ضربِ عضب آپریشن کا ایک سال نتائج کیا نکلے
مالی لحاظ سے یقینا ضربِ عضب آپریشن پاکستان کی کمزور معیشت پر بوجھ بنا ہے
گزشتہ سال ماہِ جون کی آج ہی کی تاریخ کو اللہ کے آخری رسولؐ کی ایک مقدس تلوار (عضب) کے نام پر شمالی وزیرستان میں ملک دشمن عناصر، غیر ملکی جنگجوؤں اور دہشت گردوں کے خلاف ملٹری آپریشن کا آغاز ہوا تھا۔ اسے ''ضرب عضب آپریشن'' کے عنوان سے موسوم کیا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف اور افواجِ پاکستان کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے متفقہ فیصلے کی بنیاد پر ملکی سلامتی اور پاکستانی عوام کے جان و مال کے تحفظ کی خاطر اس آپریشن کو بروئے کار آنا پڑا۔ آج ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ پاکستان کے بیس کروڑ عوام کی دعائیں، ان کی بھرپور پُشت پناہی اور اعانت بھی ''ضربِ عضب'' آپریشن کو حاصل رہی ہے۔
ہماری بعض مذہبی اور نام نہاد جہادی جماعتیں ڈراتی اور خوف پیدا کرتی رہی ہیں کہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں، جنھیں دشمنانِ پاکستان کی طرف سے مالی و اسلحی امداد حاصل تھی، کے خلاف اقدام کیا تو پاکستان کو سخت ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جنرل (ر) کیانی صاحب کو بھی اسی طرح ڈرانے کی کوششیں کی جاتی رہیں لیکن اس بار جنرل راحیل شریف کسی غچے میں آئے نہ کسی وہم و تردد کا شکار ہوئے۔ وہ نعرئہ تکبیر لگاتے اور اللہ پر کامل بھروسہ کرتے ہوئے ملک دشمن عناصرکے خلاف میدانِ جنگ میں اتر آئے۔ چند ہی روز میں حریف ''طاقتوں'' کی کرتوت اور اصلیت کھل کر سامنے آ گئی جب انھیں دم دبا کر بھاگتے ہوئے اور گولیوں کا ہدف بنتے دیکھا گیا۔ لاریب، ضرب عضب آپریشن کے مثبت اور کامیاب نتائج ہی کا یہ ایک نتیجہ نکلا ہے کہ زمبابوے کی کرکٹ ٹیم بھی پاکستان آئی اور بغیر کسی خوف کے پاکستان کے کرکٹروں کے ساتھ میدانِ کھیل میں اتری۔
مالی لحاظ سے یقینا ضربِ عضب آپریشن پاکستان کی کمزور معیشت پر بوجھ بنا ہے مگر قوم، وطنِ عزیز اور ہمارے ایٹمی اثاثوں کی عزت و حرمت کے تحفظ کے سامنے اس بوجھ کی کوئی اہمیت نہیں۔ دو جون 2015ء کو، سانحۂ مستونگ کے حوالے سے، وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کوئٹہ میں اے پی سی کا انعقاد کیا۔ اس میں وزیراعظم بھی شریک ہوئے۔ جناب نواز شریف نے آل پارٹیز کانفرنس میں جہاں اور بھی باتیں کہیں، وہیں ضربِ عضب آپریشن کا ذکر بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ''گزشتہ چند برسوں میں دہشت گردوں کے خاتمے اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کو جو مسلسل جنگ لڑنا پڑی ہے، اس میں ہمیں ایک سو دس ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا''۔ یہ معمولی خرچ نہیں۔ اس دوران دہشت گردوں کے ہاتھوں پاکستان نے اپنے ساٹھ ہزار شہریوں اور سات ہزار باوردی جوانوں کی میتیں بھی اٹھائیں۔
ایسے میں کیا ہماری سیکیورٹی فورسز مزید خاموش رہتیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی تماشہ دیکھتی رہتیں؟ ملکی سلامتی کا یہی تقاضا تھا کہ اب دہشت گردوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کر ہی لیے جائیں اور ان کے سرپرستوں کو بھی آئینہ دکھا دیا جائے؛ چنانچہ جون 2014ء کے وسط میں جنرل راحیل شریف کی قیادت میں ضرب عضب آپریشن کا آغاز ہوا تو بلاشبہ ہر پاکستانی نے اطمینان اور سُکھ کا سانس لیا۔ تب سے اب تک ہماری سیکیورٹی فورسز، جن میں ہماری ائیرفورس نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے، دہشت گردوں کے خلاف مسلسل کامیابیوں کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھتی رہی ہیں؛ چنانچہ وزیراعظم پاکستان نے 2 جون 2015ء کو بلوچستان کے دارالحکومت میں خطاب کرتے ہوئے بجا کہا: ''ضربِ عضب آپریشن نے مسلسل کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ دہشت گردوں کی گرفت سے آزاد کرائے گئے شمالی وزیرستان کے اکثریتی علاقوں اور وہاں کامل امن ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ بہت سے قبائلی خاندان، جو آپریشن کے دوران وہاں سے وقتی طور پر ہجرت کر گئے تھے، اب دوبارہ اپنے گھروں میں آباد ہو کر شادباد زندگیاں گزار رہے ہیں۔''
اس کا کریڈٹ یقیناً براہ راست پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کو جاتا ہے جنہوں نے وطن کی خاطر اپنی جانیں تک قربان کر دی ہیں اور اپنا آج، ہمارے محفوظ کل کے لیے بے دریغ لُٹا دیا ہے۔ یہ شہدا اور غازی ہمارے سیلوٹ اور ہماری دعاؤں کے سچے مستحق ہیں۔
شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کی کمر توڑنے اور ان کے مالی مفادات کے سلاسل منقطع کرنے کے لیے ہمارے باوردی جوانوں نے بہت جانفشانی سے کام کیا ہے۔ مقامی اور عالمی دہشت گردوں کے خلاف انھوں نے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ عالمی منفی پروپیگنڈے کے اثراتِ بد کو زائل کرنے کے لیے آئی ایس پی آر نے بھی غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ مثلاً، لندن میں میجر جنرل عاصم باجوہ کی متاثر کن پریس کانفرنس۔ ان حیرت انگیز عسکری کامیابیوں کی بازگشت اسلام آباد میں متعین غیر ملکی سفارتکاروں تک سنائی دی گئی تو اقوامِ متحدہ کے نمایندگان سمیت کئی ممالک کے سفیروں نے شمالی وزیرستان کے ان علاقوں کا دورہ کرنا چاہا جہاں کبھی دہشت گردوں نے قیامت برپا کیے رکھی تھی؛ چنانچہ وفاقی وزیر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ، وزیراعظم کے مشیرِ امورِ خارجہ سرتاج عزیز اور کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمن کی زیرِ قیادت افغانستان، آسٹریلیا، ارجنٹائن، امریکا اور جرمنی کے سفیروں اور اقوامِ متحدہ کے مندوبین نے شمالی وزیرستان کا دورہ کیا اور حیران رہ گئے۔ انھوں نے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے جانبازوں اور شہیدوں کو دل کھول خراجِ تحسین پیش کیا۔
غیر ملکی سفیروں کا یہ دورہ دراصل شمالی وزیرستان میں افواجِ پاکستان کی کامیابیوں کو عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے کے مترادف ہے۔ ''ضرب عضب'' آپریشن کے دوران سپہ سالارِ پاکستان جنرل راحیل شریف نے شمالی وزیرستان میں فارورڈ پوزیشنوں کے دورے کرنا معمول بنائے رکھا۔ ان کے یہ وزٹ جوانوں کی حوصلہ افزائی کا موجب بنتے ہیں۔ ضربِ عضب آپریشن کے حوالے سے سپہ سالارِ پاکستان کی آواز غیر ممالک میں بھی سنائی دی گئی ہے۔ جنرل راحیل شریف 7 جون 2015ء کو سری لنکا کے سرکاری دورے پر گئے تو انھوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا: ''ضربِ عضب کا مقصد پاکستان اور خطے میں امن و استحکام لانا ہے۔ ہم نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کا تمام انفراسٹرکچر تباہ کر دیا ہے۔'' سری لنکن صدر نے بھی ضربِ عضب آپریشن کو سراہا ہے۔ ائیرفورس کے سربراہ بھی شمالی وزیرستان کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے میں پیچھے نہیں رہے۔ پاکستان ائیرفورس کے جیٹ طیاروں نے تاک تاک کر خونی دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ہدف بنایا ہے۔
ضربِ عضب آپریشن کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جون 2015ء کے دوسرے ہفتے جب پاکستان کے سیکریٹری خارجہ جناب اعزاز احمد چوہدری واشنگٹن اور نیویارک میں اعلیٰ امریکی حکام سے مذاکرات کر رہے تھے تو وہاں بھی اس کا ذکر بلند آواز میں سنا گیا۔ اعزاز چوہدری نے امریکیوں پر واضح کیا کہ پاکستان کا ضربِ عضب آپریشن اہم ترین مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔ حال ہی میں وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے 43 کھرب 13 ارب روپے کا جو قومی بجٹ پیش کیا ہے، اس میں بھی ضربِ عضب آپریشن کے اخراجات کی بازگشت سنائی دی گئی۔ تازہ بجٹ میں ضربِ عضب آپریشن اور شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کی بحالی کے لیے ایک سو ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں جاری قومی سلامتی کے لیے ناگزیر یہ آپریشن جتنا وسیع اور حساس نوعیت کا ہے، اسے پیشِ نظر رکھا جائے تو یہ ایک سو ارب روپے کچھ بھی نہیں لیکن پاکستانی معیشت کے لحاظ سے یہ رقم معمولی نہیں ہے۔
ذرایع کا کہنا ہے کہ ضربِ عضب کے ایک سالہ آپریشن کے دوران شمالی وزیرستان کا 90 فیصد حصہ دہشت گردوں، شدت پسندوں اور امن کے دشمنوں سے پاک کر دیا گیا ہے۔ امریکی ڈرون بھی مگر شمالی وزیرستان پر حملے کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر 6 جون 2015ء کو امریکی ڈرون طیارے نے شمالی وزیرستان کے علاقے شوال میں ایک مکان پر حملہ کر کے نو دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ ماہ جون میں یہ دوسرا اور 2015ء کے دوران امریکی ڈرونز کا یہ نواں حملہ تھا۔ ان حملوں کا آخر مطلب کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ضربِ عضب آپریشن کی شاندار کامیابیوں سے بھارت کو سخت ذہنی اذیت پہنچی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم کبھی بنگلہ دیش جا کر پاکستان مخالف بیان دے رہے ہیں اور کبھی بھارتی وزیرِ دفاع ذہنی خلجان میں مبتلا ہو کر پاکستان دشمنی میں دریدہ دہنی کرتے سنائی دے رہے ہیں۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے زبردست کامرانہ اقدامات سے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو خاصی مرچیں لگی ہوئی ہیں۔
ہماری بعض مذہبی اور نام نہاد جہادی جماعتیں ڈراتی اور خوف پیدا کرتی رہی ہیں کہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں، جنھیں دشمنانِ پاکستان کی طرف سے مالی و اسلحی امداد حاصل تھی، کے خلاف اقدام کیا تو پاکستان کو سخت ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جنرل (ر) کیانی صاحب کو بھی اسی طرح ڈرانے کی کوششیں کی جاتی رہیں لیکن اس بار جنرل راحیل شریف کسی غچے میں آئے نہ کسی وہم و تردد کا شکار ہوئے۔ وہ نعرئہ تکبیر لگاتے اور اللہ پر کامل بھروسہ کرتے ہوئے ملک دشمن عناصرکے خلاف میدانِ جنگ میں اتر آئے۔ چند ہی روز میں حریف ''طاقتوں'' کی کرتوت اور اصلیت کھل کر سامنے آ گئی جب انھیں دم دبا کر بھاگتے ہوئے اور گولیوں کا ہدف بنتے دیکھا گیا۔ لاریب، ضرب عضب آپریشن کے مثبت اور کامیاب نتائج ہی کا یہ ایک نتیجہ نکلا ہے کہ زمبابوے کی کرکٹ ٹیم بھی پاکستان آئی اور بغیر کسی خوف کے پاکستان کے کرکٹروں کے ساتھ میدانِ کھیل میں اتری۔
مالی لحاظ سے یقینا ضربِ عضب آپریشن پاکستان کی کمزور معیشت پر بوجھ بنا ہے مگر قوم، وطنِ عزیز اور ہمارے ایٹمی اثاثوں کی عزت و حرمت کے تحفظ کے سامنے اس بوجھ کی کوئی اہمیت نہیں۔ دو جون 2015ء کو، سانحۂ مستونگ کے حوالے سے، وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کوئٹہ میں اے پی سی کا انعقاد کیا۔ اس میں وزیراعظم بھی شریک ہوئے۔ جناب نواز شریف نے آل پارٹیز کانفرنس میں جہاں اور بھی باتیں کہیں، وہیں ضربِ عضب آپریشن کا ذکر بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ''گزشتہ چند برسوں میں دہشت گردوں کے خاتمے اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کو جو مسلسل جنگ لڑنا پڑی ہے، اس میں ہمیں ایک سو دس ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا''۔ یہ معمولی خرچ نہیں۔ اس دوران دہشت گردوں کے ہاتھوں پاکستان نے اپنے ساٹھ ہزار شہریوں اور سات ہزار باوردی جوانوں کی میتیں بھی اٹھائیں۔
ایسے میں کیا ہماری سیکیورٹی فورسز مزید خاموش رہتیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی تماشہ دیکھتی رہتیں؟ ملکی سلامتی کا یہی تقاضا تھا کہ اب دہشت گردوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کر ہی لیے جائیں اور ان کے سرپرستوں کو بھی آئینہ دکھا دیا جائے؛ چنانچہ جون 2014ء کے وسط میں جنرل راحیل شریف کی قیادت میں ضرب عضب آپریشن کا آغاز ہوا تو بلاشبہ ہر پاکستانی نے اطمینان اور سُکھ کا سانس لیا۔ تب سے اب تک ہماری سیکیورٹی فورسز، جن میں ہماری ائیرفورس نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے، دہشت گردوں کے خلاف مسلسل کامیابیوں کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھتی رہی ہیں؛ چنانچہ وزیراعظم پاکستان نے 2 جون 2015ء کو بلوچستان کے دارالحکومت میں خطاب کرتے ہوئے بجا کہا: ''ضربِ عضب آپریشن نے مسلسل کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ دہشت گردوں کی گرفت سے آزاد کرائے گئے شمالی وزیرستان کے اکثریتی علاقوں اور وہاں کامل امن ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ بہت سے قبائلی خاندان، جو آپریشن کے دوران وہاں سے وقتی طور پر ہجرت کر گئے تھے، اب دوبارہ اپنے گھروں میں آباد ہو کر شادباد زندگیاں گزار رہے ہیں۔''
اس کا کریڈٹ یقیناً براہ راست پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کو جاتا ہے جنہوں نے وطن کی خاطر اپنی جانیں تک قربان کر دی ہیں اور اپنا آج، ہمارے محفوظ کل کے لیے بے دریغ لُٹا دیا ہے۔ یہ شہدا اور غازی ہمارے سیلوٹ اور ہماری دعاؤں کے سچے مستحق ہیں۔
شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کی کمر توڑنے اور ان کے مالی مفادات کے سلاسل منقطع کرنے کے لیے ہمارے باوردی جوانوں نے بہت جانفشانی سے کام کیا ہے۔ مقامی اور عالمی دہشت گردوں کے خلاف انھوں نے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ عالمی منفی پروپیگنڈے کے اثراتِ بد کو زائل کرنے کے لیے آئی ایس پی آر نے بھی غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ مثلاً، لندن میں میجر جنرل عاصم باجوہ کی متاثر کن پریس کانفرنس۔ ان حیرت انگیز عسکری کامیابیوں کی بازگشت اسلام آباد میں متعین غیر ملکی سفارتکاروں تک سنائی دی گئی تو اقوامِ متحدہ کے نمایندگان سمیت کئی ممالک کے سفیروں نے شمالی وزیرستان کے ان علاقوں کا دورہ کرنا چاہا جہاں کبھی دہشت گردوں نے قیامت برپا کیے رکھی تھی؛ چنانچہ وفاقی وزیر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ، وزیراعظم کے مشیرِ امورِ خارجہ سرتاج عزیز اور کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمن کی زیرِ قیادت افغانستان، آسٹریلیا، ارجنٹائن، امریکا اور جرمنی کے سفیروں اور اقوامِ متحدہ کے مندوبین نے شمالی وزیرستان کا دورہ کیا اور حیران رہ گئے۔ انھوں نے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے جانبازوں اور شہیدوں کو دل کھول خراجِ تحسین پیش کیا۔
غیر ملکی سفیروں کا یہ دورہ دراصل شمالی وزیرستان میں افواجِ پاکستان کی کامیابیوں کو عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے کے مترادف ہے۔ ''ضرب عضب'' آپریشن کے دوران سپہ سالارِ پاکستان جنرل راحیل شریف نے شمالی وزیرستان میں فارورڈ پوزیشنوں کے دورے کرنا معمول بنائے رکھا۔ ان کے یہ وزٹ جوانوں کی حوصلہ افزائی کا موجب بنتے ہیں۔ ضربِ عضب آپریشن کے حوالے سے سپہ سالارِ پاکستان کی آواز غیر ممالک میں بھی سنائی دی گئی ہے۔ جنرل راحیل شریف 7 جون 2015ء کو سری لنکا کے سرکاری دورے پر گئے تو انھوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا: ''ضربِ عضب کا مقصد پاکستان اور خطے میں امن و استحکام لانا ہے۔ ہم نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کا تمام انفراسٹرکچر تباہ کر دیا ہے۔'' سری لنکن صدر نے بھی ضربِ عضب آپریشن کو سراہا ہے۔ ائیرفورس کے سربراہ بھی شمالی وزیرستان کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے میں پیچھے نہیں رہے۔ پاکستان ائیرفورس کے جیٹ طیاروں نے تاک تاک کر خونی دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ہدف بنایا ہے۔
ضربِ عضب آپریشن کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جون 2015ء کے دوسرے ہفتے جب پاکستان کے سیکریٹری خارجہ جناب اعزاز احمد چوہدری واشنگٹن اور نیویارک میں اعلیٰ امریکی حکام سے مذاکرات کر رہے تھے تو وہاں بھی اس کا ذکر بلند آواز میں سنا گیا۔ اعزاز چوہدری نے امریکیوں پر واضح کیا کہ پاکستان کا ضربِ عضب آپریشن اہم ترین مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔ حال ہی میں وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے 43 کھرب 13 ارب روپے کا جو قومی بجٹ پیش کیا ہے، اس میں بھی ضربِ عضب آپریشن کے اخراجات کی بازگشت سنائی دی گئی۔ تازہ بجٹ میں ضربِ عضب آپریشن اور شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کی بحالی کے لیے ایک سو ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں جاری قومی سلامتی کے لیے ناگزیر یہ آپریشن جتنا وسیع اور حساس نوعیت کا ہے، اسے پیشِ نظر رکھا جائے تو یہ ایک سو ارب روپے کچھ بھی نہیں لیکن پاکستانی معیشت کے لحاظ سے یہ رقم معمولی نہیں ہے۔
ذرایع کا کہنا ہے کہ ضربِ عضب کے ایک سالہ آپریشن کے دوران شمالی وزیرستان کا 90 فیصد حصہ دہشت گردوں، شدت پسندوں اور امن کے دشمنوں سے پاک کر دیا گیا ہے۔ امریکی ڈرون بھی مگر شمالی وزیرستان پر حملے کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر 6 جون 2015ء کو امریکی ڈرون طیارے نے شمالی وزیرستان کے علاقے شوال میں ایک مکان پر حملہ کر کے نو دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ ماہ جون میں یہ دوسرا اور 2015ء کے دوران امریکی ڈرونز کا یہ نواں حملہ تھا۔ ان حملوں کا آخر مطلب کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ضربِ عضب آپریشن کی شاندار کامیابیوں سے بھارت کو سخت ذہنی اذیت پہنچی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم کبھی بنگلہ دیش جا کر پاکستان مخالف بیان دے رہے ہیں اور کبھی بھارتی وزیرِ دفاع ذہنی خلجان میں مبتلا ہو کر پاکستان دشمنی میں دریدہ دہنی کرتے سنائی دے رہے ہیں۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے زبردست کامرانہ اقدامات سے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو خاصی مرچیں لگی ہوئی ہیں۔