اقتصادی راہداری اورکراچی کے مسائل
یہ خبرخاصی مسرت سے سنی گئی ہے کہ وفاقی حکومت نے اقتصادی راہداری کو جس کا دنیا بھر میں چرچا ہے
GILGIT:
یہ خبرخاصی مسرت سے سنی گئی ہے کہ وفاقی حکومت نے اقتصادی راہداری کو جس کا دنیا بھر میں چرچا ہے ،کراچی سے بھی گزارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس راہداری کے کراچی کی طرف رخ کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس شہر میں اس کی ضرورت کے مطابق سمندرکے کھارے پانی کو میٹھا کرنے کا پلانٹ لگ جائے گا اور میٹرو بس سروس شروع ہوجائے گی اور لوڈ شیڈنگ بھی ختم ہوجائے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اقتصادی راہداری بنانا ایک تاریخی منصوبہ ہے جو اگر مکمل ہوگیا تو پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا اور موجودہ حکومت کے بڑے کارناموں میں شمار ہوگا تاہم اس کی مکمل افادیت جبھی سامنے آئے گی، جب اسے کراچی سمیت ملک کے تمام حصوں سے گزارا جائے۔ اسی صورت میں یہ قومی اتحاد کی علامت بن کر سامنے آئے گا۔
اس سلسلے میں جو لوگ کراچی میں میٹرو بس سروس کی مخالفت کر رہے ہیں وہ ہمارے خیال میں غلطی پر ہیں۔ یا تو وہ یہ لوگ ہیں جو بڑی بڑی گاڑیوں میں سفرکرتے ہیں اور جن کو ٹرانسپورٹ کی کوئی تکلیف نہیں ہے یا یہ لوگ ٹرانسپورٹ مافیا کے ہمدرد ہیں۔ یہ ٹرانسپورٹ مافیا وہ ہے جس نے ہر دور حتیٰ کہ سابق صدر مشرف کے دور میں بھی کراچی میں ماس ٹرانزٹ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچنے نہیں دیا۔ اب جب کہ وفاقی حکومت لاہور اور راولپنڈی کی طرح کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں میٹرو بس سروس شروع کرنے کی پیشکش کر رہی ہے تو اسے فوری قبول کرلینا چاہیے اور کچھ نہیں تو اسی مشہور قول کے تحت کہ Beggars Are Not Choosers ۔ عقلمندی اسی میں ہے کہ وفاقی حکومت سے جو کچھ مل رہا ہے اسے قبول کرلیا جائے۔کراچی کو جن منصوبوں کے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں ان کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ ان کے بارے میں زبانی کلامی باتیں بہت کی جاتی ہیں ان پر عمل اس وقت کیا جاتا ہے جب یہ منصوبے بوڑھے ہوچکے ہوتے ہیں اور شہر کی ضرورتیں ان منصوبوں سے آگے نکل چکی ہوتی ہیں۔
کراچی شاید دنیا کے ان گنے چنے شہروں میں سے ایک ہے جو سمندرکے کنارے بسا ہوا ہے مگر پانی سے محروم ہے اسے اس بپھرتے ہوئے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے شبنم تک نہیں مل رہی ہے۔ اس سلسلے میں بظاہر صوبائی حکومت کا موقف یہ ہے کہ سمندر کے ساتھ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ اور وہ بھی شہر کی ضرورت کے مطابق لگا دیا گیا تو سمندر میں پانی کا کال پڑ جائے گا کلفٹن، ہاکس بے اور سینڈزپٹ کی تفریح گاہیں ویران ہوجائیں گی اور خاص طور پر سمندر میں پانی کم ہوجانے کی وجہ سے کلفٹن اور ڈیفنس کے بنگلوں کی قیمتیں گر جائیں گی۔
جب ہم ایسے بزعم خود ماہرین کا وژن ملاحظہ کرتے ہیں جو سمندر کا پانی کم ہونے کی فکر میں دبلے ہو رہے ہیں تو ہمیں ان دو افیونیوں کا خیال آتا ہے جو کوئی ایسا کام کرنے کا سوچ رہے تھے جس سے کچھ آمدنی ہو۔ ایک افیونی نے تجویز پیش کی کہ ایسا کرتے ہیں گنا بو دیتے ہیں یہ جلدی بھی اُگ آتا ہے اور فوراً گنے کے رس والوں کے ہاتھوں بک بھی جاتا ہے۔ دوسرا افیونی کچھ دیر سوچ کر بولا۔ یارگنا تو بو دیں گے مگر یہ سامنے بستی والے بڑے بدمعاش ہیں ہمارا سارا گنا چوری کرکے لے جائیں گے۔ پہلے افیونی نے کہا تم فکر نہ کرو ان بستی والوں کا تو میں آج ہی علاج کردیتا ہوں۔
اسی رات پہلے افیونی نے بستی میں تیل چھڑک کر لگا دی اور جب بے چارے بستی والے اپنی جھونپڑیوں سے جان بچا کر بھاگ رہے تھے تو وہی افیونی چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔ اورکھاؤگے گنے۔۔۔۔ اور کھاؤ گے گنے۔ہمارے خیال میں جو لوگ سمندر میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ نہیں لگا رہے ہیں ان کو بھی ان افیونیوں جیسے اندیشے لاحق ہیں حالانکہ ان کا تو فائدہ ہوجائے گا ٹریٹمنٹ پلانٹ لگنا وگنا تو ہے نہیں۔ انھیں روز ایک بیان دینے اور اخبار میں چھپوانے کا ایک اور موقع ہاتھ آجائے گا۔جہاں تک میٹرو بس سروس کا تعلق ہے تو یہ پاک چین راہداری منصوبے کی ایک علامت کے طور پر لیاری ایکسپریس وے یا سرکلر ریلوے کے راستوں پر چلائی جاسکتی ہے۔
جہاں اس منصوبے کے لیے بہت کم توڑ پھوڑ کرنی پڑے گی اس منصوبے سے صرف عام شہریوں کے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہی حل نہیں ہوگا بلکہ بائی پروڈکٹ کے طور پر کئی ذیلی فائدے بھی ہوں گے۔ مثلاً شہر میں چنگ چی اور رکشائیں جو ایک عذاب بن چکی ہیں ان کی تعداد مسافر نہ ہونے کی وجہ سے کم ہوجائے گی بہت سے لوگ جو مجبوراً جان خطرے اور جوکھوں میں ڈال کر موٹر سائیکلیں چلا رہے ہیں۔ میٹرو بس سے سفر کرنے کو ترجیح دیں گے۔
بہت سے گھرانوں کے لیے میٹرو بس کا سفر محض ٹرانسپورٹ کا ہی ذریعہ نہیں کم از کم شروع میں تفریح اور سیر کا ذریعہ بھی ہوگا اس کے علاوہ اس شہر میں ماحول کی آلودگی Pollution کا لیول جو اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے اور سانس کی بیماری کی صورت میں عام لوگوں کی زندگیوں کے دروازے پر دستک دے رہا ہے خاصا کم ہوجائے گا۔
لیکن اس شہر میں حکومت سے زیادہ مافیاؤں کی حکمرانی ہے جو کوئی مسئلہ حل نہیں ہونے دیتے۔ ان میں اس گئی گزری حالت میں بھی سب سے طاقتور ٹرانسپورٹ مافیا سرفہرست ہے جو اقتصادی راہداری کو اس شہر کے آس پاس بھی نہیں آنے دے گی اور کراچی کے شہری اسی طرح ٹیکس دیتے اپنے ٹیکس کی رقم کہیں اور خرچ ہوتے دیکھتے بے بسی سے ہاتھ ملتے رہیں گے ایسے بیگرز کی طرح جو Choosers بھی نہیں ہیں۔
یہ خبرخاصی مسرت سے سنی گئی ہے کہ وفاقی حکومت نے اقتصادی راہداری کو جس کا دنیا بھر میں چرچا ہے ،کراچی سے بھی گزارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس راہداری کے کراچی کی طرف رخ کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس شہر میں اس کی ضرورت کے مطابق سمندرکے کھارے پانی کو میٹھا کرنے کا پلانٹ لگ جائے گا اور میٹرو بس سروس شروع ہوجائے گی اور لوڈ شیڈنگ بھی ختم ہوجائے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اقتصادی راہداری بنانا ایک تاریخی منصوبہ ہے جو اگر مکمل ہوگیا تو پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا اور موجودہ حکومت کے بڑے کارناموں میں شمار ہوگا تاہم اس کی مکمل افادیت جبھی سامنے آئے گی، جب اسے کراچی سمیت ملک کے تمام حصوں سے گزارا جائے۔ اسی صورت میں یہ قومی اتحاد کی علامت بن کر سامنے آئے گا۔
اس سلسلے میں جو لوگ کراچی میں میٹرو بس سروس کی مخالفت کر رہے ہیں وہ ہمارے خیال میں غلطی پر ہیں۔ یا تو وہ یہ لوگ ہیں جو بڑی بڑی گاڑیوں میں سفرکرتے ہیں اور جن کو ٹرانسپورٹ کی کوئی تکلیف نہیں ہے یا یہ لوگ ٹرانسپورٹ مافیا کے ہمدرد ہیں۔ یہ ٹرانسپورٹ مافیا وہ ہے جس نے ہر دور حتیٰ کہ سابق صدر مشرف کے دور میں بھی کراچی میں ماس ٹرانزٹ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچنے نہیں دیا۔ اب جب کہ وفاقی حکومت لاہور اور راولپنڈی کی طرح کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں میٹرو بس سروس شروع کرنے کی پیشکش کر رہی ہے تو اسے فوری قبول کرلینا چاہیے اور کچھ نہیں تو اسی مشہور قول کے تحت کہ Beggars Are Not Choosers ۔ عقلمندی اسی میں ہے کہ وفاقی حکومت سے جو کچھ مل رہا ہے اسے قبول کرلیا جائے۔کراچی کو جن منصوبوں کے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں ان کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ ان کے بارے میں زبانی کلامی باتیں بہت کی جاتی ہیں ان پر عمل اس وقت کیا جاتا ہے جب یہ منصوبے بوڑھے ہوچکے ہوتے ہیں اور شہر کی ضرورتیں ان منصوبوں سے آگے نکل چکی ہوتی ہیں۔
کراچی شاید دنیا کے ان گنے چنے شہروں میں سے ایک ہے جو سمندرکے کنارے بسا ہوا ہے مگر پانی سے محروم ہے اسے اس بپھرتے ہوئے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے شبنم تک نہیں مل رہی ہے۔ اس سلسلے میں بظاہر صوبائی حکومت کا موقف یہ ہے کہ سمندر کے ساتھ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ اور وہ بھی شہر کی ضرورت کے مطابق لگا دیا گیا تو سمندر میں پانی کا کال پڑ جائے گا کلفٹن، ہاکس بے اور سینڈزپٹ کی تفریح گاہیں ویران ہوجائیں گی اور خاص طور پر سمندر میں پانی کم ہوجانے کی وجہ سے کلفٹن اور ڈیفنس کے بنگلوں کی قیمتیں گر جائیں گی۔
جب ہم ایسے بزعم خود ماہرین کا وژن ملاحظہ کرتے ہیں جو سمندر کا پانی کم ہونے کی فکر میں دبلے ہو رہے ہیں تو ہمیں ان دو افیونیوں کا خیال آتا ہے جو کوئی ایسا کام کرنے کا سوچ رہے تھے جس سے کچھ آمدنی ہو۔ ایک افیونی نے تجویز پیش کی کہ ایسا کرتے ہیں گنا بو دیتے ہیں یہ جلدی بھی اُگ آتا ہے اور فوراً گنے کے رس والوں کے ہاتھوں بک بھی جاتا ہے۔ دوسرا افیونی کچھ دیر سوچ کر بولا۔ یارگنا تو بو دیں گے مگر یہ سامنے بستی والے بڑے بدمعاش ہیں ہمارا سارا گنا چوری کرکے لے جائیں گے۔ پہلے افیونی نے کہا تم فکر نہ کرو ان بستی والوں کا تو میں آج ہی علاج کردیتا ہوں۔
اسی رات پہلے افیونی نے بستی میں تیل چھڑک کر لگا دی اور جب بے چارے بستی والے اپنی جھونپڑیوں سے جان بچا کر بھاگ رہے تھے تو وہی افیونی چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔ اورکھاؤگے گنے۔۔۔۔ اور کھاؤ گے گنے۔ہمارے خیال میں جو لوگ سمندر میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ نہیں لگا رہے ہیں ان کو بھی ان افیونیوں جیسے اندیشے لاحق ہیں حالانکہ ان کا تو فائدہ ہوجائے گا ٹریٹمنٹ پلانٹ لگنا وگنا تو ہے نہیں۔ انھیں روز ایک بیان دینے اور اخبار میں چھپوانے کا ایک اور موقع ہاتھ آجائے گا۔جہاں تک میٹرو بس سروس کا تعلق ہے تو یہ پاک چین راہداری منصوبے کی ایک علامت کے طور پر لیاری ایکسپریس وے یا سرکلر ریلوے کے راستوں پر چلائی جاسکتی ہے۔
جہاں اس منصوبے کے لیے بہت کم توڑ پھوڑ کرنی پڑے گی اس منصوبے سے صرف عام شہریوں کے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہی حل نہیں ہوگا بلکہ بائی پروڈکٹ کے طور پر کئی ذیلی فائدے بھی ہوں گے۔ مثلاً شہر میں چنگ چی اور رکشائیں جو ایک عذاب بن چکی ہیں ان کی تعداد مسافر نہ ہونے کی وجہ سے کم ہوجائے گی بہت سے لوگ جو مجبوراً جان خطرے اور جوکھوں میں ڈال کر موٹر سائیکلیں چلا رہے ہیں۔ میٹرو بس سے سفر کرنے کو ترجیح دیں گے۔
بہت سے گھرانوں کے لیے میٹرو بس کا سفر محض ٹرانسپورٹ کا ہی ذریعہ نہیں کم از کم شروع میں تفریح اور سیر کا ذریعہ بھی ہوگا اس کے علاوہ اس شہر میں ماحول کی آلودگی Pollution کا لیول جو اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے اور سانس کی بیماری کی صورت میں عام لوگوں کی زندگیوں کے دروازے پر دستک دے رہا ہے خاصا کم ہوجائے گا۔
لیکن اس شہر میں حکومت سے زیادہ مافیاؤں کی حکمرانی ہے جو کوئی مسئلہ حل نہیں ہونے دیتے۔ ان میں اس گئی گزری حالت میں بھی سب سے طاقتور ٹرانسپورٹ مافیا سرفہرست ہے جو اقتصادی راہداری کو اس شہر کے آس پاس بھی نہیں آنے دے گی اور کراچی کے شہری اسی طرح ٹیکس دیتے اپنے ٹیکس کی رقم کہیں اور خرچ ہوتے دیکھتے بے بسی سے ہاتھ ملتے رہیں گے ایسے بیگرز کی طرح جو Choosers بھی نہیں ہیں۔