علیحدگی پسندتحریکوں کاعفریب

اس وقت ایک غیرمنظم طریقے سے"جنگی جنون" کی داغ بیل ڈالی جارہی ہے


راؤ منظر حیات June 13, 2015
[email protected]

KARACHI: سنجیدہ تجزیہ،موثرتدبیر،غیرمتعصب حکمت عملی اوراس پر مضبوطی سے عمل۔کامیاب قومیں یہی کرتی ہیں۔عملی معاملات میں جذباتیت کونزدیک نہیں پھٹکنے دیتیں۔مگریہاں معاملہ بالکل الٹاہے۔جذباتیت،مبالغہ آرائی اورشدیدالفاظ پرمبنی جملے۔نتیجہ کیاہے۔سب کومعلوم۔دلیل توکب سے اس خطہ سے اٹھ چکی۔حیران ہوں کہ محمدعلی جناح جیساغیرجذباتی لیڈر یہاں کیسے پیداہوگیا۔حیران ہوں!

اس وقت ایک غیرمنظم طریقے سے"جنگی جنون" کی داغ بیل ڈالی جارہی ہے۔ہروہ شخص جوآج کے زمانے کی سنجیدہ جنگی حکمت عملی سے ناواقف ہے،جاہلانہ بیان دینا اپنا قومی فریضہ سمجھ رہاہے۔کان پڑی آوازسنائی نہیں دے رہی۔ ایسے لگ رہاہے کہ پاکستان اورہندوستان کے درمیان میدان جنگ سجنے ہی والا ہے۔کم ازکم کچھ ٹی وی چینل تو یہی پیغام دے رہے ہیںیاوہ دانستہ طورپریہی چاہتے ہیں۔ مگرمجھے یقین ہے کہ جنگ یامحدودجنگ جیسی کاروائی، دونوں میں سے کوئی بھی ملک اس کی تاب نہیں لاسکتا۔

ہندوستان اوربرماکابارڈر1624ء کلومیٹرطویل ہے۔ چارریاستیں،یعنی مَنی پور،میزورام،ناگالینڈاورارونچل پردیش اس بین الاقوامی سرحدپرواقع ہیں۔سرحدپرسیکیورٹی کے تسلی بخش انتظام نہ ہونے کی بدولت اسمگلنگ اورمنشیات کی خریدو فروخت بالکل عام ہے۔لیکن سب سے مشکل حقیقت وہ باغی افرادہیں جوعلیحدگی کی تحریکیں چلارہے ہیں۔ان میں سے اکثریت اس سرحدکوتسلیم نہیں کرتی۔ ہندوستانی فوج اوربارڈر پولیس کونقصان پہنچاکربڑے اطمینان سے سرحدکوعبورکرکے برمامیں پناہ لے لیتے ہیں۔یہ مسئلہ عرصہ درازسے جاری ہے۔

میں اس پرتھوڑی دیرمیں عرض کرتاہوں۔تقریباًدس دن قبل، انڈین آرمی کے ایک قافلے پرمنی پورریاست کے چنڈل ضلع میں بھرپورحملہ ہوا۔اس میں بیس فوجی قتل اورپندرہ شدیدزخمی ہوگئے۔یہ تمام کاروائی علیحدگی پسندگوریلوں نے کی۔نقصان پہنچانے کے بعدوہ برماکے اندرواقع ساگینگ جنگل میں چلے گئے۔یہاں یہ اَمربھی قابل غورطلب ہے کہ حالیہ دورمیں متعددگوریلاگروہ آپس میں ضم ہوگئے ہیں اورانھوں نے انڈین آرمی کومکمل طورپرزچ کردیاہے۔برماکی حکومت کے پاس وہ فوجی اہلیت نہیں کہ وہ اپنے علاقے میں سے ان باغیوں کو باہرنکال سکے یاانکوکسی طرح کابھی نقصان پہنچا سکے۔

اگرمیں یہ عرض کروں کہ برماکی فوجی کمزوری عرصہ درازسے ہے، تویہ حقیقت کے برعکس نہیں ہوگا۔نتیجہ میں ہندوستان اور برماکی حکومت نے کئی دفاعی معاہدے کررکھے ہیں۔ ہندوستان نے باغیوں کے خلاف دودن پہلے فوجی آپریشن کیا، یہ کسی صورت میںHot persuitکے زمرے میں نہیں آتا ہے۔ثبوت یہ ہے کہ میانمر فوج نے اس پورے علاقے کو گھیرے میں لیاہواتھا،جہاں انڈین کمانڈوزنے45منٹ کا آپریشن کیا۔

اس آپریشن کومکمل طورپربرماکی حکومت کی تائید حاصل تھی۔میجرجنرل رنبیرسنگھ نے آپریشن کے متعلق تفصیل سے بتایامگر مرنے والے یازخمی باغیوں کی تعدادکے متعلق کسی قسم کی کوئی بات نہیں کی۔یہ ضروربتایاگیاکہ آپریشن ایک سے زیادہ تھے اوراونزیا(Onzia)کے مقام پربھی باغیوں کے خلاف کاروائی کی گئی۔جزئیات کسی بھی حکومتی ذرایع نے ظاہر نہیں کیں۔جنرل رنبیرسنگھ نے یہ ضرورکہا،کہ اس تمام آپریشن کووزیراعظم کی اجازت کے بعدکیاگیا۔یہاں تک اس آپریشن میں کوئی خاص بات نہیں کیونکہ برمااورہندوستان کی فوجیں اپنے اپنے علاقائی باغیوں کے تعاقب میں اکثربین الاقوامی سرحدکوعبورکرتے رہتی ہیں۔یہ مکمل روٹین کی بات ہے مگرفوجی آپریشن کے بعدہندوستان کی سیاسی قیادت نے اس سے فائدہ اٹھانے کی بھرپورکوشش کی۔

ان کے دووزراء نے پریس کانفرنس میں یہاں تک کہہ دیاکہ موجودہ حکومت کی جنگی حکمت عملی اب یہ ہے،کہ جوبھی ان کے ملک میں نقصان پہنچائیگا، اسکاتعاقب کیاجائیگااور نقصان پہنچانے والوں کو ان کے اپنے ملک میں فناکردیاجائیگا۔ٹائمزآف انڈیانے جب یہ بیانات شایع کیے توہندوستان میں تبصروں کاایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ اب ان بیانات کارخ پاکستان کی طرف موڑدیاگیا۔لب لباب یہ کہ اگرہندوستان میں کوئی بھی دہشت گردی کاواقعہ ظہورپذیرہوتاہے توانڈیابین الاقوامی سرحدکی پرواہ کیے بغیر ہمارے ملک میں فوجی کاروائی کرسکتاہے۔یہ طرزِعمل انتہائی غیرذمے دارانہ اورقابل مذمت ہے۔

نتیجہ یہ ہواکہ پاکستان میں دھواں داربیانات شروع ہو گئے اورایک ہیجان ساپیدا کردیا گیا،جسکاکوئی جوازتھااورنہ ہے۔ وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے انتہائی مدابرانہ پالیسی بیان دیاجس میں اچھے تعلقات کوبرابری کے اصول کے حوالے سے منسلک کیاگیا۔میری دانست میں یہ انتہائی سنجیدہ اورٹھوس بات ہے۔لیکن کیونکہ ان دو دنوں میں اتنی جذباتیت پھیلادی گئی کہ اس سطح کے پالیسی بیان کوبھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔یہاں تک کہاگیاکہ یہ ایک دن کی تاخیرسے جاری کیا گیااوریہ حالات کوقابومیں کرنے کے لیے مجبوراً دیا گیا۔

موجودہ حالات میں وزیراعظم کابیان مناسب وقت پربھی ہے اور درست لب ولہجہ میں دیاگیاہے۔دوایٹمی طاقتیں آج کے زمانے میں تصادم کاتصورتک نہیں کرسکتیں۔یہ سوچنابھی عبث ہے کہ نیوکلیئرقوت رکھنے والے دوممالک آپس میں کسی بھی سطح کی محدودیاغیرمحدودجنگ کرسکتے ہیں۔ہاں،جہاں تک بیان بازی اورسیاست کاتعلق ہے،وہ ہوائی گھوڑے ہیںاوروہ سرپٹ دوڑتے رہینگے،مسلسل اورغیرمعینہ مدت کے لیے۔

اس حالیہ آپریشن کواگرآپ حالیہ تاریخ کے حوالے سے دیکھیں تومعاملہ بہت آسان ہوجائیگا۔جیسے میں نے عرض کی کہ برمااورہندوستان میں متعدددفاعی معاہدے موجود ہیں۔ سوشانت سنگھ نے اس پرسیرحاصل بحث کی ہے۔1995ء میں مندرجہ بالادونوں ممالک نے ایکM.O.Uپردستخط کیے جس کے مطابق ہندوستان کی فوج کوبرمامیں کارروائی کی اجازت دی گئی۔اس کے نتیجہ میں"آپریشن گولڈن برڈ" (Operation Golden Bird)کاآغازہوا۔ 57انڈین ماؤنٹین ڈویژن (57 Indian Mountain Division نے اس کی کمان کی۔

اس میں کئی باغی مارے گئے اورسیکڑوں لوگ گرفتارکیے گئے۔ آپریشن میں برماکی فوج کواس لیے نکلنا پڑا، کہ وہ اپنے ملک میں تین چارمقامات پرباغیوں سے لڑرہی تھی اوروہ صرف ایک محدودعلاقے میں ہندوستانی فوج کے ساتھ غیرمعینہ عرصے کے لیے شامل نہیں رہ سکتی تھی۔آپریشن گولڈن برڈمجموعی طورپرناکام ہوگیا۔اس کی ایک اوروجہ ہندوستان کی سیاسی اورفوجی قیادت میں شدیداختلافات تھے۔

ان معاملات کاذکرجنرل ایچ آرایس کلکت (General HRS Kalkat)نے کھل کرکیا ہے۔ 2006ء میں دوبارہ ہندوستانی فوج نے برماکے جنگلات میں N.S.C.Nکھیالنگ گروپ کے خلاف کارروائی کی مگراس میں بھی باغیوں کوکوئی فیصلہ کن شکست نہ دی جاسکی۔سوشانت سنگھ کے مطابق ہندوستان کی فوج نے برمامیں درجنوں آپریشن کیے ہیں مگرانکوکبھی بھی حکومتی سطح پرتسلیم نہیں کیا گیا۔

اب سوال یہ ہے کہ حالیہ آپریشن سے انڈیا کیا مقاصد حاصل کرناچاہتاہے۔بہت سے لوگوں کوعلم نہیں کہ شمال مشرقی ہندوستان میں بیس سے پچیس انتخابی منظم علیحدگی پسندتحریکیں کامیابی سے چل رہی ہیں۔اس کی بنیادی وجہ وسطی انڈیاکی وہ اقتصادی ترقی ہے،جسکے ثمرات دوردرازکے شمال مشرقی ریاستوں میں نہیں پہنچ پائے۔برماکے ساتھ منسلک چاروں ریاستوں میں جنگ،کرپشن اوربدنظمی کی وجہ یہی معاشی ناانصافی ہے جسکاشکاران علاقوں میں رہنے والے کروڑوں افرادمدتوں سے ہیں۔

اب وہ مرکزی حکومتت سے ترقی میں اپناحصہ طلب کرتے ہیں۔یہ ہندوستان کی کسی بھی حکومت کے لیے ممکن نہیں ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ علیحدگی پسندتحریکیں غیرمعمولی طورپرعوامی پذیرائی حاصل کرچکی ہیں۔نوجوانوں کی بہت سی تعدادہتھیاراٹھاکراب ایک الگ ملک کامطالبہ کررہی ہے۔اس میں شدت کی دووجوہات اوربھی ہیں۔کورکوم(Cor Com)وہ تنظیم ہے جس میں چھ طاقتورگروہ ضم ہوچکے ہیں۔

ان میں یونائیٹڈنیشنل لبریشن فرنٹ،یونائیٹڈپیپلز پارٹی آف کا نگلی پاک،انقلابی پیپلزفرنٹ،کانگلی یاوول کانالپ اور دیگر تنظیمیں شامل ہیں۔دوسری وجہ ویسی فورم(Wesea Forum)کاوجودمیں آناہے۔اس میں بیس کے قریب علیحدگی پسندتحریکیں شامل ہوچکی ہیں۔ان دونوں گروہوں پرہندوستانی حکومت کاکسی قسم کاکوئی کنٹرول نہیں ہے اوروہ اب تک ان کے خلاف کوئی موثرکاروائی نہیں کرپائی۔

آسام،بوڈولینڈ،ڈمراجی،کربی،کمٹاپور،مانی پور، ناگا لینداورچاچرہلز،یعنی ایک وسیع علاقے میں یہ گروہ پوری آزادی سے مرکزی حکومت کے خلاف لڑرہے ہیں اوریہ گوریلاجنگ جاری ہے۔تمام تفصیل بیان کرنے کے لیے حقیقت میں ایک کتاب لکھنی پڑیگی۔

مگریہ وہ اصل المیہ ہے جسکی بنیادپرہندوستان میں حالیہ بیان بازی کوترویح دی جارہی ہے اوراسے ایک ڈرامائی اندازمیں پیش کیاجارہاہے۔اس کے ساتھ ساتھ انتہائی مصنوعی طریقے سے اپنے طاقتورہونے کاتاثرددینے کی کوشش کی جارہی ہے!علیحدگی پسندتحریکوں کاعفریب ہندوستان کو ہرطرف سے جکڑچکاہے!

مجھے پختہ یقین ہے کہ ایٹمی قوت ہونے کے بعددونوں ممالک کے مابین کسی بھی جنگ کے کوئی امکانات نہیں۔ مگر ہمارے ملک میں بھی جذباتیت اورغیرذمے دارانہ بیان بازی عروج پرہے۔مجھے ڈرہے تواپنے ان سیاسی ناپختہ لوگوںسے جوملک کے لیے بہترین صورت حال کوبھی ایک متنازعہ بیان سے خراب کرسکتے ہیں!مجھے خوف ہے توان ریٹائرڈدفاعی ماہرین سے جولال قلعہ پرپرچم لہرانے کے خواب بیچ رہے ہیں!مجھے تشویش ہے توان تشددپسندمذہبی رہنماؤں سے جوپوری دنیا کو تاریخ کے قصے سناسناکرفتح کرنے کی دکان چلارہے ہیں!یہ تمام لوگ جذبات کے گھوڑے پرسوارہیں!یہ انتہاپسندی اورمبالغہ کی تلوارسے ہماری اپنی ہی گردن کاٹنے کی اہلیت رکھتے ہیں!ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں