کی عادت بچپن سے پیدا ہوتی ہے بشرطیکہ والدین اس کا سختی سے تدارک نہ کریں وگرنہ وہ پختگی کا شکار ہو جاتے ہیں قطع نظر اس کے کہ چوری کا عمل قدرتی اور فطری طور پر ایک انسانی نفسیات ہے یہ اس وقت شدت سے جنم لیتی ہے جب معاشرے میں جہالت، غربت اور معاشی نا انصافیاں ہوں۔
پرانے وقتوں میں آج کی طرح جدید اسلحے سے لیس ڈاکوؤں کا تصور تک نہ تھا بلکہ چھوٹے موٹے چور اچکے ہوا کرتے تھے جو جلد ہی پولیس کے ہتھے چڑھ جاتے تھے اور پولیس ان کو اپنے مذموم کارروائیوں کے لیے استعمال کیا کرتی تھی جس سے وہ چوری جیسے جرائم میں مزید بار آور ہو جانے کے بعد پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کی خوشحالی کا اہم ذریعہ بن جاتے تھے۔
کل کا چور غیر تربیت یافتہ اور بزدل تھا ان کی بزدلی کا عالم تو ملاحظہ فرمائیں کہ وہ قفل شدہ گھروں اور دکانوں، شاپنگ مالز، میں درمیانی شب کے ایسے وقت میں نقب زنی کرتے جب گھر والے خواب خرگوش کے عالم میں اور اس دنیائے فانی سے بے نیاز اور بے خبر گہری نیند سو رہے ہوتے۔ یہ ایک انجانے خوف میں مبتلا چوری چھپے اپنا کام سر انجام دیا کرتے تھے۔ آج جہاں دنیائے سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ جدید حربی ہتھیاروں نے ترقی کی وہاں چور بھی ترقی یافتہ ہو کر ڈکیت بن گئے۔ اسی اسلحے کے زور پر وہ بے حد نڈر، تربیت یافتہ اور بے باک ہو چکے ہیں۔
تھوڑی سی مزاحمت پر جان لینے سے بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ ظاہر ہے انسان کی جان کا کوئی مول ہے نہ ہی نعم البدل۔ جان ایک مرتبہ گئی واپس نہیں آتی۔ یعنی انسانی جان کا ضیاع ایک نا قابل واپسی عمل ہے۔ مال کا تو مول بھی ہے اور نعم البدل بھی۔ جان سلامت ہے تو مال بھی ہے ورنہ ہر شے بے رنگ اور بیکار ہے۔ اسی لیے انسانی جان مقدم ہے۔اب ''چور چوری سے جائے، ہیرا پھیری سے نہ جائے'' کی ضرب المثل کے مصداق ہر ضروریہ اشیاء میں ملاوٹ کا فیشن عام ہو گیا ہے حتیٰ کہ جعلی کرنسی کا کاروبار، جعلی ادویات کی فروخت، اصل اور نقل میں فرق کی پہچان معدوم ہے۔
چور یا ڈاکو ایسی چیز پر ہاتھ مارنے کو ترجیح دیتے ہیں جو وزن میں ہلکی، بیش قیمت اور جلد از جلد قابل فروخت ہو۔ جیسے نقدی (Cash)، نقدی کی شکل کی دوسری صورت انعامی بانڈز، قیمتی دھات، سونا یا طلائی زیورات، موبائل، موٹر سائیکل وغیرہ۔ یہ ایک ابدی اور دائمی حقیقت ہے کہ طلائی زیورات یا سونا ہمارے معاشرے کی صنف نازک کی ہر دور میں کمزوری اور ضرورت رہی ہے اور یہ نسوانی حسن کی پہچان بھی ہے۔ یہ ایک بیش قیمت شے ہے جو ہنگامی ضروریات کو پور ا کرنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ طویل المدت سرمایہ کاری کے لیے بھی مفید ہے۔
روپے پیسے کو پس انداز کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ وراثتی طور پر بھی اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر بد قسمتی سے ہونیوالے یکے بعد دیگرے خواتین سے اسلحے کے زور پر ان زیورات کی لوٹ مار کے واقعات نے خواتین کو آرٹیفشل جیولری زیب تن کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ مزے کی بات دیکھیے جو قابل غور بھی ہے کہ یہ آرٹیفشل جیولری کی زیبائش و آرائش اپنے خوشنما نقش و نگار کے ساتھ اتنے خوبصورت اور منفرد انداز میں کی جاتی ہے کہ اصل اور نقل میں فرق نہایت ہی مشکل کام ہے۔
اس ضمن میں حال ہی میں ہمارے قریبی عزیز کے گھر میں ڈکیتی کی واردات رونما ہوئی۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں۔ چند مسلح افراد دن دہاڑے نقب زنی کے ذریعے گھر میں داخل ہوئے، گھر کا کوئی فرد اس وقت گھر میں موجود نہیں تھا۔ ڈاکوؤں نے موقع غنیمت جان کر گھر کی تمام الماریاں اور لاکرز تلٹ پلٹ کر دیں۔ ان لاکرز میں مختلف اشیاء کے ساتھ انھوں نے مصنوعی طلائی زیورات سے تیار کردہ خوبصورت سیٹ ملا جس میں وہ اصل اور نقل کی تمیز نہ کر سکے، وہ سمجھے کہ اصل ہے اور زیادہ مالیت پر مبنی ہے۔ تمام سامان چھوڑ کر صرف اسی پر قناعت کرتے ہوئے گھر سے فرار ہو گئے۔ ہمیں اندازہ ہے کہ ان کے ڈاکو بھائیوں نے جو چھترول کی ہو گی وہ ناقابل بیان اور قابل دید ضرور ہو گی۔
ہمارا مشورہ ہے کہ ایسے نام نہا د ڈاکوؤں کو جبری ریٹائرمنٹ حاصل کر کے پکوڑوں کا ٹھیلا لگا لینا چاہیے، اسی میں ان کے حق میں بھلائی ہو گی۔ہم بہت چھوٹے تھے اور لاہور میں رہتے تھے، اسی دوران کراچی میں مقیم ہماری والدہ محترمہ کے جواں سال بھائی علی کاظم نقوی چور کی چُھری کے وار سے موقع پر ہی دم توڑ گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ کسی قسم کی چوریوں کا خطرہ تو دور کی بات کوئی پٹاخہ تک نہیں چلاتا تھا، گھروں کے دروازے کھلے رہا کرتے تھے۔ مرحوم کو تعلیم اور علم حاصل کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔
ایک شام وہ اپنے گھر کی گلی والی بیٹھک نما کمرے میں مطالعہ میں مصروف تھے کمرے کا دروازہ حسب معمو ل کھلا ہوا تھا۔ کہیں آس پڑوس میں چوری کی واردات کے دوران لوگوں نے شور مچا دیا اور انھوں نے ان میں سے ایک چور کا تعاقب شروع کر دیا، کمرے کا دروازہ کھلا تھا وہ پناہ کی خاطر کمرے میں داخل ہو گیا۔ مرحوم نے اسے جکڑ لیا اسی اثناء میں اس نے مرحوم کے سینے پر چھری کا وار کر دیا اور فرار ہو گیا وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اس دنیائے فانی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔ یہ مشک خاکی پھول کی مانند ہوا کرتے ہیں۔
کہتے ہیں بچے معصوم ہوتے ہیں اور اسی معصومیت میں وہ سچ بھی بولتے ہیں۔ ہماری دکھی والدہ سناتی ہیں کہ ایک دن گلی میں بچے کھیل رہے تھے۔ بچوں کی لڑائی کے دوران ایک بچہ دوسرے بچوں کو دھمکی دیتے ہوئے بولا میرے ماموں چاقو سے انسان کا قتل کر دیتے ہیں وہ اس وقت گھر پر سور ہے ہیں میں ابھی ان کو بلاتا ہوں۔ کسی سیانے نے یہ بات سن کر فوراً علاقے کی پولیس کو اطلاع دی اور یوں پولیس نے یکدم گھر پر چھاپہ مار کر آلہ قتل کے ساتھ گرفتار کر لیا۔ مختصر مقدمے کے بعد متذکرہ چور کو سزائے موت کا حکم ہوا۔
پھانسی کے وقت حکام بالا نے ہمارے نانا حضور سے دریافت کیا کہ آپ مجر م کو معاف کرنا چاہیں گے یا پھانسی کی سزا پر عمل درآمد چاہیں گے تو انھوں نے جواب میں کہا ''اس کو چاہے معاف کرو یا پھانسی دو اس بات سے کسی قسم کا میرا کوئی تعلق نہیں۔ میرا جواں سال لخت جگر اور میرے بڑھاپے کا سہارا مجھ سے جدا ہو گیا ہے وہ واپس تو نہیں آ سکتا۔''عصر حاضر ان ترقی یافتہ سابقہ چوروں سے پولیس کی کالی بھیڑیں محروم ہو گئیں ہیں اب یہ بڑی بڑی ملک گیر مذہبی تنظیموں اور سیاسی گروہوں کے لیے بھاری رقوم کے عوض انجام دے رہی ہیں۔
اسی لیے تو پولیس کا واحد ذریعہ معاش موٹر سائیکلوں پر ڈبل سواری کی پابندی یا حال میں موٹر سائیکل سوارکے لیے ہیلمٹ کی پابندی عائد کرنا، بجلی چوروں کے خلاف کراچی الیکٹرک کے ساتھ مل کر آپریشن میں حصہ لینا، بہت مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے۔ مئی کا مہینہ اختتام کو پہنچا اس مہینے کا آغاز مزدوروں اور محنت کشوں کے عالمی دن سے ہوا۔ عجیب دنیا کا دستور ہے ''یہاں سو کلو گرام اناج کی بوری جو اٹھا سکتا ہے وہ خرید نہیں سکتا، جو خرید سکتا ہے وہ اٹھا نہیں سکتا، دن مزدوروں کا چھٹی افسروں کی۔ فقط قارئین کی دعاؤں کا طالب ۔''خاک نشین''