کم عمری کی شادیاں ۔ ایک اہم مسئلہ

پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی کم عمری کی شادیوں کا رواج رہا ہے


لیاقت راجپر June 13, 2015

پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی کم عمری کی شادیوں کا رواج رہا ہے مگر اس وقت اس سوشل کرائم کو روکنے کے لیے کوئی آواز بلند اس لیے نہیں ہوسکی کہ ایک تو تعلیم عام نہیں تھی اور دوسرا یہ کہ اس قدیم رواج اور رسم کو ختم کرنا آسان نہیں تھا۔

اب جب دنیا میں ترقی ہوئی اور تعلیم کو فروغ ملا تو ترقی یافتہ ممالک میں اس کا خاتمہ ہوگیا۔ مگر افسوس یہ ہے کہ اب بھی پاکستان، ہندوستان اور تیسری دنیا کے ملکوں میں کم عمری کی شادیاں مکمل طور پر ختم نہیں ہوسکی ہیں۔ پھر بھی اب کچھ امید نظر آرہی ہے کیونکہ پاکستان میں اب تعلیم کو فروغ مل رہا ہے اور اب لڑکیاں بھی ہائر ایجوکیشن تک پہنچ رہی ہیں اورکئی شعبوں میں آگے آرہی ہیں۔

اس میں گاؤں کے مقابلے میں شہروں میں کافی پیش رفت نظر آئی ہے کیونکہ جو لوگ گاؤں چھوڑ کر شہروں کی طرف آگئے ہیں انھیں شہروں کے ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا پڑ رہا ہے۔ وہ لوگ جو کبھی لڑکیوں کو تعلیم دلوانا یا انھیں نوکری کے پیشے سے وابستہ کرنا اپنی بے عزتی سمجھتے تھے اب وہ خود لڑکیوں کو ایم اے تک پڑھانے لگے ہیں۔ مگر گاؤں میں لوگ اب بھی کم عمری کی شادیوں اور دوسرے سماجی رسم و رواج میں پھنسے ہوئے ہیں، اس کے علاوہ شہروں کے غریب علاقوں میں بھی کافی فیملیز اس رواج کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔

ملک کے اندر جب سے ٹی وی کیبل، موبائل اور انٹرنیٹ آیا ہے اورگاؤں میں بھی اس کا استعمال شروع ہوا ہے تو لوگوں نے یہ سوچنا شروع کیا ہے کہ لڑکی بھی اتنی اہمیت رکھتی ہے جتنا کہ کوئی لڑکا، جس کی وجہ سے اب گاؤں میں بھی لڑکیوں کے پرائمری اسکول سے لے کر مڈل اسکول تک قائم ہوچکے ہیں۔

مگر افسوس یہ ہے کہ عام آدمی کی ترقی میں میر، پیر، سردار اور کچھ مذہبی لوگ بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں جو نہیں چاہتے کہ ایک ہاری یا مزدور کا بچہ پڑھ لکھ کر کسی مقام پر پہنچے اور گھر میں خوشحالی آئے، جس کے بعد وہ انھیں سلام نہیں کرے گا اور اس کی اولاد اس کے سامنے بولنے کے قابل ہوجائے گی۔ اس لیے انھوں نے لڑکیوں اور لڑکوں کے اسکولوں کو اوطاق اور مویشیوں کے استعمال کے لیے روک رکھا ہے، جس کی وجہ سے گاؤں کی ایک محدود آبادی معاشی خوشحالی اور ان رکاوٹوں کو توڑنے کے لیے شہروں کی طرف آگئی ہے۔

اب کم عمری کی شادیاں وہ کرتے ہیں جو بے انتہا غریب ہیں یا پھر کسی سماجی برائی جیساکہ جوا، شراب کی علت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ جو لوگ کسی کے اکسانے پر کوئی قتل کردیتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو بچانے کے لیے معصوم اور نابالغ لڑکیوں کا ہاتھ معاوضے کے طور پر متاثرہ لوگوں کے حوالے کرتے ہیں۔ جب کوئی آدمی جوئے میں پیسے ہار جاتا ہے تو اپنی بہن، بیٹی کو بیچ دیتا ہے۔

اس کے علاوہ شادیوں کے شوق میں اپنی بیٹی کا ہاتھ ایک عمر رسیدہ شخص کے حوالے کرکے اس کی بہن یا بیٹی سے شادی کرلیتا ہے اور اگر وہ نہیں ہے تو اپنی زمین کا کچھ حصہ دیتا ہے یا پھر یہ وعدہ کرتا ہے کہ اس کے اگر بیٹی ہوئی تو وہ ان کے حوالے کرے گا۔جیسے جیسے تعلیم عام ہو رہی ہے اور میڈیا کے لوگوں میں شعور بڑھ رہا ہے وہ کم عمری کی شادیوں کو رکوانے میں اپنا کردار ادا کرنے لگے ہیں اور جیسے ہی انھیں اس بات کا پتہ چلتا ہے وہ اس خبر کو فلیش کرتے ہیں اور پولیس وہاں پہنچ جاتی ہے۔

اس سلسلے میں بین الاقوامی اور مقامی این جی اوز کا بھی بڑا رول ہے جو اپنی جان پر کھیل کر بھی زمینداروں اور سرداروں سے ٹکرا جاتے ہیں کیونکہ اس طرح کے فیصلے جرگوں میں بھی کیے جاتے ہیں۔

مگر افسوس ہے کہ کئی قوانین پاس ہونے کے بعد بھی جرگے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ سندھ اسمبلی نے کم عمری کی شادیوں کے خلاف بل پاس کر کے ایک تاریخ مرتب کی ہے جس میں نہ صرف اس سماجی گناہ کو روکا جائے گا بلکہ اس کے کرنے والوں کو سزا اور جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔ اس میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اب 18 سال سے کم عمر کی بچی یا بچے کی شادی کرنے والوں میں بچوں کے ماں باپ، نکاح خواں، گواہ یا اس کرائم کو سپورٹ کرنے والے یا چھپانے والوں کے لیے بھی سزا موجود ہے۔ اس بات کی تعریف کی گئی کہ جب یہ بل اسمبلی میں پیش ہوا تو ایک بھی ایم پی اے نے مخالفت نہیں کی اور سب سیاسی پارٹیاں ایک ہی پیج پر رہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ سماجی مسائل کو عام کرنے میں میڈیا کا رول بہت اہم ہے اور اب جو بھی کم عمری کی شادی کا پتہ چلتا ہے، ایک دم میڈیا پر خبر آجاتی ہے جس سے پولیس متحرک ہوجاتی ہے اورگرفتاریاں عمل میں آجاتی ہیں لیکن اب بھی کچھ باتیں ایسی ہیں جس کا ہونا بہت ضروری ہے جس میں جو بل پاس ہوا ہے اس کی کاپیاں پولیس اسٹیشن پر موجود نہیں ہیں، وکیل اور جوڈیشری میں بھی شروع میں نوٹیفکیشن کی کاپیاں نہیں تھیں۔ اس سلسلے میں این جی اوز نے اب کیا کیا ہے کہ اس قانون کو سندھی اور اردو زبانوں میں ترجمہ کروا کر پورے سندھ میں بھیجنے کا انتظام کیا ہے۔

اس کے علاوہ قانون کو مزید سمجھنے کے لیے صحافیوں، پولیس والوں، وکیلوں اور سماجی تنظیموں کے لیے کئی تربیتی ورکشاپس کیے ہیں جس میں وومن ڈیولپمنٹ نے الگ ایسے پروگرامز منعقد کیے ہیں جس میں نکاح خواں بھی شامل ہیں جو اہم رول ادا کرتا ہے شادی کروانے میں، کیونکہ اب اسے رجسٹرار نکاح کہا جاتا ہے، جو نکاح نامہ ہے وہ ایک مستند ڈاکومنٹ ہے۔ اب مرحلہ آتا ہے کہ بچی کی عمر کیسے معلوم ہو کہ وہ 18 سال کی ہے، جس کے لیے پرائمری تعلیم کا سرٹیفکیٹ، نادرا کا فارم (ب) یا پھر ڈاکٹر کا سرٹیفکیٹ ہے۔ باقی اندازوں کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

ہمارے لوگ یہ نہیں سوچتے کہ کم عمری کی شادی سے کتنے سماجی اور صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں جس میں لڑکی کتنی متاثر ہوتی ہے۔ سندھ حکومت کا بل پاس کرنا بڑا اچھا اور قابل تعریف عمل ہے مگر اس پر عمل کروانا اس سے بھی بڑا کام ہے، جس کے لیے اب سماجی ادارے اور پولیس، قانون دان، سوسائٹی والے، میڈیا کمربستہ ہوگئے ہیں۔ مگر اس عمل میں ہمیں علمائے کرام کو بھی شامل کرنا چاہیے اور اس کے علاوہ محلہ لیول پر بھی کمیٹیاں بنائی جائیں اور آگہی کے لیے وہاں پر لیکچرز کا بندوبست کیا جائے جس میں عورتیں گھر میں جاکر بھی یہ کام کریں۔

شہر اورگاؤں میں چھوٹے بڑے بل بورڈز بناکر لگائے جائیں، پمفلٹ چھپوا کر گھر گھر جاکر بانٹے جائیں، اس قانون کو سمجھانے کے لیے ڈرامے بنائے جائیں جس میں کم عمری کی شادیوں کے علاوہ عورتوں سے زبردستی محنت اور مشقت، ان کے حقوق اور عزت و احترام کرنے کے بارے میں بھی چیزیں پیش کی جائیں، جس سے کافی مثبت رسپانس ملے گا اور لوگوں کا ضمیر بھی جاگ جائے گا اور وہ قانون پرعمل کرتے ہوئے عورت کے خلاف تشدد سمیت کئی سماجی برائیوں سے دور رہیں گے۔ اس کے لیے مانیٹرنگ نظام کو بھی بہتر بنایا جائے اور لوگوں کا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کے لیے Door To Door مہم چلائی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں