کراچی مسائل کے گرداب میں
ڈی جی رینجرز نے جن سنگین انتظامی بے ضابطگیوں، جرائم میں سیاسی و انتظامی شخصیات کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی ہے
BHUBANESHWAR:
گزشتہ دنوں اپیکس (Apex) کمیٹی کے اجلاس میں کراچی سمیت سندھ میں ہونے والے بعض سنگین جرائم، انتظامی بے ضابطگیوں اور سیاسی جماعتوں کی جرائم کی سرپرستی کے بارے میں ڈی جی رینجرز نے کئی اہم انکشافات کیے۔ یہ انکشافات نہ صرف صد فی صد درست ہیں، بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہیں، جتنے انھوں نے بیان کیے ہیں۔ لیکن جن سنگین بے ضابطگیوں اور جرائم کی انھوں نے اب نشاندہی کی ہے، شہر کا بچہ بچہ کئی دہائیوں سے ان کے بارے میں آگہی رکھتا ہے۔ بلکہ مختلف سیاسی و سماجی فورمز پر بھی ان معاملات پر گفتگو ہوتی رہی ہے اور آج بھی جاری ہے۔ اس کے علاوہ ہر آنے والی حکومت بھی ان معاملات و مسائل کا رونا روتی رہی ہے۔ مگر کسی حکومت کو صائب و راست اقدامات کرنے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی، جس کی وجہ سے یہ مسائل پیچیدہ ہوتے ہوئے بحرانی شکل اختیار کرتے چلے گئے۔
ڈی جی رینجرز نے جن سنگین انتظامی بے ضابطگیوں، جرائم میں سیاسی و انتظامی شخصیات کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی ہے، ان کے حوالے سے کئی سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ اول، کیا متعلقہ سیکیورٹی ایجنسی ان الزامات کو عدالت میں ثابت کرنے کے لیے مناسب دستاویزی ثبوت رکھتی ہے، جو اس کے سربراہ نے اپیکس کمیٹی میں پیش کیے ہیں؟ یا پھر یہ بھی جناح پور کے نقشہ کی طرح محض ہوائی بیان بازی ہے؟ دوئم، آیا اپیکس کمیٹی 21 ماہ سے جاری آپریشن کو جاری رکھنے اور اس کے ذریعہ مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کو ہی کافی سمجھتی ہے، یا ان انکشافات کی روشنی میں کوئی نئی اور وسیع البنیاد حکمت عملی مرتب کرنے اور گورننس میں خاطر خواہ تبدیلیاں لانے کی تجاویز پر غور کررہی ہے؟ جو کھل کر سامنے آنے والے معاملات کے اس نا ختم ہونے والے سلسلے کی کمر توڑنے کا سبب بن سکیں اور شہر میں مستقل بنیادوں پر دیرپا اور پائیدار امن قائم ہو سکے۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے آیندہ اقدامات اور حکمت عملیوں سے یہ طے ہو گا کہ شہر میں امن و امان کی حالیہ کوششیں کس حد تک صائب اور دیرپا ہیں۔
یہ سمجھنا ہو گا کہ اپنی تحقیق و تفتیش کے نتیجے میں رینجرز کراچی کے بارے میں جن معاملات و مسائل تک پہنچی ہے، ان کی جڑیں اس ملک کی تاریخ میں گہری پیوست ہیں۔ اس لیے اپیکس کمیٹی اگر کراچی کو درپیش مسائل کا سنجیدگی کے ساتھ دیرپا اور پائیدار حل تلاش کرنے کی خواہشمند ہے، تو اسے اس شہر میں کم و بیش پانچ دہائیوں سے جاری زیادتیوں اور ناانصافیوں کا جائزہ لینا ہو گا۔ ساتھ ہی حقیقت پسندانہ (Rational) اور جرأت مندانہ (Blunt) بنیادوں پر سیاسی و انتظامی تبدیلیوں کا لائحہ عمل بھی مرتب کرنا ہو گا۔ وگرنہ اب تک کی جانے والی تمام مشق لایعنی ہو کر رہ جائے گی۔ اس میں شک نہیں کہ شہر میں 21 ماہ سے جاری آپریشن کے نتیجے میں جرائم کی شرح میں خاصی حد تک کمی آئی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا ہے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کے آپریشن بہرحال ایک وقتی عمل ہوتے ہیں، جن کے نتائج بھی وقتی ہوتے ہیں۔ جرائم پر قابو پانے کے لیے گو یہ آپریشن ضروری ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ساتھ ہی کلیدی نوعیت کے سیاسی اور انتظامی اقدامات بھی ناگزیر ہوتے ہیں۔ اگر انتظامی اور سیاسی اقدامات یکساں رفتار کے ساتھ نہیں چلتے، تو مطلوبہ نتائج تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کراچی کے معاملے میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اس لیے بھی ساتھ ساتھ تیار کیا جائے۔
کراچی کے معاملات و مسائل اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے، جب تک کہ بعض غلط تصورات سے چھٹکارا نہیں پایا جاتا۔ اول، یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ کراچی سندھ کا حصہ اور اس کا دارالحکومت ہے۔ یہ کسی طور منی پاکستان نہیں ہے۔ اس غلط تصور کو ذہنوں سے نکالنا ہو گا۔ اس میں شک نہیں کہ اس شہر میں روزگار کے بے انتہا ذرایع ہونے کی وجہ سے ملک کے مختلف حصوں کے علاوہ دیگر ممالک جن میں بنگلہ دیش اور برما شامل ہیں، محنت کش روزگار کی تلاش میں آتے رہتے ہیں۔ جن کی وجہ سے سیاسی، سماجی، ثقافتی اور انتظامی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ 1980ء کے عشرے میں جنرل ضیاء الحق نے افغان باشندوں کو اس شہر میں آباد کیا جو لاکھوں کی تعداد میں اس شہر میں موجود ہیں۔ شہر میں ہونے والے جرائم کا جائزہ لیا جائے تو جرائم پیشہ افراد کو بے شک سیاسی شخصیات اور انتظامی اداروں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے، لیکن جرائم میں ملوث افراد کی اکثریت کا تعلق باہر سے آئے غیر مستقل باشندوں سے ہوتا ہے۔
دوئم، یہ سوا دو کروڑ آبادی کا ایک گنجان آباد شہر ہے، جس کا انتظام و انصرام جدید میگا یا میٹروپولیٹن شہر کی طرح چلانے کے بجائے قبائلی اور جاگیردارانہ طرز کے فرسودہ انتظامی ڈھانچہ کے ذریعے چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے مختلف نوعیت کے حساس اور سنگین جرائم پر قابو پانا مشکل ہی نہیں دشوار ہو چکا ہے۔ سوئم، ہر وفاقی اور صوبائی حکومت اس شہر کے وسائل کی لوٹ تو کرتی ہے، مگر وہ شہری سہولیات مہیا کرنے سے گریز کرتی رہی ہے، جو ایک اربن معاشرت کی ضرورت ہوتی ہے۔
عرض ہے کہ کراچی کے مسائل محض ایک شہر کو درپیش سادہ سے انتظامی مسائل نہیں ہیں، بلکہ یہ گورننس کا معاملہ ہے، جس نے غلط حکمت عملیوں اور غلط طرز عمل کے باعث پیچیدہ شکل اختیار کر لی ہے۔ پہلے بھی لکھا ہے، پھر لکھ رہا ہوں اور اس وقت تک لکھتا رہوں گا، جب تک حکمران، منصوبہ ساز اور اسٹیبلشمنٹ اس شہر کے حقیقی مسائل کا ادارک کرتے ہوئے، صحیح اور صائب فیصلے نہیں کرتے۔ یہ بات اب سمجھنا ہو گی کہ اس شہر کے ساتھ ایوب خان نے جن ناانصافیوں اور امتیازی سلوک کی بنیاد رکھی تھی، ان کے بعد آنے والی ہر حکومت نے نہ صرف انھیں جاری رکھا، بلکہ مقدور بھر اضافہ بھی کیا۔ کسی حکومت نے شہر کے معاملات و مسائل کو سمجھنے اور انھیں ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اس سے بڑھ کر ستم ظریفی اور کیا ہو گی کہ شہر کا پہلا اور آخری اکنامک سروے 1951ء میں ہوا۔ اس کے بعد اس عمل کو دہرانے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ 68 برس میں صرف پرویز مشرف کے دور میں اس شہر کو اربن آب و تاب کے ساتھ آگے بڑھنے کا کسی حد تک موقع ملا تھا، جو ان کے جاتے ہی ختم ہو گیا۔
اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ شہر جو کبھی غریب پرور ہوا کرتا تھا، جہاں لسانی، نسلی اور فرقہ وارانہ عصبیتوں کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا، جہاں دن مصروف اور راتیں جاگتی تھیں، اچانک ایک آسیب زدہ شہر میں کیسے تبدیل ہو گیا؟ جہاں کبھی اربن مڈل کلاس کلچر ایک نئی جہت اختیار کر رہا تھا، قبائلیت کی بدترین شکل کیوں اختیار کر گیا؟ وہ شہر جس کے صنعتی یونٹوں کی چمنیوں سے 24 گھٹے دھواں نکلتا تھا اور صنعتی علاقوں میں شفٹ کی تبدیلی کے اوقات میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا، کیوں وحشت زدگی کا شکار ہو گیا؟ کیا کسی منتخب پارلیمان نے یا کسی فوجی حکومت نے اس پہلو پر غور کرنے کی زحمت گوارا کی کہ دیگر صوبوں سے جو افراد جوق در جوق کراچی کی طرف جا رہے ہیں، اس کا بوجھ شہر کے علاوہ پورے صوبہ سندھ کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ آج کی دنیا میں یہ بعید از امکان نہیں کہ جتنے افراد دیگر صوبوں سے سندھ کے شہروں میں آباد ہوئے ہیں، ان صوبوں کے حصے کے وسائل وہ سندھ کو دیں۔
دنیا بھر میں ان شہروں جن کی آبادی ایک ملین (دس لاکھ) یا اس سے تجاوز کر جاتی ہے، ایک مکمل خود مختار انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا جاتا ہے۔ جب کہ کراچی سمیت ملک کے بڑے شہروں کو کسی چھوٹے شہر یا قصبہ کے انداز میں چلانے پر اصرار کیا جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی سمیت ان تمام شہروں میں جن کی آبادی ایک ملین یا اس سے زیادہ ہے، ایسی بااختیار میٹروپولیٹن حکومتیں قائم کی جائیں، جو سیاسی، انتظامی اور مالیاتی طور پر بااختیار ہوں۔ کم از کم ہر میٹروپولیٹن شہر میں مقامی پولیس بھرتی کی جائے، جو اس شہر کے مزاج کے علاوہ جدید تقاضوں کے مطابق امن و امان قائم کرنے کی صلاحیت اور استعداد رکھتی ہو۔ اس کے علاوہ میونسپل سروسز کمیشن تشکیل دیا جائے، جو سول سروسز کی طرز پر میونسپل معاملات کے ماہر اہلکار اور افسران تیار کر سکے۔ ساتھ ہی نیشنل فنانس کمیشن کی طرز پر صوبائی فنانس کمیشن تشکیل دیا جائے، جو ضلع اور اس سے نچلی سطح پر وسائل کو منصفانہ انداز میں باہمی اعتماد کے ساتھ تقسیم کر سکے۔
ہمیں اپیکس کمیٹی کی نیت پر رتی برابر بھی شک نہیں ہے، بلکہ توقع ہے کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ اس شہر میں امن کی بحالی کی کوششوں میں مصروف ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ جب ہتھیلی میں پھانس لگی ہو تو مرہم پٹی اس وقت تک بے کار ہوتی ہے، جب تک کہ پھانس نکل نہ جائے۔ اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کراچی مین امن و امان کا مسئلہ گورننس میں بہتری کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ گورننس میں بہتری کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ اقتدار و اختیار کو حقیقی معنوں میں نچلی سطح تک منتقل کر دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ کراچی شہر کے لیے ایک مکمل بااختیار میٹروپولیٹن حکومت قائم کی جائے، جو شہر کے معاملات کو اربن سیاسی شعور کے ساتھ چلائے۔ یہی وہ راستہ ہے، جو کراچی میں مستقل بنیادوں پر پائیدار امن و استحکام کی ضمانت بن سکتا ہے۔ وگرنہ کراچی یونہی مسائل کی گرداب میں پھنسا رہے گا اور ہر چند برس بعد کسی نئے آپریشن کی ضرورت محسوس کی جاتی رہے گی۔