خیبرپختونخوا میں اپوزیشن کی تحریک

کسی بھی منتخب جماعت کو جو انتخابات کے بعد اقتدار میں آتی ہے اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا حق ہوتا ہے

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

خیبرخیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے بعد اپوزیشن کی طرف سے پہلے دھاندلیوں کے الزامات لگائے گئے، اس کے بعد اب خیبرپختونخوا حکومت کو ہٹانے کے لیے تحریک چلانے کے اعلانات کیے جا رہے ہیں، اس کام کے لیے جو اتحاد بنایا گیا ہے اس میں اے این پی، جے یو آئی اور پیپلزپارٹی و دیگر جماعتیں شامل ہیں۔ 2013ء کے الیکشن میں دھاندلیوں کے الزامات تقریباً تمام پارٹیوں کی طرف سے لگائے گئے۔

پیپلز پارٹی نے تو 2013ء کے الیکشن کو آر اوز کا الیکشن قرار دیا لیکن اس الیکشن کے خلاف کسی سیاسی یا مذہبی جماعت نے کسی قسم کی تحریک چلانے میں کوئی دلچسپی نہیں لی کیوں کہ ان جماعتوں کا ماننا ہے کہ ہم موجودہ حکومت کو اس کی آئینی مدت پوری کرنے دیں گے۔

کسی بھی منتخب جماعت کو جو انتخابات کے بعد اقتدار میں آتی ہے اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا حق ہوتا ہے لیکن جب انتخابات ہی مشکوک ہو جائیں اور ملک کی تمام پارٹیاں انتخابات میں دھاندلی کی شکایت کریں تو پھر کسی بھی منتخب حکومت کے اس دعوے کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ اسے اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا حق ہے۔2013ء کے الیکشن میں مبینہ دھاندلیوں کے الزام کے ساتھ صرف تحریک انصاف واحد جماعت ہے جو مسلسل سیاسی احتجاج کر رہی ہے۔

2014ء میں جب عمران اور قادری نے دھرنا تحریک شروع کی تو اس تحریک اور ممکنہ فوجی مداخلت کے خلاف ملک کی 13 جمہوریت پسند جماعتوں نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ ہم وزیر اعظم کو مستعفی نہیں ہونے دیں گے۔ بلاشبہ اس قسم کے الیکشن جمہوریت کو بچانے کے لیے منطقی جواز رکھتے ہیں لیکن اس عوامی تاثر کو کیسے پس پشت ڈالا جا سکتا ہے کہ 13 جماعتوں نے پارلیمنٹ میں جمہوریت کو بچانے کے لیے دھرنا نہیں دیا تھا بلکہ اپنے مفادات کو بچانے کے لیے دھرنا دیا تھا جو مسلم لیگ (ن) کی موجودگی سے وابستہ تھے۔

سوال یہ ہے کہ کیا خیبرپختونخوا کی حکومت منتخب حکومت نہیں ہے؟ 2013ء کے الیکشن میں خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت انتخابات جیت کر اقتدار میں آئی تھی اور اس پر دھاندلی کا بھی کوئی الزام نہ تھا پھر اس منتخب حکومت کے خلاف مشترکہ تحریک چلانا اور حکومت چھوڑنے کا مطالبہ کرنا کیا جمہوریت کی تعریف میں آتا ہے؟اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بار بار یہ اعلان کر رہے ہیں کہ اگر اپوزیشن سمجھتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے تو وہ دھاندلی کے الزامات والے حلقوں میں دوبارہ الیکشن کرانے کے لیے تیار ہیں۔ اگر اپوزیشن اس پر بھی مطمئن نہیں ہے تو وہ خیبرپختونخوا میں دوبارہ بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے تیار ہیں۔


اس واضح پیش کش کے بعد کسی قسم کی تحریک چلانے اور خیبرپختونخوا حکومت سے استعفیٰ مانگنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ تحریک انصاف نیم دلی ہی سے کیوں نہ ہو اس پورے کرپٹ سسٹم کو تبدیل کرنے کی بات کر رہی ہے اور بد قسمتی سے ہماری جمہوریت اور جمہوری عمائدین اس جمہوریت سے اسی طرح چمٹے ہوئے ہیں جس طرح شہد کے چھتے سے مکھیاں چمٹی رہتی ہیں وہ اس جمہوریت کو کسی طرف سے ذرا برابر بھی خطرہ محسوس کرتے ہیں تو ننگی تلواریں لے کر باہر نکل آتے ہیں، عمران خان نہ انقلابی ہے نہ اس سسٹم کے خلاف کوئی سخت موقف اپنا رہا ہے لیکن جب جمہوریت پسند یہ دیکھتے ہیں کہ آج بھی خیبرپختونخوا اور گلگت کے جلسوں میں عمران خان کے گرد لاکھوں عوام اکٹھا ہو رہے ہیں تو پھر جمہوریت کے علمبرداروں کو خطرے کا احساس ہوتا ہے اور وہ شیر آیا شیر آیا چلانے لگ جاتے ہیں۔

جیسا کہ ہم نے نشان دہی کی ہے عمران خان نہ کوئی انقلابی ہے نہ اس انقلاب پر یقین رکھتا ہے جس میں عوام بالادست ہوتے ہیں وہ اقتدار میں آنا چاہتا ہے اور عمران خان کا اقتدار میں آنا جمہوریت پسندوں کو اس لیے پسند نہیں کہ جو منڈلی 68 سالوں سے اس ملک کے عوام کا خون چوس رہی ہے یہ حق وہ کسی اور کو دینے کے لیے تیار نہیں بلکہ اسے آبائی حق کا درجہ دینے پر مصر ہے۔ بات انقلاب کی نہیں بلکہ آبائی پیشے کو لاحق خطرات کی ہے۔ یہ کیسی سیاست ہے، یہ کیسی جمہوریت ہے کہ قومی الیکشن میں دھاندلی کا رونا تو سب رو رہے ہیں لیکن اس دھاندلی کے خلاف کوئی تحریک چلانے کی بات نہیں کرتا۔ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کی شکایت پر تحریک چلانے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں اور صوبائی حکومت سے استعفیٰ بھی مانگا جا رہا ہے۔

عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ وہ بات تو نئے پاکستان کی کر رہے ہیں لیکن ان کے دائیں بائیں پرانے پاکستان کی یادگاریں بیٹھی ہوئی ہیں اور جب کپتان کو کسی اتحاد کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ فوری پرانے پاکستان کی حامی لوگوں کی دہلیز پر سجدہ ریز نظر آتے ہیں، ہم نے بارہا کہا ہے کہ عوام اب بھی عمران خان سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں کہ انھیں تمام سیاسی اور جمہوریت اندھوں میں عمران خان ہی کانا راجہ نظر آتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان عوام کی امیدوں پر پورا اترنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ یہ مسئلہ یا یہ سوال قول اور عمل میں مطابقت کا ہے۔

عمران خان اگر نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں تو پھر اس مبہم اصطلاح کے بجائے انھیں واضح طور پر نئے پاکستان کا نقشہ عوام کے سامنے پیش کرنا ہو گا اور یہ بتانا ہو گا کہ ان کا نیا پاکستان پرانے پاکستان سے کس طرح مختلف ہو گا؟ مثلاً پرانے پاکستان کی تصویر میں قبائلی سرداری اور جاگیرداری کے رنگ بھرے ہوئے ہیں۔ موروثی سیاست، موروثی اقتدار پرانے پاکستان کا منشور ہے، عمران خان موروثی سیاست اور موروثی اقتدار کے خلاف تو آواز اٹھا رہے ہیں لیکن ان کو جنم دینے والے جاگیردارانہ نظام کے خلاف ایک لفظ شکایات بھی ان کی زبان پر نہیں آتا؟

اگر عمران کسی نئے پاکستان کی بات کرتے ہیں تو پھر انھیں سب سے پہلے جاگیردارانہ نظام کے خاتمے اور زرعی اصلاحات کا مطالبہ کرنا چاہیے اور اس حوالے سے باضابطہ تحریک چلانا چاہیے۔

عمران خان نے اپنے دھرنوں اور جلسوں میں عوام کے جو ہجوم دیکھے ہیں اگر عمران خان زرعی اصلاحات کے حق میں کوئی تحریک چلاتے ہیں تو عوام کے جو ہجوم ان کے پیچھے ہوں گے غالباً عمران خان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے کیوں کہ یہ تحریک حقیقی معنوں میں نئے پاکستان کی طرف پیش قدمی کا نکتہ آغاز ہو گی۔ عمران خان اگر اس راستے پر چلتے ہیں تو پھر ان کے خلاف اتحاد اور خیبرپختونخوا کی حکومت سے مستعفی ہونے کے غباروں سے ہوا نکل جائے گی لیکن اس تحریک کے لیے عمران خان کو ان طاقتوں کو قریب لانا اور اتحادی بنانا ہو گا جو 1947ء سے ایک نیا پاکستان بنانے کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں اور بڑی قربانیاں بھی دی ہیں۔
Load Next Story