پنجاب و سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا محور
شدت پسندی کے خلاف جنگ میں عوام کا وہ تعاون حاصل نہیں ہے جس کی توقع کی جاتی رہی ہے۔
ISLAMABAD:
شدت پسندی کے خلاف جنگ میں عوام کا وہ تعاون حاصل نہیں ہے جس کی توقع کی جاتی رہی ہے۔ مملکت کے انتظامی اداروں کے درمیان تصادم کی افواہوں نے عوام میں لاتعلقی کا احساس پیدا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بڑھتی دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کے پاس ڈبل سواری کی پابندی کے بعد موبائل فون کی بندش کا ہی آپشن رہ گیا ہے، بلکہ اب تو خواتین کو ہیلمٹ پہنانے کے بھی احکامات جاری ہوگئے تھے جو آئی جی کو واپس لینے پڑے۔ جاری دہشت گردی کی تمام جڑیں فرقہ واریت سے جڑی ہوئی ہیں۔
اسلامی یا سیاسی جماعتیں بھی یہ سمجھنے لگی ہیں کہ عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے عوام کے مذہبی رجحانات کو ہوا دے کر اپنی سیاست چمکائی جاسکتی ہے۔ کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کے پاس ایسا کوئی ایجنڈا نہیں ہے کہ جس کے سہارے عوام سے ووٹ مانگ کر اقتدار کا تاج اپنے سر پر سجایا جاسکے۔ پاکستان کی تمام جماعتوں نے اپنا انتخابی ایجنڈا مذہب کی بنیاد پر الیکشن لڑنا ہی رکھا ہوا ہے۔ ڈرون حملے، شدت پسندی، طالبان، فرقہ واریت، امریکانائزیشن وہ انتخابی نعرے ہیں جو تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہیں، جب کہ دوسرے نمبر پر لسانی بنیادوں پر ووٹ حاصل کرنے کے لیے جذبات کو ہوا دے کر اپنے لیے کامیابی سمیٹنا ہے۔
پنجاب کی سیاست کو دیکھ لیا جائے تو خیبرپختونخوا کی جانب سے براہ راست الزام لگایا جاتا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے پنجابی سربراہوں کی بنا پر دہشت گردی کی کارروائیوں پر قابو پانے میں ناکامی ہے۔ خیبرپختونخوا کی تمام الیکشن مہم کی سیاست تو شدت پسندی کے محور سے باہر نکل ہی نہیں سکی۔ خیبر پختونخوا کی ہر سیاسی جماعت دہشت گردی کے خلاف اپنے کارکنان کی قربانیوں کی داستان سنا کر ہمدردی کے ووٹ سمیٹنے کی کوشش میں مصروف نظر آئیں اور جو بچ گئے ہیں وہ ان پر تنقید کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں تاکہ انھیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناکام ثابت کرکے خود کو اہل ثابت کرنے کی سعی کریں۔
پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں جہاں کالعدم تنظیموں اور جہادی عناصر کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے تو جنوبی پنجاب، سرائیکی صوبے، بہاول پور صوبہ کی سیاست کا محور پنجاب کے الیکشن میں نمایاں کردار ادا کریں گے ۔ پنجاب مذہبی سیاست سے غیر تعلق نہیں رہ سکتا ۔ اس کے ساتھ جس طرح گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ہلاک کیا گیا اور اس کے قاتل کی رہائی کے لیے مظاہرے کیے گئے اس سے ان توقعات کو درست سمجھا جا رہا ہے کہ پنجاب میں فرقہ وارانہ سیاست بڑھ رہی ہے۔ آئندہ سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی الیکشن صرف صوبوں یا لسانی بنیادوں کے بجائے مذہبی بنیادوں پر بھی لڑے جائیں گے اور لڑے گئے ہیں۔
سندھ میں قوم پرستی کی سیاست پہلے ہی عروج پر ہے اور اندرون سندھ کے علاقوں میں قوم پرستوں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ ان میں اس بات کی تخصیص نہیں ہوگی کہ مدمقابل پیپلز پارٹی کا ہے یا کسی دوسری جماعت کا۔ اندرون سندھ سیاسی مہم کا تمام محور صرف قوم پرستوں کی سیاست ہوگی جس میں تشدد کے عنصر کا قابل ذکر کردار بھی ہوگا، جب کہ سندھ کے شہری علاقوں میں لسانی رنگ کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر ہی تحفظ کے نام سے الیکشن لڑے جائیں گے۔
اگر ایک طرف ایک جماعت شدت پسندوں کی موجودگی پر اپنے تحفظات کا اظہار کرکے اپنی پالیسیوں کو شہری علاقوں میں تبدیل کرے گی تو دوسری جانب اس دباؤ کو کم کرنے کے لیے شہری علاقوں کے لیے دیگر سیاسی مذہبی جماعتوں کی جانب سے لسانی سیاست کی بنیاد پر تقسیم سندھ کے نعروں میں الیکشن مہم کا منظرنامہ بہت نمایاں ہے۔ عوام کی توجہ بے روزگاری، لوڈشیڈنگ، معیشت کی کمزوری سے بڑھ کر کہیں زیادہ اسلامائزیشن اور امریکنائزیشن کی گروپ بندی بنا کر ایک جانب اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی تو دوسری جانب جذبات سے مغلوب عوام کو حکمران جماعتوں کی نالائقیوں میں سب سے بڑا ہتھیار، امریکا کے خلاف مسلمانوں کے احساسات سے کھیلا جائے گا۔ ریمنڈ ڈیوس کیس، گستاخانہ فلم، رمشا مسیح کیس، سلمان تاثیر کیس سمیت دیگر ایسے ایشوز ہیں جس میں حکومت کو بین الاقوامی برادری کے دباؤ کا سامنا رہا اور ایسے کچھ ناخوشگوار فیصلے کرنے پڑے جس کا فائدہ مخالف جماعتیں بھرپور انداز سے اٹھانا چاہتی ہیں۔
پنجاب و سندھ میں گو صورتحال بظاہر ایسی ہے کہ انتخابات کو ملتوی کرانے کی کوشش کی جاسکتی ہے، لیکن بظاہر ایسے آثار نہیں، کیونکہ اس صورت میں اپوزیشن جماعتوں کے صبر کا پیمانہ ٹوٹ سکتا ہے اور مملکت میں انارکی اور انتشار کی بھیانک تصویر کشی کرنا مشکل نہیں ہے۔ جب عدلیہ نے اپنے ہی ججوں کے خلاف احتساب شروع کیا اور پی سی او جج صاحبان کے خلاف کارروائیاں کیں تو اس کے بعد عدلیہ میں خود اعتمادی کا عنصر بہت شدت کے ساتھ نمایاں نظر آیا۔ سیاست دانوں میں خاص طور حکومتی اراکان کے خلاف جس طرح عدلیہ نے اپنا کردار ادا کیا اسے بھی عوام کی جانب سے پذیرائی ملی، لیکن عدلیہ پر بھی الزامات لگائے گئے اور میڈیا کو استعمال کرنے والے خود میڈیا کی سازش کا شکار ہوگئے اور میڈیا نے تیسرے جیم کا ازخود احتساب کرکے عدلیہ میں ایک نئی روح پھونک دی۔
اب مقتدر اداروں کو اپنے صبر اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی بھی طور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ عدلیہ آج آزاد ہے۔ سربراہ فوج پاکستان آج جس تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں کل دوسرا بھی ایسا کرے گا اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے، لیکن اگر یہ دونوں ادارے ملک میں ایک بار شفاف انتخابات کی بنیاد رکھ دیں تو پاکستان کی ترقی میں حائل تمام رکاوٹوں کا خاتمہ بتدریج ہوجائے گا۔ آج کا الیکشن اگر فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر ہوا تو اس کے نتائج مملکت کے لیے شدید نقصان دہ ہوں گے، جو کسی طور کسی کے لیے فائدہ مند نہیں ہوگا۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے لیے تو یہی ایک نعرہ کافی مشہور ہورہا ہے کہ سائیں پانی چاہیے۔
شدت پسندی کے خلاف جنگ میں عوام کا وہ تعاون حاصل نہیں ہے جس کی توقع کی جاتی رہی ہے۔ مملکت کے انتظامی اداروں کے درمیان تصادم کی افواہوں نے عوام میں لاتعلقی کا احساس پیدا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بڑھتی دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کے پاس ڈبل سواری کی پابندی کے بعد موبائل فون کی بندش کا ہی آپشن رہ گیا ہے، بلکہ اب تو خواتین کو ہیلمٹ پہنانے کے بھی احکامات جاری ہوگئے تھے جو آئی جی کو واپس لینے پڑے۔ جاری دہشت گردی کی تمام جڑیں فرقہ واریت سے جڑی ہوئی ہیں۔
اسلامی یا سیاسی جماعتیں بھی یہ سمجھنے لگی ہیں کہ عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے عوام کے مذہبی رجحانات کو ہوا دے کر اپنی سیاست چمکائی جاسکتی ہے۔ کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کے پاس ایسا کوئی ایجنڈا نہیں ہے کہ جس کے سہارے عوام سے ووٹ مانگ کر اقتدار کا تاج اپنے سر پر سجایا جاسکے۔ پاکستان کی تمام جماعتوں نے اپنا انتخابی ایجنڈا مذہب کی بنیاد پر الیکشن لڑنا ہی رکھا ہوا ہے۔ ڈرون حملے، شدت پسندی، طالبان، فرقہ واریت، امریکانائزیشن وہ انتخابی نعرے ہیں جو تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہیں، جب کہ دوسرے نمبر پر لسانی بنیادوں پر ووٹ حاصل کرنے کے لیے جذبات کو ہوا دے کر اپنے لیے کامیابی سمیٹنا ہے۔
پنجاب کی سیاست کو دیکھ لیا جائے تو خیبرپختونخوا کی جانب سے براہ راست الزام لگایا جاتا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے پنجابی سربراہوں کی بنا پر دہشت گردی کی کارروائیوں پر قابو پانے میں ناکامی ہے۔ خیبرپختونخوا کی تمام الیکشن مہم کی سیاست تو شدت پسندی کے محور سے باہر نکل ہی نہیں سکی۔ خیبر پختونخوا کی ہر سیاسی جماعت دہشت گردی کے خلاف اپنے کارکنان کی قربانیوں کی داستان سنا کر ہمدردی کے ووٹ سمیٹنے کی کوشش میں مصروف نظر آئیں اور جو بچ گئے ہیں وہ ان پر تنقید کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں تاکہ انھیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناکام ثابت کرکے خود کو اہل ثابت کرنے کی سعی کریں۔
پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں جہاں کالعدم تنظیموں اور جہادی عناصر کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے تو جنوبی پنجاب، سرائیکی صوبے، بہاول پور صوبہ کی سیاست کا محور پنجاب کے الیکشن میں نمایاں کردار ادا کریں گے ۔ پنجاب مذہبی سیاست سے غیر تعلق نہیں رہ سکتا ۔ اس کے ساتھ جس طرح گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ہلاک کیا گیا اور اس کے قاتل کی رہائی کے لیے مظاہرے کیے گئے اس سے ان توقعات کو درست سمجھا جا رہا ہے کہ پنجاب میں فرقہ وارانہ سیاست بڑھ رہی ہے۔ آئندہ سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی الیکشن صرف صوبوں یا لسانی بنیادوں کے بجائے مذہبی بنیادوں پر بھی لڑے جائیں گے اور لڑے گئے ہیں۔
سندھ میں قوم پرستی کی سیاست پہلے ہی عروج پر ہے اور اندرون سندھ کے علاقوں میں قوم پرستوں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ ان میں اس بات کی تخصیص نہیں ہوگی کہ مدمقابل پیپلز پارٹی کا ہے یا کسی دوسری جماعت کا۔ اندرون سندھ سیاسی مہم کا تمام محور صرف قوم پرستوں کی سیاست ہوگی جس میں تشدد کے عنصر کا قابل ذکر کردار بھی ہوگا، جب کہ سندھ کے شہری علاقوں میں لسانی رنگ کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر ہی تحفظ کے نام سے الیکشن لڑے جائیں گے۔
اگر ایک طرف ایک جماعت شدت پسندوں کی موجودگی پر اپنے تحفظات کا اظہار کرکے اپنی پالیسیوں کو شہری علاقوں میں تبدیل کرے گی تو دوسری جانب اس دباؤ کو کم کرنے کے لیے شہری علاقوں کے لیے دیگر سیاسی مذہبی جماعتوں کی جانب سے لسانی سیاست کی بنیاد پر تقسیم سندھ کے نعروں میں الیکشن مہم کا منظرنامہ بہت نمایاں ہے۔ عوام کی توجہ بے روزگاری، لوڈشیڈنگ، معیشت کی کمزوری سے بڑھ کر کہیں زیادہ اسلامائزیشن اور امریکنائزیشن کی گروپ بندی بنا کر ایک جانب اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی تو دوسری جانب جذبات سے مغلوب عوام کو حکمران جماعتوں کی نالائقیوں میں سب سے بڑا ہتھیار، امریکا کے خلاف مسلمانوں کے احساسات سے کھیلا جائے گا۔ ریمنڈ ڈیوس کیس، گستاخانہ فلم، رمشا مسیح کیس، سلمان تاثیر کیس سمیت دیگر ایسے ایشوز ہیں جس میں حکومت کو بین الاقوامی برادری کے دباؤ کا سامنا رہا اور ایسے کچھ ناخوشگوار فیصلے کرنے پڑے جس کا فائدہ مخالف جماعتیں بھرپور انداز سے اٹھانا چاہتی ہیں۔
پنجاب و سندھ میں گو صورتحال بظاہر ایسی ہے کہ انتخابات کو ملتوی کرانے کی کوشش کی جاسکتی ہے، لیکن بظاہر ایسے آثار نہیں، کیونکہ اس صورت میں اپوزیشن جماعتوں کے صبر کا پیمانہ ٹوٹ سکتا ہے اور مملکت میں انارکی اور انتشار کی بھیانک تصویر کشی کرنا مشکل نہیں ہے۔ جب عدلیہ نے اپنے ہی ججوں کے خلاف احتساب شروع کیا اور پی سی او جج صاحبان کے خلاف کارروائیاں کیں تو اس کے بعد عدلیہ میں خود اعتمادی کا عنصر بہت شدت کے ساتھ نمایاں نظر آیا۔ سیاست دانوں میں خاص طور حکومتی اراکان کے خلاف جس طرح عدلیہ نے اپنا کردار ادا کیا اسے بھی عوام کی جانب سے پذیرائی ملی، لیکن عدلیہ پر بھی الزامات لگائے گئے اور میڈیا کو استعمال کرنے والے خود میڈیا کی سازش کا شکار ہوگئے اور میڈیا نے تیسرے جیم کا ازخود احتساب کرکے عدلیہ میں ایک نئی روح پھونک دی۔
اب مقتدر اداروں کو اپنے صبر اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی بھی طور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ عدلیہ آج آزاد ہے۔ سربراہ فوج پاکستان آج جس تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں کل دوسرا بھی ایسا کرے گا اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے، لیکن اگر یہ دونوں ادارے ملک میں ایک بار شفاف انتخابات کی بنیاد رکھ دیں تو پاکستان کی ترقی میں حائل تمام رکاوٹوں کا خاتمہ بتدریج ہوجائے گا۔ آج کا الیکشن اگر فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر ہوا تو اس کے نتائج مملکت کے لیے شدید نقصان دہ ہوں گے، جو کسی طور کسی کے لیے فائدہ مند نہیں ہوگا۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے لیے تو یہی ایک نعرہ کافی مشہور ہورہا ہے کہ سائیں پانی چاہیے۔